امیرالمؤمنینؑ کی حکومت
وہ ۴ یا ۵ سال کی مدت جس میں اسلامی ریاست کی زمامِ اقتدار امام علی ؑ کے ہاتھ میں تھی ، اس میں جو بات سب سے زیادہ عیاں تھی وہ یہ کہ آپ نے پہلے دن سے لے کر اپنی شہادت کے وقت تک، کسی بھی وقت، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی انداز میں اس انحراف کے سلسلے میں باطل سے کوئی مصلحت پسند نہ کی اور ” مصلحت و معاملات“ کے کسی بھی ایسے انداز کو پسند نہیں کیا جو اُمت کی کرامت و شرافت کے خلاف ہو اور کل کوئی یہ کہہ سکے کہ قوم کو معمولی قیمت پر فروخت کر دیا گیا۔” عدم مصالحت “ کی پالیسی پر ہمیں دو پہلوؤں پر خصوصی توجہ کرنے کی ضرورت ہے :
۱) سیاسی اور شرعی اور دنیاوی پہلو
۲) فقہی اور شرعی پہلو
جہاں تک سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو کچھ لوگ جو امیرالمؤمنین کے زمانہ میں تھے جن لوگوں نے بعد میں اس کا تجزیہ کیا اور آپ کے سیاسی پہلوؤں کو سمجھنا چاہا ان میں سے بعض نے اسے اس لحاظ سے سوچنا شروع کیااور آپ کے مصائب میں اور اضافہ کیااس طرح آپ کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا اور بالآخرآپ کو اس آخری نتیجے تک نہیں پہنچنے دیا جو صحیح اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں ان کے پیش نظر تھا۔چنانچہ مغیرہ بن شعبہ جس نے شروع میں آکر آپ کو مشورہ دیا تھا کہ :
” آپ معاویہ کو کچھ دنوں تک شام کا گورنر رہنے دیں۔“
اس کی دلیل یہ تھی کہ:
” اگر آپ اسے کچھ دنوں تک گورنر رہنے دیں گے تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت قبول کرے اور بعد میں جب آپ کے قدم جم جائیں اور پورے ا سلامی ممالک میں آپ کی حکومت مستحکم ہو جائے تو آپ اسے ہٹا کر کسی اور شخص کو اس صوبہ کا گورنر بنا سکیں گے۔ لہٰذا اس جیسے گورنروں کو آپ فی الحال خرید لیجیے۔ اوراگرچہ یہ اسلامی خزانے کے چور ہیں لیکن کچھ دنوں تک چوری کا مال ان ہی کی جیب میں پڑا رہے بعد میں ان سے واپس لے لیجیے گا۔“
لیکن امیرالمؤمنین نے اس کی منطِق تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا اور اس قسم کی کسی مصالحت یا معاملت کو قبول کرنا آپ نے اپنی روش کے بالکل خلاف سمجھا۔ جس کی وجہ سے آپ کے بعض معاصرین اور بعدمیں آنے والے بعض ایسے تجزیہ نگاروں نے جو معاملات کوصرف ڈپلومیسی (جمہوریت)کی نگاہ سے دیکھنا جانتے تھے۔اور یہاں تک کہاگیا کہ:
” اگر علی باطل سے مصالحت کی راہ اپناتے اور ڈپلومیسی سے کام لیتے تو سیاسی میدان میں ان کو سب سے زیادہ کامیابی نصیب ہو سکتی تھی (اور وہ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عظیم الشان اور صاحب جبروت حکمران ہو سکتے تھے)۔“
اس طرح ایک فقہی نکتہ بھی عمومًا سامنے لایا جاتا ہے جوکہ فقہی کتابوں میں درج ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی اہم فریضہ کسی حرام کام پر موقوف ہوجائے اور وہ فریضہ ذاتی طور پر اتنا اہم ہوجس کے مقابلے میں اس حرام کی حیثیت کم ہو تو اس حرام کام کا ارتکاب کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ وہ اہم فریضہ پامال نہ ہونے پائے۔ مثلًا
