ہمارے عقائدہماری زبانی
خدا ہر طرح سے یقیناً ایک ہے۔خدا کے علاوہ کوئی خالق اور رب نہیں، وہ اپنی ذاتی صفات میں اپنا مثل اور مانند نہیں رکھتا ، خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کسی طرح جائز نہیں ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ توحید صرف اصول دین کا ہی ایک حصہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام اسلامی عقاید کی اصل و روح ہے۔
عقیدے کے اصولوں پر غور کرنا واجب ہے:
ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا نے ہمیں سوچنے کی قوت اور عقل کی طاقت دیا ہے اور قرآن میں علم و معرفت کی پیروی اور غور و فکر کے متعلق بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے قرآن کی رو سے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ اعتقادی معاملات میں بے پروا رہے لہذا اصول دین میں سے خاص کر توحید ، نبوت، امامت اور قیامت جیسے مسائل میں غور فکر سے کام لینا ضروری ہے ، ان میں اپنے بزرگوں یا دوسرے لوگوں کی پیروی اور خود سے غور فکر نہ کرنا جائز نہیں ہے ۔
"فروع دین اور اجتھاد " (عمل سے تعلق رکھنے والے احکام اور قوانین) میں یہ واجب نہیں ہے کہ ہر مسلمان ان کو سوچ بچار اور دلیلوں سے سمجھے بلکہ مثلاً نماز، روزہ ، زکات، حج ، جھاد وغیرہ کے مسائل و احکام میں کسی ماہر عالم دین کے فتوی پر عمل کرسکتا ہے ۔ اسلام کے فروعی احکام اور مقررہ اعمال کو شرعی دلیلوں پر خوب غوروفکر کرکے سمجھنے اور ان پر عبور حاصل کرنے کو اجتہاد کہتے ہیں، کسی مجتھد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مقابلہ اجھتاد کریں اور فتوی دے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ فروعی مسائل میں اجتہاد ضروری ہے ، جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو، اس کام کو انجام دے اور باقی لوگ دینی اعمال اور احکام میں ان کی طرف رجوع کریں ۔
اسلام دین کامل :
ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا کے نزدیک واحد پسندیدہ ، آخری اور کامل ترین دین وہی ہے جسکو پیغمبر اسلام لے کر آئے لہذا پچھلے مذہب سب منسوخ ہوچکے ہیں اور اب ان کتابوں کے احکام اور ضابطوں پر عمل کرنا واجب نہیں رہا۔ اور اسلام کے بعد کوئی ٕ مذہب نہیں آیے گا ۔ سب پر واجب ہے کہ دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی پیروی نہ کرے لہذا ہم انسانی بھلائی کے لیے کسی دوسرے دین کے منتظر نہیں ہیں۔
نبوت :
ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء کا ہدف مشترک تھا اور وہ انسانی معاشرہ میں ایمان، خدا و قیامت ، دین کی صحیح تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصولوں کی تقویت سے انسانوں کو سعادت تک پہچانا ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء الہی معصوم عن الخطا ہیں، اس لیے کہ اگر وہ گناہ یا خطاء کے مرتکب ہوں تو مقام نبوت پرسے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا اور لوگ انہیں اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ بنانے سے مطمئن نہیں رہیں گے اور انھیں اپنی زندگی کے تمام امور میں اپنا راہنما و آئیذیل نہیں بنا سکیں گے
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء میں پانچ حضرات اولو العزم اور صاحب شریعت ہیں، جن کے پاس آسمانی کتاب اور نئی شریعت تھی، اور یہ حضرت نوح (ع) ہیں ، حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسی و حضرت عیسی (ع) اور ان میں آخری حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔
