حضرت زینب[ع]کا علم اور زہد

 

علم و معرفت
زینب کبری(س) ،رسول خدا (ص)کے شہر علم میں پیدا ہوئیں اور دروازہ علم کے دامن میں پرورش پائی اورحضرت زہرا(س) کے پاک سینہ سے تغذیہ حاصل کیں۔ اور ایک لمبی عمر دو امام بھائیوں کے ساتھ گذاری ۔ اور انھوں نے آپ کو خوب تعلیم دی ۔ اس طرح زینب کبری آل محمد (ص) کے علوم اور فضائل سے مالامال ہوئیں ۔ یہی وجہ تھی سخت دشمنوں جیسے یزید بن معاویہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔ اور سید سجاد (ع)نے آپ کی شان میں فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ و فہمۃ غیر مفہمۃ ۔

زہد و عبادت
عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں صاحب عظمت تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پرسخت ترین شرایط میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی ؛جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہوگیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آگئی ۔
زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کے خاطردنیا کی لذتوں کو ترک کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہوا وہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے ۔زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے ۔اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے : وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ-1-۔
یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے ؛ اور ہدایت دے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے؛ تو اسے چاہئے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے ۔اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا ؛ خدا تعالی اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا ۔اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا ،اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا ۔ اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة-2- ۔
یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخرت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے ۔
حدیث قدسی میں مذکور ہے :أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ -3-
اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہو جائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو ۔
زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندگی ،زہد وتقوی اور اطاعت خدا کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصداق اتم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔ چنانچہ روایت میں آئی ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور وغل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہوجاؤ؛ تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رہ گئیں۔ اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔
معاشرے کی اصلاح کیلئے امام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

حدیث عشق دوباب است کربلا تاشام
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب(س)

پہلا مرحلہ خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ۔
دوسرا مرحلہ پیغام رسانی ، بیدار گری، خاطرات اور یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ تھا ۔
پہلے مرحلے کیلئے جان نثار اور باوفا اصحاب کو انتخاب کیا ۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا؛ تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب بہ درجہ شہادت فائز ہوگئے۔
اب رہا ،دوسرا مرحلہ ،کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کئے۔ جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔جناب محسن نقوی نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے :

قدم قدم پر چراغ ایسے جلاگئی ہے علی کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں
ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر
غرور ظلم و ستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

پہن کے خاک شفا کا احرام سر برہنہ طواف کرکے
حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا
یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

ابد تلک اب نہ سر اٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی -

ماخوذ از کتاب ’’زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا‘‘
مصنف:غلام مرتضیٰ انصاری

Add new comment