” اگر کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور اس کی جان بچانے کے لئے ہمیں غصبی زمین سے گزرنا پڑے جس کا مالک ہمارے گزرنے پر راضی نہ ہو تو چونکہ اس شخص کی جان بچانا زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے زمین کے مالک کی ناراضگی کے باوجود اس کی زمین پر سے گزر جانا چاہیے اور اس کی ناراضگی کا خیال نہیں کرنا چاہیے۔“
جیسا کہ اس کی ایک مثال حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں بھی نظر آتی ہے کہ:
” اسلامی لشکر مجبور تھا کہ مدینے سے ایک خاص راستے سے نکلے۔ اتفاقًا اس راستہ میں ایک صحابی کی کھیتی تھی۔ اور یہ بات بھی واضح تھی کہ جب پورا لشکر گزرے گا تو بہت ساری کھیتی برباد ہو جائے گی اور اس کے مالک کو یقینی طور پر نقصان پہنچے گا۔ وہ صحابی جس کی کھیتی تھی اس نقصان کو برداشت کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ اس لئے اس نے فریاد کی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر شکایت کرنے لگا۔ کہ میری کھیتی خراب ہو رہی ہے، میرا مال برباد ہو رہا ہے۔ لیکن نبی اکرم نے اس شخص کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی اور لشکر کوروانگی کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں لشکر اسی راستے سے گزرا اور اس کی کھیتی کو نقصان بھی پہنچا جس کا اندیشہ پہلے سے تھا۔“
لیکن ایک اہم مقصد پیش نظر تھا اس لئے اس مختصر نقصان پر توجہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ لشکر پوری انسانی آبادی کی اصلاح کے لئے جارہا تھا۔ اب اگر اس راہ میں کسی کی کھیتی کو نقصان پہنچے یا کسی شخص کی چھوٹی سی ملکیت اصلاح خلق کی راہ میں ضائع ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اور فقہی اعتبار سے اسے جائز قرار دیا جائے گا کیونکہ فقہ کے قوانین میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اگر کسی واجب کی ادائیگی کسی حرام کے ارتکاب پر موقوف ہو اور وہ واجب فریضہ اس حرام کے مقابلے میں بہت اہم ہو تو اس کی خاطر اس حرام کا ارتکاب کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے اثرات مختصرہوں۔
تو اب یہی بات امیرالمؤمنین کے اقدام کے سلسلہ میں سوال بن کر سامنے آتی ہے کہ: ” انھوں نے بہت سی ایسی باتوں کو کیوں برداشت نہیں کر لیا جو ذاتی طور پر تو غلط تھیں لیکن ایک بڑے مقصد کی تمہید بن سکتیں تھیں۔ تو اتنے عظیم مقصد (اللہ تعالیٰ کی سرزمین میں اسلامی حکومت کاقائم کرنا) کے حصول کے لئے انھوں نے معاویہ کی ناجائز حکومت کو باقی رکھا ہوتا اور وہ حرام مال جو سابقہ حکومت کے دور میں بنی امیہ کے قبضے میں چلا گیا تھا اسے انہی لوگوں کے پاس باقی رہنے دیتے (اور لوگوں کی ناانصافیوں پر خاموش رہتے) تو آپ کی خاموشی کیوں غلط ہوتی اور ان اعمال کو کچھ دنوں کے لئے برداشت کرنا آپ کے لئے کیوں ناجائز ہوتا؟
