غیبت امام اور مومنین

 

خلاصہ

حضرت امام زمان پر ایمان فکر وامید کے نمو ورشد کا باعث ہے امام زمان کی غیبت کا عقیدہ اور یہ احتمال کہ و ہ کسی وقت بھی تشریف لاسکتے ہیں پاک دل اور شائستہ افراد پر گہرے اثرات رکھتاہے یہ لوگ اپنے کو آمادہ کرتے ہیں اور ظلم وجور سے کنارہ کشی کرتے ہیں عدل وانصاف اور برابری وبرادری کے خوگر بنتے ہیں تاکہ امام کی نصرت اور ان کی خدمت میں شرفیابی کی توفیق حاصل کرسکیں اور امام زمان کے دیدار اور زیارت سے محروم نہ رہ سکیں اور امام سے دوری اور ناخوشنودی کی آگ میں نہ جلیں،امام پر ایمان ہو کہ انہوں نے کسی فاسد حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور کسی بھی ستم پیشہ کو قبول نہیں کیا ہے ان کے پیروکاروں میں یہ جذبہ پیدا کرتاہے کہ کہ وہ ظالم وسرکش کی مقابلہ میں قیام کریں ،اس کی حاکمیت کو تسلیم نہ کریں ۔

متن:

 

 

حضرت امام زمان پر ایمان فکر وامید کے نمو ورشد کا باعث ہے امام زمان کی غیبت کا عقیدہ اور یہ احتمال کہ و ہ کسی وقت بھی تشریف لاسکتے ہیں پاک دل اور شائستہ افراد پر گہرے اثرات رکھتاہے یہ لوگ اپنے کو آمادہ کرتے ہیں اور ظلم وجور سے کنارہ کشی کرتے ہیں عدل وانصاف اور برابری وبرادری کے خوگر بنتے ہیں تاکہ امام کی نصرت اور ان کی خدمت میں شرفیابی کی توفیق حاصل کرسکیں اور امام زمان کے دیدار اور زیارت سے محروم نہ رہ سکیں اور امام سے دوری اور ناخوشنودی کی آگ میں نہ جلیں،امام پر ایمان ہو کہ انہوں نے کسی فاسد حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور کسی بھی ستم پیشہ کو قبول نہیں کیا ہے ان کے پیروکاروں میں یہ جذبہ پیدا کرتاہے کہ کہ وہ ظالم وسرکش کی مقابلہ میں قیام کریں ،اس کی حاکمیت کو تسلیم نہ کریں ۔
حضرت کے ظہور کا عقیدہ اس بات کا سبب نہ ہو کہ لوگ باتوں کو آئندہ پرٹال دیں اور خود کنارہ کشی اختیار کرکے گوشہ نشین ہوجائیں اور امور کی اجام دہی میں ٹال مٹول کریں ،کفار واشرار کے تسلط کو قبول کرلیں ،علمی، صنعتی ترقیوں میں کوتاہیاں کریں اور معاشرے کی اصلاح کی فکر نہ کریں ۔
یہ نظریہ کہ امام زمان کے ظہور کا عقیدہ سستی وکاہلی لاتاہے بالکل بے بنیاد ہے ،مگر ہمارے ائمہ اور ان کے فعال شاگر دامام کے ظہور پر ایمان نہیں رکھتے تھے؟
مگر اسلام کے عظیم المرتبت علماء اس کے معتقد نہیں تھے ؟ لیکن ان لوگوں نے سعی وکوشش میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی اور کلمہ اسلام کی سر بلندی کیلیے کسی بھی طرح کی فدا کاری ،جانثاری سے دریغ نہیں کیا ،اپنی ذمہ داریوں میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں برتی ،اپنی عظیم ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا اور سماج میں اپنا مئوثر کردار یقینی امیدوں کے ساتھ نافذ کیا ۔
صدر اسلام کے مسلمانوں نے پیغمبر اسلامۖ سے سنا تھا کہ اسلام پھیلے گا اور بڑی بڑی فتوحات نصیب ہوں گی لیکن ان یقینی بشارتوں نے مسلمانوں کی قوت عمل کو کم نہیں کیا بلکہ اس میں اور اضافہ کردیا ان لوگوں نے نہایت ثابت قدم اور جواں مردی کے ساتھ اپنے مقاصد حاصل کیے ۔
آج بھی مسلمانوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہیں جنہیں استقامت اور ثابت قدمی کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے لازم ہے کہ عصری تقاضوں کو پہنچانیں اور فرصت سے حتی الامکان استفادہ کریں۔
