وہابیت ایک باطل مسلک

وہابیت ان باطل مسلکوں میں سے ہے جنھیں اسلام دشمنوں خاص طور سے ان سامراجیوں نے جن کے دل اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی سے سیاہ ہیں ، قرآن کی پیرو امت کے درمیان ایجادکیا ہے اور اسلامی امت کے الٰہی مقدسات کی توہین ان کے عقائد کی تضعیف نیز مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے اس باطل فرقہ کو اسلامی ممالک میں پھیلانے کی مذموم کوشش میں پیہم مصروف ہیں ، قتل و غارت اور اسلامی مقدسات کی توہین سے لبریز وہابیوں کی شرمناک تاریخ گواہ ہے کہ اس باطل فرقہ کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اسلامی عقائد کی بیخ کنی اور استعماری طاقتوں کے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے ۔ ان کے کالے کرتوت اس حقیقت کے منھ بولتے ثبوت ہیں۔
جن مسائل کے سلسلہ میں وہابی حضرات بہت زیادہ حساس ہیں ان سے ایک قبور کی تعمیر اور اور پیغمبروں ، اولیاء اور خدا کے نیک و برگزیدہ بندوں کی قبروں پر عمارت بنانا ہے۔
اس مسئلے کو سب سے پہلے ابن تیمیة کے مشہور و معروف شاگرد (ابن القیم ) نے چھیڑا اور اولیا ء خدا نیز پیغمبروں کی قبروں پر عمارت بنانا حرام قرار دیا ۔ اور انہدام کا فتویٰ دیا ۔ وہ اپنی کتاب ( زاد المعاد فی ھدی خیر العباد)صفحہ٦٦١پر لکھتا ہے:
'' یَجِبُ ھَدْمُ الْمَشاھِدِ الَّتِیْ بُنِیَتْ عَلیٰ الْقبُوْرِ، وَلاَ یَجُوْزُ اِبْقَائُ ھَا بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلیٰ ھَدْمِھَا وَ ابْطَالِھَا یَوْماً وَاحِداً''
''قبروں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو ڈھانا واجب ہے ، اگر انہدام اور ویرانی ممکن ہو تو ایک دن بھی تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔''
١٣٤٤ھ میں جب آل سعود نے مکہ و مدینہ کے گرد نواح میں اپنا پورا تسلط جمایا تو مقدس مقامات ، جنت البقیع اور خاندان رسالت مآب (ص) کے آثار کو صفحہ ہستی سے محو کر دینے کا عزم کیا اس سلسلے میں انھوں نے مدینہ کے علماء سے فتوے لئے تاکہ تخریب کی راہ ہموار ہو جائے ۔ نجد کے قاضی القضات '' سلیمان بن بلیہد'' کو مدینہ روانہ کیا تاکہ وہ ان کے من پسند فتوے ، علمائے مدینہ سے حاصل کرے ، لہٰذا اس نے ان سوالات کو اس طرح گھما پھرا کر پوچھا کہ ان کا جواب بھی انہی سولات میں موجود تھا ، مفتیوں کو یہ سمجھادیا گیا کہ ان سوالات کے وہی جوابات دیں جو خود ان سوالات میں موجود ہیں ورنہ تمھیں بھی مشرک قرار دے دیا جائے گا ۔اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
سوال اور جوابات مکہ سے شائع ہونے والے رسالہ ( ام القراء ) ماہ شوال ١٣٤٤ ھ میں منتشر ہوئے ۔ مدینہ کے پندرہ علماء سے فتویٰ لینے اور اسے حجاز میں نشر کرنے کے بعد فورا خاندان رسالت کے آثار کو اسی سال آٹھویں شوال کو محو کرنا شروع کر دیا گیا۔ جنت البقیع میں آئمہ علیہم السلام کے روضوں کی گراں بہا اشیاء لوٹ لی گئیں اور قبرستان بقیع ایک گھنڈر اور ویران کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔
ہم کچھ سوالوں کو نقل کر رہے ہیں تاکہ قارئین کے لئے روشن ہو جائے کہ انھوں نے کس قسم کے سوال بنائے تھے۔ جن میں جواب بھی موجود تھا ۔ '' سلیمان بلیہد'' اپنے سوال کو یوں بیان کرتا ہے :
'' ماقول علماء المدینة المنورة زاد ھم اللّٰہ فھماو علما فی البناء علی القبور و اتخاذھا مساجد ھل ھو جائز او لا و اذا کان غیر جائز بل ممنوع منھی عنہ نھیا شدیدا فھل یجب ھدمھا و منع الصلوة عندھا ام لا و اذا کان البناء فی مسبلة کالبقیع و ھو مانع من الانتفاع با لمقدار المبنی علیہ فھل ھو غصب یجب رفعہ لما فیہ من ظلم المستحقین و منعھم استحقاقھم ام لا ؟''