یہ ثابت ہوچکا ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ سب آسمانی کتابیں آپنی اصلی حالت پر نہیں ہے ان میں تحریف اور تبدیلی آچکی ہے۔
امامت کا مسئلہ:
ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں سے ایک اصول ہے ،امامت ، جو دلیل پیغمبروں کے بھیجنے اور مقرر کرنے کا سبب بنتی ہے وہی پیغمبر ﷺ کے بعد امام مقرر کرنے کو واجب بتاتی ہے، امامت کا منصب خدا کی طرف سے ہوتا ہے یہ لوگوں کے آزادانہ انتخاب یا اختیار سے طے نہیں ہوتا ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ امامت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا ۔ رسول کریم ﷺ کی معتبر حدیث رو سے ہر زمانے میں ایک امام کا وجود ضرور ہے ۔
ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ چونکہ امام کے ذمہ داری پیغمبر (ص) کے دین کی حفاظت اور آپکی شریعت کی نگہبانی ہے۔ اور لوگوں کو اس دین کی طرف بلانا ہے اس لیے ان کے معصوم ہونے کے متعلق بھی ہماری دلیل وہی ہے جو پیغمبروں کے معصوم ہونے کے لیے ہے
ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ امام بھی پیغمبرخدا ﷺ کی طرح اخلاقی کمالات اور صفات میں اپنے زمانے میں سب لوگوں سے اونچا ہوتا ہے وہ علم و کمال کے اس درجے پر ہیں کہ جہاں کوئی ان کا ہمسر نہیں ہے۔
امام مھدی :
حضرت امام مہدی ؑ کے ظاہر ہونے کی خوش خبری جو حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد میں سے ہیں اور جو آخری زمانے میں جب روئے زمین میں عدل و انصاف رائج کریں گے۔ آنحضرت ﷺ سے بہت سی متواتر روایات کے ذریعے سے منقول ہے اس لیے یہ عقیدہ شیعوں کے ساتھ مخصوص نہیں ، لیکن شیعوں کے اعتقاد کے مطابق امام ۲۵۵ ہجری میں اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی اور جو ابھی تک زندہ ہے، وہ امام حسن عسکری ؑ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ""محمدؑ"" ہے۔ جیساکہ دوسرے اسلامی فرقے کے بعض علماء اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہمعقیدہ ہیں لیکن دوسرے کی اکثریت ان کے پیدائش کے مسئلہ میں شیعوں کا مخالف ہیں اور یہ بات بھی واضح ہے کہ شیعہ مخالف عقیدہ رکھنے والوں کے پاس اپنے عقیدہ پر حدیث سے کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ جو احادیث آخری زمانے میں انکے ظہور کو بتاتی ہے ان میں یہی ظہور کا ہی لفظ آیا ہے پیدائش کا لفظ نہیں آیا ہے ۔ لہذا ایک طرف سے تو حضرت پیغمبر خدا ﷺ اور ان کے خاندان والوں نے ان کی پیدائش اور ظہور کی جو خبر دی ہے وہ ہم تک بہت سی متواتر اور قطعی روایتوں کے ذریعے سے پہنچی ہے دووسری طرف پیغمبر کی اور بھی احادیث ہے جو یہ بتاتی ہے کہ انکے جانشینوں کی تعداد بارہ ہیں اور یہ حدیث اہل سنت کے معتبر ترین کتابوں میں آئی ہے لیکن شیعوں کے عقیدہ پر ہی دلیل ہے کیونکہ شیعوں کے علاوہ کوئی اور اس حدیث کا واضح مصداق بیان کرنے سے عاجز ہے۔
اس سلسلے کی دوسری احادیث یہ بتاتی ہے کہ ہر زمانے میں امام اور حجت خدا کا ہونا ضروری ہے اور ہر زمانے میں لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کی بیعت اور اطاعت میں ہو، ان کی معرفت اطاعت اور بیعت کے بغیر مرے تو وہ جھالت کی موت مرے گا ۔ مَن مَاتَ وَلَم یَعرِف اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیتَۃَ الجَاھِلِیّۃِ :۔ جو شخص اپنے زمانے کے امام کو جانے بغیر مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