ہم حقیقتا میدان عمل میں موجود رہیں ،بری باتوں سے ایک دوسرے کو روکتے رہیں ،اچھائیوں کو پھیلا کر انہیں عملی بنائیں ،دشمن کے نفوذ پر پابندی لگائیں ،دشمنوں کی فکری ،اقتصادی ،سیاسی اور جنگی حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کریں ،بہت جلد اور بہترین انداز سے تعمیر کردار کریں۔
تاکہ امام زمان کی نصرت اور زیارت کے لائق بن سکیں اور امام کی عنایتوں کے مستحق بن سکیں اور حضرت کے ظہور پر نور کے لیے زمین ہموار کریں ۔
امام زین العابدین فرماتے ہیں: کہ امام زمان کی غیبت طولانی ہوگی ،وہ لوگ جوان کی غیبت میں کے زامانہ میں ان کی امامت کے معتقد اور ان کے ظہور کے منتظر ہونگے وہ تمام زمانوں کے لوگوں سے بہتر ہیں ،کیونکہ خداوند عالم نے انہیں اس قدر عقل ،فہم اور معرفت عطا کی ہے کہ ان کے نزدیک غیبت کا زمانہ بالکل حضور امام کے زمانے جیسا ہے ،خدا نے ان لوگوں کواس زمانے میں ان مجاھدین کے مانند قرار دیاہے جوجنگ میں رسول خداۖ کے ہمرکاب تھے ،یہ لوگ واقعاً مخلص ہیں اور حقیقی شیعہ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو پوشیدہ اور علانیہ طورپر لوگوں کو خد ا کی طرف بلاتے ہیں ۔
امام زمان پر پختہ ایمان رکھنا
غیبت امام زمانہ میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟جب خدا کی آخری حجت پردہ غیبت میں ہے تو ہمیںکس طرح اس کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو انجام دینا چاہیئے؟
این باب اللہ التی منہ یوتی
کہاں ہے وہ باب اللہ کہ جس سے داخل ہواجاتاہے
حضرت امام زمان ہی وہ امام وقت ہیں ،حجت خدا ہیں ،روح بقائے کائنات ہیں کہ جن کے ذریعہ اللہ تعالی تک پہنچا جاسکتاہے ۔ خدا وند متعال کی بارگاہ میں اپنے اعمال کو قبولیت کی منزل تک پہنچایا جاسکتاہے ۔امام زمانہ کی غیبت نے ان کے چاہنے والوں کو ظاہری رسائی سے ضرور دور کردیا ہے۔ لیکن بے کس ولاچار شیدائی کسی نہ کسی طریقہ یا بہانے سے ان کی یاد کو باقی رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ امام بر حق کا ادنی سا حق ادا ہوجائے جن کے وجود مقدس سے یہ نظام کائنات باقی ہے اور چاروں طرف حیات جہاں میں شادابی پائی جاتی ہے ۔
امام زمان کی بے پناہ عنایتوں ،الطاف اور اکرام کو سامنے دیکھتے ہوئے ، ہم اہل بیت طاہرین کے چاہنے والوں پر اس دور غیبت کبری میں بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
جن کو انجام دیتے رہنا ہمارا فرض بن جاتا ہے جس طرح سابق ائمہ معصومین کی حیات طیبہ میں ان کے صحابیوں نے اپنے زمانے کے امام کا ساتھ دیا وقت پڑا تو دفاع کیا دین پر آنچ آئی تو قربان ہوگئے ، کبھی اپنے بچوں کو نثار کردیا.......وغیرہ۔
تاریخ میں جانباز صحابیوں کی قربانیاں دیکھ کر ، آج کے دور میں بھی شیعوں اور محبوں پر امام عصر کی طرف بہت سی ذمہ داریاں اور فرائض عائد ہوتے ہیں ، انہیں فرائض کو مکیاں المکارم فی فوائد الدعاء للقائم ، (مولف آیة اللہ موسوی اصفہانی ) کی کتاب سے ترجمہ و تلخیص قارئین محترم ، منتظرین امام منتظر کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ۔
مولف نے اپنی کتاب میں منتظرین کے کل ٨٨ فرائض بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں اتنا جان لینا کافی ہے کہ امام عصر نے خواب میں ان عالم بزرگوار کو اس کا یہ نام دینے کا حکم دیا تھا ۔ آیة اللہ موسوی نے آیات کی روشنی میں ان تمام فرائض و ذمہ داریوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا اورہمارے بزرگ شیعہ علماء نے آیات اور روایات کی روشنی میںبعض ذمہ داریاں بیان کی ہیں جن میں سے چندذمہ داریاںآپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں۔
