مرکزی افریقہ میں مسلمانوں کا قتل عام۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
ابھی میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کا داغ دلوں سے مٹا نہیں تھا کہ مرکزی افریقہ کے ملک سے مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں موصول ہو رہی ہیں یہ وہ قتل عام ہے جو یورپی ملکوں کی خارجی فوجوں کے ذریعے ہو رہا ہے ۔ نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق،گذشتہ روز اسکائی نیوز عربی ٹی وی نے چشم دید گواہوں سے نقل کرتے ہوئے کہا: مسلح افراد نے کم سے کم ۷۰ مسلمانوں کو جنوب مغربی افریقہ میں قتل کر دیا۔چشم دید گواہوں نےیہ بھی تاکید کی کہ یہ مسلح افراد عیسائی مذہب کے تھے اور گین نام کے دیہات پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے ایک گروہ سے کہا کہ سب زمین پر لیٹ جائیں اس کے بعد ان پر گولیوں کی بوچھار کردی اور بزدلانہ طور پر مسلمانوں کو قتل کر دیا : ابھی تک اس دیہات کے سینکڑوں افراد نے مسلح افراد کے حملے کے ڈر کے مارے شہر کے کلیسا میں پناہ لے رکھی ہے ۔
مرکزی افریقہ میں ان خونی جھڑپوں کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟
مرکزی افریقہ کی نئی جمہوری حکومت کے اقتدار پر آجانے کے بعد مغربی تنظیمیں مسلمانوں کے طاقتور ہو جانے سے ان کے خلاف کودتا انجام دینے سے پہلے سخت غصے میں تھیں اس لیے کہ اس ملک کے مالی منابع اب صرف عیسائی وزیروں کے ہاتھ میں نہیں رہ گئے تھے ۔ وہ جگہ کہ اس سے پہلے مسیحی وزراء حکومت میں اپنی اونچی پوسٹوں اور موجود وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھا کر چرچ اور مذہبی مدارس تعمیر کرسکتے۔
رافت صلاح الدین ایک مصری کالم نگار اور افریقی مسائل کے تجزیہ نگار نے ایک تحلیلی مقالے میں کہ جس کا عنوان ہے ، جمہوری افریقائے مرکزی میں کیا ہو رہا ہے؟ اس نے الجزیرہ کے خبری چینل کے انٹرنیٹ پر حاضر ہو کر جمہوری افریقائے مرکزی کی موجودہ حالت ، اور اس ملک میں بد امنی اور جھڑپوں کے جاری رہنے ، مرکزی افریقہ کے عیسائی اور مسلمان شہریوں کے درمیان اختلافات ،دونوں کے شدت پسند نیم فوجی دستوں کے درمیان خونی جھڑپیں ، مسلمان شہریوں کے اپنے حقوق سے محروم ہونے ، مغربی ممالک خاص کر فرانس کا اپنے سابقہ مقبوضہ اس ملک کے عیسائی شہریوں کی حمایت کرنا اور حالیہ جرائم کے سلسلے میں بین الاقوامی سوسائیٹی کی خاموشی اور مرکزی افریقہ کے مسلمانوں کی دائمی محرومیت ،جیسے موضوعات کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے اپنے مقالے میں لکھا ہے :
امت اسلامی اس سے پہلے کہ ایک حادثے کو بھلا پائے دوسرے حادثے سے دوچار ہو جاتی ہے ۔تازہ ترین حادثہ کہ امت اسلامی کو جس کا سامنا ہے وہ جمہوری افریقائے مرکزی میں رونما ہو رہا ہے وہ جگہ کہ جہاں اس ملک کےمسلمان دردناک ترین جرائم کا شکار ہو رہے ہیں جس کی آگ فرانس بھڑکا رہا ہے وہ ملک کہ جس نے اب تک اپنی نفرت انگیز استعماریت کو فراموش نہیں کیا ہے اور اس وقت بھی اس نے مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے لازمی حالات ایک بھر پور قومی جنگ کی شکل میں جمہوری افریقائے مرکزی میں پیدا کر دیے ہیں ۔
فرانس مسلمانوں کو ظلم کا شکار بنانے والوں کی قطار میں پہلے نمبر پر ہے۔
جمہوری افریقائے مرکزی میں حالیہ عقیدتی اور فرقہ پرستی پر مبنی جھڑپوں کے علاوہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے اندرونی حوادث اور جھڑپوں کی ایک وجہ طاقت اور اقتصادی وسائل پر قبضہ جمانا ہے ۔