لہذا اگر امام زمان کی وجود کا عقیدہ نہ ماننے تو رسول خدا کی ان احادیث کا کوئی اور مصداق نہیں ہوگا ۔حضرت علی (ع) سب صحابہ سے افضل ہیں ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ:حضرت علی علیہ السلام سب صحابہ سے افضل ہیں ۔پیغمبر اکرم (ص) کے بعد اسلامی امت میں ان کا مقام سب سے بڑا ہے۔اس کے باوجود ان کے بارے میں ہر قسم کا غلو حرام ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی علیہ السلام کے لئے مقام الوہیت اور ربوبیت یا اس طرح کی کسی بات کے قائل ہیں وہ کافر اور مسلمانوں کے زمرے سے خارج ہیں۔ ہم ان کے عقائد سے بےزار ہیں ۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شیعوں کے ساتھ انکا ملتا جلتا نام اس سلسلے میں غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔حالانکہ علماء شیعہ امامیہ نے ہمیشہ اپنی کتابوں میں اس گروہ کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ امام بارہ ہیں:
ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام جن کی امامت کا صاف صاف اعلان ہوچکا ہے بارہ ہیں، انہیں رسول خداﷺ نے ان کے ناموں کے ساتھ متعارف کرایا اور بعد میں ہر پچھلے امام نے اپنے بعد میں آنے والے امام کو مندرجہ ذیل سلسلے میں مقرر فرمایا۔ نمبر شمار کنیت نام لقب سن پیدائش سن وفات ۱۔ ابوالحسن علی ابن ابیطالبؑ مرتضیٰ ۲۳ قبل از ہجرت ۴۰ ھ ۲۔ ابو محمد حسن بن علی ؑ مجتبیٰ ۲ ھ ۵۰ ھ ۳۔ ابو عبداللہ حسین بن علی ؑ سیدالشہداء ۳ ھ ۶۱ھ ۴۔ ابو محمد علی بن الحسین ؑ زین العابدین ۳۸ ھ ۹۵ ھ ۵۔ ابو جعفر محمد بن علی ؑ باقر ۵۷ ھ ۱۱۴ ھ ۶۔ ابوعبداللہ جعفر بن محمد ؑ صادق ۸۳ ھ ۱۴۸ ھ ۷۔ ابوابراہیم موسیٰ بن جعفر ؑ کاظم ۱۲۸ ھ ۱۸۳ ھ ۸۔ ابوالحسن علی بن موسیٰ ؑ رضا ۱۴۸ ھ ۲۰۳ ھ ۹۔ ابو جعفر محمد بن علی ؑ جواد ۱۹۵ ھ ۲۲۰ ھ ۱۰۔ ابوالحسن علی بن محمد ؑ ہادی ۲۱۲ ھ ۲۲۰ ھ ۱۱۔ ابو محمد حسن بن علی ؑ عسکری ۲۳۲ ھ ۲۶۰ ھ ۱۲۔ ابوالقاسم محمد بن حسن ؑ مہدی ۲۵۵ھ بارھویں امام ہمارے زمانے میں رہبر اور خدا کی حجت ہیں، خدا جلد ان کا ظہور فرمائے اور ان کے ظہور اور قیام کے ابتدائی حالات کو آسان بنائے تاکہ وہ زمین کو ظلم و ستم سے بھر جانے کے بعد انصاف سے بھر دیں۔
اماموں کے متعلق ہمارا نظریہ
ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ تمام ائمہ اطہار ؑ ہماری ہی طرح کے انسان تھے۔ ہمارے ہی جیسے فرائض اور ذمے داریاں وہ بھی رکھتے تھے البتہ فرق یہ ہے کہ وہ چونکہ ممتاز اور پاک بندے ہیں ، خدائے تعالیٰ نے ان کو اپنے مخصوص بندوں میں سے قرار دیا ہے اور ان کی ولایت کا بلند مقام، عزت اور غیر معمولی شخصیت عطا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ علم، زہد، بہادری ، بزرگی اور پاکیزگی وغیرہ میں انسانی فضائل کے بلند ترین مدارج پر فائز ہیں اور تمام اچھی اخلاقی خصوصیات کے اس طرح مالک میں ہیں کہ کوئی دوسرا انسان اسے راستے میں ان کے برابر نہیں ہے۔
ہم اس عقیدے کو جو غلات (جنہوں نے ائمہ اطہار ؑ کے متعلق جوش اور مبالغے سے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ حضرت علیؑ کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھتے ہی اور ان کے چند فرقے ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ شیعہ تو کجا سرے سے مسلمان ہی نہیں کہلاسکتے،
آئمہ اہل بیت کی پیروی :