١۔حضرت کی غیبت میں ، ان کے اخلاق کی پیروی کریں اور ان کے نقش قدم پر چلیںجب کوئی مومن امام کو اپنا نمونہ عمل پاکر، ان کے اخلا ق و کردار پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو یہی وہ حقیقی ماموم ہوتا ہے یعنی وہ امام کی اطاعت کرتا ہے ۔ اس کا یہ عمل کمال ایمان ہے ، تمامیت اتباع امام ہے وہ روز قیامت ان حضرت کے ہمراہ ہوگا جنت میں بھی ان ہی کے ساتھ ہوگا۔
امیر المومنین نے فرمایا:
الا و ان لکل ماموم اماما یقتدی بہ و یستضی ء بنور علمہ۔
یادر ہے ! کہ ہر ماموم کا ایک امام ہوتا ہے کہ جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور اس کے نور علم سے فائدہ اٹھاتا ہے (١)
روایت میں ہے کہ :
کبھی خداوند متعال کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے لیکن اس کے کردار سے غضبناک ہوتا ہے اور کبھی کسی بندہ سے غضبناک ہوتا ہے لیکن اس کے کردار کو دوست رکھتا ہے ۔
اس شخص کی فضیلت میں جو آپ کی غیبت میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی محبت پر باقی رہا
اس جگہ چند حدیثیں بیان کرتے ہیں
کمال الدین ۔ احمد ب زیاد بن جعفر ھمدانی نے علی بن ابراہیم بن ہاشم سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے بسطام بن مرہ سے انہوں نے عمر و بن ثابت سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: سید العابدین ، علی بن الحسین نے فرمایا:
جو شخص ہمارے قائم کی غیبت میں ہماری محبت پر باقی و ثابت رہا ِ، خدا اس کو بدرواحد کے ہزار شہدوں کے برابر اجر عطا کرے گا۔
کمال الدین ۔ اپنی سند سے امام جعفر بن محمد سے آپ نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے جد علی بن ابی طالب سے ایک طویل حدیث میں جو کہ نبی ۖ کی وصیت سے متعلق ہے ۔ ذکر کیا ہے کہ رسول ۖ نے آپ نے فرمایا:
اے علی ! جان لو کہ ایمان کے لحاظ سے حیرت انگیز ترین انسان اور یقین کے اعتبار سے سب سے عظیم وہ لوگ ہیں جو آخری زمانہ میں ہے کہ حجت کو ان سے پوشیدہ رکھاجائے گا ۔وہ تاریکی سے رونی پر ایمان لائے ہیں۔(2)
کمال الدین ۔ محمد بن الحسن بن احمد بن الولید نے محمد بن الحسن الصفار سے انہوں نے احمد بن ابی عبداللہ البرقی سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ابن المغیرہ سے انہوں نے مفضل بن صالح سے انہوں نے جابر سے انہوں نے ابو جعفر باقر سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں ان کے امام ان کی نظرون سے غائب ہوجائیں گے ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس زمانہ میں ہمارے امر پر ثابت رہیں گے۔
ان کاادنی ثواب یہ ہے کہ انہیں خداندادے گا ۔ فرمائے گا :میرے بندو! میری کنیز و !تم میرے راز پر ایمان لائے میرے غیب کی تصدیق کی ، میری طرف سے اچھے ثواب کی خوشخبری لو ، اے میرے بندو اور اے میری کنیزو ! میں تسلیم کرتاہوں کہ تمہارا حق ہے ، تم سے درگذر کرتاہوں اور تمہیں بخش دیتا ہوں اور تمہاری وجہ سے میں اپنے بندوں کو بارش سے سیراب کرتاہوں اور ان سے بلاء کو دفع کرتا ہوں، اگر تم نہ ہوتے تو ان پر ضرور اپناعذاب کرتا ۔ جابر کہتے ہیں :
میں نے عرض کی : فرزند رسول کونسی چیز افضل ہے کہ جس پر اس زمانہ میں مومن عمل کرے فرمایا: زبان پر قابورکھنا اور گھر میں رہنا۔
