قومی سلامتی کی پالیسی اور مایوس کن پہلو۔۔۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
ٹی وی شیعہ [میڈیا ڈیسک]وزارت داخلہ کی طرف سے ایوان میں پیش کی جانے والی قومی سلامتی کی پالیسی کی تفصیل اور اس پر عمل درآمد کے لیے نیشنل سکیورٹی سے مربوط مجوزہ اداروں کے خدوخال حسب ذیل ہیں۔
نیکٹا کی از سر تشکیل نو
قومی داخلی سلامتی پالیسی (این آئی ایس پی) برائے 2014ء تا 2018ء کے مطابق کچھ نئے ادارے قائم کیے جائیں گے اور کچھ پرانے اداروں کو مستحکم کیا جائے گا، جن میں نیکٹا (نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی)، کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)، سول آرمڈ فورسز ہیڈکوارٹرز اور ریپڈ ریسپانس فورس شامل ہیں۔ این آئی ایس پی کی دستاویز میں سفارش کی گئی ہے کہ طاقتور ادارے نیکٹا کی از سر تشکیل نو کی جائے۔ 86 صفحات پر مشتمل مجوزہ پالیسی کے مسودے میں بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ پالیسی پر عملدرآمد کی ذمے داری ہو گی، نیکٹا دہشت گردی کے تدارک کیلیے کردار ادا کریگا، تمام وزارتیں، تنظیمیں، ایجنسیاں اور ادارے نیکٹا کو معلومات فراہم کریں گے جو 30 روز کے اندر پالیسی روڈ میپ کی تشکیل دینے کیلئے کام کرے گا، اتھارٹی کا ایک نیشنل کوآرڈینیٹر ہوگا۔ ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی قیادت وزیراعظم کریں گے اور اس میں وزیر داخلہ، وزرائے اعلیٰ، آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی جیسی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان، وزیر دفاع خزانہ و قانون، صوبائی چیف سیکرٹریز، انسپکٹر جنرلز، ڈی جی ایف آئی اے وغیرہ شامل ہوں گے۔
ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل سکیورٹی
فوجداری نظام قانون، پولیس، سویلین مسلح فورسز اور سرحدی علاقوں میں انتظامات کیلئے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت میں بہتری لانے کے ساتھ ایک اہم ادارہ، ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل سکیورٹی (ڈی آئی ایس) بھی قائم کیا جائے گا جو نیکٹا کے ماتحت ہوگا جو تمام سویلین اور ملٹری ایجنسیوں کے ساتھ مل کر معلومات کے تبادلے اور آپریشنل کارروائیوں میں معاونت فراہم کرے گا تاکہ موثر انداز سے دہشت گردی کا انسداد کیا جا سکے۔
ڈی آئی ایس
پالیسی پیپر میں لکھا ہے کہ 33، سویلین اور ملٹری کی آپریشنل اور انٹیلی جنس ایجنسیاں تعاون کر کے این آئی ایس اے کو انٹیلی جنس معلومات اور دیگر معلومات فراہم کریں گی۔ مزید کہا گیا ہے کہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ تمام انٹیلی جنس معلومات نیکٹا کو فراہم کریں۔ ڈی آئی ایس کا ایک کام یہ بھی ہوگا کہ وہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور دیگر مخصوص اداروں کو پرتشدد دہشت گرد گروپس اور تنظیموں کے حوالے سے لاحق خطرے کی پیشگی اطلاع دے گا۔ ڈی آئی ایس کی قیادت ڈائریکٹر جنرل کرے گا جبکہ اس کے افسران اور اہلکاروں کا تعلق آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور سویلین مسلح فورسز اور صوبائی پولیس سے ہوگا۔