یہ وہ کمزور دلیلیں ہیں جو امیرالمؤمنین کے بارے میں عمومًا پیش کی جاتی ہیں۔ ان کمزور دلیلوں کے جواب مندرجہ ذیل چند نکات میں پیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین عالمِ اسلام کے ایک نئے علاقہ (عراق کی سرزمین) پر اسلامی سلطنت کی نئے سرے سے بنیاد رکھ رہے تھے اور عراق وہ سرزمین ہے جہاں کہ لوگ ایمانی جذبات و احساسات کے اعتبار سے تو یقینًا آپ کے ساتھ تھے لیکن ابھی ان لوگوں کاشعور پختگی کی منزل پر نہیں تھا اور نہ وہ لوگ صحیح طور سے آپ کے موقف سے باخبر تھے۔ اس لئے یہ بات نہایت ضروری تھی کہ امیرالمؤمنین اس نئی تربیت پانے والی قوم اور راسخ العقیدہ لشکر کی اس طرح تربیت کریں کہ یہ آپ کے پیغام اور عالمِ اسلام کے محافظ نہیں اور ظاہر ہے کہ اگر آپ شروع ہی سے باطل کے ساتھ ” مصالحت کی پالیسی “ کو اپنا لیتے تو اس قوم کی صحیح تربیت کس طرح ممکن تھی؟--حتٰی کہ اگر وہ پالیسی ذاتی طور پر جائز بھی ہوتی تو یہاں اسے اپنانا مناسب نہ ہوتا۔ کیونکہ جہاں اس قسم کی پالیسی مزاج بن جائے وہاں سلمان و ابوذر و عمار جیسی شخصیت پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ اور نہ یہ جذبہ بیدار ہو سکتا ہے کہ ہماری جدوجہد کسی خاص شخصیت کیلئے نہیں ہے بلکہ دین و شریعت کے لئے ہے اور یہ جذبہ مذکورہ بالا پالیسی کے ماحول میں بیدار نہیں ہو سکتا ہے۔
اگر وہ پالیسی فقہی اعتبار سے جائز ہوتی تو بھی اس جگہ اسے اپنانے کا ہر گز محل نہیں تھا۔ کیونکہ اسے اپنانا امیرالمؤمنین کے مقصد کے بالکل برعکس ثابت ہوتا۔ کیونکہ آپ کے پیش نظر اہم ترین مقصد ، اسلامی ریاست کو ایسے اعلیٰ وارفع قوانین پر استوار کرنا تھا۔ جہاں شریعت کا پیغام ہی دور رس اہمیت کا حامل ہو۔ اور ظاہر ہے کہ آپ نے جس وقت زمامِ اقتدار سنبھالی ہے اس وقت کی صورتِ حال اس کے بالکل بر خلاف تھی۔ اس لئے درحقیقت آپ ہی کو صحیح نظام کی ازسرِنو بنیاد رکھنی تھی۔
لیکن چونکہ امیرالمؤمنین ایک فکر ونظر کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ اس لئے آپ کا فرض تھا کہ اس کے لئے نیک اور پاکیزہ سے پاکیزہ اشخاص کو اپنائیں اور مالک اَشتر جیسے کامل الایمان اور مخلص حضرات کو تقویت دیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسے افراد مذکورہ بالاپالیسی کے ماحول سے روحانی، فکری، ایمانی، عقائدی اور حقیقی تربیت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ پالیسی تو اس کے برخلاف تربیت کرے گی اور قوت ایمان کے بجائے قوتِ نفاق کو تقویت پہنچے گی۔ لہٰذا ایک فکری گروہ پیدا کرنے اور جناب مالک اَشتر جیسے ہزاروں مخلص اور کامل ایمان افراد کی تربیت کے لئے یہ بات ناگزیر تھی کہ ان کا قائد ایک ایسا شخص ہو جو کسی دباؤ کے آگے جھکنے والا نہ ہو اور کسی بھی اعلیٰ یا ادنیٰ مفاد کے لئے باطل سے مصالحت کرنے پر کسی بھی صورت میں آمادہ نہ ہو۔اس لئے ایک مربی اور نمونہ کامل کے لحاظ سے بھی امیرالمؤمنین کا فرض یہ تھا کہ وہ مذکورہ بالا پالیسی سے ہٹ کر چلیں تاکہ ایمانی، فکری اور روحانی طور سے وہ ماحول پیدا ہو سکے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امیرالمؤمنین نے پُر امن ماحول میں حکومت نہیں سنبھالی تھی بلکہ درحقیقت ایک ایسے وقت میں زمامِ اقتدار سنبھالی تھی جب پوری قوم ایک ہیجانی کیفیت سے گزر رہی تھی اور حاکم وقت (عثمان بن عفان ) کو قتل کیا جاچکا تھا اور قتل کرنے والوں نے یہ کہہ کر قتل کیا تھا کہ :
یہ حاکم قرآن و سنت کے راستہ سے منحرف ہو چکا ہے ۔