ہمارا عقیدہ ہے کہ اماموں اہل بیت کا حکم خدا کا حکم ہے،ان کی فرماں برداری خدا کی فرماں برداری ہے ، ان کا کہنا ٹالنا پیغمبر ﷺ کے حکم کا نہ ماننا ہے لہذا پیغمبر ﷺ کے بعد خدائی احکام کا مرجع وہی ہیں ،پیغمبر اسلام ﷺ کی ایک حدیث اس بات کے ثابت کرنے کو کافی ہے کہ :۔ اِنِّی قَد تَرَکتُ فِیکُم مَآ اِن تَمَسَّکتُم بِہِ لَن تَضِلُّوا بَعدِی اَبَداً الثَقَلَینِ ،، کِتَابَ اللہِ ۔ وَعِترَتِی اَھلَ بَیتِی اَلاَ وَ اِنَّھُمَا لَن یَّتَفَرَّقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَییَّ الحَوضَ :۔ میں تمہارے درمیان دو ایسی قابل قدر چیزیں چھوڑ ے جاتا ہوں کہ اگر تم ان کا دامن پکڑے رہو گے تو میرے بعد ہرگز نہیں بھٹکو گے ۔ ۔ خدا کی کتاب (قرآن) اور میری اولاد اور میرے اہلبیت ہیں، دیکھو یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے ۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں گے [1]۔ اسی لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلامی تعلیمات حاصل کرنے میں اہلبیت ؑ کی طرف سے رجوع کرنا چاہیے ۔ جو کوئی ان کے احکام سے منہ موڑتا ہے وہ گمراہی کی دلدلوں میں دھنس جاتا ہے اور تباہی سے نہیں بچتا
معاد اور قیامت:
ہمارے عقیدے کے مطابق خدائے بزرگ انسان کو مرنے کے بعد قیامت کے دن نیک لوگو کو جزا اور انعام دے گا اور گنہگاروں کو سزا دے گا، ہمارا عقیدہ ہے کہ نہ صرف انسان کی روح بلکہ جسم اور روح دونوں ہی دوسری دنیا میں جائیں گے اور ایک نئی زندگی شروع ہوگی۔کیونکہ اس دنیا میں جو کچھ انجام پایا تھا وہ اسی روح اور جسم کے ذریعہ انجام پایا تھا، لہذا سزا اور جزا بھی دونوں کو ملنی چاہیے۔ : ۔ عالم برزخ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک تیسری دنیا بھی موجود ہے جس کا نام” عالم برزخ “ہے۔ موت کے بعد اور قیامت تک تمام انسانوںکی روحیں اس میں ٹھہریںگی
۔ اہل بیت سے محبت :
خداوند عالم فرماتا ہے :۔ قُل لاَّ اَسئَلُکُم عَلَیہِ اَجراً اِلاَّ المَوَدَّۃَ فِی القُربیٰ :۔(اے پیغمبرﷺ ! لوگوں سے) کہہ دو کہ میں تم سے (لگاتا ہدایت کے بدلے میں) صرف یہ معاوضہ چاہتا ہوں کہ تم میرے قریب ترین عزیزوں سے محبت کرو۔ (سورہ شوری ۔آیت ۲۳) ہمارے عقیدے کی رو سے اہلبیت رسول ﷺ کی پیروی واجب ہونے کے علاوہ ہر مسلمان پر اہلبیت ؑ کی محبت کا واجب ہونا تو اسلام کی ضروریات میں سے ہے ان کی محبت خدا کی محبت ہے ان سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے چنانچہ اہلبیت پیغمبر ؑ کی دشمنی منافق ہونے کی نشانی ہے اور ان کی محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے دشمنی خد اور پیغمبر ﷺ سے دشمنی ہے۔لہذا ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی عقلممند انسان ایک ہی وقت میں اہل بیت اور انکے دشمنوں سے محبت اور دفاع نہیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ تناقض اور تضاد کا شکار ہو ، کیونکہ یہ نہایت نامعقول بات ہے کہ مثلا جنگ صفین میں کوئی یہ دعوی کریے کہ معاویہ کے لشکر میں بھی رہا ہو اور حضرت علی مرتضی کے لشکر میں بھی ۔
اہل بیت سے منقول علوم اور شیعہ معتبر کتابیں:
چونکہ متواتر روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) نے ہمیں اہل بیت کے متعلق حکم دیا ہے کہ ہم قرآن و اہل بیت کا دامن نہ چھوڑیں تاکہ ہم ہدایت پائیں، اور چونکہ متعدد اور معتبر روایات کے مطابق آئمّہ اہل بیت (ع) نے فرمایا ہے کہ ان کے فرامین رسول اللہ (ص) کی احادیث ہیں جو وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں ،بنابر ایں واضح ہے کہ حقیقت میں ان کے فرامین پیغمبر (ص) کی روایات ہیں ۔
بہر حال قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اسلام (ص)کی احادیث کے بعد ہماری نظر میں بارہ اماموں (ع) کی احادیث معتبر ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ آئمہ علیھم السلام سے ان احادیث کا صدور معتبر طریقہ سے ثابت ہو۔