ڈی آئی ایس کے مخصوص ونگ ہوں گے جیسا کہ انٹیلی جنس اینڈ اینالسز سینٹر، نیشنل انٹرنل سکیورٹی آپریشنل سینٹر، آپریشن پلاننگ سینٹر، سینٹر انٹیلی جنس ٹیم، ایئر ونگ اور ریپڈ ریسپانس فورس۔ ان کا کام ناکٹا کیلئے مختلف آپریشنل اور تجزیاتی امور سرانجام دینا ہوگا۔ ڈی آئی ایس کے ونگز انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم (سائبر کرائم)، بارڈر کنٹرول اور امیگریشن، مالیاتی جرائم، منی لانڈرنگ، انٹرپول کے ساتھ رابطہ کاری اور بین الاقوامی سطح پر تعاون کے امور بھی نمٹائیں گے۔ ڈی آئی ایس کے مخصوص گروپس بھی ہوں گے جو اپنی توجہ ریاست مخالف گروہوں، ریاست مخالف مسلح گروہوں، سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز، فرقہ ورانہ دہشت گردی اور دیگر کالعدم گروپس، پیشہ ور مجرم گروپس، اور منظم مافیاز پر مرکوز رکھیں گے۔
ریپڈ ریسپانس فورس
دستاویز میں لکھا ہے کہ ریپڈ ریسپانس فورس انسداد دہشت گردی کیلئے وفاقی حکومت کا مرکزی ادارہ ہوگا اور پاکستان بھر میں سی آئی ڈی اس کے تحت ہوگی۔ صوبائی سی آئی ڈیز بھی ریپڈ ریسپانس فورس کی طرز پر اپنی فورس تشکیل دیں گے۔ آر پی پی کمانڈو فورس یونٹ ہوگا جسے میدان میں مختصر نوٹس پر اتارا جا سکے گا تا کہ انتہائی مشکل صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ اس فورس کیلئے لڑائی کا ساز و سامان اور اسلحہ بین الاقوامی معیار کا ہوگا اور آر آر ایف کا پہلا بیچ جلد تشکیل دیا جائے گا اور ملٹری پولیس اور سی آئی ڈیز سے 500 پیشہ ور اور ماہر اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے گا۔
ایئر ونگ
ناکٹا کے داخلی سکیورٹی کے ڈائریکٹوریٹ کے تحت ایئر ونگ کیلئے، وزارت داخلہ کے موجودہ دستیاب طیاروں کے علاوہ، 8، اضافی ہیلی کاپٹرز اور مزید بہتر طیارے شامل کیے جائیں گے۔ پالیسی پیپر کے مطابق ایئر ونگ کو مکمل اور ساز و سامان سے لیس بنانے کیلئے موجودہ فضائی اثاثوں، طیاروں اور بغیر پائلٹ کے طیاروں کی تعداد بڑھانا ہوگی اور اس کے ساتھ ہی فیلڈ کی سہولت میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ میں موجود تین آپریشنل فضائی فیلڈز کے ساتھ کوہاٹ، بہاولپور، فتح جنگ اور اور ماڑہ میں موجود موجودہ فضائی پٹیوں کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اخراجات
این آئی ایس پی پر عملدرآمد کے نتیجے میں قومی خزانے سے 32 ارب روپے خرچ کرنا ہوں گے اور اس پر دسمبر 2014ء تک عملدرآمد ہو گا۔ صوبائی اداروں پر اخراجات کا تخمینہ 22 ارب ہے جبکہ وفاقی اداروں پر اخراجات کا تخمینہ 10 ارب روپے ہے، حالانکہ وفاق صوبوں کی معاونت بھی کرے گا۔
کمپوزٹ ڈیٹرنس پلان، پیشہ وارانہ جہت
این آئی ایس پی کا معتدل ادارہ مذاکرات کے آپشن پر توجہ مرکوز رکھے گا اور سیاسی عمل کی اہمیت کو اجاگر کرے گا جس کیلئے ایک جامع ریسپانس پلان (سی آر پی) مرتب کیا جائے گا۔ این آئی ایس پی کا غیر معتدل ادارہ مجموعی مزاحمتی پلان (کمپوزٹ ڈیٹرنس پلان) سی ڈی پی پر مشتمل ہوگا جو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ملک کی موجودہ داخلی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ سی آر پی ایک مخلوط نظام ہے جو کہ ہر طبقے کے ساتھ مذاکرات پر مشتمل ہے اور اس میں انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ، دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی بحالی، قومی مفاہمت، استحکام اور قانونی اصلاحات شامل ہیں۔ سی ڈی پی کے حوالے سے پالیسی پیپر میں لکھا ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی مجموعی کارکردگی ناہموار ہے اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ سی ڈی پی کے ذریعے ان ایجنسیوں کو پیشہ ورانہ صلاحیت سے ہم آہنگ کیا جائے گا اور روایتی اور غیر روایتی لڑائی کے حوالے سے اور ملک کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس کیلئے این آئی ایس اے میں ہنگامی بنیادوں پر ازسر تشکیل نو کی ضرورت ہے تاکہ انصاف اور سکیورٹی بہتر انداز میں فراہم کی جا سکے۔ سی ڈی پی کے تحت ملک کی داخلی سلامتی کے اداروں کا ڈھانچہ تبدیل کر کے انہیں تعاملی سے تبدیل کر کے پیش اقدام بنایا جائے گا جس کا فوری مقصد دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنا ہو گا اور اس مقصد کیلئے انٹیلی جنس اداروں میں رابطوں کے فقدان اور خلیج کو فوری طور پر پُر کیا جائے گا۔
