مختصر مگر بابرکت زندگی
13جمادی الاول سنہ 11 ھ ق کو ایک روایت کے مطابق رسول اکرم (ص) کی دختر گرامی اور حضرت علی (ع) کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہوئی ۔ رسول اکرم (ص) کی دختر گرامی اور حضرت علی (ع) کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت جاں گدازکے موقع پرھم ،خاندان عصمت و طھارت کےعاشقوں ، تمام مسلمانان عالم بالخصوص غمخواران حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اور اپنے معزز قارئین کی خدمت میں تعزیت پیش کرتےہيں۔
آپ کی زندگي بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی درس کی حامل تھی ۔ یہ عظیم خاتون اسلام کے ابتدائی دور مختلف مراحل میں رسول اکرم (ص) اورحضرت علی (ع) کے ساتھ رہیں۔آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم (ص) کے قول کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بہت سے دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قراردیا ہے اور خود رسول اکرم (ص) نے آپ کو سیدۃ نساء العالمین قرار دیا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول خدا(ص) حضرت فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی کرتے تھے ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .
اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان حضور کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں آنحضور صلی اللہ علیہ والیہ وسلم سے بیشمار روایات اور احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں۔
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہیں
آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔
ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں .
تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں
آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے
جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی
حضرت فاطمہ زہرا(س) نے خواتین کے لیے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں . اس طرح کہ آپ ایک دن غیر معمولی فکر مند نظر آئیں . آپ کی چچی(جعفر طیار(رض) کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے . اسما(رض) نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو. اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ عالم بہت خوش ہوئیں
اور پیغمبر کے بعد صرف ایک موقع ایسا تھا کہ اپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے . مورخین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلی جنازہ جو تابوت میں اٹھا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا تھا۔ ا سکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے اور ان لوگوں کو اطلاع نہ دی جائے جن کے طرزعمل نے میرے دل میں زخم پیدا کر دئے ہیں۔ سیدہ ان لوگوں سے انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں
حضرت فاطمہ (س) کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا .حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا . صرف بنی ہاشم اور سلیمان فارسی(رض)، مقداد(رض) و عمار(رض) جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کر دیا۔ پیغمبر اسلام (ص)کی پارہ جگر حضرت فاطمہ زہرا(س) کی قبر مبارک آج تک مخفی ہے جو ان کے خلاف خلیفہ وقت کے ظلم و ستم کا مظہر ہے۔
Add new comment