حدیث کے سلسلہ میں ہمارے پاس کافی،تحذیب،استبصار، من لا ےحضرہ الفقیہ اور دوسری معتبر کتابیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہر روایت ہماری نظر میں قابل قبول ہو ، بلکہ ہمارے نزدیک وہ روایت قابل قبول ہے،جس کی سند بھی معتبر ہو، اور ابتداء سے لے کر آج تک ہمارے بڑے بڑے علماء اور فقہاء نے اس پر عمل کیا ہو کیونکہ ممکن ہے کہ کسی روایت کی سند معتبر ہو لیکن اس میں کچھ دیگر نقائص ہونے کی وجہ سے علماء نے اس سے نظر انداز کئے ہوں اس قسم کی روایت کو ہم ”معرض عنھا“ کہتے ہیں ۔ یہ ہماری نظر میں معتبر نہیں ۔لہذا کسی روایت کا شیعہ معتبر کتابوں میں ہونے کو بہانا بناکر اسے شیعوں کا عقیدہ کہنا صحیح نہیں ہے
اصحاب پیغمبر [ص] :
ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر (ص) کے اصحاب میں بڑے عظیم،جاں نثار اور عظمت والے لوگ تھے ۔قرآن و حدیث نے انکی فضیلت میں بہت کچھ بیان کیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تمام اصحاب پیغمبر (ص) کو معصوم سمجھنے لگیں اور کسی استثناء کے بغیر ان کے اعمال کو درست قرار دیں کیونکہ جہاں اصحاب کی شان اور فضیلت کو بیان کرنے میں آیات اور احادیث موجود ہیں وہاں بعض اصحاب کی مذمت اور سرزنش میں بھی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں ۔
ہم پیغمبر کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں اصحاب کے کاموں کو قرآن و سنت اور عقل کے مطابق پرکھنے کے قائل ہیں لہذا
ان کے درمیان رونما ہونے والے نزاع اور جنگوں میں (مثلا جنگ جمل و صفین) میں اجتہاد کا سہارا لیکر اس قدر بے تہاشا خونریزی کی توجیہ کرنے کے مخالف ہیں ہم اس سلسلے میں متضاد عقیدہ بنانے کے بجاے قرآن اور سنت کے ذریعہ سے ان میں اہل حق اور باطل کو تشخیص دینے کے قائل ہیں ، ان کاموں میں آنکھیں بند کر کے سب کے اہل حق متضاد عقیدہ کو اپنانا ہے
ہم واضح طور پر کہیں گے کہ ہمارے عقیدہ کی رو سے تمام انسانوں ،یہاں تک کہ پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کی اچھائی برائی کا سار و مدار انکے اعمال پر ہے، لھٰذا ہمیں ان کے اعمال سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یوں ہم ان سب کے بارے میں ایک منطقی موقف اختیار کرتے ہوئے
قرآن مجید :
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآ ن وحی الہٰی ہے جو پیغمبر اکرم ﷺ کی زبان مبارک پر جاری ہوئی اور اس میں ہر اس چیز کا بیان موجود ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے ضروری ہے یہ پیغام پیغمبر خدا ﷺ کا جادوانی معجزہ ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے وہی قرآن ہے جو آنحضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھا ، جو کوئی اس کے علاوہ کوئی اور بات کہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ، غلط سوچتا ہے یا دھوکا کھا گیا ہے ۔
ائمہ اہل بیت سے اس سلسلے میں بہت سے احادیث نقل ہوئی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اسکی آیات میں غور فکر کرنا افضل ترین عبادتوں میں سے ہے اسی لئے شیعوں کا کوئی گھر، مدرسہ اور مسجد ایسا نہیں جس میں موجودہ قرآن نہ ہو ، کوئی شیعہ ایسا نہیں جو موجودہ قرآن کو واقعی قرآن ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو ۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی عزت اور اس کی توقیر گفتگو اور کردار دونوں کے ذریعے سے کرنا واجب ہے۔ قرآن کے ایک لفظ کو بھی نجس نہیں کیا جساکتا اور جس نے اپنے آپ کو (وضو وغیرہ کرکے) پا ک نہیں کیا ہے اسے اپنے جسم کا کوئی حصہ قرآن کے الفاظ یا حروف سے نہیں چھونا چاہیے جو قرآن کی بے عزتی کرتا ہو اور قرآن کی پاکیزگی اور اس کے کلام الہٰی ہونے کے قائل نہیں ہو وہ اس کا سزاوار ہوجاتا ہے کہ خداوند اسے دین اسلام سے خارج کردے۔ سنّت نبوی[ص] :
