جنگ صفین ۳۷۔۳۶ اور امام علیؑ
صفین نام ہے اس مقام کا جو فرات کے غربی جانب برقہ اور بالس کے درمیان واقع ہے۔۶۵اسی جگہ امیرالمومنین اورمعاویہ میں زبردست جنگ ہوئی تھی۔اس جنگ کے متعلق علماء ومورخین کا بیان ہے کہ بانی جنگ جمل عائشہ کی مانند معاویہ بھی لوگوں کو قتل عثمان کے فرضی افسانہ کے حوالہ سے حضرت علی ؑ کے خلاف بھڑ کاتا اور ابھارتا تھا۔جنگ جمل کے بعد حضرت علی ؑ کے شام پر مقرر کئے ہوئے حاکم سہل ابن حنیف نے کوفہ آکر حضرت کو خبر دی کہ معاویہ نے اعلان بغاوت کر دیاہے،اور عثمان کی کٹی ہوئی انگلیوں اور خون آلود کرتا لوگوں کو دکھا کر اپنا ساتھی بنا رہا ہے اور اور یہ حالت ہو چکی ہے کہ لوگوں نے قسمیں کھالی ہیں کہ خون عثمان کابدلہ لیے بغیر نہ نرم بستر پر سوئیں گے نہ ٹھنڈا پانی پئیں گے۔عمر وعاص وہاں پہنچ چکا ہے جو اسے مدددے رہا ہے۔حضرت علی ؑنے معاویہ کو ایک خط مدینہ سے ،دوسرا کوفہ سے ارسال کرکے دعوتِ بیعت دی۔لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔معاویہ جو جمع لشکر میں مشغول و مصروف تھا۔ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل لشکر لے کر مقام صفین میں جاپہنچا ۔حضرت علی علیہ السلام بھی شوال ۳۶ء میں نخیلہ اور مدائن ہوتے ہوئے۔مقام رقہ میں جاپہنچے۔حضرت کے لشکر کی تعداد ۹۰ہزار تھی۔راستہ میں لشکر سخت پیاسا ہو گیا،تو ایک راہب کے اشارہ سے حضرت نے زمین سے ایک ایسا چشمہ برآمد کیا جو نبی اور وصی کے سوا کسی کے بس کا نہ تھا۔۶۶حضرت نے اپنے لشکر کو سات حصوں میں تقسیم کیا۔اور معاویہ نے بھی سات ٹکڑے کر دیئے۔مقام رقہ سے روانہ ہو کر آبِ فرات عبور کیا۔حضرت کے مقدمةالجیش سے معاویہ کے مقدمہ نے مزاحمت کی اور وہ شکست کھا کر معاویہ سے جاملا۔حضرت علی ؑ کا لشکر جب واردصفین ہوا تو معلوم ہوا کہ معاویہ نے گھاٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور علوی لشکر کو پانی دینا نہیں چاہتا۔حضرت نے کئی پیغامبر بھیجے اور بندش آب کو توڑنے کے لیے کہا۔مگر سماعت نہ کی گئی۔بالآخر فوج نے زبردست حملہ کرکے گھاٹ چھین لیا۔مورخین کا بیان ہے کہ گھاٹ پر قبضہ کرنے والوں میں امام حسین ؑ اور حضرت عباس ابنِ علی ؑ نے کمال جرات کا ثبوت دیا تھا۔ملا خطہ ہو(ذکرالعباس ص۲۶ مولفہ حقیر)حضرت علی ؑ نے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد اعلان کرادیا کہ پانی کسی کے لیے بند نہیں ہے۔مطالب السول میں ہے کہ حضرت علی باربار معاویہ کو دعوت مصالحت دیتے رہے۔لیکن کوئی اثرنہ ہوا۔آخر کار ماہ ذی الحجہ میں لڑائی شروع ہوئی اور انفرادی طورپر سارے مہینہ ہوتی رہی۔محرم ۳۷ئھج میں جنگ بندررہی۔اور یکم صفر سے گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ایرونگ لکھتا ہے علی ؑ کو اپنی مرضی کے خلاف تلوار کھینچنی پڑی....چار مہینے تک چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔جن میں معاویہ کے ۴۵ہزار آدمی کام آئے اور علی ؑ کی فوج نے اس سے آدھا نقصان اٹھایا۔ذکر العباس ص۲۷میں ہے۔کہ امیرالمومنین اپنی روایتی بہادری سے دشمن اسلام کے چھکے چھڑا دیتے تھے عمر و بن العاص اور بشر ابن ارطاة پر جب آپ نے حملے کئے تو یہ لوگ زمین پر لیٹ کر برہنہ ہو گئے۔حضرت علی نے منہ پھیر لیا یہ اٹھ کر بھاگ نکلے۔معاویہ نے عمر وعاص پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا کہ”درپناہ عورت خود گریختی“تونے اپنی شرمگاہ کے صدقہ میں جان بچالی۔مورخین کا بیان ہے کہ یکم صفر سے سات شبانہ روز جنگ جاری رہی ۔لوگوں نے معاویہ کو مشورہ دیا کہ علی ؑ کے مقابلہ میں خود نکلیں۔مگر وہ نہ مانے ۔ایک دن جنگ کے دوران میں علی ؑ نے بھی یہی فرمایا تھا کہ اے جگر خوارہ کے بیٹے کیوں مسلمانوں کو کٹوار ہا ہے تو خود سامنے آجا۔اور ہم دونوں آپس میں فیصلہ کن جنگ کر لیں۔بہت سی تواریخ میں ہے کہ اس جنگ میں نوے لڑائیاں وقوع میں آئیں۔۱۱۰روزتک فریقین کا قیام صفین میں رہا۔