عقیدے کی آزادی
عقیدے کی آزادی
استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ہم نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ جو لوگ عقیدے کی آزادی کے نام پر بت خانوں میں جاتے ہیں اوروہاں کچھ نہیں بولتے (درحقیقت یہ لوگ اسیری کا احترام کرتے ہیں)۔ برطانیہ کی ملکہ ہندوستان گئی، تو ہندؤں کے عقائد کے احترام کی خاطر اگر خود ہندو اپنے مندر کے دروازے پر جوتے اتارتے تھے، تو ملکہ نے گلی میں داخل ہوتے ہی بتوں کے احترام میں جوتے اتار دیئے (تاکہ وہ )تعجب کااظہار کریں اور کہیں کہ یہ لوگ لوگوں کے عقائد کا کس قدر احترام کرتے ہیں!
جو عقیدہ انسان کو فکر نہ دے، وہ عقیدہ جمود ہے، تقلید ہے، رسم ہے، یعنی ایسی زنجیر ہے جو وہم }بے بنیادتصورات {نے انسان کے ہاتھوں پیروں میں ڈال دی ہے۔ انسان کو ایسے عقائد میں آزاد چھوڑدینے کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو وہم کی انہی زنجیروں کا اسیر رہنے دیا جائے جن سے اُس نے خود اپنے ہاتھوں پیروں کو باندھا ہے۔ اسے اسیری کا احترام تو کہا جاسکتا ہے، آزادی کااحترام نہیں۔ آزادی کا احترام یہ ہے کہ یہ عقائد جو فکر نہیں بلکہ عقیدہ ہیں، یعنی صرف جمود ہیں، اِن کے خلاف جنگ کی جائے ۔ ممکن ہے عقیدہ کسی فکر کی بنیاد پر ہو اوریہ بھی ممکن ہے کہ تقلید، یا وہم، یا رسم، یا ہزارہا دوسری چیز وں سے پیدا ہوا ہو۔ایسے عقائدجن کی بنیاد عقل و فکر پر نہیں ہوتی، وہ صرف روحانی جمود ہیں۔ یعنی روحانی اسیری اورزنجیر ہیں۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کے ہاتھوں پیروں پرزنجیر بندھی ہو، چاہے وہ زنجیر خوداس نے اپنے ”دستِ مبارک“ سے باندھی ہو۔
پس عقیدے کی آزادی اپنے عمومی معنی میں ایک علیحدہ بات ہے اور آزادئ فکر اور آزادئ ایمان یعنی ہر شخص تحقیق اور غورو فکر کے ساتھ اپنے ایمان کا انتخاب کرے، ایک علیحدہ بات ہے ۔ قرآنِ مجید کی جنگ اجتماعی اور فکری آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔
پوچھا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے فلاں ملک پر حملہ کیوں کیاتھا؟ حتیٰ خلفا کے زمانے میں بھی (ہمیں اس سے مطلب نہیں کہ ان کا کام اپنے اعتبار سے صحیح تھا یا نہیں) جب مسلمانوں نے حملہ کیا، تو وہ وہاں لوگوں سے یہ کہنے کے لئے نہیں گئے تھے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔ ظالم حکومتوں نے لوگوں کے ہاتھ پیروں کو زنجیروں سے جکڑ رکھا تھا، مسلمانوں نے حکومتوں کے ساتھ جنگ کرکے قوموں کوآزادی دلائی۔ ان دومختلف باتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کردیا جاتا ہے ۔ مسلمانوں نے اگر ایران یا روم کے ساتھ جنگ کی تھی، تو وہ دراصل ظالم حکومتوں کے خلاف لڑے تھے۔قوموں کو آزادی دلائی تھی اور اسی لئے وہاں کی عوام نے رضا ورغبت کے ساتھ مسلمانوں کا استقبال کیا تھا۔ تاریخ کیوں لکھتی ہے کہ جب مسلمانوں کی فوج داخل ہوتی تھی، تو لوگ پھولوں کے گلدستے لے کر ان کا استقبال کرتے تھے؟ اس لئے کہ وہ مسلمانوں کو فرشتۂ نجات سمجھتے تھے۔بعض لوگ ان دونوں باتوں کے درمیان غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں، }کہتے ہیں:{”بہت خوب! مسلمانوں نے ایران پر حملہ کیا، جب انہوں نے ایرا ن پر حملہ کیاہوگا، تویقیناً عوام کے پاس گئے ہوں گے اور ان سے کہا ہوگا کہ تمہیں لازماً اسلام قبول کرنا ہے“۔ }نہیں جناب {انہیں عوام سے کوئی غرض نہ تھی، اُن کا نشانہ ظالم حکومتیں تھیں۔انہوں نے حکومتوں کو توڑا، اسکے بعد عوام کو جن میں اسی قدر توحید کا شائبہ تھا، اپنے ایمان میں آزاد چھوڑ دیا کہ اگرتم اسلام قبول کرلو تو ہماری ہی طرح ہو اور اگر اسلام قبول نہ کرو، توتمہارے ساتھ علیحدہ شرائط کے تحت معاہدہ کریں گے، اِن شرائط کو ”ذمہ“کی شرائط کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کی شرائطِ ذمہ انتہائی آسان اور سادہ تھیں۔
پس خود ایمان کے معاملے میں (نہ کہ ایمان کی راہ میں حائل فکری اور اجتماعی رکاوٹوں کے معاملے میں، کیونکہ ان کا معاملہ مختلف ہے) نرمی، ملائمت کا استعمال اورجبر و زبردستی سے پرہیز کا اصول دعوتِ اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے:
لااَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی۔
دین میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہو چکی ہے اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اﷲ پر ایمان لے آئے وہ اسکی مضبوط رسی سے متمسک ہو گیا ہے۔ سورۂ بقرہ۲۔ آیت ۲۵۶
قرآنِ مجید کی منطق کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں، کیونکہ حقیقت روشن ہے، رشد و ہدایت کا راستہ واضح ہے اور ضلالت و گمراہی کا راستہ بھی عیاں ہے۔ جو چاہے اِس راہ کا انتخاب کرے اور جو چاہے اُس راستے کو منتخب کرے۔