کمال الدین ۔ محمد ب موسی بن المتوکل نے محمد بن یحیی العطار سے انہوں نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے عمر بن عبد العزیز سے انہوں نے ہمارے بہت سے اصحاب سے اور انہوں نے داؤد بن کثیر رقی سے انہوں نے ابو عبداللہ سے خداوند عالم کے اس قول ''الذین یومنون بالغیب'' کے بارے میں روایت کی ہے آپ نے فرمایا:
جو حضرت قائم کے قیام سے پہلے اس بات پر ایمان لایا کہ وہ حق ہیں ۔(یہی غیب پر ایمان ہے)
کمال الدین ۔ علی بن احمد الدقاق نے احمد بن ابی عبداللہ کوفی سے انہوں نے موسی بن عمران نخعی سے انہوں نے اپنے چچا حسین بن یزید سے انہوں نے علی بن ابی حمزہ نے یحیی بن ابی القاسم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
میں نے امام صادق سے انہوں نے یحیی بن ابی القاسم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے امام صادق سے خدا کے اس قول ''الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ''
کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: متقین سے مراد شیعیان علی ہیں اور اور غیب سے مراد غائب و حاضر کیلئے حضرت حجت ہیں اور یہ خدا کا قول ہے ''و یقولون لولا انزل علیہ آیت من ربہ فقل انما الغیب للہ فانتظر و انی معکم من المنتظرین ''اس حدیث کو المحجة میں اسی اسناد کے ساتھ بس اس فرق کے ساتھ کہ اس میں احمد بن ابی عبداللہ کوفی کی بجائے محمد بن ابی عبداللہ کوفی لکھاہے اور لکھا ہے کہ غیب سے مراد حجت القائم ہیں اور یہی اس کا ثبوت ہے ۔
کمال الدین ۔مظفر علوی نے محمد ن جعفر بن مسعود اور حید بن محمد بن نعیم سمرقندی اور نہوں نے محمد بن عیسی سے انہوں نے یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے علی بن ابی حمزہ سے انہوں نے ابو بصیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
خدا کے اس قول ''یوم یاتی بعض آیات ربک لا ینفع نفسا ایمانھا لم تکن آمنت من قبل اور کسبت فی ایمٰنھا خیرا کے بارے میں جعفر صادق بن محمد نے فرمایا:
یعنی ہم میں قائم المنتظر مراد ہیں ( یعنی جو شخص آپ کے ظہور سے پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا یا اس ایمان سے پہلے اس نے کوئی نیک کام انجام نہیں دیا ہو گا تو اس کا ایمان کوئی فائدہ نہیں پہچا سکے گا) اور فرمایا:
اے ابوبصیر خوش نصیب ہیں ہمارے قائم کے شیعہ جو کہ ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کے ظہور کے منتظر ہیں اور ظہور کے زمانہ میں ان کے فرمانبردار ہیں۔
یہی تو اخدا کے اولیاء ہیں کہ جن پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں،۔
کمال الدین ۔ مظفر بن جعفر بن مظفر علوی سمرقندی نے جعفر بن محمد بن مسعود عیاشی سے انہوں نے جعفر بن احمد سے انہوں نے عمر کی بن بحر نوفلی سے انہوں نے حسن بن علی بن فضال سے انہوں نے مروان بن موسی سے انہوں نے مسلم سے انہوں نے ابو بصیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: امام جعفر صادق بن محمد نے فرمایا طوبیٰ ہے اس شخص کیلئے جس نے ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ہمارے امر سے تمسک کیا اور ہدایت کے بعد اس کے دل میں کجی پیدا نہ ہوئی عرض کیا گیا:
میں قربان یہ طوبیٰ کیاہے؟فرمایا:جنت میں ایک درخت ہے جسکی جڑ علی بن ابی طالت کے گھر میں ہے اور ہر مومن کے گھر میں اس کی ایک شاخ ہے اور یہ خدا کا قول ہے : طوبی لھمو حسن مآب ان کیلئے طوبیٰ اور بہترین جائے بازگشت ہے ۔