ہمارہ عقیدہ ہے کہ کوئی بھی ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے کہہ کہ احادیث اور سنّت نبوی کہ جو تفسیر و تبیین قرآن اور تعلیمات اسلامی سے مربوط ہیں جو اصول و فروع دین سے متعلق ہیں، انھیں نظرانداز نہیں کر سکتا لہذا جو لوگ معتبر طرق سے ثابت ہونے والی سنّت نبوی کی پرواہ نہیں کرتے وہ ایسا ہے جس نے قرآن مجید کو نظر انداز کیا ہو ۔
سنت آئمہ اھل بیت [ص]:
ہمارا عقیدہ ہے کہ احادیث آیمہ علیہم السلام بھی حکم پیغمبر کی طرح واجب الاطاعت ہیں اھل بیت اپنی تمام حدیثوں کو نبی اکرم سے نقل کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے باپ دادا سے ہم تک پہونچی ہے ۔لہذا اگر سلسلہ سند معتبر طریقہ سے کسی ائمہ اہل بیت تک منتہی ہو تو ہم اسے قبول کرتے ہیں ہمارے لیے گوایا ایسا ہے کہ خود رسول خدا سے یہ روایت نقل ہوئی ہو
۔جبر و اختیار ؛
حضرت امام جعفر صادق ؑ نے کا یہ مشہور جملہ ہے ؛
لاَجَبرَ وَلاَ تَفوِیضَ وَلٰکِن اَمرٌ بَینَ الاَمرَینِ یعنی کام میں نہ جبر ہے نہ تقویض بلکہ حقیقت ان دونوں کے بیچ میں ہے،
خدا نے ہمیں ہمارے کاموں کے لیے مجبور نہیں کیا ہے ۔ وہ افعال جو انسانوں سے بحیثیت فاعل مختار سر زد ہوتے ہیں بندہ کی مشیت سے ، مگر بندہ کی مشیت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ کی مشیت نہ ہو۔ تقیہ اور اس کا فلسفہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ:جب بھی انسان متعصب ،ہٹ دھرم اور غیر معقول افراد کے درمیان اس طرح پھنس جائے کہ ان کے درمیان اپنے عقیدہ کا اظہار اس کے لئے جانی یا مالی خطرہ کا باعث ہو اور عقیدہ کے اظہارکا کوئی خاص فائدہ بھی نہ ہو تو وہاں اس کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے عقیدہ کا اظہار نہ کرے اور نہ اپنی جان گنوائے۔اس عمل کا نام” تقیہ “ ہے۔ہم نے یہ بات قرآن مجید کی دو آیتوں اور عقلی دلیل سے اخذ کی ہے۔ قرآن مومن آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے ؛ آل فرعون میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپاتا تھا ۔(سورئہ مومن ،آیت ۲۸)
جیساکہ جناب عمار یاسر کی داستان اس سلسلے میں مشہور ہے کہ جب آپ کو دشمن نے پکڑ لیا اور جب آپ کو جان کا خطرہ لاحق ہوا تو آپ نے جان بچانے کے لئے باطل کا زبان سے اظہار کیا جبکہ آپ دل میں ایمان رکھتے تھے ، خدا وند متعال نے اس واقعہ کو بیان کر کے جناب عمار کے اس کام کی تائید کیا ۔لہذا تقیہ میں دشمن کی طرف سے آنے والے شر سے بچنے کی خاطر حق کے خلاف بات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایمان کو دشمن سے چھپاتا ہے ،چاہے دشمن کافر ہو یا غیر کافر، کیونکہ یہاں پر اہم دشمن کے شر سے محفوط رہنا ہے،مد مقابل کافر ہونے کی وجہ سے تقیہ کرنا مراد نہیں ہے ۔
خلاصہ : دشمن کے شر سے بچنے کے لئے ظاہری طور پر کفر یا باطل کا اظہار + ایمان باطنی = تقیہ ۔تقیہ اور جھوٹ میں فرق ،جھوٹ میں ،کسی دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کی شرط نہیں ہوتی بلکہ کسی معمولی فائدہ کی حصول یا خطرہ کو ڈالنے کے لئے خلاف واقع بات کی جاتی ہے ، چاہئے یہ واقع حق ہو یا باطل، لیکن تقیہ میں حق اور ایمان کو چھپایا جاتا ہے ۔