اس آیت کی شانِ نزول میں چند باتیں تحریر کی گئی ہیں، جو ایک دوسرے سے قریب قریب ہیں اور ممکن ہے ایک ہی وقت میں وہ سب کی سب درست ہوں۔ جب بنی نضیر نے، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، غداری کی، تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جلاوطنی کا حکم دیا، اور ان سے کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ۔ بعض مسلمانوں کے بچے ان کے درمیان موجود تھے، جو یہودی تھے۔
وہ کیوںیہودی تھے؟
(ظہورِ اسلام سے قبل ) یہودیوں کی تہذیب و تعلیم حجاز کے رہنے والے عربوں سے بہتر تھی۔ حجاز کے عرب غیر معمولی جاہل اور بے پڑھے لکھے لوگ تھے ۔ یہودی، جو اہلِ کتاب تھے، لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے اور بکثرت معلومات بھی رکھتے تھے، لہٰذا وہ ان پر اپنی فکر تھوپتے تھے۔یہاں تک کہ بت پرست بھی ان کا عقیدہ اختیار کر لیتے تھے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ کبھی کبھی مدینہ کی بے اولاد عورتوں میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ نذر کرتی تھیں کہ اگر ان کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی، تو وہ اُسے یہودیوں کے یہاں بھیج دیں گی تاکہ وہ یہودی ہوجائے۔ اُن کایہ اعتقاد تھا، کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ یہودیوں کا مذہب، ان کے مذہب سے جو کہ بت پرستی تھا، بہتر ہے۔ اور کبھی وہ اپنے شیرخوار بچوں کودودھ پلانے کے لئے یہودیوں کے پاس بھیج دیا کرتی تھیں ۔ جن بچوں کے لئے وہ نذر کرتی تھیں کہ وہ یہودی ہوجائیں، واضح ہے کہ وہ یہودی ہوجاتے تھے اور یہودیوں کے یہاں چلے جاتے تھے۔اور وہ بچے جن کو یہودی عورتیں دودھ پلاتی تھیں، وہ بھی یہودیوں کی عادات اپنا لیتے تھے، اُن کے رضاعی ماں، بھائی اور بہن ہوجایا کرتے تھے، اُن میں آپس میں ایک دوسرے سے آشنائی ہوجاتی تھی اور ان میں سے بعض یہودی ہوجاتے تھے۔ بہرصورت کچھ ایسے یہودی بچے موجود تھے جن کے ماں باپ کا تعلق انصار یا اوس و خزرج سے تھا۔
جب یہ بات طے ہوئی کہ بنی نضیریہاں سے چلے جائیں، تو مسلمانوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کونہیں جانے دیں گے۔ کچھ بچے جو یہودیوں کے دین پر تھے، وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ جائیں گے۔ مسلمانوں کے لئے ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ مسلمان کہتے تھے کہ ہم ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ یہ ہمارے بچوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، اور وہ یہودی رہیں، لیکن کچھ بچے خود کہتے تھے کہ ہم اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔
}مسلمان{ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یارسول اللہؐ! ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے جائیں۔ (بظاہریہیں پریہ آیت نازل ہوئی) پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: جبر اور زبردستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمہارے بچوں کا دل چاہے تو اسلام اختیار کریں، اگر وہ نہیں چاہتے، تو ان کی مرضی، اگر وہ جانا چاہتے ہیں توچلے جائیں، دین زبردستی کرنے والا معاملہ نہیں ہے: لااَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی کیونکہ ایمان کا مزاج جبر، زبردستی اور سختی قبول نہیں کرتا۔
فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔ سورۂ غاشیہ ۸۸۔ آیت ۲۳ تا ۲۵
اے نبی! لوگوں کو تذکر دیجئے (تذکر کے معنی ہم پہلے بیان کرچکے ہیں) لوگوں کوخوابِ غفلت سے بیدار کیجئے، لوگوں کو جگایئے، لوگوں کو شعور دیجئے، لوگوں کوآگہی اور بیداری کے راستے سے دین کی طرف بلایئے ۔ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ آپ تذکر دلانے والے کے سوا کچھ نہیں ہیں، آپ مصیطر نہیں ہیں، یعنی خدا نے آپ کو ایسا نہیں بنایا کہ آپ زبردستی کوئی کام کریں۔
اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ
کیا اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ، استثناہے لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ سے، یایہ فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ سے استثنا ہے؟
تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں ( اور دلائل بیان کرتے ہیں) کہ یہ فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ سے استثنا ہے: تذکر دیجئے، اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ سوائے ان افراد کے جنہیں آپ نے تذکر دیا ہے، اورآپ کے تذکر دینے کے باوجود انہوں نے روگردانی کی ہے، اور اب تذکر کے بعد تذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔ (پس خدا اس پر عذاب کرے گا، بڑا عذاب) جو عذابِ جہنم ہے۔
http://darusthaqalain.com/book/seerat/47
Add new comment