کتاب المحجة سے ، اس میں یزید بن معاویہ عجلی سے اور انہوں نے امام محمد باقر سے خدا کے کے اس قول ''یا ایھا الذین آمنوا اصبروا و صابروا و رابطوا''کے بارے میں فرمایا: یعنی فرائض کی ادائیگی پر صبر اور اپنے دشمن کے اذیت پر صبر کرو اور امام مہدی منتظر سے رابطہ قائم کرو۔(3)
زمین سے چمٹ جاؤ ، بلاؤں پر صبر کرتے رہو اور اپنی زبان کی خواہشوں سے مغلوب ہو کراپنے ہاتھوں اور تلواروں کو حرکت نہ دو اور جس میں خدا نے تمہارے لئے جلدی نہیں کی ہے اس میں جلدی نہ کرو کیونکہ مین جو شخص خدا اور اس کے رسول ۖ اور ان کے اہل بیت کے حق کو پہنچانتے ہوئے اپنے بستر پر مجائے تو وہ شہید مرتاہے اور اس کا اجر خدا کے ذمہ ہے اور جس نیک عمل کی اس نے نیت کی ہے اس کے ثواب کا مستحق ہے اور اس کی یہ نیت تلوار کھینچنے کے برابر ہے بیشک ہر چیز کی ایک مدت و میعاد ہوتی ہے۔(4)
غیبت الشیخ ۔ فضل بن شاذان نے حسن بن محبوب سے انہوں نے عبداللہ بن سنان سے انہوں نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ آپ فرمایا:رسول ۖ کا ارشاد ہے کہ تمہارے بعد ایک قوم آئے گی کہ جس کے ایک آدمی کا اجر تمہارے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ہے ۔صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول ۖ : ہم بر ، احد اور حنین میں آپ ۖ کے ساتھ تھا اور ہمارے بارے میں قرآن میں آیتین بھی نازل ہوئی ہیں۔ فرمایا: اگر تم اس مصیبت کو اٹھا تے جو وہ اٹھائیں گے تو ان جیسا صبر نہ کر پاتے ۔ خرائج میں بھی ایسی ہی حدیث نقل ہوئی ہے۔
غیبت الشیخ۔فضل بن فضال نے ثعلبہ بن میمون سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:اپنے امام کو پہچانو!جب تم انہیں پہچان گے تو تمہیں اس امر کے تقدم و تاخر سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور جس نے اپنے امام کو پہچان لیا اور پھر وہ اس امر کو دیکھنے سے پہلے ہی مرگیا اور اس کے بعد حضرت قائم کا خروج ہوا تو اس کا اجر اس شخص کی مانند ہو گا جو کہ حضرت قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں ہوگا۔
غیبت الشیخ ۔ فضل نے ابن فضال سے انہوںنے مثنی الحناط سے انہوں نے عبداللہ بن عجلان سے انہوں نے ابو عبداللہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے اس امر کو پہچان لی اور پھر وہ حضرت قائم کے قیام کرنے سے پہلے مرگیا تو اس کا اجر اس شخص کے برابر ہے جس نے آپ کی رکاب میں رہ کر جنگ کی۔
بحار الانوار ۔ میں صدوق کی مجالس سے اپنی سند سے عوف بن مالک سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول ۖ نے فرمایا: اے کاش میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرلیتا۔
ابوبکر و عمر نے عرض کی : کیا ہم آپ ۖ کے بھائی نہیں ہیں کیا ہم آپ پر ایمان نہیں لائے اور آپ ۖ کے ساتھ ہجرت نہیں کی؟فرمایا تم ایمان بھی لائے ہو اور تم نے ہجرت بھی کی ہے پھر آپ ۖ نے فرمایا:
اے کاش میں اپنے بھائیوں سے ملاقت کر لیتا : پھر وہی جملہ کہا گیا : تو رسول ۖ نے فرمایا: تم میرے صحابی ہو لیکن جو لوگ تمہارے بعد آئیں گے وہ میرے بھائی ہیں وہ مجھ پر ایمان لائیں گے ، مجھ سے محبت کریں گے ، میری تصیدق کریں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہے ، اے کاش میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرلیتا۔
