وہابیوں کا صحیح تعارف۔ٹی وی شیعہ رپورٹ
یہ فرقہ محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان نجدی سے منسوب ہے جو ١١١١ھ میں پیداہوئے تھے اور ١٢٠٦ ھ میں انتقال کیا ۔
محمد بن عبد الوہاب نے تھوڑی بہت دینی تعلیم حاصل کی تھی مگر کیونکہ انھیں جھوٹے مدعیان نبوت ،یعنی مسیلمۂ کذّاب، سجاج، اسود عنسی اور طُلَیحۂ اسدی جیسے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کافی دلچسپی تھی اسی بنا پر اپنی تعلیم کے دوران ہی ان کے اندر انحراف اور گمراہی کے آثار اس حد تک نمایاں ہوچکے تھے کہ ان کے والد اور اساتذہ اس خطرہ سے لوگوں کو ہوشیار کرنے پر مجبور ہوگئے اس بارے میں ان حضرات کے یہ الفاظ ملاحظہ فرما ئیے۔
''یہ (محمد بن عبد الوہاب) بہت جلد گمراہ ہونے والا ہے اور جن لوگوں کو خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر کے شقاوت (بدبختی) میں مبتلا کرنا چاہے گاانہیں اس کے ذریعہ گمراہ کردے گا''
١١٤٣ھ میں محمد بن عبد الوہاب نے اپنے نئے مذہب (فرقہ) کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کی تو سب سے پہلے ان کے والد اور اساتذہ ہی اس انحراف کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی تمام باتوں کا جواب دیتے رہے اسی لئے انہیں کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہوسکا۔
یہاں تک کہ ١١٥٣ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ سادہ لوح عوام کے درمیان اپنے افکار (وہابیت ) کی تبلیغ شروع کردی، اگرچہ اس بار چند کم مایہ افراد نے موصوف کی پیروی ضرور کی مگر ان کے شہر والوں نے ہی ان کے خلاف ہنگامہ کردیا اور وہ ان کے قتل پر تیار ہوگئے جس کے خوف سے انہیں ''عینیہ'' شہر کی طرف فرار ہونا پڑا ،وہاں پہونچ کر وہ وہاں کے حاکم سے اتنا قریب ہوئے کہ اس کی بہن سے شادی کرلی. اور وہاں بھی اپنے جھوٹے مذہب کی تبلیغ جاری رکھی مگر وہاں بھی لوگوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا اور بالآخر شہر بدر بھی کردئے گئے وہ وہاں سے نجد کے مشرقی علاقہ ''درعیہ'' (نامی جگہ) کی طرف بھاگے جہاں اس سے پہلے جھوٹے مدعی نبوت مسیلمۂ کذّاب اور اس جیسے دوسرے باطل فرقوں اورمذاہب نے سر ابھارا تھا۔
شائد یہ اسی سر زمین کا اثر تھا کہ محمد بن عبد الوہاب کے نظریات یہاںپروان چڑھنے لگے اور وہاں کے حاکم محمد بن سعود اور اس کی رعایا نے ان کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔
اس شخص کواگرچہ اجتہاد سے کہیں دور کا واسطہ بھی نہیں تھا پھر بھی یہ ہرمسئلہ میں ایک مسلم الثبوت مجتہد کی طرح دخل اندازی کرتا رہتا تھا اور اسے گذشتہ یا اپنے ہم عصر مجتہد ین کے اقوال اور نظریات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔
یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ خود موصوف کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب جو اپنے بھائی کو دوسروں سے بہتر جانتے اور پہچانتے تھے یہ الفاظ ان کے ہیں، انہوں نے اپنے بھائی کی گمراہی ،انحراف اور اس کی باطل پر مبنی جھوٹی تبلیغ کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں بہت ہی مختصر اور جامع انداز میں وہابیت اور اس کے موجد کے بارے میں وہ یوں رقمطراز ہیں:
''آج لوگ ایسے آدمی کے ہاتھوں امتحان میں مبتلا ہوگئے ہیں جو کتاب و سنت کی طرف اپنی نسبت دیتا ہے اور انہیں دونوں سے استنباط کا دعویٰ کرتا ہے اور چاہے جو شخص بھی اس کی مخالفت کرلے اسے کوئی پرواہ نہیں ہے وہ اپنے مخالفوں کو کافر سمجھتا ہے جب کہ اس کے اندر اجتہاد کی کوئی ایک علامت بھی موجود نہیں ہے بلکہ خدا کی قسم اس کے اندر اجتہاد کی علامت کا دسواں حصہ بھی موجود نہیں ہے اس کے باوجود اس کی باتیں بعض نا دانوں اور (سادہ لوح عوام) پر اثر انداز ہو رہی ہیں جس کے بعد ''انا للہ و انا الیہ راجعون'' ہی کہا جاسکتاہے۔
مزید تفصیل کے لئے محمود شکری آلوسی کی تالیف تاریخ نجد، شیخ سلیمان بن عبد الوہاب کی کتاب الصواعق الالہٰیہ فی الرد علی الوہابیہ، ص٧،یا فتنۂ وہابیت،ص٥ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری فصل
وہابی نظریات کی بنیادیں
وہابیت کی دو بنیادیں ہیں: ظاہری اور باطنی (خفیہ)
ان کا ظاہری دعویٰ تو یہی ہے کہ یہ لوگ کامل اور خالص توحید کے مبلغ اور شرک و بت پرستی کے خلاف جنگ و جہاد کے علمبردار ہیں. اگرچہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ تاریخ وہابیت میں اس کا کوئی عملی نمونہ نہیں دکھائی دیتا ۔
وہابیت کا خفیہ کام اسلامی فرقوں کے درمیان اختلاف اور فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر مغربی استعمار کی خدمت کرناہے اور ان کا یہ خفیہ مقصد ہی ان کی تمام ریشہ دوانیوں کی بنیاد ہے اور وہابیت نے روز اول سے آج تک اپنے اسی منصوبہ پر اپنی پوری طاقت اور دولت صرف کی ہے اور صرف اسی مقصد کے تحت یہ لوگ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ''حقیقی توحید اور شرک و بت پرستی سے مقابلہ'' یہ ایک ایسا حسِین اور پرکشش نعرہ ہے جس کے تحت وہابی حضرات خوشی خوشی اکٹھا ہو جاتے ہیں. جب کہ انہیں خود ہی یہ معلوم نہیں رہتا کہ در اصل یہ سب کچھ اس فرقہ کے خفیہ منصوبوں کی تکمیل کے لئے انجام دیا جارہا ہے۔
تاریخ وہابیت سے متعلق تحقیق کرنے والے مورخین اور محققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ فرقہ در اصل حکومت برطانیہ کی وزارت مستعمرات کے براہ راست حکم سے وجود میں آیا ہے ۔
مزید تفصیلات کے لئے خیری حماد کی تالیف عمدة الاستعمار سنٹ جون فیلبی یاعبدا ﷲ فیلبی کی تاریخ نجد،اسرائیل کے پہلے صدرہیمز وائز من کی ڈائری ، مسٹر ہمفرے کی نوٹ بک ،یا ڈاکٹر ہمایوں ہمتی کی تالیف'' وہابیت: تنقیدوجائزہ'' ملاحظہ فرمایئے ۔
تیسری فصل
وہابیت کے فکری سر چشمے
وہابی فرقہ کے عقائد دو طرح کے ہیں:
وہ عقائد جن کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص موجود ہے، اس سلسلہ میں وہابیوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ایسے عقائد کو براہ راست کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیں اوراس بارے میں کسی مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرتے چاہے وہ مجتہد صحابی ہو یا تابعی اوریا کوئی امام ہو۔
دوسرے وہ عقائد جن کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں ہے اس کے لئے وہ اپنے خیال کے مطابق امام احمد بن حنبل اور ابن تیمیہ کے فقہی فتووں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
لیکن ان دونوں ہی مقامات پر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تضاد گوئی کے جال میں پھنس کر رہ گئے، اسی وجہ سے وہ عجیب و غریب حرکتوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر چند نمونے ملاحظہ فرمایئے:
الف: وہابی حضرات نے بعض آیات و روایات کے جو معنی خود سمجھے ہیں وہ اسی پر مصرہیں چاہے وہ اجماع امت کے سراسر خلاف ہی کیوں نہ ہو ں،اسی لئے شیخ محمد عبدہ نے ان کی یہ پہچان بیان کی ہے ''وہابی حضرات ہر تقلید کرنے والے (مقلد) سے زیادہ تنگ نظر اور غصہ ور ہیں اسی لئے جن قواعد و ضوابط پر دین کا دارو مدار ہے یہ ان سے تمسک کئے بغیر جس لفظ سے انہیں جو کچھ سمجھ میں آتا ہے اسی پر عمل کرنے کو واجب سمجھتے ہیں۔ ]الاسلام والنصرانیہ،مؤلفہ محمد عبدہ ،با حاشیہ ٔرشید رضا، ص٩٧، طبع دوم)
ب: وہابی حضرات اگرچہ امام احمد بن حنبل کی پیروی کے مدعی ہیں مگر وہ اپنے ہی امام کے نظریات کے مخالف ہیں. کیونکہ یہ لوگ اپنے مخالف کو کافر سمجھتے ہیں جب کہ امام احمد بن حنبل کے فتووں میں وہابیوں کو اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں ملی ہے بلکہ اس کے برعکس امام احمدبن حنبل کے تمام نظریات ان کے دعووں کے برخلاف نظر آتے ہیں یعنی امام حنبل کسی اہل قبلہ (مسلمان) کو گناہ کبیرہ یا صغیرہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں سمجھتے مگر یہ کہ وہ بے نمازی ہو۔]العقیدة لاحمد بن حنبل، ص ١٢٠[
