صحرائے تھر میں قیامت صغریٰ
صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں کئی مہینوں سے قحط اور خشک سالی کے باعث پرندوں جانوروں اور پھر انسانوں کی اموات نے بالآخر سینکڑوں بچوں کی اموات اور ہزاروں بیماروں کی تشویشناک حالت نے اب اچانک قیامت صغریٰ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صحرائے تھر کا خطہ ارض 21 ویں صدی کے مہذب دور کی بجائے انسانی تاریخ کے کسی زمانہ جہالت جس کو انگریزی میں DARKAGE کہتے ہیں‘ بسنے والا علاقہ ہے۔ جس کے بارے میں امریکہ نے پاکستان کو افغانستان پر حملہ کرتے وقت دھمکی دی تھی کہ وہ عدم تعاون کی صورت میں پاکستان کو STONEAGE یعنی پتھر کے زمانے میں دھکیل دے گا۔
گزشتہ 72 گھنٹے سے جو خبریں ضلع تھر کے صدر مقام مٹھی سے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اچانک منظر پر آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبہ سندھ میں جس جمہوری نظام کا ہم ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں اس نام کی کسی جدید عوامی پارلیمانی حکومت کا شائبہ نہ صرف ضلع تھر بلکہ پورے تھر پارکر ڈویژن کے آس پاس نظر نہیں آتا اور باخبر ذرائع و ابلاغ کے شدید احتجاج پر خون شہیداں رنگ لایا ہے جس پر نہایت نیم دلی اور عوامی ردعمل کے خوف سے وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی بے حسی کو محکمانہ غفلت کا نام دے کر اعتراف جرم کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر تھر، و کمشنر تھر پار کر کو برطرف کرتے ہوئے نئے افسران کو تعینات کرنے کے احکام جاری کئے ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں GENUINE جمہوری نظام رائج ہوتا تو اس کا تقاضا تھا کہ اعتراف جرم کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ مستعفی ہو جاتے۔ چند افسروں کے تبدیل یا عارضی طور پر معطل کرنے کے حکم سے کیا عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے ؟ یا قائم علی شاہ خود فریبی کا شکار ہیں کیونکہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ متعلقہ افسر اور صوبا ئی وزیر کون کون سے سیاسی لیڈر کے بیٹے بھتیجے، داماد اور کون سے رشتوں کے بندھن سے منسلک ہیں۔ ورنہ جہاں تک وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی ایڈمنسٹریشن کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کا تعلق ہے انہوں نے گزشتہ سال بھر سے خشک سالی اور قحط کے نمایاں اسباب کو روک تھام کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنے بلکہ ہر قسم کی امداد کی ترسیل اور تقسیم میں بے حسی اور پردہ پوشی کر کے سینکڑوں بچوں کی اموات کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے جرم کو چھپانے کے لئے کاوش میں ان کا کردار مزید اعلیٰ سطحی غیر جانبدارانہ تفتیش کا تقاضا کرتا ہے۔ سینکڑوں مرنے والے بچوں کا لہو سراغ کا طالب ہے۔ حیرت ہے کہ تھر میں برپا ہونے والی قیامت پر وزیر اعلیٰ نے بھی اپنی ایڈمنسٹریشن کے جرم پر یہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ تھر کی صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ورنہ صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے جتنی کہ عوام کے آگے بعض ذرائع پیش کر رہے ہیں۔ اگر قائم علی شاہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا تو شاید وہ کراچی سے تھر تشریف لانے کی زحمت گوارا نہ فرماتے لیکن ان کی حکمران سیاسی جماعت کے پیٹرن انچیف نے ان کو دبئی سے فرمان جاری کیا کہ فوراً مٹھی پہنچیں۔ چنانچہ ان کے ضلع تھر کے صدر مقام پر پہنچنے پر ان کا جس شاہانہ ٹھاٹ باٹھ سے استقبالیہ عشائیہ کیا گیا اس کی تفصیلات قارئین نے اخبارات میں پڑھی اور ٹی وی پر ملاحظہ کی ہونگی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی شاہانہ شادی یا ولیمہ کی شادمانی کے عالم میں رنگا رنگ کھانوں کی دعوت ہو۔ تھر کے سینکڑوں بچوں کے ہزاروں سوگواران اور خیمہ بستیوں اور ہسپتالوں کے باہر برآمدوں میں فرش پر لیٹے درختوں کے نیچے گھاس پر بیٹھے مردو زن بھوک اور پیاس کی حالت میں ادویات سے محروم اپنی حکمران جماعت کے سربراہ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ صوبے کے حکمران وزراءکو ساتھ لے کر تھر پہنچیں اور ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیں مگر نہ ہی تھر کے غریب عوام سے ووٹ مانگنے والے سیاسی قائدین اور نہ ہی اپنے مریدوں کے روحانی پیشوا جن میں کئی محترم پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں ابھی تک کسی موثر اور مخلصانہ انسانی ہمدردی کی خاطر مناسب ریلیف کا سامان لے کر ضلع تھر کے صدر مقام مٹھی نہ پہنچے ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا ادارہ جو فوری طور پر حرکت میں آ کر مناسب ریلےف کے پیکج لے کر مٹھی پہنچا ہے وہ فوج کا ادارہ ہے۔ کراچی کے کور کمانڈر اور سکھر (پنوں عاقل چھاﺅنی) سے نہ صرف ریلیف کے سامان کے کئی ٹرک شامل ہیں بلکہ فضائیہ کے سی 130 طیارہ کے ذریعے 45 ٹن فوری ریلیف جن میں کپڑے خوراک پانی ادویات شامل ہیں ، مٹھی کے علاوہ ارد گرد کے ہسپتالوں اور علاقوں میں ریلیف کی کارروائیاں شروع کر چکے ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شرےف اسلام آباد میں اپنی تمام مصروفیات منسوخ کر کے فوری طور پر حالات کا جائزہ لینے کے لئے تھر پہنچے اور انہوں نے متاثرین کیلئے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اس اقدام سے یقیناً امدادی کاموں میں تیزی آئے گی۔
یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ جس طرح افواج پاکستان کے ملک بھر میں تمام کور کمانڈر اپنے اپنے دائرہ کار میں نہایت تیزی سے ریلیف کے امدادی اقدامات میں حرکت میں آ چکے ہیں اسی طرح اگر ملک کے تمام دیگر ادارے بھی اس قومی سانحہ میں اپنے تھر کے بھائیوں اور بہنوں کی امداد کےلئے کمر بستہ ہو جائیں تو بہت جلد تھر میں چھا جانے والی بھوک اور پیاس کی سیاہ رات وہاں کے عوام کے لئے آسودگی اور موجودہ بدحالی سے خوشحالی کی پر امید روشنی میں بدل سکتی ہے۔
گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفےسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے ایک خصوصی اجلاس میں فوری طور پر متاثرین تھر کی امداد کےلئے ضروری سامان روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یونیورسٹی کے 1500 کے قریب اساتذہ نے اپنی ایک دن کی تنخواہ متاثرین تھر کے مناسب ریلےف کے لئے وہاں پہنچانے کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ چونکہ پاکستان میں ایسی قدرتی آفتیں گاہے بگا ہے نازل ہوتی رہتی ہیں اس لئے اس امدادی مقصد کےلئے ایک مستقل ”نیشنل ڈیزا سٹر ریلیف فنڈ“ یونیورسٹی اپنے وسائل سے قائم کرے گی تاکہ امدادی کارروائیوں میں کوئی غیر ضروری تاخیر نہ ہونے پائے۔ اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم سب نیک نیتی کے ساتھ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ ایک مسلمان کو کسی طرح تکلیف ہم سب کو مل جل کر محسوس کرنی ہمارا فرض ہے تو ہمیں اس کا عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہئےے۔ یہ امر قابل تحسین ہے کہ سپریم کورٹ نے تھر کے قومی سانحہ کا از خود نوٹس لیا ہے جس کے نتیجے میں تھر کے مرنے والے سینکڑوں بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور اس جرم کے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق بلا تفرےق عدل کے تقاضوں کے مطابق سزا ملے گی۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/12-Mar-2014/287852 بشکریہ:::::۔۔۔۔ کرنل[ر] اکرام اللہ
Add new comment