مہدویت اور مشترکات

 

(۱)امام مہدی عج کے ظہور اور قیام کا حتمی ہونا :ان مشترکات میں سے پہلا مسئلہ جو شیعہ اور سنی کے درمیان اتفاقی ہے وہ ظہور اور قیام حضرت امام مھدی عج کا حتمی ہونا ہے یہ موضوع دونوں کے مسلم اعتقادات مایں سے ہے اس طرح کہ اس مسئلہ پر دونوں کے منابع روایی میں بہت زیادہ احادیث پائی جاتی ہیں

(۲)حضرت مھدی عج کا نسب :شیعہ اور سنی کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہےکہ شیعہ نے امام کا نسب ان کے باپ بزرگوار تک بیان کیا ہے اور ان کے اجداد کا تعارف کروایا ہے لیکن اھل سنت نے معین موارد میں اشارہ کیا ہے جن میں سے یہ چند احادیث درج ذیل ہیں :

(الف)حضرت مھدی اھل بیت اور فرزندان رسول میں سے ہیں

ابن ماجہ اپنی سنن میں نقل کرتے ہیں کہ پیامبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا المھدی منا اھل البیت یصلحہ اللہ عزوجل فی لیلۃ ۔حضرت مھدی عج ہم اہل بیت میں سے ہونگے اور خداوند متعال ایک رات میں ان کے ظہور کے اسباب کو مہیافرمائیں گے

پیامبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یخرج رجل من اھل بیتی عندانقطاع من الزمان وظھورمن الفتن یکون عطاؤہ حشیا

جب زمان ختم ہوگا اورفتنے اوربرائیاں ہرطرف پھیل جائیں گی توایک مرد میری اھل بیت میں سے ظہورکرے گا کہ جس کی بخشش بہت زیادہ ہوگی ۔

صغانی اپنی کتاب المصنف میں پیامبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا :

فیبعث اللہ رجلا من عترتی من اھل بیتی ۔خداوند منان میری عترت اوراہل بیت سے ایک مرد کو مبعوث کرے گا

(۳)حضرت مھدی امام علی کی اولاد میں سے ہونگے

تیسرامسئلہ کہ جس پر شیعہ اورسنی اتفاق رکھتے ہیں وہ یہ ہےکہ حضرت مہدی عج امام علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہونگے سیوطی اپنی کتاب عرف الوردی میں نقل کرتا ہے کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (امام امتی وخلیفتی علیھا بعدی ومن ولدہ القائم المنتظر الذی یملاء الارض عدلاوقسطا کما ملئت ظلما وجورا )تحقیق علی علیہ السلام میری امت کے امام ہیں اورمیرے جانشین ہیں ان پر اور ان کے فرزندان میں سے قائم ہیں کہ خداوند ان کے ذریعے زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی

شیخ صدوق علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام جب جنگ نہروان کے بعد کوفہ آئے تو خطبہ دیا تو اس وقت خبر پہنچی کہ معاویہ ان کی بدگوئی کررہا ہے اورانہیں برابھلا کہہ رہا ہے اور کہہ رہا ہےکہ میں علی علیہ السلام کے دوستان کو قتل کروں گا تو امام علی نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ میرے فرزندان میں سے اس امت کے مہدی ہیں (شیخ صدوق معانی الاخبار ص۶۱)

حضرت امام مھدی عج سیدہ فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں

بہت ساری روایات کہ جو اھل سنت سے نقل ہوئی ہیں ان میں اس بات پر تاکید کی گئی ہےکہ حضرت امام مھدی عج سیدہ کی اولاد میں سے ہونگے ابن ماجہ ام سلمہ سے نقل کرتا ہےکہ کہ انھوں نے پیامبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا (المھدی من ولدفاطمہ )کہ حضرت مہدی عج فاطمہ کی اولاد میں سے ہونگے شیخ طوسی امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ

(امام مہدی عج فرزندان فاطمہ سے ہیں ۔

حضرت امام مہدی عج کی جسمانی خصوصیات

امام کی ظہور کے وقت جسمانی خاصیتوں کے بارے میں اھل سنت اور شیعہ سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں :

(الف)ظہور کے وقت حضرت کا قدرت مند ہونا :روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ ظہور کے وقت حضرت کا جسم مبارک بہت قدرت مند ہوگا

(ب)نورانی چہرہ :سنی عالم دین جوینی رسول خدا سےروایت نقل کرتا ہے کہ پیامبر نے فرمایا :المھدی من ولدی کان وجھہ کوکب دری ۔مہدی میری اولاد میں سے ہوگا اور ان کا چہرہ چمکنے والے ستارے کی مانند ہوگا ۔

ان کی پیشانی کشادہ اور ستواں ناک ہوگی :ان کے اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی پیشانی کشادہ اور ستواں ناک ہوگی یہ تعبیر اسلامی روایات میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ ان المھدی اقنی اجلی مھدی ستواں ناک والے اور کشادہ پیشانی کے مالک ہونگے

چہرے پر تل کا نشان :شیخ صدوق نقل کرتے ہیں کہ ان کے چہرے کی دائیں جانب تل کا شنان ہوگا ۔اھل سنت کی کتابوں میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہواہے کہ رسول خدا نے فرمایا :امام مہدی کے چہرے کی دائیں جانب کالے رنگ کا تل ہوگا ۔

چالیس سال کی عمر میں ظہور فرمائیں گے: پیامبر اکرم نے فرمایا مہدی میرے فرزندان میں سے ہیں اوروہ چالیس سال کی عمر میں ظہورفرمائیں گے

