ابو مخنفؒ کی شخصیت
ابو مخنف كا نام، لوط بن يحيٰ بن سعيد بن مخنف 5 بن سُليم ازدي 6 ھے ان كا اصلي وطن كوفہ ھے اور ان كا شمار دوسري صدي ھجري كے عظيم محدثين اور مورخين ميں ھوتا ھے۔ انہوں نے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد سے اموي حكومت كے آخري دور تك كے اھم حالات و واقعات پر كتابيں لكھيں، جيسے كتاب المغازى، كتاب السقيفہ، كتاب الردہ، كتاب فتوح الاسلام، كتاب فتوح العراق، كتاب فتوح خراسان، كتاب الشوريٰ، كتاب قتل عثمان، كتاب الجمل، كتاب صفين، كتاب مقتل أمير المؤمنين كتاب مقتل الحسن (عليہ السلام) كتاب مقتل الحسين (عليہ السلام) و ۔ ۔ ۔
جو مجموعي طور پر اٹھائيس كتابيں ھيں اور ان كي تفصيل علم رجال كي كتابوں ميں موجود ھے 7۔ ليكن ان ميں سے اكثر كتابيں ھماري دسترس ميں نھيں ھيں البتہ ان كتابوں كے كچھ مطالب ان كے بعد لكھي جانے والي كتابوں ميں روايت ابي مخنف كے عنوان سے موجود ھيں مثلاً تاريخ طبرى 8 ميں ابو مخنف سے مجموعي طور پر پانچ سو سے زيادہ روايتيں موضوعات پر نقل ھوئي ھيں اور ان نقل شدہ روايات ميں سے اكثر كا تعلق كہ جو تقريباً ايك سو چھبيس روايتيں ھيں حضرت علي عليہ السلام كے دوران حكومت كے حالات و واقعات سے ھے۔ ايك سو اٹھارہ روايتيں واقعۂ كربلا اور ايك سو چوبيس روايتيں حضرت مختار كے قيام كے بارے ميں ھيں۔
صدر اسلام ميں رونما ھونے والے واقعات كے بارے ميں ابو مخنف كي روايات اس قدر دقيق، مفصّل اور مكمل جزئيات كے ساتھ ھيں جو ھر قسم كے تعصب سے دور ھونے كے علاوہ ھر واقعہ كے پہلوؤں كي طرف قارئين كي رھنمائي كرتي ھيں يہاں تك كہ اس كے بعد لكھي جانے والي شيعہ اور سني تاريخي كتابوں نے ان كي روايات سے كافي استفادہ كيا ھے اور روايت كے ذكر كے ساتھ ساتھ اس پر مكمل اعتماد كا اظہار بھي كيا ھے۔
ابو مخنف كا دور
اگر چہ ان كي تاريخ ولادت معلوم نہيں ھے ليكن ان كي تاريخ وفات عام طور سے سن 157 ھجري قمري نقل كي گئي ھے ان كي تاريخ ولادت معلوم نہ ھونے كي وجہ سے بعض علماء رجال غلط فہمي كا شكار ھوئے ھيں۔ بعض نے انہيں امام علي عليہ السلام، امام حسن عليہ السلام، اور امام حسين عليہ السلام كا صحابي كہا ھے، جب كہ بعض علماء نے انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابي جانا ھے، جيسا كہ شيخ طوسي عليہ الرحمہ 9 نے “كشّى” سے نقل كيا ھے كہ ابو مخنف امام علي عليہ السلام امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ھيں۔ ليكن ان كا خود يہ نظريہ نہيں ھے بلكہ ان كا كہنا ھے كہ ابو مخنف كے والد “يحييٰ” امام علي عليہ السلام كے صحابي تھے جب كہ خود ابو مخنف (لوط) نے آپ كا زمانہ نہيں ديكھا ھے۔
شيخ نجاشي كا كہنا ھے كہ ابو مخنف امام صادق عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ھيں 10 اور يہ بھي كہا گيا ھے كہ انہوں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے بھي روايت نقل كي ھے۔ مگر يہ قول صحيح نہيں ھے شيخ نجاشي كے قول كے مطابق ابو مخنف صرف امام صادق عليہ السلام سے روايت نقل كرتے تھے اور آپ كے اصحاب ميں سے تھے اور انہوں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے كوئي روايت نقل نہيں كي چہ جائيكہ وہ امام علي عليہ السلام سے روايت نقل كرتے۔ تمام شواھد و قرائن شيخ نجاشي كے قول كي تصديق كرتے ھيں اس لئے كہ
