وسطی افریقہ میں مسلمانوں کا قتل عام
غیر سرکانی ہیومنیٹیریل (Humanitarian) اداروں نے وسطیٰ افریقہ کے دار الحکومت بانگی میں فرقہ وارانہ فسادات کے مزید شدت اختیار کر جانے کی خبر دی ہے۔
ایمنسٹی اینٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں عیسائی ڈھڑے اینٹی بلاکا(Anti Balaka) کے ذریعے انجام پائی مسلمانوں کے خلاف انتہائی شدت پسندانہ کاروائیوں سے خبردار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بانگی میں ہر روز دسیوں ٹکڑے ٹکڑے شدہ لاشے سڑکوں پر پڑے دکھائی دیتے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق مسلمانوں سے ہوتا ہے جو عیسائی شدت پسندوں کے ہاتھوں کھلے عام ذبح ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز اینٹی بلاکا ٹولے کے ہاتھوں ۱۰ مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ اس ملک کی فورس بالکل عوام کو اس فرقہ وارانہ وارداتوں سے بچانے میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ صرف مسلمانوں کی غیر سرکاری تنظیمیں ان ناقابل برداشت مناظر کو دیکھنے پر مجبور ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے رکن’’ پیربوکرٹ‘‘ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو کچھ ہفتوں بعد وسطی افریقہ کے دار الحکومت بانگی میں ایک بھی مسلمان نظر نہیں آئے گا اور سب کا بطور کلی صفایا ہو جائے گا۔
ایمنسٹی اینٹر نیشنل کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج افریقہ کے ان درد ناک مناظر کا تماشا دیکھ رہی ہیں اور مسلمانوں کو شدت پسند عیسائیوں سے بچانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بے جرئت اور بے حس ہیں۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے ان درد ناک کاروائیوں کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ وسطی افریقہ میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل عام نگراں کن ہے۔ انہوں نے دونوں فریقوں کو اس طرح کی بے رحمانہ کاروائیاں کرنے سے شدید منع کیا ہے۔
یہ ایسے حال میں ہو رہا ہے کہ فرانس نے حالیہ دنوں میں قریب ایک ہزار فوج وسطی افریقہ میں امن و سکون کی فضا قائم کرنے کی غرض سے بھیجی ہے بانگی کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جب عیسائی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں تو فرانسوی فوجی ان کاروائیوں سے صرف نظر کر جاتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف عیسائی کے قتل پر شدید غم و غصہ دکھلاتے ہیں۔ واضح رہے کہ بانگی میں ۴۰ لاکھ مسلمان اس شہر کی مسجدوں میں پناہ گزیر ہو گیے ہیں جبکہ وہاں بھی انہیں اپنی جانیں خطرے میں دکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایک ہزار سے زیادہ مسلمان وسطیٰ افریقہ میں صرف دسمبر کے مہینے میں تشدد کا شکار ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ منہ دھو بیٹھے اور دس لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ جبکہ پوری دنیا کے مسلمان خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں نہ کوئی ان دردناک کاروائیوں کی مذمت کرتا ہے اور نہ کہیں ان کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس!
بشکریہ::::::::::::ابنا
Add new comment