خارجی سطح پر کچھ بین الاقوامی اور علاقائی حریف جمہوری افریقائے مرکزی میں اپنے مفادات کے حصول اور نفوذ کو حتمی بنانے کے مقصد کے تحت ، افریقہ کے اس کمزور ملک میں جو عظیم اقتصادی وسائل سے مالا مال ہےاس ملک کی حالیہ اندرونی جھڑپوں کی آگ کو ہوا دےرہے ہیں ۔ اس سلسلےمیں مداخلت کرنے والی بین الاقوامی طاقتوں کی فہرست میں بھی فرانس کا نام سب سے اوپر ہے فرانس وہ ملک ہے جو ماضی میں اس ملک پر قابض تھا اور آج اس کا شمار اس کے سرپرستوں میں ہوتا ہے اور مغربی طاقتوں یعنی یورپین یونین اور امریکہ کی حمایت بھی اس کو حاصل ہےتا کہ وہ اپنے مشرقی حریف یعنی چین کے نفوذ کا مقابلہ کر سکے ۔
یہ ایسی صورت میں ہے کہ حال ہی میں چین کی قومی تیل کمپنی نے جمہوری افریقائے مرکزی کے شمال مشرق میں تیل کے کنویں کھودنا شروع کیے ہیں اور ایک سوڈانی کمپنی کے ہمراہ اس نے اچھے نتائج حاصل کیے ہیں ۔انہوں نے اس ملک میں تیل دریافت کرنے کا حق خود سے مخصوص کر لیا ہے اس لیے کہ اس سلسلے میں جو امریکی کمپنی کام کر رہی تھی اس پر جب مرکزی افریقہ کے شمال میں مسلحانہ حملہ ہوا تو وہ اس ملک میں تیل کی دریافت کے اپنے کام سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور ہو گئی ۔
ایران کے چینل کی رپورٹ کے مطابق ، اس کے علاوہ چین کی دوسری کمپنیاں بھی جمہوری افریقائے مرکزی میں دوسرے بہت سارے کاموں جیسے خاص کر توانائی کے حصول ،تعمیرات اور ارتباطات میں سرمایہ لگا چکی ہیں ۔ اس لیے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ملک ابتدائی ڈھانچے اور بہرہ اندوزی میں کمزوری کی بنا پر ، چینی مصنوعات کے لیے امید بخش بازار شمار ہوتا ہے ۔
جمہوری افریقائے مرکزی میں چین کے رو بہ ترقی رول کے با وجود فرانس اب بھی اس ملک میں سب سے بڑا سرمایہ لگانے والا ملک شمار ہوتا ہے چون کہ وہاں فرانسیسی کمپنیوں کو بہت سارے امتیازات اور سہولتیں خاص کر توانائی ، حمل و نقل اور ارتباطات کے میدان میں حاصل ہیں ۔
اس سب کے باوجود ایسا بالکل دکھائی نہیں دیتا کہ فرانس اپنی جمہوری افریقائے مرکزی میں موجودگی کے دوران اس ملک کے مختلف گروہوں کے سلسلے میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کرے گا ،ایسے میں کہ جب ،میشل جوتودیا کے ترجمان ،ابراہیم عثمان نے اپنے اظہارات کے دوران بیان کیا تھا:جمہوری افریقائے مرکزی کے مسلمان نہیں چاہتے کہ فرانس اس ملک میں موجود رہے اس لیے کہ سونے اور الماس کی تجارت جو اس ملک کی پوری تجارت کے ۸۰ فیصد پر مشتمل ہے وہ مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی ۔اور فرانس بھی اس ملک کے تیل کے کنووں اور یورینیم کی کانوں پر قبضہ جمانے اور ان کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے یہاں آیا ہے ۔
جمہوری افریقائے مرکزی کی تاریخ کے پہلے صدر کے ترجمان نے یہ بھی کہا ؛ فرانس کے ذرائع ابلاغ اجتماعی قتل عام کرنے والوں اور جمہوری افریقائے مرکزی کو غصب کرنے والوں کے اصلی چہروں کو ظاہر نہیں کرتے ۔ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ملک کے بڑی تعداد میں عیسائی مسلمانوں کے ساتھ ازدواج کے بندھن میں بندھ کر دین اسلام کی طرف مایل ہو گئے ہیں اور ان کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے ۔
آخر میں یہ کہہ دوں کہ فرانس کے علاوہ علاقے کے کچھ اور کھلاڑی جیسے جنوبی افریقہ اور چاڈ بھی جمہوری افریقائے مرکزی میں حالیہ حوادث کے وقوع پذیر ہونے میں حصے دار ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف رد عمل؛
حسین امیر عبد اللہ ہیان امور خارجہ کی وزارت کے افریقی اور عربی معاون نے مرکزی افریقہ میں مسلمانوں کےقتل عام کے خلاف رد عمل کے طور پر مھر کے خبر نگار کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا :جو کچھ ہم مرکزی افریقہ میں دیکھ رہے ہیں یہ غلط پالیسیوں اور بیرونی ملکوں کی مداخلت کا نتیجہ ہے۔