معاویہ کے نوے ہزار اور حضرت علی ؑ کے بیس سپاہی مارے گئے اور ۱۳صفر۳۷ئھج کو معاویہ کی چال بازیوں اور عوام کی بغاوت کے باعث فیصلہ حکمین کے حوالے کرنے جنگ بند ہو گئی۔تواریخ میں ہے کہ حضرت علی ؑنے جنگ صفین میں کئی بار اپنا لباس بدل کر حملہ کیا ہے۔ایک مرتبہ ابن عباس کا لباس پہنا۔ایک بار عباس ابن ربیعہ کا بھیس بدلا۔ایک دفعہ عباس ابن حارث کا روپ اختیار کیا اور جب کریب ابن صباح حمیری مقابلہ کے لیے نکلا تو آپ نے اپنے بیٹے حضرت عباس ؑ کا لباس بدلااور زبردست حملہ کیا۔ملاخطہ ہو مناقب اخطب خوارزمی ص۱۹۶قلمی)لڑائی نہایت تیزی سے جاری تھی کہ عمار یا سرجن کی عمر ۹۳سال تھی،میدان میں آنکلے اور ۱۸شامیوں کو قتل کرکے شہید ہو گئے حضرت علی ؑ نے آپ کی شہادت کو بے حدمحسوس کیا....ایرونگ لکھتا ہے کہ عمار کی شہادت کے بعد علی ؑ نے بارہ ہزار سواروں کو لے کر پر غضب حملہ کیااور دشمنوں کی صفین الٹ دیں اور مالک اشتر نے بھی بے شمارزبردست حملے کئے دوسرے دن صبح کوحضرت علی ؑ نے پھر لشکر معاویہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ لوگوسن لو کہ احکام خدا معطل کئے جارہے ہیں۔اس لیے مجبوراََ لڑرہاہوں اس کے بعد حملہ شروع کر دیااور کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
لَیلَةُ الہرِیر
جنگ نہایت تیزی کے ساتھ جاری تھی،میمنہ اور میسرہ عبداللہ اور مالک اشتر کے قبضہ میں تھا،جمعہ کی رات تھی،ساری رات جنگ جاری رہی،براویت اعثم کوفی۳۶ہزار سپاہی طرفین کے مارے گئے۹۰۰آدمی حضرت علی ؑ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔لشکر معاویہ سے اَلغِیَاثُ اَلغِیَاثُ کی آوازیں بلند ہو گئیں۔یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور دوپہر تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔مالک اشتر دشمن کے خیمہ تک جاپہنچے قریب تھا کہ معاویہ زدمیں آجائے اور لشکر بھاگ کھڑا ہوناگاہ عمر وبن عاص نے۵۰۰قرآن نیزوں پر بلند کرادیئے اور آواز دی کہ ہمارے اور تمھارے درمیان قرآن ہے،وہ لوگ جو معاویہ سے رشوت کھاچکے تھے فوراََ تائید کے لیے کھڑے ہوگئے اور اشعت ابن قیس۔مسعودابن ندک زید ابن حصین نے عوام کو اس درجہ ور غلایا کہ وہ لوگ وہی کچھ کرنے پر آمادہ ہوگئے جو عثمان کے ساتھ کر چکے تھے۔مجبوراََ مالک اشتر کو بڑھتے ہوئے قدم اور چلتی ہوئی تلوار روکنا پڑی۔مورخ گبن لکھتا ہے کہ امیر شام بھاگنے کا تہیہ کر رہا تھا۔لیکن یقینی فتح فوج کے جوش اور نافرمانی کی بدولت علی ؑ کے ہاتھ سے چھین لی گئی۔جرجی زیدان لکھتا ہے کہ نیزوں پر قرآن شریف دیکھ کر حضرت علی ؑ کی فوج کے لوگ دھوکا کھا گئے...ناچار علیؑ کو جنگ ملتوی کرنا پڑی۔بالآخر عوام نے معاویہ کی طرف سے عمروعاص اور حضرت کی طرف سے ان کی مرضی کے خلاف ابوموسیٰ اشعری کو حکم مقرر کرکے ماہِ رمضان میں بمقام ”ذومة الجندل“فیصلہ سنانے کو طے کیا۔
حکمین کا فیصلہ
الغرض ماہِ رمضان میں بمقام”اذرح“چار چا ر سوافراد سمیت عمر وبن العاص اور ابوموسیٰ اشعر ی جمع ہوئے اور اپنا وہ باہمی فیصلہ جس کی روسے دونوں کو خلافت سے معزول کرنا تھا۔سنانے کا انتظام کیا۔جب منبر پر جا کر اعلان کرنے کا موقع آیا تو ابوموسیٰ نے عمروبن العاص کو کہا کہ آپ جاکر پہلے بیان دیں۔انھوں نے جواب دیا آپ بزرگ ہیں پہلے آپ فرمائیں۔ابوموسیٰ منبر پر گئے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں علی ؑ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں۔یہ کہہ کر اترآئے۔عمروبن العاص جس سے فیصلہ کے مطابق ابوموسیٰ کو یہ تو قع تھی کہ وہ بھی معاویہ کے عزل کا اعلان کردے گا۔لیکن اس مکارنے اس کے برعکس یہ کہا کہ میں ابوموسیٰ کی تائید کرتا ہوں اور علی کو حکومت سے ہٹاکرمعاویہ کو خلیفہ بناتا ہوں۔یہ سن کر ابوموسیٰ بہت خفا ہوئے۔لیکن تیرترکش سے نکل چکا تھا۔یہ سن کر مجمع پر سناٹاچھا گیا۔علی ؑ نے مسکراکر اپنے طرفداروں سے کہا کہ میں نہ کہتا تھا کہ دشمن فریب دینے کی فکر میں ہے۔
Add new comment