تقیہ اور منافقت میں فرق ؛ منافقت میں کفر اور باطل کو چھپایا جاتا ہے ۔ برخلاف تقیہ کے جس میں ایمان اور حق کو چھپایا جاتا ہے ۔ کفر باطنی+ ایمان ظاہری = نفاق [سورہ بقرہ آیہ 14]
حقیقت بَدَاء :۔
جب لفظ بداء انسان کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب انسان کا کسی چیز سے جاھل ہونا ہے اس معنی میں بداء خدائے پاک کے لیے محال ہے شیعہ اثنا عشری اس معنی کو خدا سے نسبت نہیں دیتے ۔ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا ہے : جو شخص یہ گمان کرے کہ خدا نے کسی چیز کے بارے میں پچھتا کر اپنا نظریہ بدل لیا ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے ۔ (اعتقادات، صدوقؒ )
شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ''بدائ'' کہا جاتا ہے مثلاً حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک دلہن کے بارے میں شب زفاف میں مرجائے کی خبر دی مگر آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے کے لیے صدقہ نہ دینا شرط ہے چنانچہ اتفاقاً دلہن کی ماں نے خیرات دے دی اور وہ بچ گئی اور یہی بداء ہے۔۔۔ اگر بداء نہ تو دعا و تصدق ، وغیرہ کے کوئی معنی نہیں ہیں
شفاعت:
شفاعت انبیاء و ائمہ و ملائکہ، اللہ کے اذن اور حکم سے ہے لہذا عین توحید ہے ۔مامن شفیع الا من بعد اذنہ ۔۔ کوئی بھی شفاعت کرنے والا خدا کے اذن کے بغیر شفاعت نہیں کرسکتا۔(۷)
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء الھی اور ان میں سب سے افضل و برتر پیغمبر اسلام (ﷺ) مقام شفاعت رکھتے ہیں اور گناہ گاروں کے خاص گروہوں کے لیے خداوند عالم سے شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت بھی اذن و اجازہ پروردگار کے ساتھ ہوگی:ما من شفیع الا من ہو اذنہ۔ کوئی بھی شفاعت نہیں کرسکتا مگر وہ جسے اللہ اذن دے گا۔(1) : ۔
مسئلہ توسل
ہمارا عقیدہ ہے کہ توسل کا مسئلہ بھی شفاعت کی طرح ہے۔ یہ مسئلہ مادی و معنوی مشکل میں بھنسے ہوئے لوگوں کو امید اور اجازت دیتاہے کہ اولیاء الھی کے دامن کا سہارا لیں تا کہ اللہ تعالی کے اذن سے وہ ان کی مشکلات کو حل کرا دیں۔ یعنی یہ کہ ایک طرف تو وہ خود اللہ کی بارگاہ میں حضور پیدا کریں اور دوسری طرف اولیاء الھی کو اپنا وسیلہ قرار دیں: و لو انھم اذ ظلموا انفسھم جاؤک فاستغفروا اللہ و استغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما۔ اگر وہ لوگ خود پر ظلم کرنے اور گناہ کے مرتکب ہونے کے بعد، آپ کے پاس آتے اور اللہ سے طلب بخشش کرتے اور رسول خدا (ص) بھی ان کے لیے طلب غفران کرتے تو خداوند عالم کو معاف کرنے والا اور مھربان پاتے۔
ہم اولیاء خدا کو مستقل اور اذن خداوند سے بے نیاز نہیں سمجھنا چاہیے اس لیے کہ ایسا کرنا مشرک و کفر سبب بن جائے گا،اور ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ توسل، اولیاء الھی کی عبادت میں تبدیل ہوجائے، ایسا کرنا بھی کفر و شرک ہے ۔ انبیاء اورآئمہ (ع)کے مزاروں کی زیارت
ہمارا عقیدہ ہے کہ:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،آئمہ اہل بیت علیہم السلام ،عظیم علماء ،دانشمندوں اور راہ حق کے شہیدوں کے مزارات کی زیارت سنت موکدہ ہے۔اس سلسلے میں نبی اکرم (ص) اور ائمہ اہل بیت کی بے شمار روایات موجود ہیں [2]
زیارت کو غیر خدا کی عبادت کہنا کسی صورت میں درست نہیں، زیارت اور عبادت کے درمیان فرق ہےعبادت و پرستش خدا کے لئے مخصوص ہے جبکہ زیارت کا مقصد بزرگان دین کا احترام ،ان کی یاد کو زندہ رکھنا ہے اور یہ کام نماز روزہ اور دوسرے دینی امور کی طرح ایک نیک عمل ہے
خاک پر سجدہ:
ہمارا عقیدہ ہے کہ :مٹی یا زمین کے دوسرے اجزاء پر سجدہ کرنا چاہئے یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہوں اور کھائی یا پہنی نہ جاتی ہو ۔ ہم مٹی پر سجدہ کرنے کو سب چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں ، نبی اکرم (ص) کی یہ مشہور حدیث ہے۔-”جعلت لی الارض مسجدا و طھورا“ہم یہاں لفط مسجد کو ”سجدہ کی جگہ“کے معنی میں لیتے ہیں اس کے علاوہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی روایات منقول ہیں جن میں مٹی اور پتھر وغیرہ کو سجدہ کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔
مراسم عزا داری :
ہمارا عقیدہ ہے کہ شہدائے اسلام بالخصوص شہیدان کربلا کی عزاداری اور ان کا سوگ منانے کا مقصد ان کی یاد کو زندہ رکھنا اور اسلام کی راہ میں ان کی قربانیوں کا پرچار ہے۔ ہم اس کام کو انجام دینا کا ایک اہم ہدف ، خاندان پیامبر سے اظہار عقیدت اور ان کے دشمنوں اور ان کے قاتلوں سے اظہار برائت کرنا ہے ۔
ہم بالخصوص عاشور کے ایام (محرم کے پہلے دس دن )میں امام حسین علیہ السلام کی زندگی اور ان کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ،ان کے اہداف پر بحث کرتے ہیں اور ان کی پاک روحوں پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔
شہدائے اسلام خاص کر شہدائے کربلا کی یاد تازہ کرنے سے ہمارے اندر عقیدہ اور ایمان کی راہ میں شہادت ،ایثار ،شجاعت اور فداکاری کا جزبہ ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ یہ ہمیں عذت سے زندہ رہنے اور ظلم کے آگے سر نہ جھکانے کا درس دیتا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ :یہ ایک عظیم معنوی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اسلام ،ایمان اور تقویٰ کی بقا کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
پانچ وقت کی نماز :
ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز فرض ہے ، نماز صبح ، نمازظھر ،عصر، مغرب و عشاء ، اگرچہ نمازظھر و عصر کو ایک ہی وقت میں پڑھنا جائز ہے اسی طرح مغرب و عشاء کو بھی ایک کے بعد ایک ہی وقت میں پڑھنا جائز ہے ، لیکن انہیں الگ الگ وقت میں پڑھنا افضل اور بہتر ہے) ہمارا عقیدہ ہے کہ خاص کر موجودہ دور پیغمبر اسلام (ص) نے یہ جو اجازت عطا فرمائی ہے[3] اس سے استفادہ کرتے ہوئے نماز کو زیادہ پابندی سے ادا کیا جا سکتا ہے دیگر فروعی مسائل: اسی طرح ہم روزہ ،حج ، زکات، جھاد ،وغیرہ کا عقیدہ رکھتے ہیں جن کی تفصیل ہماری معتبر میں ہیں ۔۔۔۔
[1] ۔(نوٹ، یہ حدیث تغیر الفاظ کے ساتھ بہت سی معتبر کتب میں مذکورہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں: صحیح ترمذی جلد ۵ صفحہ ۳۲۸ مطبوعہ دارالفکر بیروت، جامع الاصول ، ابن اثیرجلد ۱ صفحہ ۱۸۷ مطبوعہ مصر، الفتح الکبیر، نبہانی جلد ۱ صفحہ ۵۰۳ مطبوعہ دارالکتب العربیہ ، اسدالغابہ، ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۱۲ مطبوعہ مصر آفسٹ ، تفسیر ابن کثیر جلد ۴ صفحہ ۱۱۳ مطبوعہ احیاء الکتب العربیہ مصر، مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۱۸۲، ۱۸۹ مطبوعہ میمنیہ مصر ، جامع الصغیر سیوطی جلد ۱ صفحہ ۳۵۳ مطبوعہ مصر، کنزالعمال متقی جلد ۱ صفحہ ۱۵۴ طبع دوم، مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۴۸ مطبوعہ حیدر آباد)
[2] ۔ ان روایات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے الغدیر ،جلد۵ ،صفحہ ۹۳تا ۲۰۷ کی طرف رجوع کریں
[3] ۔ سنن ترمزی ،جلد ا صفحہ ۳۵۴ باب ۱۳۸ اور سنن بیہقی،جلد ۳ صفحہ ۶۷۔)
Add new comment