اس نے مزید کہا :مرکزی افریقہ کے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام ان لوگوں کے مذہبی تعصبات کو ہوا دینے کا نتیجہ ہے جو برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ پر امن طور پر زندگی بسر کرتے رہے ہیں ۔
امیر عبد اللہ ہیان نے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ قتل عام اسلام سے ڈرانے کی خاطر کروایا گیا ہے اظہار کیا :مرکزی افریقہ میں عیسائی شدت پسندی کو مسلمانوں کے درمیان منحوس شدت پسندی کے سلسلے کی کڑی کہا جا رہا ہے۔
اس نے مزید کہا :شدت پسندی ایسے معاشروں میں پنپتی ہے کہ جن کی فکری اور ثقافتی بنیادیں پست ہوتی ہیں کہ اس ملک میں بھی اسی قاعدہ کو لاگو کیا گیا ہے اور بد قسمتی سے استعماری اور مداخلت کرنے والی طاقتیں اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔
وزیر خارجہ کے معاون نے بیان کیا :مرکزی افریقہ میں مخالف بلاکوں میں عیسائی شدت پسندی اور سلکوں میں اسلامی شدت پسندی دونوں جمہوری اسلامی ایران کی نظر میں مردود اور قابل مذمت ہیں موجود ہ حالات نے جنو بی افریقہ میں قومی پاک سازی کا راستہ ہموار کر دیا ہے سب کو مل کر کو شش کرنا چاہیے تا کہ روا نڈا کی نسل کشی کی تلخ یاد دہرائی نہ جائے ۔
انہوں نے تصریح کی : جمہوری اسلامی ایران مرکزی افریقہ کے بے گھر مسلمانوں کے لیے امداد روانہ کرے گا ایران سلامتی کونسل کی قراردادوں اور افریقی یونین کے لیبر ویل سمجھوتوں کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ توقع رکھتا ہے کہ یہ طاقتیں شدت پسندوں سے ہتھیار واپس لینے اور بے گھر مسلمانون کو پر امن طریقے سے اپنے گھروں میں واپس بھیجنے اور لوگوں کو ان کی سلامتی لوٹانے کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں ۔
مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی نے مرکزی افریقہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیے جانے کی مذمت کی ۔ تہران میں قائم اسلامی رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" نے ایک بیان جاری کرکے مسلح نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں مرکزی افریقہ کے مسلمانوں کا قتل عام کیے جانے کی مذمت کی اور بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ فوری اقدام کے ذریعے اس جنایت کا سد باب کریں ۔
اس بیان کا متن مندرجہ ذیل ہے :
بسم اللہ الر حمن الرحیم
مرکزی افریقہ میں مسلمانوں کے حالات کی وسیع پیمانے پر خبریں اور اندرونی اور بیرونی کچھ طاقتوں کی حمایت سے ان مسلمانوں پر شدت پسند گروہوں کے حملوں کی خبریں سنائے دے رہی ہیں کہ جو نسلی اور قومی پاک سازی کی خاطر کچھ مسلمانوں کو قتل کرنے اور کچھ کو بے گھر کرنے کے در پے ہیں اور ان شرمناک کاروائیوں کی وجہ سے ایسے درد ناک انسانی حادثے رونما ہوئے ہیں کہ جن کی مثال تاریخ میں بہت کم دیکھی گئ ہے ۔
ہم مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کے نام سے بے شرمی پر مبنی ان دہشت گردانہ کاروایوں اور ان دردناک جرائم قتل اور غارت گری نسل کشی اور بے گھر کر دینے کی کار وایوں کے مقابلے میں اقوام متحدہ کی خاموشی کی مذمت کرتے ہیں اور انسانی سوسائٹیوں افریقی ملکوں کی یونینو ںاور سماجوں اور پوری دنیا میں بین الاقوامی تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں تا کہ مرکزی افریقہ کے لوگوں کو امن واپس دلا سکیں اور مختلف آسمانی ادیان کے ماننے والوں کے درمیان افہام و تفہیم پیدا کریں تاکہ ان کی انسانی عزت محفوظ رہ سکے ۔
ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ مرکزی افریقہ کے بے گناہ مسلمانوں کے رنج و غم کو دور کرے اور ان کے شہیدوں کو اپنی رحمت واسعہ کے سائے میں رکھے اور ان کو اپنی وسیع جنت میں جگہ عطا کرے ۔
بشکریہ::::::::::::: شفقنا اردو
Add new comment