حضرت فاطمہ ع کی شہادت اور ذکرِ مصائب کا مقصد

 

یہ ایام ایک اعتبار سے جناب زہرا سلام اللہ علیہا سے منسوب ہیں۔ ایک نکتہ جس کے متعلق کل رات ایک جوان نے مجھ سے سوال کیا اسے میں آپ کے لئے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شایداچھا رہے۔ البتہ میں کبھی بھی اس بات پر اصرار نہیں کرتا کہ اپنی ہر تقریر میں ذکرِ مصائب بھی کروں۔ اگر بات ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں مجھے محسوس ہو کہ ذکرِ مصائب کرنا اپنے اوپر جبر کرنا ہے اور مجھے ایک نکتے سے دوسرے نکتے پر جانا ہو، تو میں نہیں کرتا۔ لیکن اکثر اوقات، خصوصاً ایامِ غم میں، اشارتاً ہی سہی، ذکرِ مصائب کرتا ہوں۔ ایک جوان نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ: کیایہ کوئی ضروری عمل ہے، کیا اس میں کوئی خوبی پائی جاتی ہے؟ کیا امام حسین علیہ السلام کے مکتب کو زندہ رکھنے کے لئے امام حسین ؑ کے مصائب کا ذکر بھی ضروری ہے؟ میں نے اس سے کہا: ہاں! اس بات کا حکم ہمیں ائمۂ اطہارعلیہم السلام نے دیا ہے۔ اور اس حکم کافلسفہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ جس مکتب میں جذبات کی چاشنی نہ ہو اور صرف ایک مکتب، فلسفہ اور فکر ہو، تو دلوں میں زیادہ رسوخ پیدا نہیں کرتا اور اس کی بقاکا امکان نہیں رہتا۔ لیکن اگرکسی مکتب میں جذبات کی چاشنی پائی جائے، تو یہ جذبات اسے حرارت دیتے ہیں ۔ کسی مکتب کی گہرائی اور اس کا فلسفہ، اس مکتب کو واضح کرتے ہیں، اس مکتب کو منطق دیتے ہیں، اس مکتب کو منطقی بناتے ہیں۔

بے شک امام حسین علیہ السلام کے مکتب کا فلسفہ اور منطق ہے، یہ ایک درس ہے اور اسے سیکھنا چاہئے۔ لیکن اگر ہم ہمیشہ اس مکتب کا صرف ایک فکری مکتب کی صورت میں ذکر کریں گے، تو اس کی حرارت اور جوش ختم ہوجائے گا اور یہ فرسودہ ہوجائے گا۔

یہ ایک بہت عظیم اور گہری نظر تھی، ایک غیر معمولی، عجیب او رمعصومانہ دور اندیشی تھی، کہ کہاگیا ہے کہ کبھی تم اس چاشنی کو دور نہ کرنا، جذبات کی چاشنی، حسین ابن علی علیہ السلام، امیر المومنین ؑ، امام حسن، ؑ دوسرے ائمہ ؑ یا حضرت زہرا سلام اللہ علیہاکے ذکرِ مصیبت کو۔ہمیں جذبات کی اس چاشنی کی حفاظت کرنی چاہئے۔

کیونکہ یہ ایام رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب زہراسلام اللہ علیہا کی وفات کے درمیانی ایام ہیں، لہٰذا ان ایام کا زیادہ تعلق ان ہی کی ذواتِ مقدسہ سے ہے۔ ذکرِ مصائب کے دو تین جملے عرض کریں گے۔

لکھا ہے: ما زالَتْ بَعْدَ ابیھا مُعَصَّبَۃَ الرَّأْسِ، ناحِلَۃَ الْجِسمِ، بَاکِیَۃَ الْعَیْنِ، مُنْھَدَّۃَ الرُّکْنِ۔ اپنے بابا کے بعدزہراؑ کوکسی نے اس کپڑے کو کھولے نہیں دیکھا جوآپ اپنے سر پر لپیٹتی تھیں۔ زہراؑ دن بدن کمزور اور لاغر ہوتی جارہی تھیں۔ اپنے بابا کے بعد زہراؑ کو ہمیشہ روتے ہوئے ہی دیکھا گیا۔ ”مُنْہَدَّۃَ الرُّکْنِ۔“ اس جملے کے انتہائی عجیب معنی ہیں۔ ”رکن“ یعنی ستون، ایک عمارت کی مانند جس کے ستون ہوتے ہیں اور وہ ان ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ جسمانی اعتبار سے، پاؤں اور ریڑھ کی ہڈی انسان کا ستون ہیں۔ یعنی انسان جب کھڑا ہوتا ہے تو ان ہڈیوں کے ڈھانچے پر کھڑا ہوتا ہے۔ کبھی جسمانی اعتبار سے یہ ستون ٹوٹ جاتا ہے، مثلاً فرض کیجئے کہ کسی کے پاؤں کٹ جائیں، یا اس کی ریڑھ کی ہڈی چکنا چور ہوجائے۔ لیکن کبھی انسان روحانی طور پر اس طرح سے ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے کہ گویا وہ روحانی ستون جس پر انسان کھڑا ہوا ہے، وہ ٹوٹ گئے ہوں۔ اپنے بابا کے بعد زہراؑ کا حال اسی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ زہراؑ اور پیغمبرؐ، دونوں کو ایک دوسرے سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ جب آپ اپنے بچوں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو دیکھتیں، تو بے اختیارآنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔ فرماتیں : میرے بچو! تمہارے وہ مہربان باباکہاں گئے جو تمہیں اپنے دوش پر سوار کرایا کرتے تھے۔ تمہیں اپنی گود میں بٹھاتے تھے اور تمہارے سروں پر دستِ شفقت پھیرا کرتے تھے۔

ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم و صلی اللّٰہ علیٰ محمّد و آلہ الطاہرین۔

http://darusthaqalain.com/book/seerat/10

Add new comment