قطب راوندی نقل کرتا ہے کہ (ہمارے قائم کی نشانیاں خروج کے وقت یہ ہیں کہ عمر کے لحاظ سے بزرگ لیکن چہرے کے اعتبار سے جوان لگیں گے ان کو دیکھنے والے گمان کریں گے کہ چالیس سال کے ہیں )بعض روایات میں حضرت کی عمر کی طرف اشارہ نہیں ہوا فقط جوان ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ امور کہ جو ظہور حضرت سے مربوط ہیں

ظہورکی جگہ

جہاں حضرت ظہور فرمائیں گے اور ان کے ساتھ ان کے خاص مدگار ملیں گے اس کے بارے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں ان روایات کا مشترک نقطہ یہ کہ حضرت مکہ سے ظہور کریں گے اور ظہور کا ٓغاز خانہ کعبہ سے ہوگا ۔

رسول گرامی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بہت سے گروہ عراق اور شام کے لوگوں کے امام زمان عج کی طرف آئیں گے اور ان کی رکن اور مقام کے درمیان بیعت کریں گے اور فرمایا امام مہدی کی رکن اور مقام کے درمیان بیعت ہوگی ۔

حضرت مہدی کے ساتھ بیعت :اس موضوع پر شیعہ اور سنی اتفاق نظر رکھتے ہیں اوردونوں کے منابع حدیثی میں آیا ہے کہ ظہور کے آغاز میں بہت سے لوگ حضرت کی بیعت کریں گے ۔

حضرت مہدی عج کی مدد کے لیے فرشتوں کا نازل ہونا :اس موضوع پر بھی شیعہ وسنی اتفاق رکھتے ہیں کہ حضرت کی مدد کے لیے فرشتے نازل ہوں گے ۔

کیا غیبت کبری میں امام کا نام لینا جائزہے ؟

غیبت کبری کے آغاز سے ایک بحث چلی آرہی ہے کہ کیا امام مھدی کا نام جو پیغمبر نے بیان کیا ہے(محمد) کیاغیبت کبریٰ میں یہ نام لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کی وجہ وہ روایات ہیں کہ جو آئمہ معصومین(ع) سے نقل ہوئی ہیں بعض میں سختی سے منع کیا گیا ہے کہ امام مھدی (ع)کا نام نہ لیا جائے اور بعض میں اجازت دی گئی ہے علماء کے درمیان اس بارے میں تین اقوال ہیں ؛

پہلا قول ؛امام مھدی کا یہ نام (م۔ح۔م۔د۔)کسی زمانہ میں بھی لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ امام ظھور کریں اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں جنھوں نے اس قول کو اختیار کیا ہے چند ایک روایات ہیں کہ جن سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ امام کانام لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ امام کا ظھور ہو جائے ۔ محمد بن زیاد نے امام موسیٰ بن جعفر (ع)سے روایت کی ہے کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے فرمایا''تخفی علی الناس ولادتہ ولایحل لھم تسمیتہ حتیٰ یظھرہ اللہ فیملابہ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما'' (وسائل الشیعہ،ج،۱۶،ص،۲۴۲،باب،۳۳)

''اس (امام مھدی)کی ولادت کو لوگوں سے مخفی رکھاگیا ہے اور اس کانام لینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ خداوند تعالی ان کا ظھور فرما دے اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہو گی ۔

دوسرا قول ؛ ہر جگہ کہ جہاں امام کی جان کو خطرہ ہو صرف وہاں امام کا نام لینا جائز نہیں ہے یعنی یہ قول مخصوص ہے غیبت صغری سے جب امام کی زندگی کو خطرہ تھا ۔

عبداللہ بن جعفر حمیری نے محمد بن عثمان عمری(امام کے دوسرے نائب خاص) سے پوچھا کیا خلف(امام حسن عسکری کے جانشین) کو دیکھا ہے جواب دیا ہاں خداکی قسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ امام کے نام کے بارے میں بحث ہوئی تو محمد بن عثمان(دوسرے نائب خاص)سے امام کے نام کے بارے میں پوچھاتو انہوںنے جواب دیا کہ تم پر ایسا سوال کرنا حرام ہے اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا اور نہ میں اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام یا حلال کر سکتا ہوں جو کچھ کہا ہے انہی(امام)کی طرف سے ہے ۔۔۔۔۔۔ابو محمد(امام حسن عسکری )شھید ہوے (ظاھرااس وقت لوگوں کے درمیان مشہور یہ تھا کہ )اس کا کوئی جانشین نہیں تھااب اگر امام کا نام لیا جائے تو لوگ امام مھدی کی تلاش میں لگ جائیں گے پس خدا سے ڈرو اور اس بات سے پرہیز کرو(کہ امام کانام نہ لو) '' (وسائل الشیعہ ،ج۱۶ص،۲۴۰،؛اصول کافی ،ج،۱،ص،۳۲۹،الخرائج والجرائح ،ج،۳،ص،۱۱۱ )

اس قسم کی بہت سی روایات ہیں جو اس قسم کے مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر تمہارے نام لینے سے امام کی جان کر خطرہ ہو سکتا ہو تو تمہارے لیے امام کا نام لینا حرام ہے کیوں کہ اس طرح لوگ امام کو تلاش کرنا شروع کر دیتے اس لیے خود امام نے ایک توقیع میں فر یایا ''ملعون ملعون من سمانی فی محفل من الناس "(وسائل الشیعہ ،ج۱۶ص،۲۴۲،باب،۳۳)ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص کہ جو ایک ایسی محفل میں میرا نام لے کہ جس میں لوگ جمع ہوں ان روایات میں غور وفکر کرنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر امام کا نام لینے سے کوئی خطرہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور بعد والی روایات جو کہ مطلقا امام کا نام لینے کی اجازت دیتی ہیں ان کو بھی اسی مورد پر حمل کیا جا سکتا ہے شیخ حر آملی کہتے ہیں 'ھذا دال علی اختصاص النھی بالخوف وترتب المفسدہ' '' یعنی یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ اگر خوف ہو اور امام کانام لینے سے امام کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو تو حرام ہے (مطلقا حرام نہیں ہے)

