کیا امام علیؑ ناراضگی کے باوجود خلیفہ اول و دوم کو مشورے دیتے تھے؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علیؑ اپنے ذاتی جذبات پر خدا و رسول کے جذبات کو مقدم رکھتے تھے، عمرو بن عبد ود نے جب جنگ خندق میں آپ کے چہرہ مبارک کے ساتھ لعاب دہن کے ساتھ بے ادبی کی تھی اور آپ کو غصہ آ گیا تھا تو آپ سینے سے اتر آئے تھے ، تا کہ کارِ خدا میں اپنا ذاتی غصہ شامل نہ ہو جائے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ دل تنگ اور ناراض ہونے کے باوجود، تحفظ وقار اسلام کی خاطر خلفاء کو اپنے مفید مشوروں سے نواز تے رہے۔ مثال کے لیے ملاحظہ ہو،
(۱) قیصر روم نے خلیفہ دوم سے سوال کر دیا کہ آپ کے قرآن میں کونسا ایسا سورہ ہے جوصرف سات آیتوں پر مشتمل ہے۔ اور اس میں سات حروف حروف تہجی کے نہیں ہیں۔ اس سوال سے عالم اسلام میں ہلچل مچ گئی۔ حفاظ نے بہت غورو فکر کے بعدہتھیار ڈال دئیے۔ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام کو بلوا بھیجااور یہ سوال سامنے رکھا۔ آپ نے فوراََ ارشاد فرمایا کہ وہ سورہ حمد ہے ۔ اس سورہ میں سات آیتیں ہیں اور اس میں ث، ج، خ، ز، ش، ظ، ف نہیں ہیں۔
(۲) علماء یہود نے خلیفہ دوم سے اصحاب کہف کے بارے میں چند سوالات کئے، آپ ان کا جواب نہ دے سکے اور آپ نے علیؑ کی طرف رجوع کیاحضرت نے ایسا جواب دیا کہ وہ پورے طور پر مطمئن ہو گئے۔ حجر اسود اکے بوسہ دینے پر حضرت علیؑ نے جو بیان دیا ہے۔ اس سے حضرت عمر کی پشیمانی،بدو سافرہ سیوطی میں موجود ہے۔
(۳) عہد اول میں نیز عہد ثانی کی ابتداء میں شراب پینے پر ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر نے یہ دیکھ کر کہ اس حد سے رعب نہیں جمتا اور لوگ کثرت سے شراب پی رہے ہیں۔ حضرت علیؑ سے مشور ہ کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ چالیس کے بجائے ۸۰کوڑے کر دئیے جائیں اور اس کے لیے یہ دلیل پیش کی کہ جو شراب پیتا ہے نشہ میں ہوتا ہے اور جس کو نشہ ہوتا وہ ہذیان بکتا ہے اور ہذیان بکتا ہے وہ افتریٰ کرتا ہے ۔”وَعَلیَ المُفتری ثَماَ نوُن “ اور افترا کرنے والوں کی سزا ۸۰ کوڑے ہیں لہذٰا شرابی کو بھی ۸۰ کوڑے مارنے چائیں۔ حضرت عمر نے اسے تسلیم کر لیا۔(مطالب السئول ص۱۰۴)
(۴) ایک حاملہ عورت نے زنا کیا حضرت عمر نے حکم دیا کہ اسے سنگسار کر دیا جائے حضرت علیؑ نے فرمایا کہ زنا عورت نے کیا ہے ۔لیکن وہ بچہ جو جو پیٹ میں ہے ۔ اس کی کوئی خطا نہیں، لہذٰا عورت پر اس وقت حد جاری کی جائے جب وضع حمل ہو چکے ۔ حضرت عمر نے تسلیم کر لیا اور ساتھ ہی ساتھ کہا۔”لَولاَ عَلیَ لَھَکَ عُمر “
(۵) جنگ روم میں اپنے جانے کے متعلق حضرت عمر نے حضرت علیؑ سے مشور کیا۔
(۶)جنگ فارس میں بھی خود شریک جنگ ہونے کے متعلق حضرت علی سے مشورہ کیا مورخین کا اتفاق ہے کہ حضرت علیؑ نے حضرت عمر کو خود جنگ میں جانے سے روکا اور فرمایا کہ آپ شہید ہو جائیں گے تو کسر شان اسلام ہو گی۔۔۔۔الخ حضرت علیؑ کے مشورہ پر حضرت عمر بہادروں کے مسلسل زور دینے کے باوجود جنگ میں شریک نہ ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ حضرت علیؑ نے نہایت ہی صائب مشورہ دیا تھا کیونکہ وہ جنگ بدر اور خیبر ، خندق کے واقعات و حالات سے واقف تھے۔ اگر خدا نخواستہ میدان چھوٹ جاتا تو یقینا کسر شان اسلام ہوتی ۔ا گر شہادت سے کسر شان اسلام کا اندیشہ ہوتا تو حضرت علیؑ سرور کائنات کو بھی مشورہ دیتے کہ آپ کسی جنگ میں خود نہ جائیے۔ تاریخ میں ہے کہ وہ برابر جاتے اور زخمی ہوتے رہے۔ احد میں تو جان ہی خطرہ میں آ گئی تھی ۔
(۷) مسٹر امیر علی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ کے مشورہ سے زمین کی پیمائش کی گئی اور مال گذاری کا طریقہ رائج کیا گیا۔
(۸) آپ ہی کے مشورہ سے سنہ ہجری قائم ہوا۔
Add new comment