ہندوستان میں ورود اسلام اور امام علیؑ
یہ ظاہر ہے کہ حضرت رسولِ کریم ﷺ کے بعد اسلام کی ساری ذمہ داری،امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب ؑ پر تھی۔جس طرح سرکار دوعالم اپنے عہد نبوت میں تابہ حیات ظاہری اسلام کی تبلیغ کرتے رہے اور اسے فروغ دینے میں تن من دھن کی بازی لگائے رہے۔اسی طرح ان کے بعد امیرالمومنین ؑ نے بھی اسلام کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے جہد مسلسل اور سعی پیہم کی اور کسی وقت بھی اس کی تبلیغ سے غفلت نہیں برتی۔یہ اور بات ہے کہ غصب اقتدار کی وجہ سے دائرہ عمل وسیع نہ ہو سکا اور حلقہ اثر محدود ہو کر رہ گیا۔تاہم فریضہ کی ادائیگی امامت کی خاموش فضا میں جاری رہی۔یہاں تک کہ اقتدار قدموں میں آیا اور منہاج نبوت پر کام شروع ہو گیا۔تبلیغ کے محدود حلقے وسیع ہوگئے۔امامت خلامت کے دوش بدوش گئے بڑھی اور اسلام کی روشنی ممالک غیر میں پہنچنے لگی۔ہندوستان جو کفر والحاد،اور غیراللہ کی پرستش کامرکز اور ملجاو ماویٰ تھا،امیرالمومنین ؑ نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ وہاں بھی اسلام کی روشنی پہنچانے کا عزم محکم کرلیااور تھوڑی سی جدوجہدی کے بعد وہاں اسلام کی کرن پہنچادی اور زمین ہند کو اسلامی تابندگی سے منور کر دیا،امام المورخین ابومحمد عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب”المعار ف کے ص۹۵ طبع مصر ۱۹۳۴ءء میں لکھتے ہیں ”اِنَّمَا بَلَغَ الاسلام فی السندھ اولاََ فی زمنِ اَمیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کمایشھد علیہ وفائع کثیرة“۔اسلام سندہ(ہندوستان میں سب سے پہلے امیرا لمومنین علی بن ابی طالب ؑ کے عہد میں پہنچا۔اس پر بہت سے واقعات شاہد ہیں۔چچ نامہ قلمی ص ۳۴میں ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے ۳۸ئھج میں ناظربن وعوراء کو سرحدات سندھ کی دیکھ بھال کے لیے روانہ کیا۔یہ روانگی بظاہر اپنے مقصد کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر تھی اور یہ معلوم کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں کیونکہ داخلہ ہوسکتا ہے،اسی مقصد کے لیے اس سے قبل عہد عثمانی میں ،عبداللہ بن عامر ابن کریز کومقرر کیا گیا تھا۔مورخ بلاذری لکھتے ہیں کہ وہ ”ثغرالہند“کی طرف دریائی مہم پر روانہ ہوئے۔غرض یہ تھی کہ اس ملک کے حالات سے آگاہی حاصل ہو۔عبداللہ بن عامرنے ”حکیم بن جبلة العددی کی سرداری میں ایک دستہ سمندر کے رستے روانہ کیا۔وہ بلوچستان اور سندھ کے مشرقی علاقہ کو دیکھ کے واپس آئے تو عبداللہ نے ان کو عثمان بن عفان کے پاس بھیج دیا کہ جو کچھ دیکھا ہے جا کر سنادیں۔عثمان نے پوچھا اس ملک کا کیا حال ہے۔کہا،میں نے اس ملک کو چل پھر کے اچھی طرح دیکھ لیا ہے۔عثمان نے کہا مجھ سے اس کی کیفیت بیان کرو۔”حکیم بن جبلہ“نے کہا کہ ماء ھاوشل ثمرھاوقل،ولصھابطل،ان قل الجیش فیھاضاعواوان کثروا جاعوا“۔وہاں پانی کم پھل ردی،چور بے باک،لشکرکم ہوتو ضائع جائے گا بہت ہو تو بھوکوں مرے گا۔یہ سن کر انھوں نے کہا“خبردے رہے ہو یاسجع کہہ رہے ہو،بولے اے امیر خبر دے رہا ہوں یہ سن کر انھوں نے لشکر کشی کا خیال ترک کر دیا۔۶۹