تیسراقول؛ بعض بزرگان اور علماء امام کانام لینے کو جائز سمجھتے ہیں اور چند ایک روایات کو دلیل کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ جس میں آئمہ نے خود امام مھدی نام لیا ہے جیسے

شیخ صدوق نے محمد بن ابراھیم کوفی سے نقل کیا ہے کہ امام حسم عسکری نے اپنے بیٹے کی ولادت پر عقیقہ کیا اور اس عقیقے کاگوشت بعض لوگوں کی طرف بھجوایا تا کہ غریب اور نادار لوگوں میں تقسیم کریں اور فرمایا'' ھذا من عقیقۃ ابنی محمد"یہ میرے بیٹے محمد کے عقیقہ کا حصہ ہے (وسائل الشیعہ،ج،۱۶ص۲۴۳،کمال الدین و اتمام النعمہ ،ج۲،ص۴۲۳)

ابو غانم امام حسن عسکری کاخادم کہتا ہے کہ"ولد لا بی محمد مولودفسماہ محمد عرضہ علی اصحابہ یوم الثالث وقال ھذاصاحبکم من بعدی وخلیفتی علیکم وھوا لقائم"(کمال الدین واتمام النعمہ ،ج۱ ،ص۴۴،)

جب امام حسن عسکری کا بیٹا پیدا پوا تو اس کا نام محمد رکھا اور فرمایا کہ یہ میرے بعد تمہارا امام اور میرا جانشین ہے اور یہی قائم ہے شیخ حر آملی کہتے ہیں کہ بہت سی روایات ایسی ہیں کہ جوکہتی ہیں کہ اس دور میں امام کا نام لینا جائز ہے اور ہمارے بہت سے علماء اور بزرگان نے اپنی تاریخی ،کلامی ، اصولی اور حدیثی کتب میں صراحت کےساتھ امام کا نام ذکر کیا ہے جیسے علامہ حلی ، محقق،فاضل مقداد ، سید مرتضی اور سید بن طائوس ۔۔۔۔۔۔۔اور وہ لوگ کہ جو مطلقا حرمت کے قائل ہوں کہ کسی زمانہ میں بھی امام کا نام لینا جائز نہیں ہے بہت کم ہیں ۔

محمد بن عثمان عمری ،امام حسن عسکری سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام(ع)نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوے فر مایا :

" ان الارض لا تخلو من حجت اللہ علی خلقہ وان من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ فقال ان ھذا حق کما ان النھار حق فقیل ، یابن رسول اللہ من الحجۃ والامام بعدک ؟فقال؛ ابنی محمد ھو الامام و الحجۃ بعدی فمن مات و لم یعرفہ مات میتۃ جاھلیۃ ""(طبرسی ، اعلام الوریٰ ص،۴۴۲،وسائل الشیعہ ج،۱۶ ص،۲۴۶،بحار الانوار ،ج ،۱۶،ص۱۶۰)

تحقیق زمین اور اس پر بسنے والے لوگ کبھی حجت خدا سےخالی نہ ہوں گے اور جو بہی مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو جاھلیت کی موت مرا ہے پھر فرمایا یہ مسلہ ایک روشن دن کی طرح واضح اور آشکار حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا پوچھا گیا کہ فرزند رسول آپ کے بعد حجت اور امام کون ہے ؟تو امام نے فرمایا کہ میرا بیٹا محمد وہ امام اور میرے بعد حجت ہے پس جو بھی مر جائے اور اس کی معرفت نہ رکھتا ہو وہ جاھلیت کی موت مراہے"۔

علماء استدلال کرتے ہیں کہ امام کے نام کی پہچان بھی امام کی معرفت کا حصہ ہے پس کیسے اس کو مخفی رکھاجاسکتا ہے اور اس نام کا لینا مطلقا حرام ہے

نتیجتا ہم کہ سکتے ہیں کہ اگرچہ ہم تیسرے قول کو مان بھی لیں کہ امام کا نام لینا غیت کبری میں جائز ہے لیکن امام کی عظمت اور ان کی عظیم قدرومنزلت کی بنا پر ان کے نام کی بجائے امام کا لقب استعمال کیا جائے جیسا کہ عربوں میں یہی رواج ہے کہ اصل نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ تر لقب یا کنیت استعمال کرتے ہیں۔اسی لیے جو غیبت کبری میں امام کے نام لینےکو جائز سمجھتے ہیں ان کی مراد بھی یہ نہیں ہے کہ حتما صرف امام کا نام لینا چاہیے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری مراد یہ ہے کہ یہ جو لوگ کہتےہیں کہ امام کا نام لینا مطلقا حرام ہے ایسا نہیں ہے بلکہ لے سکتے ہیں اگرچہ بہتر یہی ہے کہ نام کی بجائے امام کا لقب یا کنیت استعمال کی جائے۔

ماخوذ از کتاب موعود ادیان مہدی صاحب الزمان عج مصنف تصورعباس

سرداب کی حقیقت کیا ہے ؟

امام مہدی(عج)کہاں اور کیسے غائب ہوے ؟کیا امام اپنے والد کے گھر میں واقع سرداب میں غائب ہوئے اور ابھی تک وہاں ہی ہیں ؟اس بارے میں شیعوں پر بہت سی تہمتیں لگائی گئی ہیں اور شیعوں کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتے ہوے کہا گیا ہے کہ