المحاسن ۔(کتاب الصفوة والنور ) میں اپنی سند سے فضیل سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے ابو جعفر سے سنا کہ فرماتے ہیں : جو شخص مرگیا ور اس کا کوئی امام نہیں تھا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کوئی عذر نہیں پیش کر سکیں گے جب تک کہ اپنے امام کو نہیں پہچان لیں گے اور جو شخص مرگیا جبکہ وہ اپنے امام کی معرفت رکھتا تھا تو اسے اس امر کا تقدم و تاخر کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور جو شخص امامت کی معرفت رکھتے ہوئے مرگیا تو وہ شخص کی مانند ہے جو حضرت قائم کے ساتھ آپ کے خیمہ میں ہو۔
المحاسن ۔ کتاب الصفوة و النور)میں اپنے والد سے انہوں نے علاء بن سیابہ سے روایت کی ہے کہ انہوںکہا: ابو عبداللہ نے فرمایا:
تم میں سے جو شخص ہمارے اور امر پہ مرگیا تو وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے حضرت قائم کے رواق ۔ برآمدہ ۔ میں خیمہ لگا یا ہو بلکہ اس شخص کی طرح ہے کہ جس نے آپ کے ہمراہ اپنی تلوار سے جہاد کیا ہو بلکہ اس شخص جیسا ہے کہ جس نے آپ ۖ کے ساتھ شہادت ؛پائی ہو بلکہ اس شخص کے مثل ہے جس نے رسول ۖکے حضور میں شہادت پائی ہو۔
بحار الانوار ۔ تاریخ قم میں اپنی اسناد سے صفوان بن یحیی ابیاّع السابری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک روز میں ابوالحسن کی خدمت میں حاجر تھا کہ وہاں قم کے باشندوں اور حضرت مہدی کی طرف ان کے میلان کا ذکر چھڑ گیا تو آپنے فرمایا کہ خدا ان پر رحم کرے اور فرمایا:
رضی اللہ عنہم پھر فرمایا: بیشک جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور ان میں سے ایک قم والوں کیلئے ہے تمام شہروں میں وہ ہمارے بہترین شیعہ ہیں ، ہمارے ولایت کو خدا نے ان کی طنیت میں خمیر کردیا ہے۔
الکافی ۔ اپنی سند سے ابو الجارود سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا۔ میں نے ابو جعفر کی خدمت میں عرض کی فرزند رسول ۖ !
کیا آپ جانتے ہیں کہ مجھے آپ سے کتنی محبت ہے ؟اور میری آپ ہی پر اکتفاء ہے اورآپ سے مودت و عقیدت ہے ؟ راوی کہتا ہے کہ آپ فرمایا :
ہاں ۔ راوی کہتا ہے ۔ میں نے کہا: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں جواب مرحمت فرمائیں، مجھے کم دکھائی دیتا ہے ، سست رفتار ہوں اور ہر وقت آپ کی زیارت نہیں کرسکتاہوں۔ فرمایا تمہاری کیا حاجت ہے ؟
میں نے عرض کی مجھے اپنے اس دین سے آگاہ کیجئے جس سے خدا نے آپ کو اور آپ کے اہل بیت کو نوازا ہے تا کہ اس کے ذریعہ میں بھی خدا سے قریب ہوجاؤں ، فرمایا: اگر چہ تم نے بات چھوٹی کہی ہے اور سوال بڑا کیا ہے پھر بھی خدا کی قسم میں تمہیں اپنا اور آباء کے اس دین سے ضرور آگاہ کروں گا کہ جس سے خدا نے انہیں نوازا ہے ، وہ ہے ، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنا اور اس چیز کا اقرار کرناجو رسول لائے ہیں اور ہمارے ولی کی ولایت کو تسلیم کرنا اور ہمارے دشمن سے بیزار رہنا اور ہمارے امر کو تسلیم کرنا ، ہمارے قائم کاانتظار اور کوشش و پاکدامنی سے کام لینا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے امام زمانہ کو مانتے ہیں، ان کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہیں لیکن کبھی کبھی ہم اپنے برے اخلاق اور خراب کردار کی وجہ سے دشمن کو طعنہ اور عیب جوئی کا موقعہ دے دیتے ہیں ، جس کی بناپر امام وقت نشانہ بن جاتے ہیں، یہی سبب ہے کہ
امام صادق نے فرمایا۔
کونوا لنا زینا و لاتکونواعلینا شینا۔
تم لوگ ہمارے لئے باعث زینت بنونہ کو باعث ذلت ۔(5)
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