ایسی حالت میں قوم کی قیادت سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسی صورت میں اگر امیرالمؤمنین باطل سے مصالحت کی روش اپناتے اور پرانے ظالم حکمرانوں کو برداشت کرتے یعنی معاویہ اور اس جیسے گورنروں کو رہنے دیتے تو قومی سطح پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے اور بعد میں کسی بھی قسم کی اصلاح اور تبدیلی کی گنجائش باقی نہ رہتی اور امام کے لئے ایسا کوئی اقدام کرنا ممکن نہ رہتا۔
امیرالمؤمنین پوری شدت سے چاہتے تھے کہ معاویہ سے ان کی مخالفت کو دواشخاص، دوخاندانوں، دوقبیلوں یادو حکام کی باہمی رنجش نہ سمجھا جائے بلکہ اسے حق و باطل کی معرکہ آرائی کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے۔ یعنی آپ یہ بات اچھی طرح لوگوں کو ذہن نشین کرانا چاہتے تھے کہ بدرواُحد کے واقعات میں رسول اکرم اور کفر و جاہلیت کے درمیان جو معرکہ آرائی تھی وہ اسی طرح آج بھی قائم ہے۔ اب اگر ایسی صورت میں آپ ان گورنروں کو ان کے منصب پر تھوڑے دنوں کے لئے بھی باقی رہنے دیتے جن کا طرزِ عمل اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف تھا تو پوری امت کے اذہان میں یہ شبہ راسخ ہو جاتا کہ اختلافات کی نوعیت دینی ومذہبی نہیں بلکہ دنیاوی و سیاسی ہے۔ اور یہ شک وشبہ اس طرح ذہنوں میں بیٹھتا کہ پھر کبھی جُدانہ ہوتا۔
امیرالمؤمنین کا ہاتھ قوم کی نبض پر تھا اور وہ قوم کی اس انداز سے تربیت کرنا چاہتے تھے کہ ہر شخص کے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے کہ قوم قابلِ خرید وفروخت چیز نہیں ہے اور نہ کسی کو اس کی قسمت کا سودا کرنا چاہیے۔ اگر آپ خود ہی باطل سے معاملت کی پالیسی اپنا کر ابوسفیان کے بیٹے کی گورنری قبول کر لیتے تو قوم کے اندر اس شعور کو کیونکر ایجاد کرنے میں کا کامیاب ہوتے کہ ہمیں باطل کے آگے نہیں جھکنا چاہیے اور بادشاہوں اور حاکموں کی رضا کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کام کرنا چاہیے جو خلافت الہٰیہ کا اصل مقصد ہے اور معاویہ کو اپنی طرف سے گورنر مقرر کرنے کا واضح مطلب ہوتا کہ وہ سازش جو اسلامی ریاست کو اس کے اصل مزاج سے
محروم کرنا چاہتی تھی آپ اس کے ہمنوا بن جاتے اور اس طرح مولا خود اپنے اصول کو توڑ دیتے اور وہ اس سازش کے خلاف کوئی واضح اقدام نہ کر پاتے۔
امیرالمؤمنین کے اقدامات محض اس مختصر مدت کے لئے نہیں تھے جس میں آپ حکومت کے تخت پر متمکن تھے بلکہ وہ بلند تر مقاصد کے لئے قدم اٹھاتے تھے۔ وہ یہ محسوس کررہے تھے کہ جس بیمار کے علاج کے لئے وہ اٹھے ہیں اس کا مرض آخری منزل پر ہے اور اس وقت صرف معمولی علاج گارگر نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ ضروری اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ جس دن سے سقیفہ کی کاروائی مکمل ہوئی تھی اسلامی دستور و قانون پر انحرافات کے تیشے لگ رہے تھے جس کے نتیجے میں اس دین کا چہرہ بہت تبدیل ہو چکا تھا اور اب اس کی ایسی حالت ہو گئی تھی کہ یہ لوگوں کی روحانیت کی پاسبانی نہیں کرسکتا تھا پیغامِ الہٰی کی حفاظت تو دور کی بات ہے۔ کیونکہ وہ اسلام جس کی حکمرانی ہارون رشید، معاویہ بن سفیان یا عبدالملک مروان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو اُس کاروحانی تقدس کیسے بچ سکتا ہے ؟
مذکورہ بالا گفتگو سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
