خون کی فروخت

ڈیڑھ ارب ڈالر جب تک کوئی ڈکار نہیںلیتا، اس وقت تک ہمارے پیٹ میںمروڑ اٹھتے رہیں گے۔
پیٹ میںمروڑ اٹھنے کی وجوہات کئی ایک ہیں۔ایک صاحب نے نکتہ اٹھایا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ سے ڈالر لئے۔ یہ خون کا سودا تھا، دنیا بھر میں کسی دکان پرخون نہیں بکتا،لیکن ہم نے اس خون کے پیسے لئے جو ہم نے امریکی جنگ میں بہایا اور اپنے پیاروں، جگر کے ٹکڑوں کا بہایا مگر ہم نے ا ربوں کھربوں کی امریکی امداد پر کبھی اس طر ح شور نہیںمچایا جس طرح اپنے ایک اسلامی ملک سعودی عرب سے ملنے والے تحفے پر سیخ پا ہوئے بیٹھے ہیں۔
ڈالر ہم ورلڈ بنک سے بھی لیتے ہیں اور آئی ایم ایف سے بھی۔ ان دونوں اداروں سے ملنے والے ڈالروں کے ساتھ کئی کڑی شرائط ہوتی ہیں۔ جبکہ سعودی ڈالروںکے ساتھ کوئی ایک بھی شرط نہیں ، یہ مال مفت ہے اور دل بے رحم کے ساتھ ہم اسے ہضم کر سکتے ہیں، ورلڈ بنک اور خاص طور پر آئی ایم ایف کی امداد کی وجہ سے ہم اپنے آپ کوگروی رکھ دیتے ہیں۔ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان بد تمیزی سر اٹھا لیتا ہے، عمران خان کا سونامی تو پتہ نہیںکب آئے گا لیکن آئی ایم ایف کی غیر انسانی شرائط کی وجہ سے لوگ بلبلا اٹھتے ہیں ، سب سڈی بند ہو جاتی ہے، بجلی کے بل بڑھ جاتے ہیں،یہ ہے تحفہ عالمی اداروں کی امداد کا لیکن ہم نے ان پر کبھی اس قدر واویلا نہیںمچایا جس قدر سعودی امداد پر مچا رہے ہیں جس نے ڈالر کو منہ کے بل ڈھیر کر دیا، ابھی اور سعودی اور بحرینی امدادا ٓنی ہے اور پٹرول سستا ہونا ہے، گیس تو یکم اپریل سے کھل رہی ہے۔ اگر یہ اپریل فول نہیں تو ہماری زندگیاں بدل جائیں گی اور ہم گیس ڈلوانے کے لئے قیمتی گاڑیوں کو لائن میںلگے، دیکھنے کو ترس جائیں گے، ان قطاروں کو دیکھنے کے لئے غریبوں کی قطاریںلگ جاتی تھیں، سینیما کی بارہ آنے کی ٹکٹ کی لائن اتنی لمبی نہیںہوا کرتی تھی ۔ یقین مانئے ان قطاروں پر ہمارے چیف ٹریفک افسر کو بھی کوئی اعتراض نہیںہوتا تھا، نہ ضلعی انتظامیہ اتنے بڑے مجمعے کودفعہ ایک سو چوالیس کی زد میںلاتی تھی۔
تو سعودی عرب کے مفت کے ڈالروں پر ہم چیں بجبیںکیوں ہیں، بنیادی طور پرکوئی ماننے کو تیار ہی نہیںکہ یہ ڈالر مفت کے ہیں۔سعودی عرب کو یکا یک پاکستان سے کیا عشق ہو گیا کہ اس نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی تھیلی پاکستان کے ہاتھ میں تھما دی اور بحرین کے بادشاہ تو چالیس سال بعد آئے ۔ پتہ چلا ہے کہ ان کے ایک بزرگ آخری مرتبہ اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے ابھی پاکستان کو کچھ نہیںد یا لیکن چالیس سال بعد پھیرا لگانے کا کوئی مقصد توہوگا۔ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے اندر آبادی کا ایک حصہ حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے، سعودی عرب کی دوسری پریشانی شام کے حالات ہیں جہاں عوام اور حکومت کے درمیان جنگ ہو رہی ہے،سعودی عرب عوام کی پشت پر ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اگر شام میں حکومت نے بغاوت پر قابو پا لیا تو وہ آگے بڑھ کر سعودی عرب میں حالات خراب کرے گا، سعودی عرب کو تیسری پریشانی یہ بتائی جاتی ہے کہ بحرین میں آبادی کا اسی فی صد حصہ حکومت کے خلاف ہے، ان کی شورش پر قابو پانے کے لئے سعودی عرب ایک بار تو اپنے ٹینک بھیج چکاہے ۔ یہاں بھی اپوزیشن پر قابو نہ پایا جا سکا تو بحرین اور سعودی عرب دونوں کی حکومتوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔سعودی عرب کو بیٹھے بٹھائے ایک پریشانی امریکہ کی طرف سے لاحق ہو گئی ہے جو ایران کی مخالفت کرتے کرتے یکا یک اس کا حامی بن گیا ہے۔