امام علیؑ کی گوشہ نشینی

 

پیغمبر اسلام کے انتقال پر ملال اور ان کے انتقال کے بعد کے حالات نیز فاطمہ زہراؑ کی وفات حسر ت آیات میں حضرت علیؑ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آپ آئندہ زندگی کس اسلوب اور کس طریقہ سے گزاریں بالآخر آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ

(۱) دشمنان آلِ محمد کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔

(۲) گوشہ نشینی اختیار کر لینی چاہیے۔

(۳) حتٰی المقدور موجودہ صورت میں بھی اسلام کی ملکی وغیر ملکی خدمت کرتے رہنا چاہیے ۔چنانچہ آپ اسی پر کاربند ہو گئے۔

حضرت علیؑ نے جو پروگرام مرتب فرمایا۔ وہ پیغمبر اسلام کے فرمان کی روشنی میں مرتب فرمایا کیوں کہ انہیں حالات کی پوری اطلا ع ملی تھی اور انہوں نے حضرت علیؑ کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ علامہ ابن حجر لکھتے ہیں۔ ”اِنَ اللہَ تَعالیَ اِطلعَ نبَیَہُ عَلیٰ مَا یَکونُ بَعدُہ مِماَ ابتلیَ بِہ علیَ “کہ خدا وند عالم نے اپنے نبی کو ان تمام امور سے باخبر کر دیا تھا ۔ جو ان کے بعد ہونے والے تھے، اور ان حالات و حادثات کی اطلاع کر دی تھی جس میں علیؑ مبتلا ہوئے ۵۲ رسول کریم نے فرمایا تھاکہ اے علیؑ میرے بعد تم کو سخت صدمات پہنچیں گے، تمہیں چاہیے کہ اس وقت تم دل تنگ نہ ہو اور صبر کا طریقہ اختیار کرو اور جب دیکھنا کہ میرے صحابہ نے دنیا اختیار کر لی ہے۔ تو تم آخر ت اختیار کئے رہنا ۵۳ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؑ نے تمام مصائب و آلام نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کئے مگر تلوار نہیں اٹھائی اور گوشہ نشینی اختیار کر کے جمع قرآن کی تکمیل کرتے رہے اور وقتاََ فوقتاََ اپنے مشوروں سے اسلام کی کمر مضبوط فرماتے رہے۔

http://urdu.duas.org/masoomeen/Ali/zindagi.htm

Add new comment