۱) امیرالمؤمنین عراق کی سرزمین پر خالص اسلامی ریاست کے لئے ایک نئی فکری لشکر ترتیب دے رہے تھے اور اس فکری اور عقائدی لشکر کی خالص دینی تربیت آپ کادنیاوی فرض تھا۔ جس کے لئے ڈپلومیسی اور شک و شبہ کی پالیسی سے پاک ماحول فراہم کرنا نہایت ضروری تھا۔ اس لئے باطل سے وقتی مصالحت کی پالیسی اگر فقہی لحاظ سے بعض اوقات جائز بھی ہے تو یہاں اس کا ہر گز موقع و محل نہیں تھا۔
۲) امیرالمؤمنین نے اس وقت زمامِ اقتدار سنبھالی ہے جب پوری قوم ایک انقلابی کیفیت سے گزر چکی تھی اور ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں کہیں قوم کے جذبات واحساسات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔لہٰذا اسلام کے وسیع تر مفاد کا تقاضا یہ تھا کہ اس وقت جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل مطابق ہو۔ اس میں کسی ڈپلومیسی کا شائبہ نہ ہو۔
۳) جیساکہ ہم نے سابقہ گفتگو میں اس کی وضاحت کی اگر امام کسی اقدام میں باطل سے مصالحت اور دنیاوی ڈپلومیسی شائبہ بھی پیدا ہو جاتا تو وہ اسلام کے تمام اعلیٰ وارفع مقاصد اور مستقبل کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دے دیتا۔کیونکہ جن عناصر نے آپ کے واضح طرزِ عمل کے باوجود اس قسم کے شک و شبہات پھیل کر ذہنوں کو سموم بنانے کی کوشش کی۔ اگر آپ کی طرف سے ان کو کوئی موقع فراہم کر دیا جاتاتو وہ لوگ ایک ایسا طوفان کھڑا کردیتے جو اسلام کی پوری عمارت کو زمین بوس کردینے کا سبب بنتا۔
۴) ہم نے یہ واضح کیا تھا کہ اس وقت کوئی بھی ڈپلومیسی سازشی اذہان کی تقویت کا سبب بنتی اور اگر آپ وقتی مصلحت سے کام لیتے تو اس ذہنیت کو فروغ ہوتا کیونکہ حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا تھا کہ اب صرف آپ کی زعامت و قیادت کے خلاف سازش نہیں ہو رہی تھی بلکہ اسلامی اقدار وتعلیمات کو مٹانے کی بھر پور سازش تیار کی جارہی تھی۔ آپ کو اس منصب سے ہٹا کر ایسے شخص کو لانے کی بھر پور کوشش کی جارہی تھی جو دینِ اسلام کی تعلیمات کو مٹا کر قیصر و کسریٰ کے انداز پر حکومت کرے لہٰذا اگر آپ دنیاوی ڈپلومیسی سے کام لیتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ آپ بھی بالواسطہ قیصر وکسریٰ کے نظام کی تائید کر رہے ہیں( کیونکہ شام کا علاقہ بالکل قیصرو کسریٰ کے انداز پر چل رہا تھا)۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ امیرالمؤمنین اس کو برداشت کرتے۔اور ایک بات یاد رہے اسلام نے قیصرو کسریٰ کا کردار رکھنے والوں کو جو عہدہ و مقام ملا اُس کی بنیاد سقیفہ کی کاروائی نے ڈالی اور ایسے کردار کے حامل شخص کو مولا اپنے گورنر کی حیثیت سے قبول کرلیتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا کہ آپ اسلام میں قیصریت اور کسریت کی تائید فرما رہے ہیں جو آپ کے لئے ممکن نہیں تھا اس لئے آپ نے وقت کے تقاضے کے مطابق فتنہ کو کچلنے کے لئے سخت سے سخت موقف بھی اپنایا تاکہ قیصریت اور کسریت کی تائید نہ ہو اور اسلام کے درخشندہ چہرے کا اصل نکھار برقرار رہے۔