' شیعوں کا اعتقاد ہے کہ خلیفہ عباسی کے فوجی امام کے گھر میں داخل ہوئے تاکہ انہیں گرفتار کر سکیں اس وقت امام سرداب میں داخل ہوئے اور غائب ہو گئے اور ابھی تک نعوذباللہ بھوکے پیاسے وہیں ہیں اور وہیں سے ظھور کریں گے اسی لئے اسے صاحب سرداب کہتے ہیں ۔ابن تیمیہ اور ابن خلدون جیسے افراد کہ جنہوں نے شیعہ کتب کی طرف رجوع کرنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی تاکہ جان سکیں کہ شیعہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں اور شیعہ علماء کاکیا نظریہ ہے اس بارے میں صرف اپنے بزرگوں کی عبارات کو نقل کرکے شیعوں پر بے جا حملے اور اپنے افراد کو حق وحقیقت سے دور رکھنے کیلئے حقیقت پر پردہ ڈالتے آئے ہیں ۔

اصل واقعہ اس طرح ہے کہ امام کی ولادت ہی خفیہ طور ہر ہوئی چند مخصوص اور خالص افراد کے علاوہ کسی کو خبر نہ تھی اور امام مھدی عج اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام کے جنازہ پر نماز پڑھانے کے بعد اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر کسی نے امام کو لوگوں کے درمیان یاکسی مجلس میں نہیں دیکھا(حیاۃ الامام المہدی،ص،۱۱۵۔۱۲۰)

شیعہ روایات کی روشنی میں امام لوگوں کے درمیاں زندگی گزار رہے ہیں اور حج کے موقع ہرسال مکہ میں تشریف لاتے ہیں لیکن کوئی پہچان نہیں سکتا کہ یہی امام ہیں (اصول کافی ،ج،۱،ص،۳۳۷ ؛کمال الدین وتمام النعمہ ،ج،۲ص،۴۴۰)

جس گھر کا ذکر کیا جاتا ہے اس گھر میں امام ہادی (ع)وامام حسن عسکری(ع) نے زند گی گزاری ہے اس گھر کے دو حصے تھے ایک مردوں کیلئے اور ایک عورتوں کیلئے اور ایک تہہ خانہ کی صورت میں ایک سرداب تھا جس سے گرمیوں میں استفادہ کیا جاتا تھا کیو نکہ سخت گرمیوں میں لوگ گرمی سے بچنے کیلئے تہہ خانے بناتے تھے اور گرمیوں میں وہاں زندگی گزارتے تھے کیوں کہ تہہ خانے ہمیشہ ٹھنڈے ہوتے ہیں اور آج بھی یہی رسم ہے ۔

شیعہ اس گھر اور اس تہہ خانے کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے اماموں نے زندگی گزاری ہے امام ہادی ،امام حسن عسکری اور امام مھدی علیھم السلام اجمعین اسی گھر میں خدا کی عبادت کرتے رہے ہیں اور یہ ایک معقول بات ہے کہ اپنے اماموں کی محبت کی وجہ سے ان چیزوں کو معتبر جانتے ہیں جو ان کے متعلق ہیں اور یہ صرف شیعوں میں ہی نہیں ہے بلکہ تمام اد یان میں ایسا ہی ہے کہ اپنے پیشوا یا رہبروں سے متعلقہ چیزوں کو لوگ احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہی عشق اور احترام شیعہ اپنے اماموں سے رکھتے ہیں اور یہ ان تہمتوں کےبر خلاف ہے جو شیعوں پر لگائی جاتی ہیں کہ امام ابھی بھی وہیں زندگی گزار رہے ہیں وغیرہ کہ جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ کسی شیعہ عالم دین نے یہ بات کہی ہے (اقتباس از مجلہ حوزہ شمارہ ۷۰۔۷۱)ہم یہاں وضاحت کیلئے چند شیعہ بزرگ علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں ،

(۱)میرزاحسین نوری طبرسی لکھتے ہیں "شیعوں نے امام زمانہ کی ولادت سے لے کر آج تک بہت سی کتابیں امام مھدی (عج)کے متعلق لکھی ہیں کسی ایک عام کتاب کو لے کر آئیے کہ جس میں یہ مطلب ہو (کہ شیعہ معتقد ہیں کہ امام سرداب میں ہی ہیں اور وہیں زندگی گزار رہے ہیں وغیرہ )چہ جائیکہ بڑی اورمستند کتابیں جیسے کافی اوربزرگ علماء جیسے شیخ مفید، سید رضی،شیخ صدوق، شیخ طوسی،ابن شہر آشوب وغیرہ کہ جنہوں نے غیبت کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں کسی میں وہ باتیں نہیں پائی جاتیں جو شیعوں کی طرف نسبت دی جاتی ہیں "(کشف الاستار عن وجہ الغائب عن الابصار،ص۲۱۰)

(۲)صاحب کشف الغمہ ،علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ 'سرداب کاواقعہ اور یہ کہ امام زمانہ وہیں ہیں ایک بہتان ہے کیوں کہ امام زمانہ کا وجود اور ان کے زندہ ہو نےکے قائل افراد (شیعہ)کبھی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ امام سرداب میں ہیں بلکہ ان کے عقیدہ کے مطابق امام زندہ ہیں اور زمیں پر چلتے ہیں گھروں میں جاتے ہیں البتہ پہچانے نہیں جاتے (کشف الغمہ ،ج،۲،ص ۴۹۳)

(۳)آیت اللہ سید صدر الدین صدر اپنی کتاب المھدی میں لکھتے ہیں

" قدیم الایام سے یہ رسم رہی ہے کہ پیشواؤں اور دینی رہبروں کے گھران کے ماننے والوں کی نگاہ میں مقدس شمار ہوتے ہیں اور لوگ ان کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح شیعہ بھی امام ہادی اور امام حسن عسکری علیھماالسلام کےگھر اسی طرح اس گھر میں واقع سرداب کہ جس میں ہمارے اماموں نے سالہاسال عبادت کی ہے اور دن رات وہاں قرآن اور نماز پڑھی وہاں زیارت کیلئے جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اپنے مذموم مقاصد کیلئے شیعوں پر تہمتیں لگاتے ہیں "(کتاب المھدی ،ص،۱۶۴۔۱۶۶)