حضرت عثمان جن کا مقصد ملک پر قبضہ کرنااور فتوحات کی فہرست بڑھانا تھا۔وہاں کے حالات سن کر خاموش ہوگئے اور سندھ وغیرہ کی طرف بڑھنے کا خیال ترک کر دیا۔لیکن حضرت امیرالمومنین علیہ السلام جن کا مقصد فتوحات کی فہرست مرتب کرنا نہ تھا۔بلکہ دین اسلام پھیلانا تھا۔انھوں نے ناساز گار حالات کے باوجود آگے بڑھنے کا عزم بالجزم کر لیااور ۳۹ئھج میں سندھ پر قابو حاصل کرکے ہندوستان میں تبلیغ اسلام کی راہ ہموار کردی۔
علامہ ابوالظفرالندوی تحریر فرماتے ہیں کہ ۳۹ئھ میں حضرت علی علیہ السلام نے حارث بن مرہ عبدی کو سندھ پر قابو حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔”ففتح السندہ فی ذالک السنہ اسی سن میں سندھ فتح ہوا۔یہ حضرت علی کا کارنامہ ہے کہ فتح سندھ،علی ید علی بن ابی طالب واقام الحکومة الاسلامیةسندھ علی بن ابی طالب ؑ کے ہاتھوں فتح ہوا۔اور حکومت اسلامیہ (پہلے پہل)انھیں کے ہاتھوں قائم ہوئی۔۷۰
علامہ بلاذری المتوفی ۲۷۹ئھ لکھتے ہیں۔”آخر ۳۸ئھج یا اول ۳۹ئھج میں حارث بن مرہ عبدی نے علی بن ابی طالب ؑ سے اجازت لے کر بحیثیت مطوع سرحد ہندپر حملہ کیا،فتحیاب ہوئے کثیر غنیمت ہاتھ آئی،صرف لونڈی غلام ہی اتنے تھے کہ ایک دن میں ایک ہزار تقسیم کئے گئے۔حارث اوران کے اکثر اصحاب ارض قیقان میں کام آئے۔صرف چند زندہ بچے۔یہ ۴۲ئھج کا واقعہ ہے۔۷۱
مورخ ذاکر حسین کا بیان ہے کہ ”صاحب روضةالصفالکھتے ہیں کہ ہندوستان میں قاسم کی ماتحتی میں ایک معتدبہ فوج روانہ کی گئی جو ۳۸ئھ کے اوائل میں سندھ کی فتوحات میں مصروف ہوئی۔اس نے چند مقامات سندھ پر قبضہ کیا۔قاسم کے بعد ۳۸ئھ کے اخیر میں (یا ۳۹ء کے شروع میں )حارث بن مرہ عبدی ایک دوسری فوج کے ساتھ دارالخلافہ سے روانہ کیا گیاا ور اس نے ان ممالک میں بہت سے ممالک فتح کئے۔بہت سے ہندوگرفتار کئے گئے اور کثیر مالِ غنیمت ہاتھ آیاجوبراہِ راست دارالخلافہ کو روانہ کیا گیا۔اور ایک دن میں ایک ہزار لونڈی غلام غنیمت کے مال میں تقسیم کئے گئے،حارث بن مرہ مدت تک ان بلاد پر قابض رہے۔۷۲
بادشاہ شنسب بن حریق کا دستِ امیرالمومنین پر ایمان لانا