ان چار نکات کے علاوہ میں برادران کی توجہ ان چند خصوصی نکات کی طرف بھی مبذول کرانا چاہوں گا۔اور وہ یہ کہ اگرامیرالمؤمنین وقتی طور پر امیر شام کو گورنری کے عہدہ پر باقی رہنے دیتے تو پھر کسی بھی وقت اسے معزول کرنا آپ کے لئے ناممکن ہوتا اور اس نکتہ کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے اس پورے موقف کو سامنے رکھنا ہو گا جو امیرالمؤمنین اپنی حیاتِ طیبہ میں اختیار کیا یا جسے کوئی بھی الہٰی نمائندہ اس جیسے حالات میں اس موقف کو اپنا سکتا تھا۔کیونکہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے جن عناصر کا قلع قمع ضروری ہے اگر اُن ہی کو معاون اور شریکِ کار بنا لیا جائے تو حالات کی اصلاح کیسے ہوگی ؟
اور اگر وقتی طور پر انھیں شریک کار بنا لیا جائے تو یہ برائیاں نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اور پروان بھی چڑھیں گی اور اگر بعد میں ان عناصر کو دور ہٹانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ ہرگز جُدانہیں ہوں گے۔ بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھیں گے کہ ” اگر ہم بُرے تھے تو آپ نے ہمیں اپنا شریکِ کار کیوں بنایا اور اگر ہم
کل آپ کے شریکِ کاربن سکتے تھے تو آج کیوں نہیں بن سکتے ؟
اور پھر جب سربراہِ مملکت نے شروع سے ان ہی عناصر کو اپنا معاون و مددگار بنایا تو سارے معاشرے پر اُن ہی کا تسلط ہو گا۔ پھر وہ کون سی طاقت ہو گی جس کا سہارا لے کر اُن لوگوں کو ان کے منصب سے ہٹایا جائے۔ اور اس طرح معاشرے کی اصلاح کے لئے جن عناصر کا خاتمہ ضروری تھا وہی معاشرے پر غالب آجائیں گے۔اورجیسے جیسے ان عناصر کی قوت میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔اصلاح کے امکانات بھی اُسی طرح ختم ہوتے جائیں گے اور امیرالمؤمنین جو معاشرے کی کامل اصلاح کے امین و پاسبان تھے ان کے لئے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ بُرے عناصر کو اپنا شریکِ کار بنائیں؟
اسی کے ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امیرالمؤمنین معاویہ کو شام کی گورنری پر باقی رہنے دیتے تو آپ کی حکومت مضبوط ہو جاتی۔ ایسے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ اس طرح گورنرِ شام کو بھی مزید طاقت مل جاتی(اور ایک اس کی اپنی ۲۵ برس کی حکومت کی طاقت اور امیرالمؤمنین کی حمایت اور تائید اس کی طاقت میں اور اضافہ کرتی)۔ اور چونکہ امیرالمؤمنین کی ذاتِ اقدس صفاتِ اسلام کی تمام تعلیمات اور اقدار کے لئے نمونہِ کامل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس لئے آپ کی طرف سے معاویہ کی وقتی حمایت بھی اُس کے ماضی کے تمام اقدامات کو جائز بنا دیتی۔ جس کے نتیجے میں معاویہ کو ایسی ٹھوس دلیل مل جاتی کہ جسے کوئی بھی شخص چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔
معاویہ کے طرزِ عمل سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کی گورنری کو باقی رکھنے کا نتیجہ یہ ہر گز نہ ہوتا کہ وہ امیرالمؤمنین کی صدقِ دل سے بیعت کرکے شام کے علاقے میں بھی مرکزی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا اور وہاں سے آپ کو مدد پہنچاتا۔