البتہ شیعوں کے اس نظریہ سے واقف بعض اہل سنت نے بھی اس کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ شیعوں پر صرف بہتان لگانے کیلئے ان کی طرف ایسی نسبت دی جاتی ہے ۔جیسے

کامل سلیمان لکھتا ہے "یہ جو کہتے ہیں کہ امام سرداب میں غائب ہوئے اور ابھی تک اسی میں ہیں یہاںتک کہ ظھور کریں گے یہ جھوٹ ہے کہ جو جاہل افراد نے شیعوں پر باندھا ہے ہاں امام سرداب میں نہیں ہیں بلکہ لوگوں کے درمیان ہیں ان کی مجالس میں شرکت کرتے ہیںجو بھی دنیا سےجائے یا دنیا میں آئے امام اسے دیکھتے ہیں سرداب کی زیارت کے بارے مین شیعو ں کا عقیدہ یہ ہے کہ شیعہ اس گھر کو تین اماموں کی وجہ سے احترام کی نگاہ سےدیکھتے ہیں کہ جنہوں نے وہاں زندگی گزاری ورنہ سررداب میں اور کوئی خاص خٓصوصیت نہیں ہے تاکہ اس کو ایک علیدہ عنوان سے زیارت گاہ بنایا گیا ہو"(یوم الخلاص، فی ظل القائم المھدی ،ص۱۶۲ تیسرا ایڈیشن ، انتشارات دار الکتب اللبنانیہ مکتبہ المدرسہ، بیروت ۱۴۰۳ھ)۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو ہمارے علماء نے بیان کی ہے اگرچہ مزید بھی سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے لیکن ہم اختصار کی خاطر اور اسلئے کہ منصف مزاج آدمی کیلئے یہی کفایت کرے گا باقی بحث سے صرف بظرکرتے ہیں ۔
ماخوذ از کتاب موعودادیان مہدی صاحب الزمان عج مصنف تصورعباس

غیبت میں امام زمانہ عج کا مسکن؟

سوال :کیا امام مھدی عج لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے ہیں اور ہم ان کو نہیں پہچان سکتے یا یہ کہ کسی اور عالم میں ہیں کہ ہم دیکھ نہیں سکتے ؟جواب :غیبت کے زمانہ میں امام مہدی عج کی زندگی اور ان کے وجود کے بارے میں تین صورتیں تصٓورکی جاسکتی ہیں

پہلی صورت :امام مھدی عج زمین پر نہیں ہیں بلکہ کسی اور عالم میں ہیںجو عالم مادی(ہماری دنیا) کے علاوہ ہے

دوسری صورت :امام مھدی کرہ زمین پر زندگی گزار رہے ہیں لیکن مشیت خداوند متعال کی وجہ سے لوگ امام کے وجود مبارک کو نہیں دیکھ سکتے

تیسری صورت :امام مہدی عج کرہ زمین پر اور لوگوں کےدرمیان زندگی گزار رہے ہیں لوگ بھی امام کو دیکھتے ہیں لیکن پچان نہیں سکتے کہ یہی امام زمانہ عج ہیں

پس دوسری اور تیسری صورت میں فرق یہ ہے کہ دوسری صورت میں غیبت شخص ہے اور تیسری صورت میں غیبت شخصیت ہے وہ چیز جو روایات اور کلمات آئمہ اطہار سے ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ تیسری صورت ہے یعنی امام زمانہ عج ایک اجنبی کے طورپر زمین پر اورلوگوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں لوگ امام کودیکھتے ہیں لیکن پہچان نہیں سکتے ۔بعض روایات درج ذیل ہیں

(الف)امام صادق علیہ السلام امام مہدی عج کی غیبت کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے امام زمانہ عج کی حضرت یوسف سے تشبیہ دی ہے فرمایا : صاحب ھذاالامر یتردد بینھم ویمشی فی اسواقھم ویطا فرشھم ولایعرفونہ حتی یاذن اللہ ان یعرفھم نفسہ کمااذن لیوسف

لوگ کیوں منکر ہیں کہ خداوند متعال اپنی حجت کے ساتھ وہی کرے جو یوسف کے ساتھ کیا ؟وہ (حجت خدا )ان کے بازاروں میں حرکت کرتی ہے ان کے فرشوں پر قدم رکھتی ہے لیکن لوگ انہیں پہچانتے نہیں ۔یہانتکہ خداوند متعال ان کو اجازت دے کہ اپنا تعارف کرائیں (کمال الدین ج۲ ص ۱۰)

(ب)امام صادق علیہ السلام ایک اور روایت میں فرماتے ہیں : (اماسنتہ من یوسف فالستریجعل اللہ بینہ وبین الخلق حجابایرونہ ولایعرفونہ )امام مھدی عج کی شباہت حضرت یوسف سے ناشناس رہنے میں ہے یعنی خداوند متعال نے ایسا کام کیا ہے کہ لوگ اس کو دیکھتے ہیں لیکن پہچانتےنہیں ہیں (یعنی جس طرح یوسف کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو دیکھ رہے تھے لیکن پہچان نہیں پائے تھے کہ یہی ان کا بھائی ہے ) (کمال الدین ج۲ ص ۱۲۰)

(ج) دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان جو امام زمانہ عج کی زندگی سے کاملا آگاہ تھے ان سے نقل ہوا ہے :

(واللہ ان صاحب ھذاالامرلیحضرالموسم کل سنۃ فیری الناس ویعرفھم ویرونہ ولایعرفونہ ) خدا کی قسم صاحب امر (امام زمانہ عج )ہرسال حج کے اعمال کو انجام دیتے ہیں اس طرح کہ وہ حاجیوں کو دیکھتے ہیں اورحاجی بھی اسے دیکھتے ہیں لیکن پہچانتے نہیں ۔