صدر اوبامہ سعودی دل جوئی کے لئے آئے تو ہیںمگر سنا ہے کہ کہانی بنی نہیں۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ شام میں شیعہ حکومت ہے جسے مبینہ طور پر ایران کی حمائت حاصل ہے،بحرین میں شیعہ اکثریت حکومت کے خلاف مورچہ لگائے ہوئے ہے اور اسے بھی ایران کی مبینہ حمایت حاصل ہے، سعودی عرب کو گمان ہے کہ اس کی شیعہ آبادی کے پیچھے بھی ایران ہے۔ ایران اپنے طور پر ایک مضبوط ملک ہے ، اوپر سے اسے امریکہ کی تھپکی بھی مل جاتی ہے تو سعودی عرب کا خیال ہے کہ وہ اپنے عرب ہمسایوں کے لئے خطرہ بن جائے گا۔
سعودی عرب اور بحرین کے لئے طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے جسے درست کرنے کے لئے دونوںملک بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان اور بھارت کے دورے پر آئے، پاکستان کو خاموشی سے ڈیڑھ ارب ڈالر بھی دے گئے، بحرین کے بادشاہ بھی کنج عافیت سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔
اب پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالے، عرب دوستوں کا ہاتھ بھی نہیںجھٹکا جا سکتا اور ایران کے ساتھ تو ہماری سرحدیں ملتی ہیں اور تاریخی رشتے ہیں، اس سے بگاڑ بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا، ایران نے پہلے ہی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ تو کیا پاکستان خاموش تماشائی بن جائے۔ بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ ہماری حکومت کسی پھڈے میں نہیں پڑنا چاہتی۔ اور دوست ممالک کی اندرونی آویزش میں فریق بننے کے لئے تیار نہیں۔پاکستان کا عام آدمی بھی حکومت کو یہی مشورہ دیتا دکھائی دیتا ہے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو۔ہمارے وزیر اعظم البتہ سعودی عرب کے احسانات تلے دبے ہوئے ہیں، ان کی کوشش ہو سکتی ہے کہ ظاہری طور پر نہ سہی، اندرون خانہ عرب بھائیوںکی مد دکر دی جائے مگر آج کے دور میں کوئی ڈیل خفیہ نہیں رہتی، یہ حکومت تو ڈیڑھ ارب ڈالر کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہوئی، ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی کہا کہ ڈھنڈورا نہیں پیٹنا۔ مگر اب کچھ بھی نہیں چھپ سکتا۔دوسری طرف ہماری فوج کا بھی ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ نوے کے بعد عراق کویت جھگڑے نے خطے میں امریکی حملے کے لئے حالات سازگار بنائے، اس وقت پورا پاکستان عراق کا حامی تھا مگرحکومت میںمیاں نوازشریف تھے جو اس جنگ میں باقاعدہ فریق بننے کے حق میں تھے اور ہماری فوج کے سربراہ ا سلم بیگ اس کے سخت مخالف ۔ پاکستان نے فوج ضرور بھیجی مگر بہت تھوڑی سی اور وہ بھی سعودی عرب کی ایسی سرحد پر جہاں کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا، میرا اندازہ ہے کہ ہماری فوج آج بھی عرب وعجم تنازعے میں دخل اندازی کے حق میںنہیں۔اس لئے کہ اس مداخلت کے سنگین خطرات برا ٓمد ہوں گے، ہم اپنے ہاں فرقہ ورانہ جنگ چھیڑ بیٹھیں گے، ابھی تو طالبان کا خطرہ ٹلا نہیں، اوپر سے مذہبی بنیادوں پر آگ لگ گئی تو اسے بجھانے والا کوئی نہیں ہو گا۔
یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر خون برائے فروخت کا ٹیگ اپنے گلے میں آویزاں کرنے کو تیار ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میںنے ادھر ادھر کی ہانک کر کالم کاپیٹ بھر لیا، کوئی حل نہیں بتایا، میرے نزدیک اس مخمصے کا ایک حل اس قرآنی حکم میں مضمر ہے کہ دو مسلمان بھائیوں میں جھگڑا ہو جائے تو ان میں صلح کرائو۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

 

Add new comment