بلکہ آپ کی تائید کے بعد وہ اپنی ذاتی پوزیشن کو مضبوط کرتا اور گذشتہ پچیس برس سے اُسے اس علاقے میں جو اثر و رسوخ حاصل تھا جس کی ایک خاص تاریخی حیثیت تھی، جس کی پہلی خلافت میں بنیاد رکھی گئی ،دوسری خلافت میں اسے مزید تقویت ملی اور تیسری خلافت میں اسے ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ شام پر مدینہ کے اختیارات ہی ختم ہوگئے اور معاویہ ہر قسم کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا(شام کے علاقے میں اسلام نبی کریم کی وفات کے بعد پھیلا اور خلیفہ اول نے یزید بن سفیان کو اس کا گورنر بنایا تھا تاہم وہ زیادہ عرصہ حکومت نہ کرسکا اور اس دنیا سے چل بسا اس کے مرنے کے بعد معاویہ کو شام کا گورنر بنایا گیا تھا اور شام کے لوگ اسلام کی وہی تصویر جانتے تھے جو معاویہ اور اس کے کارندوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی تھی اسی لئے شام کے لوگ اہلبیت علیہم السلام کو بُرا بھلا کہنے سے نہیں ہچکچاتے تھے)۔ اگرچہ یہ صوبہ دستوری لحاظ سے مدینہ کا تابع تھا لیکن معاویہ اپنے تمام فیصلوں میں اپنی مرضی کرتا تھا۔ اب ایسی صورت میں امیرالمؤمنین وہاں کے گورنروں کو کچھ دنوں تک اس کے عہدے پر باقی رکھ کر بھی معزول کرنے کی کوشش کرتے تو زیادہ مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا اور وہ اسلامی علاقوں میں شور مچاتا کہ اب مجھ سے کون سا ایسا قصور سرزد ہوا ہے کہ معزول کیا جارہا ہوں۔ اگر میں بُرا تھا تو پہلے میری تائید کیوں کی اور اب میرے اندر کیا خرابی پیدا ہو گئی؟جب امیرالمؤمنین نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مجھے گورنر بنایا تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انھوں نے مجھے ایک انصاف پسند اور صالح حکمران تسلیم کیا لہٰذا اب میرے معزول کرنے کی کیا وجہ ہے ؟
یہ ایک ایسی بات تھی جو پورے عالمِ اسلام کی رائے عامہ کو اس کا ہمنوا بنادیتی اور امیرالمؤمنین کے لئے ہر ایک کو مطمئن کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن جب آپ نے حکومت سنبھالی تو فورًا اسے معزول کیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ آپ اسے کسی بھی لحاظ سے اس قابل نہیں سمجھتے تھے۔
اس سلسلے کا آخری نکتہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ ” بنی اُمیہ روزِ اوّل ہی سے اسلام کے دشمن تھے اور وہ پوری قوت صرف کر کے اسے مٹانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ابوسفیان ( جو ساری عمر نبی کریم سے لڑتا رہا جب اسلامی حکومت اس کے خاندان میں پہنچی اور خلیفہ ثالث مسندِ اقتدار پر بیٹھا تو) جناب حمزہ کی قبر کے پاس آیا اور اسے اپنے پیروں سے روند کر کہنے لگا کہ :
دیکھو ! جس دین کی خاطر تم لوگوں نے ہم سے جنگ کی، اس کی راہ میں جان قربان کی اور مسلسل فداکاریاں کرتے رہے اُٹھ کر دیکھو، آج ایک گیند کی مانند ہمارے ہاتھ میں ہے جس سے ہمارے لڑکے دل کھول کر کھیل رہے ہیں۔
اسلام کو مٹانے کی سازش کی پہلی کڑی کے طور پر وفات رسول کے فورًا ہی بعد شام کی حکومت حاصل کر لی گئی۔ یزید بن ابی سفیان کے بعد معاویہ گورنر بنایا گیا اور اس طرح اس نے ۲۵ برس کے عرصہ میں پوری جما لیے۔ جس کے بعد معاویہ کوئی ایسا موقع ڈھونڈنے لگا کہ تمام اسلامی ممالک پر ہلہ بول دے۔ اور خلیفہ ثالث کے قتل نے اس کے لئے یہ سنہرا موقع بھی فراہم کر دیا وہ عثمان کے قصاص کے نام پر کھل کر میدان میں آگیا۔ حالانکہ جب عثمان کے خلاف شورشیں پھیلی ہوئی تھی تو وہ بار بار