(کمال الدین ج۲ ص ۴۴۰)

دعائے ندبہ میں بھی پڑھتے ہیں :بنفسی انت من مغیب لم یخل منا ،بنفسی انت من نازح ما نزح عنا ۔میری زندگی آپ پر قربان آپ وہ غائب ہیں کہ جو ہم سے باہر نہیں ،میں آپ پر قربان ،آپ ایسے دور ہیں کہ ہم سے دور نہیں ۔

امام علی علیہ السلام سے جو روایت امام زمانہ عج کے بارے میں نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ :(۔۔۔ ماشیۃفی طرقھا داخلۃ فی دورھا وقصورھا جوالۃ فی شرق ھذہ الارض وغربھا تسمع الکلام وتسلم علی الجماعۃ تری ولاتری ) یعنی حجت خدا راستوں اورسڑکوں پر گردش کرتی ہے گھروں اورمجلسوں میں تشریف لاتی ہے تمام دنیا میں مشرق سے مغرب تک گھومتی ہے مختلف علاقوں کا نظارہ کرتی ہے لوگوں کی باتوں کو سنتی ہے مجلس میں موجود اشخاص پر سلام کرتی ہے لوگوں کو پہچانتی ہے درحالانکہ خود نہیں پہچانی جاتی ۔(نعمانی ،کتاب الغیبہ ص۱۴۴)

 

ان روایات سے پتہ چلتا ہےکہ امام ہمیشہ معاشرہ میں رہتے ہیں لوگوں سے ملتے جلتے ہیں بعض لوگوں کے گھروں میں جاتے ہیں لیکن لوگ پہچانتے نہیں ہیں کہ یہی امام زمانہ عج ہیں اور امام ان کاموں کو بطور ناشناس انجام دیتے ہیں لیکن آپ کو محل زندگی اور رہائش شھروں کے اندر نہیں بلکہ بلند وبالا پہاڑوں یا اس جگہ پہ ہے جو لوگوں سے دور ہے ۔جس طرح کہ یہ روایت خود امام مہدی عج سے منقول ہے

امام مھدی عج نے ابن مھزیار سے فرمایا :میرے والد گرامی نے مجھ سے عھد لیا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک جن پر خداوند نے غضب کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے ان کے ساتھ زندگی نہ گزاروں بلکہ بلند وبالا پہاڑوں اور بیابانوں اور بنجر زمینوں پر زندگی گزاروں (بحارالانوار ج۵۲ ص ۱۴۴)

البتہ غیبت کبری ٰ میں کوئی خاص مکان یا جگہ کا ذکر نہیں جہاں ہم یقین سے کہہ سکیں کہ امام زمانہ عج وہاں ہیں البتہ بعض مقامات ایسے ہیں جو امام زمانہ عج سے منسوب ہیں جیسے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ کیونکہ امام زمانہ عج ہرسال حج کے اعمال انجام دینے کے لیے تشریف لاتے ہیں دوسرے خاص مقامات جیسے مسجد سھلہ ،مسجد کوفہ ،وادی السلام نجف میں جہاں امام زمانہ عج سے منسوب جگہ ہے ،آئمہ اطہار کے حرم وغیرہ میں بھی امام تشریف لاتے ہیں جیسا کہ بعض روایات اس کی طرف اشارہ ہواہے ۔

بعض ایسی جگہیں ہیں کہ جن کا ذکر دعاوں یا واقعات میں آیا ہے کہ جہاں امام ہمیشہ کے لیے رہ رہے ہیں ان میں سے ایک رضواپہاڑ ہے یہ پہاڑ مدینہ سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر ینبوع یا ینبع شھر کے نزدیک واقع ہےدعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں کہ لیت شعری ،این استقرت بک النوی بل ای ارض تقلک اوثریٰ ابرضوری ٰ اوغیرھا ۔اے کاش جان سکتا کہ کب اور کہاں آپ کے ظہور سے دلوں کو آرام ملے گا کہاں پر آپ کی اقامت ہے کیا کوہ رضوا پر یا کسی اور جگہ پر ۔۔۔) البتہ کہاجاسکتا ہے کہ رضوی پہاڑ پر آپ کی آمدورفت ہو لیکن ہمیشہ کےلیے جگہ کا تعین کرنا مشکل ہے ۔

ماخوذ از کتاب موعودادیان مہدی صاحب الزمان عج مصنف تصورعباس

جزیرہ خضراء :

ایک اورجگہ جو امام زمانہ عج کے مسکن کے حوالے سے مشہور ہےوہ ہے جزیرہ خضراء کی روایت کہ جس کو بحارالانوار میں علامہ مجلسی نے نقل کیا ہے یہ روایت دوداستانوں پر مبنی ہے پہلی داستان کمال الدین ،احمد بن محمد یحیی انباری سے منقول ہے کہ جو بحارالانوار ج۵۳ ،ص۲۱۳ پرنقل ہوئی ہے ۵۴۳ ھجری کی یہ روایت ہے (یعنی آج سے ۹۰۰ سوسال پہلے) یہ حکایت اور داستان نقل ہوئی ہےجبکہ دوسری داستان علی بن فاضل مازندرانی سے سن ۶۹۹ھجری (یعنی تقریبا ۷۰۰ )سال پہلے نقل ہوئی ہے

