امام علی ؑ کا علمی مقام

 

حضر ت علیؑ کا نفس اللہ ہونا مسلمات سے ہے اور اللہ اس واجب الوجود ذات کو کہتے ہیں جو علم و قدرت سے عبار ت ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ جو نفس اللہ ہو گا اسے فطرتاََ تمام علوم سے بہرہ ور ہونا چاہیے۔ حضرت علیؑ کے لیے یہ مانی ہوئی چیز ہے کہ آپ دنیا کے تمام علوم سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ ان میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور علم لدنی سے بھی مالا مال تھے۔ آپ کے علوم کا احصانا ممکن ہے امام شبلنجی لکھتے ہیں۔ ”وَمَکَانتہ فِی العِلم وَالفَھمِ۔۔۔۔تَحمِلُ مُجلداتِ“ آپ کے علم و فہم وغیرہ کے لیے بہت سی جلدیں درکار ہیں۔ محمد ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ امام المفسرین جناب ابن عباس کا کہنا ہے کہ علم و حکمت کے دس درجوں میں سے ۹ حضرت علیؑ کو ملے ہیں اور دسویں میں تمام دنیا کے علماء شامل ہیں اور اس دسویں درجہ میں بھی علیؑ کو اول نمبر حاصل ہے۔ ابو الفداء کہتے ہیں کہ حضرت اعلم الناس بالقرآن والسنن تھے۔ یعنی تمام لوگوں سے زیادہ انہیں قرآن و حدیث کا علم تھا۔ خود سر ور کائنات نے آپ کے علمی مدارج پر بار بار روشنی ڈالی۔ اَناَ مَدینَتُہ اَلعَلمِ وَعَلی بابُھاَ فرمایا کہیں اَناَ دَارُالحِکمتِ وَعَلی باَبُھا۔ ارشاد فرمایا کسی مقام پر ”اَعلمُ اُمتیِ علیَ ابن ابی طَالب “۔ کہا حضرت علی ؑ نے خود بھی اس کا اظہا ر کیا ہے اور بتایا ہے کہ علمی نقطہ نظر سے میرا درجہ کیا ہے ۔ ایک مقام پر فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے ہیں اورمیں نے ہر باب سے ہزار باب پیدا کر لیے ہیںَ ایک مقام پر ارشاد فرمایا۔ ”زَقَنیِ رُسول اللہ زقَاََ زَقاََ مجھے رسول اللہ نے اس طرح علم بھرایا ہے جس طرح کبوتر اپنے بچے کو دانا بھراتا ہے، ایک منزل پر کہا کہ سَلونیِ قَبلَ اَن تَفقِدُونی “میری زندگی میں جو چاہے پوچھ لو۔ ورنہ پھر تمہیں علمی معلومات سے کوئی بہرہ ور کرنے والا نہ ملے گا۔ ایک مقام پر فرمایا کہ آسمان کے بارے میں مجھ سے جو چاہے پوچھو۔ مجھے زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کے راستوں کا علم ہے۔ ایک دن فرمایا کہ اگر میرے لیے مسند قضا بچھادی جائے تو میں توریت والوں کو توریت سے انجیل والوں سے ، زبور والوں کو زبور سے اور قرآن والوں کو قرآن سے اس طرح جواب دے سکتا ہوں کہ ان کے علماء حیران رہ جائیں۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے علم ہے کہ قرآن کی کونسی آیت کہاں نازل ہوئی۔ کون سی دن میں کون سی رات میں نازل ہوئی ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ ایک شب ابن عباس نے علیؑ سے خواہش کی کہ بسم اللہ کی تفسیر بیان فرمائیں۔ آپ نے ساری رات بیان فرمایا اور جب صبح ہو گئی تو فرمایا اے ابن عباس میں اس کی تفسیر اتنی بیان کر سکتا ہوں کہ ۷۰ اونٹوں کا بار ہو جائے بس مختصر یہ سمجھ لو کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ سورة حمد میں ہے اور جو سورة حمد میں ہے وہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم میں ہے اور جو بسم اللہ میں ہے وہ بائے بسم اللہ میں ہے اور جو بائے بسم اللہ میں ہے وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے ”واَناَ النقطةُ اللتیِ تَحتَ الباء “اے ابن عباس میں وہی نقطہ ہوں جو بسم اللہ کی (ب) کے نیچے دیا جاتا ہے ۔ شیخ سلیمان قندوزی لکھتے ہیں کہ تفسیر بسم اللہ سن کر ابن عباس نے کہا کہ خدا کی قسم میرے اور تمام صحابہ کا علم علی ؑ کے علم کے مقابلے میں ایسا ہے ۔جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ کمیل ابن زیاد سے حضرت علیؑ نے فرمایاکہ اے کمیل میرے سینے میں علم کے خزانے ہیں۔ کاش کوئی اہل ملتا کہ میں اسے تعلیم کر دیتا۔ محب طبری تحریر فرماتے ہیں کہ سرور عالم کا ارشاد ہے کہ جو شخص علم آدم فہم ، نوح حلمِ ابراہیم زید یحیٰ ، صولت موسیٰ کو ان حضرات سمیت دیکھنا چاہے۔ ”فلینظر اِلیَ عَلی اَبنِ اَبی طالب “اسے چاہیے کہ وہ علی ابن ابی طالب کے چہرہ انور کو دیکھے ملا حظہ ہو(نور الابصار شرح مواقف ، مطالب السول صواعق محرقہ شواہد النبوت ابو الفداء ، کشف الغمہ ، ینابیع المودت، مناقب ابن شہر آشوب، ریاض النضرہ، ارحج المطالب ، انوار الغتہ )علماء اسلام کے علاوہ مشتشرقین فرنگ نے بھی آپ کے کمال علمی کا اعتراف کیا ہے ۔ مصنف انسائیکلو پیڈیا بڑ ٹانیکا لکھتے ہیں علیؑ علم اور عقل میں مشہور تھے اور اب تک کچھ مجموعے ضرب الامثال اور اشعار کے ان سے منسوب ہیں۔خصوصاََ مقالات علیؑ جس کا انگریزی ترجمہ ولیم پول نے ۱۸۳۲ء ء میں بمقام ٹونبرا شائع کرا یا ہے۔ ۳۹ مسٹر ایرونگ لکھتے ہیں ۔ آپ ہی وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علوم و فنون کی بڑی حمایت فرمائی۔ آپ کو خود بھی شعر گوئی کا پورا ذو ق تھا اور آپ کے بہت سے حکیمانہ مقولے اور ضرب الامثال اس وقت تک لوگوں کے زبان زد ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔کتاب خلفاء رسول صفحہ۱۷۸ مسٹر اوکلی لکھتے ہیں۔ تمام مسلمانوں میں باتفاق علیؑ کی عقل و دانائی کی شہرت ہے جس کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کے صد کلمات ابھی تک محفوظ ہیں جن کا عربی سے ترکی میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے اشعار کا دیوان بھی ہے۔ جس کا نام انوار الاقوال ہے۔ نیزورڈ لین لائبریری میں آپ کے اقوال کی ایک بڑی کتاب (نہج البلاغہ )موجود ہے۔ آپ کی مشہور۴ ترین تصنیف ”جعفر و جامعہ “ہے۔ جو ایک بیدالفہم خط میں اعداد و ہندسہ پر مشتمل بتلاتے ہیں۔یہ ہندسے ان تمام عظیم الشان واقعات کو جو ابتداء اسلام رہتی دنیا تک قائم ہونے والے واقعات کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ آپ کے خاندان میں ہے اور پڑھی نہیں جا سکتی البتہ امام جعفر صادقؑ اس کے کچھ حصے کی تشریح و تفسیر میں کامیاب ہو گئے ہیں اور اس کو مکمل بارہویں امام کریں گے ، ۴۰ مورخ گلمن لکھتے ہیں ، آپ وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے علم و فن اور کتابت کی پرورش کی اور حکمت سے مملو اقوال کا ایک بڑا مجموعہ آپ کے نام سے منسوسب ہے۔۔۔۔آپ کا قلب و دماغ ہر شخص سے خراج تحسین حاصل کر تا رہے گا۔۔۔آپ کا قلب و دماغ مجسم نور تھا۔۔۔آپ کی دانائی اور پر مغز نکتہ سنجی اور ضر ب الامثال کے ایجا د میں آپ کی فراست بہت ہی اعلیٰ پایہ کی تھی۔ ۴۱ بمبئی ہائی کورٹ کے جج مسٹر ار نولڈ ایڈ ووکیٹ جنرل ایک فیصلہ میں لکھتے ہیں۔شجاعت حکمت، ہمت ، عدالت، سخاوت، زہد اور تقویٰ میں علیؑ کا عدیل و نظیر تاریخ عالم میں کمتر نظر آتا ہے۔

http://urdu.duas.org/masoomeen/Ali/zindagi.htm

Add new comment