1۔ تاريخ طبرى ميں ابو مخنف كي جو روايت امام جعفر صادق عليہ السلام سے نقل ھوئي ھے وہ بغير كسي واسطہ كے ھے جب كہ امام محمد باقر عليہ السلام سے ان كي روايت ايك واسطہ كے ساتھ نقل ھوئي ھے 11۔
2۔ حضرت امام علي عليہ السلام كے خطبات اور حضرت فاطمہ زھرا (س) كے خطبہ سے متعلق ابو مخنف كي روايت دو واسطوں كے ذريعہ نقل ھوئي ھے 12۔
3۔ اگر ابو مخنف كي تاريخ وفات كو ملحوظ نظر ركھا جائے جو 157ھجري ھے اور يہ كھا جائے كہ انہوں نے امام علي عليہ السلام كا زمانہ بھي ديكھا ھے (يعني كم از كم وہ اس دور ميں شعور ركھتے تھے) تو ايسي صورت ميں وفات كے وقت ان كي عمر تقريباً ايك سو تيس سال ھوجائے گي 13 جب كہ كسي راوي نے بھي اس قسم كي بات كا تذكرہ نھيں كيا ھے۔
يہ تمام قرائن شيخ نجاشي كے قول كے صحيح ھونے كي دليل ھيں كہ وہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے اور آپ ھي سے روايت كرتے تھے۔
ليكن كتاب “الكافى” 14 ميں ابو مخنف كي ايك روايت بغير كسي واسطہ كے حضرت امام علي عليہ السلام كے دور حكومت سے متعلق نقل ھوئي ھے۔ اس حديث ميں ان كا بيان ھے كہ شيعوں كا ايك گروہ امير المومنين عليہ السلام كے پاس آيا۔ ۔ ۔ ليكن يہ حديث ھرگز يہ ثابت نہيں كرتي كہ وہ حضرت علي عليہ السلام كے دور ميں تھے۔ اس لئے كہ ممكن ھے يہ حديث “مرسلہ” 15 ھو جو بات يقيني ھے وہ يہ كہ ابو مخنف كے پر دادا “مخنف بن سليم” رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور حضرت علي عليہ السلام كے اصحاب ميں سے تھے 16 اور آپ كي طرف سے شہر اصفہان كے گورنر مقرر ھوئے 17 اور جنگ جمل كے دوران حضرت علي عليہ السلام كي فوج ميں قبيلہ ازد كے دستہ كي سالاري كے فرائض انجام ديتے ھوئے اس جنگ ميں شہادت كے درجہ پر فائز ھوئے۔
سوانح حيات سے متعلق اكثر كتابوں كے مطابق ان كي شہادت جنگ جمل ميں ھوئي مثلاً “الكني والالقاب” شيخ عباس قمي “الذريعہ” آقا بزرگ تہرانى، “اعلام” زركلي اور اسي طرح “تاريخ طبرى” 18 ميں ابو مخنف كي روايت اسي چيز پر دلالت كرتي ھے، ليكن اسي تاريخ طبرى 19 ميں مخنف بن سليم كي ايك روايت واقعہ صفين سے متعلق نقل ھوئي ھے جو اس بات سے تناسب نہيں ركھتي كہ وہ جنگ جمل ميں شہيد ھوئے تھے۔
اس نكتہ كي طرف اشارہ كرنا ضروري سمجھتا ھوں كہ شيخ طوسي عليہ الرحمہ نے اپني كتاب “رجال” اور “فہرست” 20 ميں ابو مخنف كے والد كا ذكر كرتے ھوئے فرمايا ھے كہ آپ حضرت علي عليہ السلام كے صحابي تھے جب كہ جو چيز مسلم ھے وہ يہ كہ ابو مخنف كے والد يحييٰ حضرت علي عليہ السلام كے صحابي نہ تھے بلكہ آپ كے پردادا حضرت كے اصحاب ميں سے تھے لھٰذا يہ بات قابل توجہ ھے كہ مخنف بن سليم، ابو مخنف كے نہ والد ھيں اور نہ دادا جيسا كہ بعض افراد ان كے بارے ميں غلط فہمي كا شكار ھوگئے ھيں اور انہيں ابو مخنف كا دادا كہا ھے 21 جب كہ وہ ابو مخنف كے پردادا ھيں۔
ابو مخنف شيعہ اور سني علماء كي نظر ميں