اسی طرح ابن تیمیہ کے یہاں بھی وہابیوں کے اس عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ ابن تیمیہ سے منقول چیزوں میں تو ان کے بالکل مخالف بات نظر آتی ہے۔
اس سلسلہ میں ابن تیمیہ کے الفاظ یہ ہیں: ''جو شخص اپنے موافقین سے دوستی رکھے اور اپنے مخالفین کا دشمن ہو اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرے اور جو لوگ فکری یا اجتہادی اعتبار سے اس کے مخالف ہیں (موافق نہیں ہیں) انہیں کافر و فاسق قرار دے اور ان سے جنگ کرنے کو مباح کہے وہ خود اہل تفرقہ و اختلاف ہے۔ ]فتووں کامجموعہ: ابن تیمیہ، ج٣، ص٣٤٩[
اس طرح ابن تیمیہ کے نظریہ کے مطابق وہابی فرقہ، اہل تفرقہ و اختلاف ہے۔
ج: قبروں اور مزاروں کی زیارت کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کا لازمہ یہ ہے کہ خود امام احمد بن حنبل یا ان کے ہم خیال گذشتہ اور موجودہ تمام علماء بلا استثناء سب ایسے مشرک ہیں جن سے دور رہنا اور انہیں قتل کرنا اور ان کے اموال کو تاراج کر نا واجب ہے جبکہ خود ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ امام احمدبن حنبل نے امام حسین کی قبر کی زیارت اور زائر ین کے لئے کچھ ضروری آداب پر مبنی ایک رسالہ لکھا ہے. مزید یہ کہ ابن تیمیہ نے ہی یہ بھی تحریر کیا ہے کہ:'' امام احمدبن حنبل کے زمانہ میں لوگ امام حسین کی زیارت کے لئے کربلا جاتے تھے''۔ ]کتاب راس الحسین، ابن تیمیہ جو کتاب استشہاد الحسین طبری کے ساتھ طبع ہوئی ہے، ص٢٠٩[
ایک طرف وہابیوں کے عقیدہ کے مطابق قبروں کی زیارت کرنا اور مزارات پر حاضری دینا ایک ایسا شرک ہے جس کے مرتکب ہونے والے کی جان و مال مباح ہے دوسری طرف ابن تیمیہ اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک کچھ آداب کے ساتھ زیا رت کی جا سکتی ہے اب ہر شخص خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ ان حضرات نے اپنے اس عقید ہ میں خود امام احمدبن حنبل (جن کو اپنا پیشو ا قرار دیتے ہیں) اور ان کے دورکے علماء کے علاوہ ایسے تمام علماء کو مشرک ،نیزان کے خون (جان) اور مال کو مباح قرار دیا ہے جو قبروں کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور ان کی نظر میں زیارت قبور ایک مستحب عمل تھا۔
بلکہ وہابیوں کے اس عقیدہ کا لازمہ تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک پوری امت مسلمہ ہی کافر ہے جس میں صحابۂ کرام بھی شامل ہیں۔
اگر حق یہی ہے تو پھر یہ حضرات کس بنا پر اپنے کو امام احمدبن حنبل یاگذشتہ مسلمانوں سے وابستہ سمجھتے ہیں؟۔
د: اسی طرح شفاعت پیغمبرۖ سے متعلق وہابیت کا دوسرا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں: ''جو شخص پیغمبر اکرۖم کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت طلب کرے وہ ایک عظیم شرک کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ ایسے شخص نے پیغمبر اکرۖم کو بت بنا دیا اور اس نے غیر خدا کی عبادت کی ہے'' لہذا یہ حضرات اس کے خون اور مال کو مباح جانتے ہیں۔ ]تطہیر الاعتقاد،: صنعانی، ص٧[
جب کہ صحیح روایات کے ذریعہ یہ ثابت ہے کہ بہت سے صحابہ اور تابعین اس عمل کو انجام دیتے تھے اور ان کی دعا بھی بہت جلد مستجاب ہوتی تھی اور وہ اپنی حاجت حاصل کرلیتے تھے۔
ابن تیمیہ نے اپنی کتاب، الزیارة، ج٧ میں، ص٦ ۔ ١٠١ پر اس بات کو صحیح قرار دیا ہے اور چند سندوں کے ساتھ اسے بالتفصیل بیہقی، طبرانی، ابن ابی دنیا، احمد بن حنبل اور ابن سنی سے نقل کر نے کے علاوہ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس بات کی دلیل اور برہان موجود ہے اگرچہ وہ اپنے نظریہ کے مطابق اس کی مخالفت پر مصر بھی ہیں لیکن پھر بھی ابن تیمیہ نے مسئلہ شفاعت کو وہابیوں کی طرح شرک اکبر نہیں قرار دیا ہے۔
لہذا وہابیوں کے نظریہ کے مطابق، اصحاب پیغمبرۖ اور ان کی پیروی کرنے والے تمام حضرات ایسے مشرک ہیں جو واجب القتل ہیں بلکہ عقیدۂ وہابیت کے مطابق نہ صرف یہ کہ یہی حضرات مشرک ہیں بلکہ اگر کوئی شخص یہ سن لے کہ صحابہ اور ان کے تابعین نے پیغمبرۖ سے شفاعت طلب کی تھی اور وہ ان کے اس عمل سے بیزاری کا اظہار نہ کرے اورانھیں کافر نہ سمجھے تو اس کی جان و مال بھی مباح ہے۔
سبحان اللہ!!
وہابیت اپنے اس عقیدہ اور مذہب کے بعد امت مسلمہ میں کس کو مسلمان سمجھتی ہے اوراپنے اسلاف میں کس کی پیرو باقی رہ جاتی ہے؟؟!
چوتھی فصل
صحابہ کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ
الف: پہلے یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ وہابی عقائد کے مطابق اکثر صحابہ یا کافر ہیں یامشرک! اور اس میں وہ تمام صحابہ شامل ہیں جو پیغمبرۖ کی وفات کے بعد آپ ۖسے شفاعت طلب کرتے تھے اور آپ کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے جاتے تھے یا اسے جائز سمجھتے تھے، یا دوسروں کو یہ اعمال انجام دیتے ہوئے دیکھتے،مگر بیزاری کا اظہار نہیں کرتے تھے، حتی کہ جو لوگ اس کے جواز کے قائل تھے اوروہ انہیں کافر یا مشرک اور ان کی جان و مال وغیرہ کو حلال نہیں قرار دیتے تھے وہ بھی اسی حکم میں ہیں!!
یہ بات وہابی عقائد کا لازمہ ہے اور ان کا موجودہ نظریہ بھی یہی ہے۔
لیکن یہ لوگ اپنی باتوں کے دوران صحابہ کا جو احترام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،در حقیقت ان باتوں کے ذریعہ یہ لوگ سادہ لوح عوام کو فریب دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے یہ اپنا اصل عقیدہ بیان کرنے سے ڈر تے ہیں لہذا ان کے خوف کی وجہ سے صحابہ کی تکفیر کے مسئلے کو صحیح انداز سے بیان نہیں کرتے ۔
ب: وہابیوں نے پیغمبرۖ کے بعدزندہ رہ جانے والے صحابہ کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ آنحضرۖت کی حیات طیبہ میں آپ کے ساتھ رہنے والے صحابۂ کرام بھی ان کی گستاخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے. بانیٔ وہابیت محمد بن عبد الوہاب کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
''اگر چہ بعض صحابہ آنحضرۖت کی رکاب میں جہاد کرتے تھے، آپ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، زکوٰة دیتے تھے، روزہ رکھتے تھے اور حج کرتے تھے پھر بھی وہ کافر اور اسلام سے دور تھے''!! ]الرسائل العملیة التسع، مؤلفہ محمد بن عبد الوہاب، رسالۂ کشف الشبہات، ص١٢٠، مطبوعہ ١٩٥٧ئ [
ج: صحابہ کے بارے میں وہابیوں کے اس عقیدہ کی تائید ان چیزوں سے بھی ہوتی ہے جو ان کے علماء اور قلم کاروں نے یزید کی تعریف اور حمایت میں تحریر کیاہے۔ جب کہ تاریخ میں یزید جیسا ،صحابہ کا اور کوئی دشمن نہیں دکھائی دیتا جس نے صحابہ کی جان و مال اور عزت و آبرو کو بالکل حلال کر دیا تھا نیز یزید جیسا اور کوئی ایسا شقی نہیں ہے جس نے تین دن تک اپنے لشکر کے لئے(واقعہ حرّہ میں) مدینہ کے مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو ،سب کچھ حلال کردی ہو۔
چنانچہ تین دنوں کے اندر مدینہ میں جو لوگ بھی مارے گئے وہ صحابہ یا ان کے گھر والے ہی تھے اور جن عورتوں اور لڑکیوں کی عزت تاراج کی گئی ان سب کا تعلق بھی صحابہ کے گھرانوں سے ہی تھا. یہی وجہ ہے کہ آئندہ سال مدینہ کی ایک ہزار کنواری لڑکیوں کے یہاں ایسے بچوں کی ولادت ہوئی جن کے باپ کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔
واقعہ حرّہ سے پہلے یزید کی سب سے بڑی بربریت کربلا میں سامنے آئی جب اس نے خاندان رسالت و نبوت کی اٹھارہ (١٨) ہستیوں کو تہ تیغ کر ڈالا جن کے درمیان آنحضرۖت کے پیارے نواسے اور آپ کے دل کے چین حضرت امام حسین نیز ان کے بیٹے، بھتیجے اور دوسرے اعزاء و اقرباء حتی کہ٦ مہینے کا شیر خوار بچہ بھی تھا۔
یزید کا ایک بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے مکۂ مکرمہ پر حملہ کر کے خانۂ کعبہ میں آگ لگوائی۔
جی ہاں!