موجودہ قوت اور وسائل
پالیسی پیپر میں ملک کے سکیورٹی اداروں کی صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر 33 تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن کا کام داخلی سکیورٹی کے مسائل سے نمٹنا ہے۔ ان ایجنسیوں میں افرادی قوت 6 لاکھ ہے اور یہ پاکستان کی ریگولر فوج سے بھی زیادہ تعداد ہے۔ تاہم، پولیس اور سویلین آرمڈ فورسز میں 56 ہزار اسامیاں اب بھی خالی ہیں۔ پاکستان ہر سال پولیسنگ پر 155 ارب روپے خرچ کرتا ہے اور 2009ء سے اس میں 76 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
سی اے ایف اور دیگر ایل ای اے کی تعیناتی اور مینٹیننس پر اضافی اخراجات کیے جاتے ہیں۔ ’’ریاست کی قانون نافذ کرنے کی صلاحیت کا دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے امتحان لیا جاتا رہا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف کامیابی ہمیشہ نہیں ملی۔ خیبرپختونخوا میں پولیس ضلع سوات میں شامل تھی اور سی اے ایف کچھ قبائلی علاقوں میں غیر موثر ہوگئی۔ ان علاقوں میں مسئلے سے نمٹنے کیلئے فوجی آپریشن کی ضرورت نے سویلین اداروں کی عدم صلاحیت کو اجاگر کیا اور ساتھ ہی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کی حد بھی واضح کردی۔‘‘
ڈائیلاگ، آئسولیشن اینڈ ڈیٹرنس
پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ این آئی ایس پی فریم ورک میں ایسے فوری اقدامات اور حکمت عملی کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی مدد سے دہشت گردی کی لہر کو قابو اسے کمزور اور آخر میں اسے شکست دی جا سکے گی۔ وسط مدتی پالیسی اقدامات میں ڈھانچہ سازی کے معاملات دیکھے جائیں گے جنہوں نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے فروغ میں کردار ادا کیا ہے۔ مذاکرات، تنہا کرنا اور مزاحمت (ڈائیلاگ، آئسولیشن اینڈ ڈیٹرنس) این آئی ایس پی کے فریم ورک کے تین عناصر ہوں گے۔
خارجہ امور
پالیسی پیپر میں اعتراف کیا گیا ہے افغانستان میں عالمی دہشت گردی اور مسلح تنازع نے پاکستان کی داخلی سلامتی کی کایہ پلٹ دی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو صرف گذشتہ دس سال کے دوران 78 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
مایوس کن پہلو
سلامتی کی پالیسی میں جو بات سب سے زیادہ تعجب کی تھی وہ یہ کہ اس پر عمل درآمد کے لیے نہ کوئی ٹائم فریم دیا گیا، نہ کوئی ڈیڈ لائن ہے، حتیٰ کہ ’جلد از جلد‘ جیسی عمومی اصطلاح استعمال کرنے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔ جس قسم کے حالات کا ملک کو سامنا ہے اس میں تو اس قسم کے ہر منصوبے کے لیے مدت کا واضح تعین لازمی تھا تاکہ تمام سرکاری ادارے جنگی بنیادوں پر اس پر کام کرتے۔ اب یہ پالیسی کب عملی شکل اختیار کرے گی، نہ حکومت نے بتایا نہ کسی کو علم ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الفاظ تک محدود رہے۔
بشکریہ :::::::::::::::: رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
Add new comment