ہندوستان کے لیے فتح سندھ کے بعد راہ کا ہموار ہوجانا یقینی تھا اسی لیے سندھ فتح کیا گیا۔فتح سندھ کے بعد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے اسلامی جدوجہدکے آثار تاریخ میں موجود ہیں۔”مورخ ملامحمد قاسم”ہندوشاہ“فرشتہ زیرعنوان“ذکر بنائے شہر دہلی لکھتے ہیں کہ ۳۰۷ئع میں دادپتہ راجپوت نے جو کہ طائفہ توران سے تعلق رکھتا تھا۔قصبہ اندرپت کے پہلو میں دہلی کی بنیاد رکھی تھی۔پھر ان کے آٹھ افراد نے اس پر حکومت کی۔پھر زوال حکومت توران کے بعد طائفہ چوھان کی حکومت قائم ہوئی۔اس طائفہ کے چھ افراد نے حکومت کی۔اس کے بعد سلطان شہاب الدین غوری نے ان کے آخری بادشاہ پتھوراکوقتل کر دیا پھر امرحکومت ۵۷۷ء میں ملوک غور کے اقتدار میں آگیا۔پھر ملوک غور کے آخری فرمانرواضحاک تازی پر بادشاہ فریدون کا غلبہ ہو گیا۔اور ضحاک کے دوپوتے یانواسے،سوری اور سام اس کے ہمراہ ہو گئے۔ایک عرصہ کے بعد ان دونوں کو فریدوں کی طرف سے اپنی تباہی کا وہم پیدا ہو گیا۔چنانچہ یہ دونوں نہاوند چلے گئے۔اور وہاں حکومت قائم کر لی اور فریدوں سے مقابلہ شروع کر دیا،بالآخر فریدوں غالب رہااوران لوگوں نے خراج قبول کرکے حکومت قائم رکھی ،اور ذریت ضحاک اس مملکت میں یکے بعد دیگرے بزرگ قبیلہ یعنی بادشاہ ہوتا رہا۔
تابوقتِ اسلام نوبت بہ شنسب رسیدواودرزمانِ امیرالمومنین اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب علیہ السلام بود وبردست آنحضرت ایمان آور دہ۔منشور حکومت غوربخط مبارک شاہ ولایت پناہ یافت
یہاں تک کہ دوراسلام آگیااور نوبت شاہی شنسب تک آپہنچی۔اس کا زمانہ عہدامیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب میں آیا۔اس نے حضرت علی بن ابی طالب میں آیا۔اس نے ہوااور حکومت غور کا منشور حضرت شا ہ ولایت پناہ کے ہاتھوں بناتاریخ فرشتہ جلدصحفہ۵۴۱ مقالہ دوم ذکر۔بنائے دہلی واحوال ملوک غور ،طبع نولکشور۱۲۸۱ء۔
یہی کچھ طبقاتِ ناصری۔”مصنفہ ابوعمر منہاج الدین عثمان بن معراج الدین طبع کلکتہ ۱۸۶۴ئذکر سلاطین شنسانیہ کے طبقہ نمبرصحفہ۷ ۲۹میں بھی ہے۔تاریخ اسلام ذاکرحسین کے جلد۳ص۲۲۲میں ہے کہ شنسب ،ترکی النسل“۔تھا۔
مورخ فرشتہ نے شاہ شنسب کا نسب نامہ یوں تحریر کیاہے۔شنسب بن حریق بن نھیق ابن میسی بن وزن بن حسین بن بہرام بن حجش بن حسن بن ابراہیم بن سعد بن اسدبن شداد بن ضحاک الخ ص۵۴
اولادِ شنسب کی عمل بنی امیہ سے بیزاری
مورخ ملامحمد قاسم فرشتہ،لکھتے ہیں کہ جس زمانے میں بنی امیہ نے یہ اندھیرگردی کر رکھی تھی کہ اہل بیت رسولِ خدا کو تمام ممالک اسلامیہ میں منبروں پر برا بھلا کہا جاتا تھا۔اور وہ حکم (بظاہر)یہاں بھی پہنچا ہوا تھا۔مگر غور میں”اہل غور مرتکب آن امرشنیع نشدند“اہل غور نے اس امرنامعقول کا ارتکاب نہیں کیا تھا(اور وہ اس عمل میں بنی امیہ سے بیزار تھے)۷۳
اولادِ شنسب کی دشمنانِ آلِ محمد سے جنگ
اسی تاریخ فرشتہ کے ۵۴میں ہے کہ جب ابومسلم مروزی نے بادشاہِ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس نے اولاد شنسب سے مدد چاہی تھی تو ان لوگوں نے ”درقتل اعدائے اہلبیت تقصیرے نہ کرد“۔دشمنانِ آل محمد کے قتل کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔
ان تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ذریعہ سے اسلام کے ساتھ ساتھ شیعیت بھی ہندوستان میں پہنچی تھی کیونکہ اولادِ شنسب کا طرز عمل شیعیت کاآئینہ دار ہے۔
حضرت امام حسین ؑ کی راہ کوفہ سے سندھ جانے کی خواہش
مورخ ابومحمد عبداللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری المتوفی ۲۷۶ھ تحریر فرماتے ہیں کہ”ان الحسین لماسدہ حرفی طریق کوفہ قال علیہ السلام ان لستم براضین بورود العراق فاترکونی لاذھب الی السندہ،جب حضرت امام حسین علیہ السلام کو حرنے کو فہ کے راستے میں روکا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم اگر میرے عراق میں آنے کو پسند نہیں کرتے تو مجھے چھوڑدو کہ میں سندھ میں چلا جاؤں۔اس کے بعد ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔ویعلمہ منہ ‘ان الاسلام قدبلغ الیہ من قبل۔”امام حسین ؑ کے اس فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس وقت سے پہلے سندھ میں پہنچ چکا تھا۔۷۴
حضرت امام زین العابدین ؑ کی ایک زوجہ کا سندھی ہونا
اسلام کا قدیم ترین مورخ ابن قتیبہ اپنی کتاب معارف کے ص ۷۳پر لکھتا ہے،کانت زوجة لامام زین العابدین سندیة وتولدتھازیدالشھید امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک بیوی سندھی تھی۔اور اس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے تھے۔پھر اسی کتاب کے ص ۹۵پر لکھتا ہے امازید بن علی بن الحسین فکان بکنی ابالحسن وامہ سندیة“زیدبن علی بن الحسین کی کنیت ابوالحسن تھی اور ان کی ماں سندھی تھیں۔ایک اور جگہ لکھتا ہے،”روی ان التی وھبت زین العابدین کا نت سندیة“مروی ہے جو بیوی امام زین العابدین ؑ کو دی گئی وہ سندھی تھی۔عبدالرزاق لکھتے ہیں کہ زید شہید امام زین العابدین ؑ کی جس بیوی سے پیدا ہوئے وہ سندھی تھی۔۷۵
ان جملہ حالات پر نظرکرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سندھ(ہندوستان)میں دین اسلام حضرت علی ؑ کے ذریعہ سے پہنچاا ور اسی کے ساتھ ساتھ شیعیت کی بھی بنیاد پڑی تھی۔نیز یہ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو سندھ کے مسلمانون پر بھروسہ تھا۔وہ کوفہ وشام کے مسلمانوں پر سندھ کے مسلمانوں کو ترجیح دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے راہ کوفہ میں ابن زیاد اور یزید بن معاویہ کے لشکر کے سردار،حربن یزید ریاحی(جوبعد میں حضرت امام حسین ؑ کے قدموں میں شہید ہوکر راہی جنت ہوئے تھے)سے یہ فرمایا تھا کہ مجھے سندھ چلے جانے دو۔اس کے علاوہ آپ کے فرزندامام زین العابدین ؑ نے ایک بیوی سندھ کی اپنے پاس رکھی تھی جس سے حضرت زید شہید پیدا ہوئے تھے۔یہ تمام امور اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ آلِ محمد کو علاقہ سندھ سے دلچسپی تھی اور وہ اس کے باشندوں کو اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان پر پورا بھروسہ کرتے تھے۔
Add new comment