وہابی حضرات اسی یزید کے قصیدہ خواں ہیں! اب اس کا راز کیا ہے ؟یہ کون بتائے!۔
ہوسکتا ہے (شاید) صحابہ اور ان کی عورتوں اور بچوں کے اوپر ظلم و تشدد اور ان کے ساتھ اس ناروا سلوک کی بنا پر ہی یہ لوگ یزید کی تعریف کرتے ہوں!!
مزید تعجب یہ کہ! یزید نماز نہیں پڑھتا تھا. اور شراب پیتا تھا…اور فقہ امام ابو حنیفہ کے مطابق (وہابی حضرات جس پر عمل پیرا ہونے کے مدعی ہیں) انہیں اُس کی صرف اِسی حرکت کی بنا پر اسے کافرقرار دے دینا چاہئے مگر وہ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسے معذور قرار دیتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے؟ کہ یزید کی ان تمام حرکتوںکو جاننے کے باوجود یہ لوگ اسے کچھ نہیں کہتے؟ بلکہ اس کی تعریف کرتے ہیںمگر جن لوگوں نے قبر پیغمبرۖ سے شفاعت طلب کرلی یا وہ آپ کی زیارت کی نیت سے آپۖ کی قبر مبارک پر چلے گئے ان کو کافر قرار دیدیا، چاہے وہ بڑے بڑے صحابہ، تابعین یا مجتہدین کرام ہی کیوں نہ ہوں؟۔
کیا یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ یزید نے اصحاب پیغمبرۖ کا خون بہایا، ان کی عزت و آبرو کو تاراج کیا اور ان کی ناموس کو ظالموں کے لئے مباح کر دیا تھا؟!
پانچویں فصل
صفات خدا کے بارے میں وہابیوں کا عقیدہ
اللہ تعالیٰ کے صفات کے بارے میں وہابی بالکل مجسِّمہ (جو لوگ خدا کے لئے جسم کے قائل ہیں) جیسا عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ خدا کے لئے اعضاء و جوارح کے قائل ہیں جیسے ہاتھ، پیر، آنکھ یا چہرہ وغیرہ.... اس کے علاوہ اس کے لئے اٹھنے بیٹھنے، حرکت کرنے، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے، نیچے یا اوپر آنے،جانے کے بالکل اسی طرح قائل ہیں جو ان الفاظ کے ظاہری معنی سے سمجھ میں آتا ہے!!
خداوند کریم ہمیں ان نادانوں کی گمراہ کن باتوں اور عقائد سے اپنی امان میں رکھے۔ ]ھٰذہ السنیة، رسالۂ چہارم :عبد اللطیف[
اس بارے میں وہابی فرقہ ابن تیمیہ کا پیرو ہے اور یہ درحقیقت ''حشویہ'' کا عقیدہ ہے جو اہل حدیث ہیں اور ان کے پاس اسلامی عقائد اور فقہ و اصول کا کوئی خاص علم نہیں، اسی لئے ان لوگوں کو حدیث کے الفاظ سے جو کچھ سمجھ میں آجاتا ہے یہ اسی کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں' 'واضح رہے کہ حشویہ کا یہ عقیدہ ،یہودیوں کے مجسِّمہ فرقہ کے عقائد سے ماخوذ ہے''۔
اس سے یہ بخوبی ثابت ہو جاتا ہے کہ وہابی ایسے عقائد رکھتے ہیں جن کی تائید کے لئے وہ صحابہ یا تابعین (کے پہلے طبقہ) کے اقوال سے بطور دلیل ایک حرف بھی پیش نہیں کرسکتے پھر بھی ان لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارے تمام اسلاف کا یہی عقیدہ تھا مگر اس کے ثبوت میں کوئی مستحکم اور متقن دلیل پیش کرنے کے بجائے اسے بے سر پیر کی لمبی چوڑی باتوں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر، وہابیت کو اپنے اس عقیدہ کی دلیل کے لئے اس ایک بات کے علاوہ اور کچھ نہ مل سکا جو ابن تیمیہ کے منھ سے نکلی تھی اور وہ بھی ایسا جھوٹ ہے جو ان کے متعصب اور سادہ لوح پیرؤوں کے علاوہ کسی کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
ابن تیمیہ نے وہابیت کے اس عقیدہ کی سب سے اہم دلیل اور سند کے بارے میں یہ کہا ہے: '' صحابہ کے درمیان قرآن کی کسی آیتِ صفات کی تاویل کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔''
اس کے بعد تحریر کیا ہے:'' میں نے ان تفسیروں اورحدیثوں کا مطالعہ کیا ہے جو صحابہ سے منقول ہیں اور چھوٹی، بڑی سو سے زائد کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں جن کی صحیح تعداد خدا جانتا ہے لیکن اب تک مجھے کوئی ایسا صحابی نہیں ملا جس نے صفات (خدا) سے متعلق آیات و روایات کی تاویل، اس کے ظاہری معنی کے برخلاف بیان کی ہو۔ ]تفسیر سورۂ نور، ابن تیمیہ، ص١٧٩، ١٧٨[
اسی کتاب میں ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے... ''کہ میں نے اپنی نشستوں (محفلوں) میں یہ بات متعددباربیان کی ہے۔''
لیکن ابن تیمیہ کا یہ بیان بالکل غلط ہے جس کا ثبوت وہ تمام کتابیں ہیں جو صفات خدا سے متعلق آیات کی تفسیر میں لکھی گئی ہیں خاص طور سے وہ کتابیں جن میں صحابہ کی تفسیر نقل ہوئی ہے اس کے علاوہ خود وہ کتابیں بھی اس کی بہترین سند ہیں جن پر ابن تیمیہ نے زور دیاہے اور یہ کہا ہے: ''ان کتابوںنے صحابہ اور اسلاف کی تفسیروں کو صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے''اور انہیں کتابوں میں ان کی یہ من گڑھت اور جھوٹی باتیں موجود نہیں ہیں جن میں تفسیر طبری، تفسیر ابن عطیہ، تفسیر بغوی سب سے اہم کتابیں ہیں۔ ]مقدمہ فی اصول التفاسیر، از ابن تیمیہ، ص٥١[
ان تمام تفسیروں میں صحابہ سے آیات ِصفات کی تاویل ان کے ظاہری معنی کے برخلاف نقل ہوئی ہے اور تفسیر کا یہ انداز تمام آیات ِصفات میں یکساں طور پر نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر طبری ،ابن عطیہ اور بغوی کے نظریہ کے مطابق آیة الکرسی کی تفسیر ملاحظہ فرمایئے: ان تمام حضرات نے اس سلسلہ میںابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ''کُرسِیُّہ'' سے علم خدا مراد ہے۔
ابن عطیہ نے اسی تفسیر پر اکتفا کی ہے اور اس بارے میں ابن عباس کے علاوہ بقیہ لوگوں سے جو کچھ بھی نقل ہوا ہے اسے اسرائیلیات اور حشویہ کی روایات قرار دیا ہے جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ]شوکانی نے فتح القدیر، ج١، ص٢٧٢، پر اسے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے[
اسی طرح وہ تمام روایتیں جن میں کلمۂ ''وجہ'' آیا ہے جیسے 'وجہ ربک'اور 'وجہہ'یا 'وجہ اللّٰہ 'کے بارے میں صحابہ سے جو سب سے پہلی چیز نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہر جگہ سیاق وسباق کے مطابق اس سے ارادہ یا ثواب وغیرہ مراد لیا ہے۔
لہٰذا خدا کے لئے جسم قرار دینے کے بارے میں وہابیوں کے عقیدہ کی صرف ایک دلیل ، وہی تہمت ہے جسے وہ صحابہ کے سر تھوپتے ہیں اور سراسر غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ،مشہور کتب تفسیر کی طرف جھوٹی نسبت دیتے ہیں جب کہ اس بارے میں تحقیق کرنا نہایت آسان ہے کیونکہ ہر صاحب علم ان کتابوں کا مطالعہ کر کے صحیح صورتحال کا خود اندازہ کرسکتا ہے۔
مثال کے طور پر تفسیر بغوی ملاحظہ فرمایئے: جس کی تعریف و تمجید کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے یہ کہا ہے: ''اس میں جعلی اور گڑھی ہوئی احادیث نقل نہیں ہوئی ہیں ''اب اس تفسیر میں صفات خدا سے متعلق ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کیجئے: سورۂ بقرہ، آیت ١١٥ و ٢٢٥ (آیة الکرسی) و ٢٧٢، سورۂ رعد آیت ٢٢،سورۂ قصص آیت ٨٨، سورۂ روم، آیت ٣٨ و ٣٩، سورۂ دہر ، آیت٩ ۔
تفسیر بغوی کامطالعہ کرنے کے بعد آپ کو یہ بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ وہابیوں نے بزرگانِ دین اور اسلاف صالح پر کتنا بڑا بہتان لگایا ہے۔
چھٹی فصل
وہابی اور مسلمان
وہابیوں کی سب سے بڑی بدعت
وہابیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف وہابی ہی اصل موحّد ہیں اور ان کے علاوہ بقیہ تمام مسلمان مشرک ہیں،لہٰذا انہیں یا ان کی اولادوں کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا جائز ہے اور ان کے علاقے (ممالک) کفر و شرک کے علاقوں (ممالک) میں شامل ہیں۔
اس فرقہ کا عقیدہ ہے کہ جب تک کوئی مسلمان بھی رسول ۖخدا کی مسجد یا قبر اور ان کی زیارت کی نیت سے مدینہ جائے گا یا آپ سے شفاعت طلب کرے گا اس کے لئے ''لا الٰہ الا اللّٰہ'' اور ''محمّد رسول اللّٰہ ''کی گواہی دینا بے فائدہ ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جو مسلمان بھی مذکورہ باتوں کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے اور اس کا شرک دور جاہلیت کے مشرکوں، بت پرستوں اور ستارہ پرستوں سے بھی بدتر ہے۔ ]مزید تفصیل کے لئے الرسائل العلمیہ التسع، مؤ لفہ: محمد بن عبد الوہاب ، ص٧٩، یاصنعانی کی تالیف: تطہیر الاعتقاد ص١٢،ا ور ص٣٥، فتح المجید، ص٤٠وص٤١،اور رسالۂ اربع قواعدنیز رسالۂ کشف الشبہا ت ،مؤ لفہ: محمد بن عبد الوہاب یا وہابیوں کی دوسری اہم کتابیں ملاحظہ فرمایئے[
محمدبن عبد الوہاب نے کشف الشبہات نامی رسالہ میں تقریباً ٢٤ بار (اپنے پیرووں کے علاوہ)تمام مسلمانوں کے لئے شرک اور مشرک جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں اور بیس (٢٠) بار انہیں کفار، بت پرست، مرتد، منکرتوحید، دشمن توحید، دشمن خدا اور اسلام کا مدعی کہا ہے اور عبد الوہاب کے پیرووں نے بھی اپنی کتابوں میں یہی سب کچھ تحریر کیا ہے۔