ان دونوں داستانوں میں کچھ نکات مشترک بھی ہیں مثلا

امام کی اولادکی رہائش دریا کے ایک جزیرے میں ہے

امام کی ابھی بیوی اوربچے ہیں

وہ جزیرہ بہت خوبصورت سرسبز وشاداب ہے کہ جس کی مثال نہیں

اس جزیرہ میں میل جول ،نظم وضبط اپنے عروج پر ہے وغیرہ

ان دونوں داستانوں کے بارے میں اقوال

بعض کہتے ہیں کہ یہ واقعات حقیقی ہیں بعض دوسروں نے قبول کیا ہے

بعض دوسرے محققین اورعلماء نے جیسے شیخ جعفر کاشف الغطاء ،آقابزرگ تہرانی ،علامہ شوشتری ،علامہ سید جعفرمرتضی عاملی ،اورمحمدباقربھبودی وغیرہ کا عقیدہ ہے کہ اس داستان کی کوئی حقیقت نہیں ہے لہذا دونوں داستانوں اورواقعات پر بہت سےاعتراضات کیے ہیں ہم یہاں علیحدہ علیحدہ دونوں داستانوں پر جو اعتراض ہوئے ہیں ان کو بیان کرتے ہیں

(الف)علی بن فاضل مازندرانی سے نقل کی گئی روایت اور داستان

داستان کی سند :

(۱) مرحوم مجلسی جس نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہتے ہیں کہ میں نے اس داستان کو کسی معتبر کتاب میں نہیں دیکھا اس لیے علیحدہ طورپر اس کو ذکر کررہا ہوں (بحارالانوار ج۵۲،ص۱۶۹)

(۲)علی بن فاضل مازندرانی کے ہم عصر علماء میں سے جیسے علامہ حلی اور ابن داوود میں سے کسی نے بھی نہ اس کا نام لیا ہے اور نہ اس داستان کا ذکر کیا ہے اس لحاظ سے اس داستان کی تین صورتیں بنتی ہیں :

(۱)یا ان علماء نے (جیسے علامہ حلی اورابن داوود )نے اس داستان کو جھوٹاسمجھتے ہوئے نقل نہیں کیا

(۲)یا اصلا یہ داستان سنی نہیں تھی

(۳)یا یہ کہ ان کے بعد یہ داستان پیش آئی

ان کتابوں میں سے جن میں اس داستان کو نقل کیا گیاسب سے پہلی کتاب نوراللہ شوشتری کی کتاب مجالس المومنین ہے جو ۱۰۱۹ میں شھیدہوئے درحالانکہ جزیرہ خضراء کی داستان ۶۹۹ ھجری سے مربوط ہے (یعنی مجالس المومنین ۳۰۰ سال بعد لکھی گئی )

داستان کی عبارت پر اشکال

اس داستان میں علی بن فاضل سے ایسے مطالب نقل ہوئے ہیں کہ جو بہت سی ہماری دینی مسلمات کے خلاف ہیں اور روایات اس کے مخالف ہیں مثلا

(۱)داستان جزیرہ خضراء میں ہے کہ فاضل مازندرانی نے ایک شخص سید شمس الدین سے پوچھا :کیوں قرآن کی بعض آیات کے درمیان منطقی ارتباط نہیں ہے ؟سید شمس نے کہا یہ وہ قرآن ہے جو پہلے خلیفہ نے جمع کیا تھااور بعض آیات کو حذف کردیا تھا اس نے امام علی کے قرآن کو قبول نہ کیا جس کی وجہ سے آیات میں منطقی ارتباط نہیں ہے

واضح ہے جو بھی داستان کے اس حصہ کو قبول کرے گویا قرآن کی تحریف کا قائل ہے درحالانکہ شیعہ وسنی کے نزدیک اور اسی طرح اس آیت کے مطابق (انانحن نزلناالذکروانالہ لحافظون )تحقیق ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔قرآن کی اصلا تحریف نہیں ہوئی حالانکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں اصلاتحریف نہیں ہوئی اوریہی آئمہ اطہار کی روایات سے ثابت ہے اوراہل سنت کا الزام بھی بے بنیاد ہےکہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور یہ بات جزیرہ خضراء کی داستان کو باطل کردیتی ہے

اس کے علاوہ خود اسلام کے آغاز سے ہی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز یہی تھا کہ قرآن کو لکھنا ،حفظ کرنا ،ایک دوسرے کو لکھوانا حتی کہ پیغمبر اکرم ﷺکی زیر نگرانی اتناکام ہو اکہ تحریف کے بارے میں سوچا تک نہیں جاسکتا

(۲)داستان جزیرہ خضراء کی عبارت میں آیا ہےکہ خمس شیعوں پر حلال ہے اور اداکرنا واجب نہیں درحالانکہ تمام مجتہدین کے مشہور قول کے مخالف ہے اور قابل قبول نہیں ہے

(ب)انباری سے نقل کی گئی داستان

جزیرہ خضراء کی وہ داستان جسے احمد بن محمد یحیی انباری نے نقل کی ہے ہرقسمی سنداوراسناد سے خالی ہے اور جس کتاب میں یہ داستان نقل ہوئی ہے وہ کتاب التعازی ہے آقابزرگ تہرانی کہتے ہیں اصل کتاب میں یہ داستان نہیں ہے بلکہ کسی نے خود اس کتاب کے آخر میں اس کا اضافہ کیا ہے پتہ نہیں کہ اس داستان کو کس سے اور کہاں سے نقل کیا ہے اسی طرح جن افراد کے واسطہ سے نقل ہوئی ہے ان کو بھی کوئی نہیں جانتا اور شیعہ رجالی کتابوں میں ان کا نام ذکر نہیں حتی راوی کی پہچان بھی نہیں ہوسکی کہ کون ہے فقط یہ کہا گیا ہےکہ وہ مسیحی تھا

داستان کی عبارت پر تبصرہ

اس داستان میں کچھ ایسے شہروں کا نام ذکر ہوا ہے جو قدیم اور پرانی جغرافیایی کتابوں میں مثلا معجم البلدان ،یاقوت حموئی کی لکھی ہوئی کتاب میں ان کا اصلا ذکر نہیں ہے کہ اس نام کا بھی کوئی شہر ہے جس کتاب میں بہت پسماندہ ترین دیہاتوں کا نام ہو کیسے ممکن ہےکہ ایسا سرسبزوشاداب جزیرے کا نام تک نہ ہو