معاویہ کو خط لکھ کر اس سے مدد طلب کر رہا تھا مگر معاویہ نے عثمان کی کسی قسم کی کوئی مدد نہ کی۔ جبکہ معاویہ عثمان کے لئے ایک ایسا لشکر بھیج سکتا تھا جو خلیفہ ثالث کا دفاع
کرے۔ لیکن معاویہ کی تو دل سے یہ خواہش تھی کہ عثمان قتل کر دیا جائے اور اس کے خون کابدلہ لینے کے بہانے میدان میں اترنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ معاویہ اب صرف گورنری کا کافی نہیں سمجھ رہا تھا۔ کیونکہ وہ تو ابتدائی مرحلہ تھا۔ اب ۲۵ برس کے بعد اسے اتنی قوت حاصل ہو چکی تھی کہ وہ جلد از جلد پورے اسلامی ممالک پر جا برانہ تسلط قائم کرلے۔
لہٰذا اگر وقتی طور پر اسے گورنری کے عہدے پر باقی رہنے دیا جاتا تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس پر قناعت کرنے والا تھا۔ تو پھر باطل سے مصالحت کا فائدہ اور اس کا جواز ہی کیا تھا؟
وہ فقہی قاعدہ جس کا شروع میں ذکر کیا گیا، اس صورت حال کے لئے ہے جب کسی الم واجب کی بقا کسی معمولی درجہ کے حرام کے ارتکاب پر موقوف ہو اور یہ یقین ہو کہ اس حرام کا ارتکاب کر کے اس اہم ترین فریضہ کو بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ امیرالمؤمنین کے سامنے جو صورتِ حال تھی وہ ایسی نہ تھی ۔ کون یہ یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ آج گورنرِ شام کو آپ برداشت کر لیں۔ کل وہ آپ کا مطیع و فرمان بردار بن جائے گا؟
مندرجہ بالا حقائق وشواہد کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امیرالمؤمنین کے لئے باطل سے مصالحت کی ڈپلومیسی بالکل ضروری نہیں تھی۔ اگر آپ کو وقت ملتا اور جس نہج پر آپ قوم کو چلانا چاہتے تھے۔ اس پر چلنے دیا جاتا تو حالات کی اصلاح کی بھر پور توقع موجود تھی۔لیکن یہ توقع اس وقت یکسر ختم ہوگئی ، جب نامراد ابن ملجم نے زہر آلود تلوار سے آپ کو اس وقت زخمی کردیا جب آپ وقت کے سب سے بڑے ناسور کا آپریشن کرنے والے تھے اور خباثتوں کے سردار کے شر سے دنیا کوہمیشہ کے لئے پاک کر دینے والے تھے۔آپ کو خون میں نہایا ہوا دیکھ کر امام حسن نے گریہ شروع کیا تو آپ نے تسلی دیتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی برقرار رہے گی۔
اے نور نظر! تم لوگوں کو تمہارے منصب سے ہٹایا جائے گا، قتل بھی کیا جائے گااور جلاوطن کیا جائے گالیکن تم ثابت قدم رہنا یہاں تک کہ تمہیں زہر دے دیا جائے گا، پھر تمہارے بھائی حسین مقابلہ کریں گے ۔یہاں تک کہ وہ بھی شہید کر دیئے جائیں گے۔ لیکن پھر بھی حق و باطل کی معرکہ آرائی جاری رہے گی۔ یہاں تک کہ جس وقت قوم تقریبًا مُردنی کی کیفیت سے دوچار ہو جائے گی۔ اس وقت بھی یہ رزم آرائی برقرار رہے گی۔ کیونکہ ایک نہ ایک ہستی اسی بہرحال موجود رہے گی جو دین کو تباہ نہیں ہونے دے گی۔
امیرالمؤمنین نے جن امور کے بارے میں نشان دہی فرمائی تھی وہ تمام نشانیاں پوری ہوئیں۔ ہدایت کے ستون ایک ایک کر کے گرتے رہے یہاں تک آج بھی حق وباطل میں معرکہ آرائی جارہی ہے۔
ہم خداوندِعالم سے دعاگو ہیں کہ حق و باطل کی معرکہ آرائی میں امیرالمؤمنین کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرماآمین۔
Add new comment