'' کیا فرماتے ہیں علماء مدینہ منورہ جن کے علم و دانش میں خدا وند عالم روز افزوں ترقی عطا فرمائے ، قبروں پر تعمیر و عمارت اور وہاں مسجد بنانے کے متعلق کہ یہ جائز ہے یا یا نہیں ؟ اگر جائز نہیں ہے اور اسلام نے بڑی شدت سے اس کی ممانعت کی ہے تو کیا انھیں منہدم کرنا اور وہاں نماز پڑھنے سے روکنا ضروری اور واجب ہے یا نہیں ہے ؟''
کیا بقیع جیسی وقف شدہ زمین پر بنائی گئی قبریں ، عمارتیں اور گنبد ، جن کی وجہ سے بعض حصوں سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا ، وقف کے بعض حصہ کے غصب کے مترادف نہیں ہے ؟ انھیں جتنا جلدی ہو سکے ختم کیا جائے تاکہ مستحقین پرجو ظلم ہوا ہے رفع ہو جائے ۔
مدینہ کے علماء نے خوف و حراس کے عالم میں ( شیخ ) کے سوال کا یوں جواب دیا :
''اما البناء علی القبور فھو ممنوع اجماعا لصحة الا حادیث الواردة فی منعہ و لھٰذا افتیٰ کثیر من العلماء بوجوب ھدمہ مستندین بحدیث علی رضی اللّٰہ عنہ انہ قال : لابی الھیاج الا بعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ ان لا تدع تمثا لا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ''
'' قبروں پر عمارت بنانا ، احادیث کی روشنی میں اجماعی طور پر منع ہے اسی لئے بہت سے علماء نے اس کے انہدام کے وجوب کا فتویٰ دیا ہے اور اس سلسلے میں حضرت امام علی علیہ السلام سے ابی الہیاج کی نقل کردہ ایک روایت کا سہارا لیتے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمھیں ایسے کام پر مامور کرتا ہوں جس پر رسول خدا (ص) نے مجھے مامور کیا تھا ۔ وہ یہ کہ جو تصوریر بھی نظر آئے اسے ختم کرو اور جس قبر کو بھی دیکھو اسے برابر کر دو''۔
مرحوم آقا بزرگ تہرانی اپنی کتاب '' الذریعة '' کی آٹھویں جلد کے صفحہ ٢٦١ پر یوں تحریر فرماتے ہیں : وہابی ١٥ ربیع الاول ١٣٤٣ ہجری کو حجاز پر قابض ہوئے اور انھوں نے آٹھویں شوال ١٣٤٣ہجری کو جنت البقیع میں ائمہ کے مزاروں اور صحابہ کی قبروں کو منہدم کر دیا ۔ حالانکہ رسالہ ( ام القرایٰ ) نے استفتاء اور جواب کو شوال ١٣٤٤ہجری میں نشر کیا ہے اور علماء مدینہ کے جوابات کی تاریخ ٢٥ رمضان ذکر کی ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا چاہئے کہ وہابیوں کا قبضہ اور تخریب دونوں ہی ١٣٤٤ہجری میں انجام پائے ۔ مرحوم محسن امین نے ان کے مکمل قبضے اور تخریب جنت البقیع کی تاریخ ١٣٤٤ہجری ہی لکھی ہے ۔
وہابیت کی بنیادی فکر اسلامی فرقوں کی تکفیر ، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر بیان کرنا ، اسلامی آثار کو محو کرنا ظالم و جابر حکومتوں کو تقویت بخشنا ہے ۔ ان کے کچھ بزدل ،حرام خور اور درباری ملا ،مفتی ، مقرر و مصنف ہیں جو ان رٹی رٹائی باتوں کو غور و فکر کئے بغیر طوطے کی طرح دہرانے کے سوا اور کچھ بھی کہنے سننے کی جرأت نہیں رکھتے ۔ یہ تصویر وہابیوں کے ڈھانچے سے پوری طرح ظاہر ہوتی ہے۔
عالم اسلام کوانہدام جنت بقیع کادن جس میں انھوں نے رسول اکرم (ص)کے جگر گوشوں کے مزار ات ، اصحاب کبار ، امہات مومنین اور خاندان رسالت (ص)کی دوسری شخصیتوں کے مقبروں کو مسمار کرکے قلب رسالت (ص) کو مجروح کیا ہے اور توہین رسالت (ص)و خاندان رسالت (ص)کے مرتکب ہوئے ہیں ۔عالمی سطح پر احتجاج کا دن منانا چاہئے اسی طرح ہم اسلام اور رسول اسلام (ص) سے اپنی محبت و وفاداری کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں۔

http://www.mahdimission.com/fekr/mahdim-mag/num_02/01.htm

Add new comment