اسی طرح عبارت میں نقل ہوا ہے کہ امام زمان عج کے فرزند نے یہود اور عیسائیوں سےجزیہ لیا لیکن اہل سنت کے اموال کو ضبط کرلیا یعنی ان کا رویہ اہل سنت کے ساتھ سخت تھا جو قابل قبول نہیں ہے

مثلث برمودا

ایک اور جگہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام زمانہ عج وہاں رہتے ہیں

مثلث برمودا ہے یہ مثلث برمودا براعظم امریکہ کے نزدیک اوقیانوس اطلس کے شمال مغرب میں مختلف چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں (تقریبا ۳۶۰جزیروں میں سے ۲۰جزیرے آباد ہیں )یہ جزیرے برمودا کے نام سے مشہور ہیں برمودا ان جزیروں میں سے سب سے بڑے جزیرہ کا نام ہے (ناجی النجار جزیرہ خضراء ،ص ۶۰اور ۶۱)

مثلث برمودا ایک مثلث شکل کے علاقہ کوکہا جاتا ہے کہ جس کا ایک سرا ،جزیرہ برمودا ہے دوسراسرا فلوریڈا کے شرقی ساحل پر بندرگاہ میامی ہے کہ جو ایالات متحدہ کی مہم ترین بندرگاہوں میں سے ہے اور اس کا تیسرا سرا پورٹوریکوکا دارالخلافہ سن ژوان ہے کہ جو ڈومینیکن ملک کے مشرق میں واقع ہے پس جو کچھ ذکر ہوچکاہے ثابت ہوا کہ ایک جزیرہ جس کا نام برمودا ہے اور ایک علاقہ جو مثلث شکل میں ہے وہ بھی ثابت ہوجاتا ہے اور جغرافیایی نقشے میں اس کا ذکر ہے

تقریبا ۱۹۷۷ میں مختلف اخباروں اور خبروں میں اس جزیرہ کے بارے میں مختلف اور ترسناک خبریں شائع ہوئیں تھیں کہ چند مسافر کشتیوں پر سوار اس جزیرہ کے قریب پہنچے اورہلاک ہوگئے اوریہ علاقہ بہت خطرناک شمار ہوتا ہے

ناجی النجار نامی ایک شخص نے کتاب جزیرہ خضراء کولکھا اوراس میں یہ احتمال دیا کہ شاید یہ مثلث برمودا وہی جزیرہ خضراء ہے جس میں امام زمانہ عج ساکن ہے لہذا اس لیے وہاں کوئی نہیں جاسکتا

لیکن علماء اورمبصرین کے اقوال کو دیکھتے ہوئے اس شخص کا قول قابل قبول نہیں ہے اورکسی نے بھی اس کی بات سے اتفاق نہیں کیا ہے

کیونکہ پہلی بات یہ کہ یہ ایک احتمال ہے جس پر کوئی دلیل نہیں ہے جس یہ ثابت ہو کہ یہی جزیرہ خضراء اورامام کے رہنے کی جگہ ہے

دوسری بات :جب خود جزیرہ خضراء کے بارے میں روایات ضعیف ہیں اور ان کو علماءاورمحققین نے رد کیا ہے تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جزیرہ خضراء ہے

تیسری بات :جو کچھ اس ترسناک خبروں میں بیان کیا گیا ہے وہ اصلاامام مہدی عج کی سیرت ،ان کی رحمت اوران کےلطف وکرم کے خلاف ہے وہ امام عج تو بہت رؤوف ہیں کیسے ہوسکتا ہے کہ چند بھولے ہوئے مسافر وہاں جائیں اورہلاک کردئے جائیں یہ اصلا ناممکن ہے اورامام کی شان کے خلاف ہے

چوتھی بات :مبصرین کا نظریہ اس کے خلاف ہے

مبصرین کا نظریہ ان خوفناک خبروں کے بارے میں

اگر برمودا کے محل وقوع کو دیکھا جائے تو یہ امریکائی جزیرہ ، کوباملک کےنزدیک ہے دوسری طرف کوبا روس کے بھی نزدیک ہے امریکہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ روس کوبا کے ذریعے سازش کرکے امریکہ پر حملہ نہ کردے یا کوبا میں اپنے جاسوسی آلات کو نصب نہ کردے اس لیے کوبا پر نگاہ رکھنا ضروری تھا

اس ہدف کے پیش نظر امریکہ نے جزیرہ برمودا میں اپنے جاسوسی آلات نصب کردئیے تاکہ کوبا پر نظر رکھی جاسکےاوردوسری طرف اس جزیرہ کو محفوظ بنانے کی خاطر کہ یہاں کوئی آنے نہ پائے، چند کشتیاں وہاں بھیج کر نابود کردیا تاکہ ایک ڈر پیدا ہوجائے اورکوئی بھی وہاں جانے کی کوشش نہ کرسکے

اصل ہدف اورمقصد یہ تھا اورپھر امریکیوں کے لیے جو لاکھوں لوگوں پر ایٹم بم گرا کر ہلاک کرسکتے ہیں وہ اپنے ہدف تک پہنچنے کےلیے چندلوگوں کو ہلاک کیون نہیں کرسکتے تاکہ ان کا ملک روس کے خطرے سے محفوظ رہے

پانچویں بات :یہ کہ پھر اس کے بعد کوئی خبر بھی اس جزیرہ کے بارے میں شایع نہ ہوئی حالانکہ ایسے جزیرہ کے بارے میں خبریں زیادہ ہوتیں، تبصرے اورتحقیق وغیرہ کچھ بھی نہ ہوا جس سے مبصرین کی اوپر والی بات کی تائید ہوتی ہے

Add new comment