بھلا بتایئے، کیا واقعاً وہابیوں نے یہ عقیدہ اسلاف کے اجماع سے حاصل کیا ہے؟ یا انہوں نے دین میں یہ ایک خطرناک بدعت ایجاد کی ہے؟۔
اس سلسلہ میں ابن حزم نے یہ بنیادی قاعدہ و قانون بیان کیا ہے:
''کبھی بھی کوئی مسلمان ،عقائد سے متعلق کسی مسئلہ میں اپنا نظریہ بیان کر نے سے نہ کافر ہوتا ہے نہ فاسق، اس کے بعد انہوں نے ان بزرگوں کے نام ذکر کئے ہیں جو اس نظریہ کے قائل تھے، یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں:''جہاں تک ہمارے علم میں ہے یہ تمام صحابہ کا قول ہے اور ہمیں اس بارے میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا ہے۔'' ]الفصل، مولفہ: ابن حزم، ج٢، ص٢٤٧، نیز کتاب الیواقیت و الجواہر، مولفہ: شعرانی مبحث ٥٨ ملاحظہ فرمائیں[
ابن تیمیہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ خوارج کے علاوہ کسی شخص نے کسی مسلمان کو کسی گناہ یا اپنی رائے ظاہر کرنے کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا ۔ ] ابن تیمیہ کے فتووں کامجموعہ، ج١٣، ص ٢٠[
لہذا وہابیوںنے اپنی اس بدعت میں خوارج کے علاوہ اور کسی کی پیروی نہیں کی ہے!!
ساتویں فصل
وہابی اور خوارج
عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کو راہ حق سے منحرف کرنے کے بارے میں وہابیوں اور خوارج کے درمیان اس درجہ شباہت پائی جاتی ہے کہ ایک محقق اور صاحب علم یہی سمجھتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں اگرچہ زمانہ کے اعتبار سے ان کے درمیان کافی فاصلہ پایا جاتا ہے۔
اب آپ ان دونوں فرقوں کی شباہت کی وجہیں ملاحظہ فرمایئے:
الف: تمام مسلمانوں کے برخلاف خوارج نے یہ کہا ہے کہ: گناہ کبیرہ کرنے والا کافر ہے۔
اسی طرح وہابیوں نے بعض کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے۔ ]مزید تفصیل کے لئے محمد بن عبد الوہاب کی کشف الشبہات اور صنعانی کی تطہیر الاعتقاد ملاحظہ فرمایئے[
ب : جس اسلامی ملک اور علاقہ میں کسی گناہ کبیرہ کا رواج ہو جائے ،خوارج اس کو دار کفر اور دار حرب قرار دیتے ہیں اور رسولخداۖ نے کفار کے ساتھ جو سلوک کیا تھا یہ بھی ان کے ساتھ اسی سلوک کو جائز سمجھتے ہیں یعنی ان کی جان و مال کو جائز قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح اگر کسی علاقہ کے مسلمان پیغمبر اکرۖم یا دوسرے اولیائے الہٰی کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھیں اور ان سے شفاعت طلب کریں تو وہابی بھی ان کو کافر کہتے ہیں چاہے وہ اپنے زمانہ کے سب سے صالح اور عابد انسان ہی کیوں نہ ہوں۔
گذشتہ دونوں صورتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہابیوں کا عقیدہ خوارج کے عقیدہ سے بھی بدتر ہے کیونکہ خوارج اس گناہ کو معیار قرار دیتے ہیں جو تمام مسلمانوں کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے لیکن وہابی ان باتوں کی بنا پر دوسروں کو کافر اور ایسے اعمال کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جو اصلاً گناہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور( جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے) گذشتہ صالحین جیسے صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والے لوگوں کا بھی یہی عمل رہا ہے۔
ج: وہابیوں اور خوارج میں ایک شباہت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہی دینی مسائل میں بیحد شدت پسند، ہٹ دھرم، متعصب مزاج اور عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔
جب خوارج نے قرآن مجید کی اس آیت''اِنِ الحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ'' حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ ]سورۂ انعام، آیت٥٧[کو دیکھاتو انہوں نے کہہ دیا: جو شخص غیر خدا کو حکومت اور فیصلہ کا اختیار دے وہ مشرک ہے۔
مذکورہ آیت کو انہوں نے اپنا نعرہ ہی بنا ڈالا اوراس حق کلمے کا ناحق استعمال کرنے لگے. ان کی یہ حرکت ایک سراسر جہالت و نادانی یا ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی کیونکہ اختلافات پیدا ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کرنا یا کرانا قرآن و عقل اور سنت پیغمبرۖ سے ثابت ہے اور اس بارے میں رسول اسلامۖ اور آپ کے صحابہ کی واضح سیرت موجود ہے۔
وہابیوں نے بھی جب ان آیتوں کو دیکھا ''اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نستعین'' ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (سورۂ فاتحہ، آیت٤) ''مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَہُ اِلَّا بِاِذنِہِ'' کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟(بقرہ، آیت٢٥٥) ''وَلایَشفَعُونَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ'' اور فرشتے کسی کی سفار ش بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسکو پسند کرے(سورۂ انبیائ، آیت ٢٨) تو یہ عقیدہ بنا لیا کہ جو شخص پیغمبر اکرۖم یا اولیائے الہٰی سے شفاعت طلب کرے وہ مشرک ہے اور جو شخص پیغمبر اکرۖم کی زیارت کرے اور آپ سے شفاعت طلب کرے اس نے آپ کی عبادت کی ہے اور آپ کو خدا قرار دے دیا ہے. مختصر یہ کہ وہابیوں کا نعرہ یہ ہوگیا ''لامعبود اِلا اللّٰہ، و لا شفاعة الا لِلّٰہ'' اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور شفاعت کاحق صرف خداکو ہے۔ یہ وہ حق کلمہ ہے جس سے وہ غلط معنیٰ مراد لیتے ہیں،جو عجیب و غریب جہالت اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے جب کہ صحابہ اور تابعین کی سیرت سے ان چیزوں کا جواز ثابت ہے (جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے)
د: ابن تیمیہ کا بیان ہے: ''خوارج کا عقیدہ وہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ،اس عقیدہ کے پیرو مسلمانوں کو کافر اور ان کا خون بہانا حلال سمجھتے تھے۔ ''] ابن تیمیہ کے فتووں کامجموعہ، ج١٣، ص٢٠[
وہابیوں کی بدعت کی بھی بالکل یہی حالت ہے اور شائدیہ وہ آخری بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ہے۔
ھ: وہ صحیح احادیث شریفہ جن میں خوارج اوران کے خروج کا تذکرہ ہے ان میں سے بعض وہابیت پر بھی صادق آتی ہیں... جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں پیغمبر اکرۖم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ''یخرج اناس من قبل المشرق یقرأون القرآن لایجاوز تراقیہم یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرمیة سیماہم التحلیق'' کچھ لوگ مشرق کی طرف سے خروج کریں گے جو قرآن پڑھتے ہونگے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے اس طرح باہر نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان کی پہچان سرمنڈانا ہے۔ ]صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ٥٧، ح٧١٢٣[
قسطلانی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے: مشرق سے مراد مدینہ کا مشرقی علاقہ ہے. جیسے نجد اور اس کے بعد کا علاقہ۔]ارشاد الساری، ج١٥، ص٦٧٦، مطبوعہ دار الفکر، ١٤١٠ھ[
نجد وہی علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے وہابیت وجود میں آئی اور یہیں سے اس نے سر ابھارا ہے. نیز سر منڈانا وہابیوں کی پہچان تھی اور یہ لوگ اپنے پیرووں کو اس کا حکم دیتے تھے، حتی کہ عورتوں کو بھی یہی حکم دیتے تھے، ان سے پہلے کسی بھی بدعتی فرقہ کی یہ پہچان نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہابیت کی ابتدا ہوتے ہی بعض علماء نے یہ کہا تھا ''کہ وہابیت کے ابطال کے لئے کتاب لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے ا بطال کے لئے یہ قول پیغمبرۖ ]ان کی پہچان سر منڈانا ہے[ ہی کافی ہے'' کیونکہ ان کے علاوہ دین میں بدعت پیدا کرنے والے کسی بھی فرقہ کے یہاں یہ پہچان نہیں دکھائی دیتی۔ ]فتنة الوہابیہ، مولف: زینی دحلان، ص١٩[
و: خوارج کے بارے میں پیغمبر اکرۖم کی یہ حدیث ہے: ''... یقتلون اہل الاسلام و یدعون اہل الاوثان'' مسلمانوں کو قتل کریں گے اور کافروں کو چھوڑ دیں گے'' ]ابن تیمیہ نے فتووں کے مجموعے میںج١٣، ص٣٢ پر اس کا تذکرہ کیا ہے[
بالکل یہی حال وہابیوں کا بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اہل قبلہ پر ہی حملے کئے ہیں اور کبھی بھی کفار یا مشرکین سے کوئی جنگ نہیں کی بلکہ ان کی کتابیں جہاں اہل قبلہ سے جنگ و جدال کے ضروری ہونے کے بارے میں بھری پڑی ہیں وہاں کفار سے جہاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے!
