میں بھی پاکستان ہوں۔نذر حافی

میں بھی پاکستان ہوں۔نذر حافی

آج کل شہر میں بہت تیز ہوا چل رہی ہے،گردو غبار کے ببولوں نے درودیوار کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے،تاریکی اتنی ہے کہ لوگوں کو صرف ہوا کا رخ دکھائی دیتاہے۔جہاں بھی کسی چوبارے پر کوئی جگنو ٹمٹماتا نظر آئےطوفان کا ریلا اسے اچک لیتاہے۔

مکانوں کی چھتیں ہواکی موجوں سے ایسے پھڑ پھڑا رہی ہیں جیسے تیز ہوا کے جھونکوں سے چراغ کی لو پھڑپھڑاتی ہے۔نزدیک ہی ایک اور بستی میں ایک پرانے مکان کی چھت کسی کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہچکولے کھارہی ہے،چھت پر کھڑا ایک شخص چلارہاہے،وہ تقریر کررہاہے۔۔۔

خطرہ۔۔۔ خطرہ۔۔۔خبردار آگے نہیں بڑھنا۔۔۔

میں نے اس کی تقریر کاٹ کر پوچھا مگر کیوں ؟اس نے کہا کہ ہر چھت پر سانپ چھپا بیٹھاہے۔ میں نے یہ سنا تو ایک سانپ میری چھاتی پر بھی لوٹ گیا۔وہ اتنے دور سے سانپوں کو دیکھ رہاہے لیکن میں قریب سے بھی نہیں دیکھ پارہا۔شایداسی کو بصیرت کی کمی کہتے ہیں۔

میں نے دل میں سوچا کہ مجھے دیوار سے لپک کر صحن میں اترجانا چاہیے لیکن اس نے آواز دی کہ خبردار صحن میں نہ اترنا کہ دہلیز میں بھی سانپ چھپابیٹھا ہے۔میں نے کہا تم کون ہو جو لوگوں کو اپنے ہی گھر کے درودیوار سے ڈرا نے کے لئے تقریریں کر رہے ہو۔

اس نے کہا میں تمہارا لیڈر ہوں ،مجھ سے ڈرو اور میری بات مانو،اس لئے کہ طوفان میرے اشاروں پر چلتے ہیں اور میں ہوا کے رخ کو دیکھ کر تقریریں کرتا ہوں۔

اس لمحے مجھے اپنے پاوں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔

میں نے کہا اے میرے رہبر،اے میرے مونس و ہمدم ،اے میرے ہمدرد۔۔۔میرے پاوں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے۔

اس نے کہا بس اب بڑا آدمی بننے کی تیاری کرو۔اب تم چھت سے گرو گئے ،تمہاری ٹانگ ٹوٹے گی اور اگر تم لیٹے رہے تو مرجاو گئے اور اگر اٹھ کھڑے ہوئے تو تم اس بستی کے رہنے والوں کے رہبر بن جاو گئے۔

اسی لمحے زمین نے کروٹ بدلی،چھت میں چھید ہوا اور میں دھڑام سےفرش پر آپڑا۔میری ٹانگ ٹوٹ گئی،

میں اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو تھام کر کھڑا ہوگیا،گویا میں نے مرنے کے بجائے لیڈر بننے کا فیصلہ کرلیا،میں نے کمرے سے باہر آنا چاہا لیکن اسی لمحے مجھے خیال آیا کہ دہلیز میں تو سانپ ہے۔

میں باہر نہیں جاسکتا،باہر سے بھی کوئی اند رنہیں آسکتا۔اس لئے کہ دہلیز میں سانپ ہے۔

بس اب یہی راہِ حل ہے کہ میں بھی سانپ کی طرح رینگنے کی مشق کروں۔کچھ دیر مشق کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میں بھی ایک سانپ ہوں۔پس سانپ کو سانپ سے کیا خطرہ۔سانپ چاہے دہلیز کا ہو یا آستین کا سانپ ہی ہے۔۔۔۔

میں رینگتاہوا چھت پر آیا،اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو زخمی سانپ کی مانند چھت سے نیچے لہرایا،کسی ماہر مداری کی ماننداپنی ٹانگ کو لہرا لہرا کر لوگوں کو اپنے گرد جمع کیا ،لوگوں کے ہجوم نے میرا طواف شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے مجھے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا اور میری لیڈری کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔میں نے دیکھا کہ دوسری جانب سے بھی ایک جلوس اسی شخص کو اٹھا کر میری طرف لارہاہے۔یہ وہی شخص تھا جو دور سے خطرہ خطرہ کہہ کر چیخ رہاتھا۔جب وہ میرے قریب پہنچاتو ہم نے جھک کر ایک دوسرے کو آداب عرض کیا اور اس نے میرے کا ن میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:ارے بھائی اپنے لنگڑے پن سے گبھراو نہیں۔۔۔

جن ممالک کے صحیح و سالم اور پڑھے لکھے لوگوں کو دہشت گردی،کرپشن،اقرباپروری اور بلیک میلنگ کا سانپ سونگھ لے وہاں طوفان آتے ہی رہتے ہیں اوران کی قیادت لولے اور لنگڑے ہی کیا کرتے ہیں۔

میں نے کہا میں تو پاکستان ہوں تم کون ہو،اس نے کہا، میں تمہارا ہمسایہ اور پیشروہندوستان ہوں۔میں نے ہمسائے کو گلے لگاتے ہوئے محسوس کیاکہ ہمارے پاوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ سانپوں کو مارنا شروع کردیں۔

اسی لمحےمیں نے بھاگنا چاہاتو میری لیڈری نے میرے باطن سے آواز دی ۔بزدل مت بنو۔۔۔بزدل مت بنو۔۔۔

کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔

مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کرو

دہشت گردی کو عام کردو

اپنی تقریروں میں ملت کا درد اور زیادہ بڑھادو

بے روزگاری کو گھر گھر تک پہنچادو

جو روٹی کی بات کرئے۔۔۔اسے کیمونسٹ کہہ دو

جو دین کی بات کرے اسے شدت پسند کہہ دو

جو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا اور سر چھپانے کے لئے مکان مانگے اسے کافر کہہ دو اور ۔۔۔

اس سے پہلے کہ تمہارے پاوں کے نیچے سے سرک کر زمین نکل جائے ،عوام کے پاوں کے نیچے سے زمین نکال دو ،لوگوں پر زمین تنگ کردواور پھر مستی کے عالم میں گنگناو:

میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ۔۔۔ میں بھی ہندوستان ہوں تو بھی ہندوستان ہے

یاد رکھوجہاں پر لوگوں کو روٹی کپڑے اور مکان کا روگ لگ جائے وہاں کے لوگ کیا جانیں کہ بنیادی انسانی حقوق،عدل، حقیقی جمہوریت اور عوامی قیادت کسے کہتے ہیں۔

Add new comment