اھل تشيع كي علم رجال سے متعلق كتابوں سے يہ بات روشن ھے كہ ابو مخنف ايك قابل اعتماد شخص تھے، شيخ نجاشي ان كے بارے ميں كہتے ھيں كہ ابو مخنف كوفہ كے بزرگ راويوں كے شيوخ (اساتذہ) ميں سے ھيں ان كي روايت پر اعتماد كيا جاسكتا ھے 22 شيخ طوسي 23 نے اپني علم رجال كي كتاب ميں انہيں امام جعفر صادق عليہ السلام كا صحابي كہا ھے شيخ عباس قمي نجاشي جيسي عبارت نقل كرنے كے بعد فرماتے ھيں ابو مخنف عظيم شيعہ مورخين ميں سے ايك ھيں نيز آپ فرماتے ھيں كہ ابو مخنف كے شيعہ مشھور ھونے كے باوجود طبرى، اور ابن اثير 24، جيسے علماء اھل سنت نے ان پر اعتماد كيا ھے، آقا بزرگ تہرانى نجاشي كي چند عبارتيں نقل كرنے كے بعد فرماتے ھيں “ان كے شيعہ مشہور ھونے كے باوجود علمائے اھل سنت جيسے طبري اور ابن اثير نے ان پر اعتماد كيا ھے بلكہ ابن جرير كي كتاب تاريخ الكبير 25 تو ابو مخنف كي روايات سے پُر ھے۔ آية اللہ خوئي نے بھي انہيں ثقہ كہا ھے اور شيخ طوسي (رح) سے ابو مخنف تك جو سند ھے اسے آپ نے صحيح جانا ھے 26۔
ليكن بعض علماء اھل سنت نے ان كے شيعہ ھونے كا ذكر كرتے ھوئے ان كي روايت كو متروك قرار ديا ھے اور بعض افراد نے ان كے شيعہ ھونے كا ذكر كئے بغير ان كي روايت كو ضعيف كہا ھے جيسا كہ يحييٰ بن معين كا كہنا ھے “ابو مخنف ليس بشئ 27 يعني ابو مخنف قابل اعتماد نہيں ھيں) اور ابن ابي حاتم نے يحيي بن معين كا قول نقل كيا ھے كہ وہ ثقہ نہيں ھيں 28 اور دوسروں سے بھي اس بات كو نقل كيا ھے كہ وہ “متروك الحديث” ھيں 29۔
ابن عدي يحييٰ بن معين كا قول نقل كرنے كے بعد كہتا ھے كہ گذشتہ علماء بھي اسي بات كے قائل ھيں، (يوافقہ عليہ الائمہ) اس كے بعد وہ كہتا ھے كہ ابو مخنف ايك افراطي قسم كے شيعہ ھيں، ان كي احاديث كي سند نہيں ھے ان كي احاديث كي سند نہيں ھے ان سے ايسي ناپسنديدہ اور مكروہ روايات نقل ھوئي ھيں جو نقل كرنے كے لائق نہيں 30۔
ذھبي كا كہنا ھے كہ وہ متروك ھيں 31 اور دوسري جگہ پر كہا ھے كہ ابو مخنف نے مجھول افراد سے روايت نقل كي ھے 32 دار قُطني كا قول ھے كہ ابو مخنف ايك ضعيف اخباري ھيں 33 ابن حجر عسقلاني كا كہنا ھے كہ ان پر اطمينان نہيں كيا جاسكتا ھے پھر بعض علماء كا قول نقل كرتا ھے كہ ابو مخنف قابل اعتماد اور مورد اطمينان نہيں ھيں 34۔
ليكن ابن نديم كا ان كے بارے ميں كہنا ھے كہ ميں نے احمد بن حارث خزار كے ھاتھ سے لكھي ھوئي تحرير ميں ديكھا ھے كہ علماء كا كہنا ھے، كہ ابو مخنف كي عراق اور اس كي فتوحات سے متعلق روايات سب سے زيادہ اور سب سے بہتر ھيں، جس طرح سے خراسان، ھندوستان اور فارس كے بارے ميں مدائنى، حجاز و سيرت كے بارے ميں واقدى، اور شام كي فتوحات كے بارے ميں ان تينوں كي معلومات يكساں ھيں 35 يہ عبارت ياقوت حموي نے بھي اپني كتاب “معجم الادباء” ميں ذكر كي ھے، 36 مجموعي طور پر اكثر علماء اھل سنت نے يحييٰ بن معين كے قول كا سہارا لے كر ابو مخنف كو غير ثقہ قرار ديا ھے۔
البتہ ابو مخنف كے بارے ميں ابن نديم اور حموي نے جس حقيقت كا اظھار كيا ھے اس كي وجہ سے
ان كے قول كے متروك ھونے كے باوجود اھل سنت كے برجستہ علماء نے ان سے روايات نقل كي ھيں اور شايد عراق كے وہ حالات و واقعات جو تاريخ اسلام كے عظيم تحولات كا سبب ھيں ان تك ابو مخنف كي روايات كے بغير دسترسي ناممكن ھے، لھٰذا علماء اھل سنت كے نظريات كے سلسلے ميں اس بات كو نظر انداز نہيں كيا جاسكتا كہ شايد ان كے نزديك ابو مخنف كے متروك ھونے كي وجہ وھي ھو جو ابن عدي نے اپنے كلام كے آخر ميں كہي ھے اور وہ يہ كہ ابو مخنف كي روايات ميں ايسے واقعات كا ذكر ھے كہ جو بعض افراد پر گراں گزرتے ھيں كيونكہ وہ واقعات ان كے مفروضہ عقائد اور نظريات سے مطابقت نہيں ركھتے۔