ز: امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے خوارج کے بارے میں یہ کہا ہے: ''جو آیتیں کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں خوارج نے انہیں مومنین سے متعلق قرار دے دیا۔'' ]صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدین باب ٥[
ابن عباس سے نقل ہواہے: ''خوارج کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اہل کتاب اور مشرکین (کفار) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تاویل اہل قبلہ کے بارے میں کی ہے اور وہ ان آیتوں کی معرفت سے بے بہرہ رہ گئے جس کے نتیجہ میں انہوں نے لوگوں کا مال لوٹا اور ان کا خون خرابہ کیا ''۔
یہی وہابیوں کا حال ہے کہ وہ بت پرستوں کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کا مصداق مومنین کرام کو قرار دیتے ہیں. اس سلسلہ میں ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
ح: ایک سنی اور ایک وہابی کے درمیان گفتگو:
وہابی نے کہا: وہابیوں کی کتابیں وہی ہیں جو حنبلیوں کی کتابیںہیں تم ان میں سے کس کا انکار کرسکتے ہو؟۔
لہذا تم وہابیوں پراس وقت تک انگلی نہیں اٹھا سکتے جب تک خود ان کی کتابوں میں اسے اچھی طرح نہ دیکھ لو چنانچہ ان کے بارے میں جو کچھ ان کے مخالفین کہتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
سنی نے کہا: قرامطہ کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟۔
وہابی: وہ کافر و ملحد ہیں۔
سنی: قرامطہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کا مذہب وہی ہے جو اہلبیت کا مذہب ہے. اور اہلبیت کی کتابیں ہی ان کی کتابیں ہیں کیا تمہیں اہلبیت کی کتابوں میں حق اور نور کے علاوہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے؟۔
وہابی نے کہا: قرامطہ جھوٹے ہیں، خود آپ جیسے لوگوں اور مورخین نے ان کا جھوٹ ثابت کیا ہے۔
سنی نے کہا: کیا اہل تاریخ کے قول کی صحت کے بارے میں کوئی دلیل ہے؟۔
وہابی نے کہا: جی ہاں! کیونکہ امام شافعی نے کہا ہے کہ جب چند مورخین دوسرے مورخین سے کوئی چیز نقل کرتے ہیں تووہ محدثین کے اس قول سے بہتر ہے جہاں ایک محدث ایک ہی محدث سے کوئی قول نقل کرتا ہے۔
سنی نے کہا: لہذا اگر میں ان مورخین کا قول نقل کروں جو وہابیوں کے ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اسی لئے انہوں نے وہابیت کے کفر کی تصریح کی ہے تو اسے قبول کرنا واجب ہے!
سنی نے مزید کہا: ہر انسان کا عمل اس کے خلاف حجت اور دلیل ہوتا ہے! چاہے وہ زبان سے اس کی تکذیب ہی کیوں نہ کرے اور چونکہ قرامطہ نے مسلمانوں کی جان و مال کو حلال قرار دیا ہے لہذا ان کے کفر میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے. اور تمہارے ارباب کا بھی یہی حال ہے۔
وہابی کو غصہ آگیا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔
سنی نے کہا: خوارج اور ان کے دین سے خارج اور منحرف ہونے سے متعلق روایات کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟نیز اِن روایات کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے کہ یہ لوگ جہنم کے کتے اور دنیا میں قتل ہونے والے بدترین مقتول ہیں۔
وہابی نے کہا: ان تمام روایات سے مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوارج دین سے خارج اور عذاب خدا کے مستحق ہیں. لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنہیں حضرت علی نے نہروان میں قتل کیا تھا. جب کہ وہابی ایسے نہیں ہیں۔
سنی نے کہا: خوارج عذاب خدا کے مستحق کیوں ہوئے؟
کیا اس لئے کہ صحابہ نے خوارج کی نماز اور روزوں کے مقابلہ میں اپنی نماز اور روزوں کو معمولی سمجھا؟
وہابی نے کہا: نہیں۔
سنی نے کہا: شائد اس لئے کہ وہ زاہد تھے دنیا کی لذتوں اور آسائشوں سے دور رہتے تھے قرآن پڑھتے تھے اور اپنی رائے کے مطابق اس کی تفسیر کرتے تھے اور مخلوق کی سب سے بہترین بات کو بیان کرتے تھے (اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو خوارج کے بارے میں ہے کہ ''خوارج سب سے اچھی مخلوق کا قول نقل کرتے ہیں'' یعنی اپنی زبان سے حق بات کہتے ہیں)۔
وہابی نے کہا: نہیں نہیں!!
سنی نے کہا: پھر یہ عذاب کیوں ؟۔
وہابی کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی اور وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔
سنی نے جب یہ دیکھا کہ وہابی کے پاس اس کی بات کا کوئی جواب نہیں ہے تو اس نے خود ہی اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا: خوارج صرف اس لئے خدا کے عذاب کے مستحق ہوئے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی جان و مال کو حلال سمجھا اور صرف اپنے ہی کو مسلمان سمجھتے تھے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی ایسا کرے گا اس کا بھی وہی انجام ہونے والا ہے!
آٹھویں فصل
وہابی اور غالی
ایک حقیقت
غُلاة یا غالی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی کے احترام میں اس حد تک افراط سے کام لیتے ہیں کہ اسے بشریت کے مقام و مرتبہ سے بالاتر قرار دیدیتے ہیں۔
جب محمد بن عبد الوہاب نے سر زمین نجد پر اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اسی دور میں ایک اور مبلغ پیدا ہوا جس نے اپنی تبلیغ میں حضرت علی اور اہلبیت کے بارے میں غالیوں کے (فراموش شدہ ،غلو آمیز) عقائد کو پھر سے زندہ کرنا شروع کر دیا۔
یہ فرقہ اگرچہ اس لحاظ سے وہابیت سے بالکل مشابہت رکھتا ہے کہ یہ بھی اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے اور صحابہ پر لعن و طعن کرتا ہے لیکن یہ ان سے بھی چار قدم آگے، اکثر صحابہ کو کھلم کھلا کافر قرار دیتا ہے۔
اس فرقہ کا بانی شیخ احمد احسائی، متوفی ١٢٤١ھ ہے جس کے پیرؤوں کو '' شیخیہ'' کہا جاتا ہے۔
احسائی کے انتقال کے بعد کاظم رشتی اس کا جانشین ہوا جس کا قیام شہر ''کربلا'' میں تھا۔
دیکھنا یہ ہے کہ اپنے دور میں ابھرنے والے اس بدعتی فرقہ کے ساتھ وہابیوں کا رویہ کیسا تھا؟
جس زمانہ میں '' شیخیہ'' نے کربلا کو اپنا مرکز بنا رکھا تھا اور کاظم رشتی کے ہاتھ میں ان کی باگ ڈور تھی اسی دور میں وہابیوں نے کربلا پر حملہ کیا تھا. اور یہاں بھی اپنی عادتوں کے مطابق ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کر ڈالا ان کے اموال لوٹ لئے اور گھروں کو منہدم کردیا. لیکن ان سب باتوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ کاظم رشتی کو ہر اعتبار سے امان دی گئی بلکہ اس کے گھر کو بھی پناہ گاہ قرار دیدیا یعنی جس نے بھی اس گھر میں پناہ لی اسے امان دیدی گئی!! ]وہابیت تنقید ا ورجائزہ ،مؤلفہ: ڈاکڑ ہمایوں ہمتی، ص٢٤[
یہ واقعہ، وہابیت کے اصل چہرے سے نقاب اتارنے کے لئے کافی ہے! کہ یہ لوگ خالص توحید کی تبلیغ اور شرک سے مقابلہ کرنے کے بارے میں کس حد تک سچے اور کھرے ہیں؟۔
اس مقام پر وہابیوں کے قائد و سردار، ابن تیمیہ کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ایک غالی فرقہ کے بارے میں ان کے نیک خیالات بھی بخوبی معلوم ہو جائیں۔
یزیدی فرقہ وہ ہے جس نے یزید بن معاویہ جیسے شخص کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اسی کا ایک ٹولہ ''عدویہ'' کے نام سے مشہور ہے جس کا بانی عدی بن مسافر تھا اور اسی کی بنا پر اس ٹولے کو ''عدویہ'' کہا جاتا ہے۔
یہ لوگ پہلے ''عدی بن مسافر'' اور پھر یزید کے بارے میں غلو کرتے ہیں۔
ایسے عقائد کی مخالفت کے بارے میں ابن تیمیہ کے تعصب اورہٹ دھرمی میں کوئی لچک نہیں دکھائی دیتی جس سے بے شمار شکوک و شبہات بھی پیدا ہوتے ہیں حتی کہ وہ آنکھ بند کر کے اپنے علاوہ تمام اسلامی فرقوں کو گمراہ، منحرف اور باطل پرست قرار دینے میں اپنی مثال آپ ہیں لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان مشرکین اور غالیوں کے بارے میں موصوف کا رول کیسا تھا؟۔
حیرت کی بات ہے کہ ابن تیمیہ نے ان خوارج کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان کے مسلمان اور مومن ہونے کی تعریف کی ہے اور اس میں انہیں برادرانہ شفقت و محبت کے ساتھ نصیحتیں کی ہیں جو کسی بھی اسلامی فرقے جیسے اشعریہ، امامیہ، زیدیہ، معتزلہ، مرجئہ وغیرہ کے بارے میں نہیں کہی ہیںحتی کہ ان لوگوں کے بارے میں اس اندازسے ایک جملہ بھی نہیں کہا ہے۔
ابن تیمیہ کے خط کا مضمون یہ ہے: ابن تیمیہ کی طرف سے کچھ مسلمان بھائیوں کی خدمت میں جواہل سنت و الجماعت سے منسوب اور پیر ،عارف ابو البرکات عدی بن مسافر اموی (خدا ان پر اور ان کی راہ پر چلنے والوں کے اوپر رحمت نازل کرے) کے پیرو ہیں. اللہ ان سب کو ان کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور اپنی اور اپنے پیغمبرۖ کی اطاعت کرنے میں ان کی مدد کرے. .. تم پر اللہ کا درود و سلام اور اس کی رحمت ہو . اما بعد..... ]الوصیة الکبریٰ: ابن تیمیہ ص٥[
اس طرح ابن تیمیہ نے ان خوارج کو اہل سنت و الجماعت میں شامل کردیا جب کہ یہ فرقہ ہر لحاظ سے غالی و گمراہ ہے اورتمام اسلامی فرقوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ غلاة، مشرک اور اسلام سے خارج ہیں کیونکہ انہوں نے عقیدۂ توحید کو مجروح کیا ہے ۔
کیا ان تمام حرکتوں کے بعد ان کے لئے کسی وعظ و نصیحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔
نویں فصل
وہابیت کس کی خدمتگار ہے؟
کیا وہابیوں نے اتنے عظیم اسلامی سماج اور معاشرہ کی بھلائی کے لئے واقعاً کبھی غور و فکرسے کام لیا ہے؟۔
کیا انہوں نے اسلامی ممالک کو استعماری طاقتوں سے محفوظ رکھنے کے بارے میں کبھی کچھ سوچاہے؟۔
کیا اسلامی ممالک پر مغربی ملکوں کے تسلط کا وہابیوں کے اوپر کوئی اثر پڑا ہے؟۔
اسلامی ممالک میں عیسائیوں اور صہیونیوں کے نفوذ اور قبضوں کے مقابلہ میں آج تک وہابیوں نے کیا کیا ؟۔
واقعاً! ان کی طرفداری کرنے اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر ان کا استقبال کرنے، اور مسلمانوں کی دولت کو ان کے قدموں پر نثار کرنے، نیز ان کی عزت افزائی کے علاوہ ان لوگوں نے اور کیا حکمت عملی اختیار کی ؟۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جو آدمی بھی اپنی آنکھیں کھول کر دیکھے گا اسے بخوبی یہ حقیقت نظر آ جائے گی کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں کے اندر وہابی حضرات استعماری طاقتوں کے سب سے پہلے خدمتگار ہیں۔
صرف یہی نہیں! بلکہ اگر محمد بن عبد الوہاب اور ان کے بعد پیدا ہونے والے وہابیوں کے دوسرے لیڈروں کے باقیماندہ آثار کا جائزہ لیا جائے توان کے یہاں قوم کی تعمیر و ترقی، سماج میں عدل و انصاف کے نفاذ، مظلوم کی اعانت اور جہالت سے مقابلہ کا کوئی وجود نہیں ملتا ہے۔
حتی کہ اپنی روزہ مرہ کی زندگی کی فلاح و بہبود، علمی، اقتصادی اور سماجی پیشرفت کے لئے ان کا کوئی مثبت اقدام نظر نہیں آتا بلکہ صرف مسلمانوں کی تکفیر، انہیں واجب القتل قرار دینے یا انہیں قتل کرنے اور ان کا مال لوٹنے کے علاوہ آپ کو ان کے یہاں کسی قسم کی بھی صلح و آشتی کا کوئی پہلو نظر نہ آئے گا!!
وہابیوں کو اگر کسی چیز سے چڑھ ہے تو وہ قبر اور مسجد ہے یا وہ شخص جو انہیں یہ کہتا دکھائی دے: اے پیغمبرۖ! آپ خدا کی بارگاہ میں میری شفاعت فرما دیجئے گا!!
وہابیوں کا صرف یہی ایک کام ہے اور اس کے علاوہ کوئی اورمشغلہ نہیں ہے یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اسی کی بنا پروہ مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں، محرمات کو حلال قرار دیتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیدا کرتے رہتے ہیں اوراگر مسلمانوں کے کسی نئے علاقہ پر عیسائیوں یا صہیونیوں کا قبضہ ہو جائے تو انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔
صحابہ نے جناب حمزہ بن عبد المطلب کی جو زیارت کی تھی یا انہوں نے وہاں نماز ادا کی تھی اور دوسرے مسلمان بھی آج ان کی پیروی میں ایسا ہی کرتے ہیں. اسے دیکھ کر وہابیوں کا جتنا خون کھولتاہے کیا بیت المقدس، بوسنیا اور لبنان کے مسلمانوں پر ٹوٹنے والے مظالم دیکھ کر بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے؟۔
یاجس طرح سبط رسول خداۖ حضرت امام حسین کی قبر مبارک کی زیارت کے لئے صحابہ، تابعین اور حتی امام احمد بن حنبل کے دور میں بھی سینکڑوں میل کا سفر کر کے لوگ جاتے تھے (جس کا تذکرہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں گذر چکا ہے) اس کا نام سن کر جس طرح ان کی تیوریوں پر بل پڑ جاتے ہیں.کیا اسلامی ممالک کی تیل کی دولت پر امریکی تسلط کو دیکھنے کے بعد بھی انہیں اسی طرح غصہ آتا ہے؟۔
جس طرح قبر پیغمبرۖ پر پیش کئے جانے والے ہدایا و نذورات کو دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں کیا بعض مسلم ممالک پر زبردستی لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کو دیکھنے کے بعد بھی ان کا یہی حال ہوتا ہے؟۔
اے کاش! ہمیں ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی تصویر، ان کے یہاں نظر آجاتی....
واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ قوت و طاقت نیز فکری اور جسمانی توانائیوں کا اتنا بڑا سرمایہ ان فضول کاموں میں صرف ہوجاتاہے اور چند جاہلوں، نادانوں اور سیدھے سادے یا پست طینت لوگوں کے علاوہ کوئی ان کی طرف دھیان بھی نہیں دیتا ہے۔
آخر وہابی حضرات ان مواقع پر اتنے جذباتی اورمتعصب کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں ۔
سب سے پہلے ان کی کوتاہ فکری اور تنگ نظری، کیونکہ انہیں اس کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں ہے اوران کے ذہن میں اس کے علاوہ اور کوئی فکر پیدا ہی نہیں ہو پاتی۔
دوسرے یہ کہ یہ لوگ رسم زندگی اور زمانہ کے ساتھ پیشرفت کرنے کے صحیح معنی سمجھنے سے قاصر ہیں لہذا جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے دینی، علمی اور سماجی مسائل کا حل تلا ش نہیں کرسکتے اور اسی وجہ سے یہ اپنی انہیں قدیم روایتوں پر اڑے رہتے ہیں اوران کی تعظیم یا انہیں تقدس کا لبادہ اوڑھانے میں افراط کا شکار ہیں ،تاکہ اس طرح اپنے کواس ترقی یافتہ دنیا سے بالاتر سمجھ سکیں۔
تیسرے یہ کہ یہ تمام مسلمانوں کے بارے میں تنگ نظری اور کینہ پروری کے لئے اپنی مثال آپ ہیںیعنی یہ لوگ ان کی کوئی بھلائی دیکھنا پسند نہیں کرتے اور ان کے دل ،مسلمانوں کی بدخواہی سے بھرے ہوئے ہیں۔
جو شخص بھی ان کے کھوکھلے نعروں، جھوٹ اور افتراء سے مملو تہمتوں کو دیکھتا ہے وہ ان کی کوتاہ فکری، تنگ نظری، دشمنی اور نادانی نیز کم عقلی کا بخوبی احساس کرلیتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ لوگ دشمنان اسلام کے علی الاعلان دوست ہیں جس کے لئے کسی دلیل اور ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ کی مغربی ممالک سے اتنی دوستی نہیں ہے جتنی گہری دوستی وہابیوں اور مغربی ممالک کے درمیان پائی جاتی ہے یہ لوگ ان کی جی حضوری کرتے ہیں ان کی قربت کے خواہشمند رہتے ہیں اور ان کی تمام حرکتوں کی حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔یہ وہابیوں کا ایک ایسا عقیدہ اور نظریہ ہے جس سے وہ کسی طرح دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اسلامی ممالک کے درمیان وہابیت کا وجود ایک ایسا شگاف ہے جس نے صہیونی اور صلیبی جلادوں کے لئے اسلامی ممالک کے دروازے کھول رکھے ہیں چنانچہ وہ جس طرح چاہتے ہیں آئے دن دنیائے اسلام کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں، لوگوں کو بدنام کرنا، اموال کی لوٹ مار، گھروں اورآبادیوں کو ویران کرنا اور بالآخران کی ہر چیز پر قبضہ کرلینا اور ہر روز اس میںتوسیع کرتے رہناہی ان کا بہترین مشغلہ ہے۔
جی ہاں! وہابی اپنے ان خونخوار بھائیوں کے لئے ہر جگہ زمین ہموار کرتے ہیں۔
یہ وہی عناصر ہیں جنہوں نے استعمار کے لئے ماضی میں ایسی راہ ہموار کی، کہ اسرائیل کا وہ بیج جو کہیں بھی جڑ نہیں پکڑ سکا تھا ان کی مدد سے اسے اسلامی ممالک کے قلب میں ایک تناور درخت بنا دیا گیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ہر دور میں مغربی طاقتوں کی غلام حکومتوںکے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور ان سے آزادی پانے والی تحریکوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔
یہ وہی گندے جراثیم ہیں جو اسلامی دنیا کے قلب میں مغربی ممالک کے غلاموں کے قدموں کے نیچے پھول بچھانے کے لئے تیار ہیں اور اسرائیل کو قانونی طور پر اس طرح تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ کسی کے ذہن میں اس کی مخالفت کا خیال بھی پیدا نہ ہونے پائے۔
یہ لوگ وہ قابل ِنفر ت نوکرہیں جن کی حمایت مغربی ممالک صرف اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعہ اہل اسلام کی کامیابی اور بیداری پر روک لگا سکیں وہ اپنے اس مقصد کی برآوری کے لئے نوکر منافق حکومتوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جوہر طرح کے سرد او رگرم اسلحوں سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے وہابیوں نے عملی جامہ پہنایاہے اور آج بھی وہ اس پر اڑے ہوئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں بھی ان کا یہی پروگرام ہے۔
وہابی، مسلمانوں کی بیداری سے اسی طرح ڈرتے ہیں جس طرح اسرائیل ان سے خوفزدہ ہے کیونکہ ان دونوں کا انجام انہیں کے خاتمہ سے جڑا ہوا ہے۔
دسویں فصل
روایات زیارت و توسل
١۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زَا رَنِی بَعدَ مَماتِی فکأنَّما زا رنی فی حیاتی'' جو شخص میری وفات کے بعد میری (قبر کی) زیارت کے لئے آئے گویا اس نے میری زندگی میںہی مجھ سے ملاقات کی ہے۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح ١٩٣[
٢۔ پیغمبر اکرۖم کا ارشاد ہے: ''مَن زارنی الیٰ المدینة کنتُ لہ شہیداً و شفیعاً یوم القیامة'' جو شخص میری زیارت کے لئے مدینہ آئے گا میں روز قیامت اس کا گواہ اور شفیع بنوں گا۔ ]سنن ابو داؤد ج١، ص١٢،جیسا کہ ابن ابی دنیا نے کتاب وفاء الوفاء میں ص١٣٤٥ پر نقل کیا ہے[
٣۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زارنی مُحتسِباً الیٰ المدینة کان فی جواری یومَ القیامة'' جو شخص قرب خدا کے لئے میری زیارت کرنے مدینہ آئے وہ روز قیامت میرے جوار میں رہے گا۔ ]سنن کبریٰ: بیہقی، ج٥، ص٢٤٥[
٤۔ پیغمبر اکرۖم نے فرمایا ہے: ''مَن زارَ قبری وجبتْ لہ شفاعتی'' جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا میں اس کی شفاعت ضرور کروں گا۔ ]سنن دارقطنی، ج٢، ص٢٧٨، ح١٩٤[
٥۔ امام مالک نے کہا ہے: ''جب بھی کوئی شخص پیغمبرۖ کی زیارت کے لئے آئے تو پیغمبرۖ کی طرف رخ کر کے پشت بقبلہ کھڑا ہوجائے پھر آپ کے اوپر درود بھیجے اوردعا کرے'' ] رؤوس المسائل :نووی، وفاء الوفائ، ص ١٣٧٧[
٦۔ امام شافعی کے اصحاب سے نقل ہوا ہے: ''زائر اس طرح پشت بقبلہ کھڑا ہو کہ اس کا چہرہ ضریح اقدس کی طرف ہو یہ امام احمد بن حنبل کا قول ہے'' ]وفاء الوفاء ص١٣٧٨[
٧۔ امام احمد بن حنبل کی کتاب العلل و السوالات سے نقل ہوا ہے: ''وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ برکت حاصل کرنے کی نیت سے رسول خداۖ کے منبر پر ہاتھ پھیرنا، یا اسے چومنا،یا اسی طرح خدا سے اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے آپ کی قبر مبارک پر یہی کام انجام دینا کیسا ہے؟۔
انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٤[
٨۔ محب طبری کہتے ہیں: ''قبر کو چھونا اور اسے چومنا جائز ہے اور یہ علماء و صلحاء کا عمل ہے۔ ]وفاء الوفائ، ص١٤٠٦[
٩۔ امام جعفر صادق نے اپنے اجداد طاہرین سے یہ روایت نقل کی ہے: ''جناب فاطمہ زہرۖا ہر جمعہ کو جناب حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتی تھیں۔ ]تفسیر قرطبی، ج١٠، ص٢٤٨[
توسل
١۔ پیغمبر اکرۖم کی دعا: ''خدا یا! میں تجھے اس حق کی قسم دیتا ہوں جو سوال کرنے والوں کا تیرے اوپر (حق) ہے۔ ]عمل الیوم و اللیلہ: ابن سنی، ص٨٢[
٢۔ ساوی حنبلی اپنی کتاب ''المستوعب '' میں، زیارت قبر پیغمبرۖ کے بارے میں یوں تحریر کرتے ہیں: ''زائر قبر کے پاس آئے اور اس کے روبرو ،پشت بقبلہ ہوکر منبر کے دا ہنی طرف کھڑا ہو جائے۔
اس کے بعد انہوں نے سلام اور دعا کا یہ طریقہ ذکر کیا ہے ،کہ یوں کہے:''أللّٰہم اِنک قلتَ فی کتابک لنبیّکۖ (وَ لَو أَ نَّہُم اِذ ظَلَمُوا أَنفُسَہُم جَاؤُوکَ فَاستَغفَرُوا اللّٰہَ وَ استَغفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ...) و اِنِّی قد أتَیتُ لِنَبِیِّک مُستَغفِراً فأسألُکَ أن تُوجِبَ لِیَ الْمَغفرَة کما اَوجَبْتَہا لِمَن أَتاہُ فی حیاتہ. أللّٰہُمّ اِنِّی أتوجَّہ اِلیک بنبیّک صلَّی اللّٰہ علیہ و آلہ'' پروردگارا! تو نے اپنی کتاب میں اپنے پیغمبرۖ سے فرمایا ہے: ''اورکاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور اپنے گناہوں سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے …''(سورۂ نساء آیت٦٤)
چنانچہ اب میں تیرے نبی کے پاس استغفار کی غرض سے آیا ہوں اور تجھ سے میرا سوال ہے کہ مجھے اسی طرح بخش دے جس طرح تو انہیں بخش دیتا تھا جو آنحضرۖت کی حیات میںان کے پاس آتے تھے، بار الٰہا! میں تیری بارگاہ میں تیرے نبی کے وسیلہ سے حاضر ہوا ہوں....