ابو مِخنف كا مذھب
ابو مخنف كے مذھب كے بارے ميں اقوال ھيں:
شيخ طوسي كا اپني كتاب “فہرست” ميں اور نجاشي كا اپني كتاب “رجال” ميں ان كے مذھب كے بارے ميں كوئي رائے پيش نہ كرنا ان كے شيعہ ھونے كي طرف اشارہ ھے جيسا كہ بيان كيا جاچكا ھے كہ شيخ عباس قمي اور آقا بزرگ تہرانى نے واضح طور پر ان كے شيعہ ھونے كو بيان كيا ھے بلكہ يھاں تك كہا ھے كہ ان كا شيعہ ھونا مشھور ھے ليكن آقا خوئي نے اپني كتاب “معجم رجال الحديث” ميں ان كے شيعہ يا غير شيعہ ھونے كو بيان كئے بغير انہيں ثقہ كہا ھے۔
اكثر علماء اھل سنت نے ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي اشارہ نہيں كيا يہاں تك كہ ابن قتيبہ اور ابن نديم نے شيعہ افراد كے لئے ايك الگ باب تحرير كيا ھے ليكن ابو مخنف كے نام كا وھاں ذكر نہ ھونا ان كے غير شيعہ ھونے كو ظاھر كرتا ھے 37 علماء اھل سنت ميں سے ابن ابي الحديد وہ ھے جو اس بات كا قائل ھے كہ ابو مخنف كا شمار محدثين ميں ھوتا ھے اور وہ امامت پر اعتقاد ركھتے تھے۔ ليكن ان كا شمار شيعہ راويوں ميں نہيں ھوتا 38 صاحب قاموس الرجال اقوال پر تنقيد كرنے كے بعد فرماتے ھيں كہ ابو مخنف كي روايت ان كے متعصب نہ ھونے كي وجہ سے قابل اعتماد ھے ليكن ان كے شيعہ ھونے كے بارے ميں كوئي رائے پيش نہيں كي جاسكتي 39۔
لھٰذا ان كے مذھب كے بارے ميں سرچ كرنے كا كوئي خاص عملي فائدہ نہيں ھے ليكن اگر ابو مخنف كي روايات پر غور و فكر كيا جائے جو اكثر سقيفہ، شوريٰ، جنگ جمل، جنگ صفين، مقتل امام حسين عليہ السلام سے متعلق ھيں تو آپ اس نتيجہ پر پہنچيں گے كہ وہ شيعي افكار كے مالك تھے، البتہ ممكن ھے كہ ان كي روايات ميں بعض مطالب ايسے پائے جاتے ھوں جو كامل طور پر شيعہ عقيدہ كے ساتھ مطابقت نہ ركھتے ھوں ليكن ھميں چاھيے كہ ھم ابو مخنف كے دور زندگي كو بھي پيش نظر ركھيں كيونكہ بعض اوقات ائمہ معصومين عليھم السلام بھي تقيہ كي وجہ سے ايسے مطالب بيان كرتے تھے جو اھل سنت كے عقيدہ كے مطابق ھوا كرتے تھے اور يہ بات بھي قابل غور ھے كہ وہ ايك معتدل شخص تھے جس كي وجہ سے اھل سنت كي اكثر كتابوں ميں ان كي روايات كا مشاھدہ كيا جاسكتا ھے۔
بہر حال تاريخ ابو مخنف كي عظمت غير قابل انكار ھے اور شيعہ و سني تمام مورخين نے ان سے كافي استفادہ كيا ھے اور چونكہ تمام شيعہ علماء نے انہيں ثقہ جانا ھے اور ان كي روايت پر اعتماد كا اظھار كيا ھے لھٰذا ان كي روايات كے مضامين پر غور و فكر كرنے سے صدر اسلام كے بہت سے اھم حالات و واقعات كي صحيح نشاندھي كي جاسكتي ھے۔
روايت ابي مخنف كي تحقيق كا طريقۂ كار
ابو مخنف كي روايات كے متن كے صحيح يا غلط ھونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ھے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخي روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادي حيثيت حاصل ھے لھٰذا دوسري روايات كے پيش نظر ان كي روايت كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوي جيسے ھشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركھتے ھيں اور اسي كے مرھون منت ھيں۔
منبع:shiastudies.net
Add new comment