٣۔ صحیفۂ سجادیہ میں امام زین العابدین کی یہ دعا بھی ہے:
''وخَلعتَنِی یاربِّ بحق محمد و آل محمد مِن کلِّ غَمّ'' پروردگار! میں تجھے محمد و آل محمدۖ کے حق کی قسم دیتا ہوں کہ مجھے ہر قسم کے ہم و غم سے نجات عطا فرما ۔ ]صحیفۂ سجادیہ، دعا٣٠[
٤۔ ابو علی خلال، حنبلیوں کے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ: ''جب کبھی مجھے کوئی اہم ضرورت پیش آتی تھی تو میںجناب موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جاکر آپ سے توسل کرتا تھا اور اپنی حاجت حاصل کرلیتا تھا'' ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٠[
٥۔ امام شافعی لکھتے ہیں: ''میں ہر روز امام ابو حنیفہ کی قبر پر جاتا ہوں، اسکے وسیلہ سے برکت پاتاہوں اور جب کوئی حاجت ہوتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاتا ہوں اور وہاں خدا سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں اور وہ کسی تعجب کے بغیر پوری ہو جاتی ہے''۔ ]تاریخ بغداد، ج١، ص١٢٣، مناقب ابی حنیفہ ،مؤلفہ: خوارزمی، ج٢، ص١٩٩[
٦۔ ابوبکر محمد بن مؤمل کہتے ہیں: ''ایک روز میں اہل حدیث کے امام ابوبکر بنی خزیمہ اور ان کے ساتھی ابو علی ثقفی اور دوسرے متعدد بزرگوں کے ساتھ تھا ہم سب لوگ حضرت علی رضا کی قبر پر (طوس میں) گئے وہاں ہم نے ابن خزیمہ کو آپ کے روضہ میں آپ کی قبر کے سامنے نہایت ادب و احترام اور تواضع کے ساتھ اس طرح گریہ کر تے دیکھا کہ اس سے ہم سب کو حیرت ہو رہی تھی''۔ ]تہذیب التہذیب، ج٧، ص٣٣٩، علی بن نزار بن حیان اسدی کے حالات زندگی[
٧۔ ابن تیمیہ نے تحریر کیا ہے: ''امام احمد بن حنبل سے کتاب (منسک المروزی) میں پیغمبر اکرۖم سے توسل اور (آپ کی قبر کے پاس)دعا نقل ہوئی ہے ۔ابن تیمیہ نے اس کو ابن ابی دنیا سے اتنے ذریعوں سے نقل کیا ہے جو اس کی صحت کی بہترین دلیل ہیں۔ ]التوسل و الوسیلہ: ابن تیمیہ، ص٦۔١٠٥[
جو کچھ ذکر کیا گیا ہے یہ دریا کے ایک قطرہ کی مانند ہے ورنہ بزرگوںکی سیرت و اقوال میں اس موضوع سے متعلق بے پناہ ذخیرہ موجود ہے۔
گیارہویں فصل
وہابیت کے جواب میں لکھی جانے والی کتابوں کی فہرست
اکثراسلامی فرقوں کے علماء نے وہابیت کی بدعتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر دور میں مناظرے کئے ہیں اور کتاب و سنت نیز اپنے اسلاف کی سیرت اور اجتہاد کی روشنی میں ان کے عقائد کے ابطال میں متعدد کتابیں اور رسالے تالیف کئے ہیں۔
اپنے قارئین کی آسانی کے لئے ہم اس مقام پر بعض اہم کتابوں کی فہرست اور ان کے مصنفین اور مؤلفین کے نام ذکر کر رہے ہیں:
١۔ الاصول الاربعة فی تردید الوہابیة، مؤلفہ خواجہ سرہندی۔
٢۔ اظہار العقوق ممن منع التوسل بالنبیّ و الولیّ الصدوق،مؤلفہ: شیخ مشرفی مالکی جزایری۔
٣۔ الاقوال المرضیة فی الردّ علی الوہابیة،مؤلفہ: محمد عطاء اللّٰہ۔
٤۔ الانتصار للاولیاء الابرار،مؤلفہ: شیخ طاہر سنبل حنفی
٥۔ الاوراق البغدادیة فی الحوادث النجدیة، مؤلفہ: شیخ ابراہیم راوی۔
٦۔ البراہین الساطعة،مؤلفہ: شیخ سلامہ عزامی۔
٧۔ البصائر لمنکری التوسل: مؤلفہ:شیخ حمد اللّٰہ داجوی۔
٨۔ تاریخ آل سعود،مؤلفہ: ناصر السعید۔
٩۔ تجرید سیف الجہاد لمدعی الاجتہاد،مؤلفہ: شیخ عبد اللّٰہ بن عبد اللطیف شافعی۔
١٠۔ تحریض الأغبیاء علی الاستغاثة بالأنبیاء و الأولیائ، مؤلفہ: شیخ عبد اللّٰہ، بن ابراہیم، میر غینی۔
١١۔ تہکم المقلدین بمن ادعی تجدید الدین، مؤلفہ: شیخ محقق،محمد، بن عبد الرحمان حنبلی۔
١٢۔ التوسل بالنبیّ و بالصالحین، مؤلفہ: ابوحامد بن مرزوق۔
١٣۔ جلال الحق فی کشف احوال شرار الخلق، مؤلفہ: شیخ ابراہیم حلمی۔
١٤۔ الحقایق الاسلامیة فی الردّ علی المزاعم الوہابیة بأدلة الکتاب و السنة النبویة، مؤلفہ: مالک داوود۔
١٥۔ خلاصة الکلام فی امراء البلد الحرام،مؤلفہ: سید احمدبن زینی دحلان ،مفتی مکہ۔
١٦۔ الدرر السنیة فی الردّ علی الوہابیة،مؤلفہ: سید احمد بن زینی دحلان مفتی مکہ۔
١٧۔ ردّ علی محمّد بن عبد الوہاب، مؤلفہ: شیخ اسماعیل تمیمی مالکی تونسی۔
١٨۔ الردّ علی الوہابیة،مؤلفہ: فقیہ حنبلی عبد المحسن الأشیقری۔
١٩۔ الردّ علی الوہابیة،مؤلفہ: شیخ ابراہیم، بن عبد القادر ریاحی تونسی مالکی۔
٢٠۔ رسائل فی الردّ علی الوہابیة۔
وہابیوں کی رد میں بہت سارے کتابچے تحریر کئے گئے ہیں جن کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان کی گنتی مشکل ہے ان میں سر فہرست خود محمد بن عبد الوہاب کے دور کے لوگوں کے خطوط ہیں خاص طور سے جو کچھ حنبلی علماء نے ان کی مخالفت میں تحریر کیا ہے. ان میں سے اکثر خطوط مندرجہ ذیل کتابوںمیں نقل ہوئے ہیں ملاحظہ فرمایئے: ابو حامد مرزوق کی''التوسل بالنبیۖ و الصالحین'' ،احمد بن زینیی دحلان کی''الدرر السنیہ فی الرد علی الوہابیہ'اور استاد حسین حلم الیشیق کی کتاب'' علماء المسلمین و الوہابیون''۔
٢١۔ سعادة الدارین فی الردّ علی الفرقتین الوہابیة و مقلدة الظاہریة: شیخ ابراہیم، بن عثمان سمنودی مصری۔
٢٢۔ السیف الباتر لعنق المنکر علی الأکابر، مؤلفہ: ابو حامد مرزوق۔
٢٣۔ سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار، مؤلفہ: شاہ فضل رسول قادری۔
٢٤۔ صلح الاخوان فی الردّ علی من قال بالشرک و الکفران ،مؤلفہ: شیخ داؤود بن سلیمان بغدادی۔
٢٥۔ الصواعق الالٰہیہ فی الرد علی الوہابیة:مؤلفہ: شیخ سلیمان بن عبد الوہاب، (محمدبن عبد الوہاب کے بھائی)
٢٦۔ فتنة الوہابیة: احمد بن زینی دحلان۔
٢٧۔ الفجر الصادق: شیخ جمیل صدقی زہاوی۔
٢٨۔ فصل الخطاب فی الردّ علی محمّد بن عبد الوہاب،مؤلفہ: شیخ سلیمان بن عبد الوہاب (محمد بن عبد الوہاب کے بھائی)
٢٩۔ کشف الارتیاب فی اتباع محمّد بن عبد الوہاب،مؤلفہ: سید محسن امین۔
٣٠۔ ہٰذہ ہی الوہابیة،مؤلفہ: شیخ محمد جواد مَغنیہ۔
ان کے علاوہ بھی متعدد کتابیں موجودہیں جن میں سے بعض کے نام کیونکہ اس کتاب کے اندر ذکر ہوچکے ہیں لہٰذا ہم نے اختصار کی بناپران کو یہاں ذکر نہیں کیاہے۔
http://rizvia.net/index.php?option=com_content&view=article&id=982:2011-...
Add new comment