زبان کو استعمال کئے بغیر ، لوگوں کو مذہب کی طرف دعوت دو ۔یعنی اپنے اچھے کردار کے ذریعہ سے ۔
امام صادق فرماتے ہیں:
ہم کسی کو مومن میںشمار نہیں کرتے جب تک وہ ہمارے تمام امور کی پیروی نہیں کرتا ۔
ہم اس دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کافر کو ہر نعمتوں کی فراوانی ( نعمتوں کی آسائش ) ہے وہ دولت ریاست عزت ظاہری و غیرہ میں پوری طرح سے ڈوبا ہوا ہے ور اس کے بر عکس ہمارے یعنی مومنین کے حالات بالکل خراب ہیں ، ان باتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہمیں گمراہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ جن نعمتوں کا اللہ نے مومنین کو دینے کا وعدہ کیا ہے وہ ان سب سے کئی گناہ زیادہ اور بہتر ہے۔
جیسا کہ آیہ قرآنی نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔
لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد۔متاع قلیل ثم ماوھم جھنم و بئس المھاد ۔ لکن الذین اتقوا ربھم لھم جنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا نزلا من عنداللہ و ما عندہ اللہ خیر للابرار۔(6)
خبردار تمہیں کفار کا شہر شہر چکر لگانا دھو کہ میں نہ ڈال دے ۔
یہ حقیر سرمایہ اور سامان تعیش ہے اس کے بعد جہنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے ،لیکن جن لوگوں نے تقوی الہی اختیار کیا ان کے لئے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ۔ خدا کی طرف سے یہ
سامان ضیافت ہے اور جو کچھ اس کے پاس ہے سب نیک افراد کے لئے خیری ہے ۔
امام کا مقصد دین خدا کی ترویج اور تمام مخلوقات کا اپنے پروردگار کی اطاعت کرنا ۔پس جب مومن اطاعت خدا کی کوشش کرتا ہے اور گناہ سے دوری اختیار کرتا ہے تو کیا اس نے امام کے مقصد میں مدد کی ؟
جب مومن اطاعت سے قربت اور معصیت سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے تو لوگ اس مومن کی پروی کرنے کے لئے راغب و متوجہ ہوتے ہیں اور اس کا کردار امام کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کیونکہ اس کا یہ اچھا اخلاق اس بات کی دلیل ہے کہ امام نے ان باتوں کو بتایا ہے ۔
اس طریقہ سے اس نے امام وقت کی مدد ہے اور دشمنوں سے جنگ کی ہے ۔ امام کی اطاعت و پیروی ، گناہوں سے دوری سبب ہیں امام سے جنگ میں نزدیک ہونے کا ۔ اور کردارمیں امام کی مخالفت کرنے سے مومن امام کی قربت سے دور ہوجاتا ہے جیسے امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ میرے والدنے فرمایا:
میرے بیٹے بیشک اگر تم میرے کردا کے خلاف کام انجام دوگے توکل روز قیامت میرے گھر( میری منزل)کے پاس نہیں ہوگے ( یعنی میرے ساتھ نہیں ہوگے۔)(7)
٢۔ امام زمانہ کو یاد کرنا
قرآن کریم کی آیات اور ائمہ معصومین کی روایتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ امام ہم پر ناظر و شاہد ہیں اور ہمارے تمام حالات ، حرکات اور سکنات کی اطلاع رکھتے ہیں ، اگر ہمیں اس بات کا احساس ہوجائے تو ہم ہر حال میں ہر جگہ ہر موقع پر یہی تصور کریں گے کہ امام ہمارے سامنے ہیں، ہمیں دیکھ رہے ہیں ، پس یہ خیال آتے ہی ہم ان تمام آداب و کردار کی رعایت اور وظائف کی بجا آوری کریں گے جن کی امام سے نسبت ہے ۔
مثال : ایک نابینا شخص کا بادشاہ سے ملاقات کرنا اور اس کے سامنے تمام آداب کا انجام دینا برابر نہیں ہے اس بینا شخص کے جو بادشاہ سے ملاقات اسے سامنے دیکھ کر کرتا ہے اور ان تمام آداب کو اسی طرح انجام دیتا ہے جیسا اس کا انجام دینے کا حق ہے ۔ اسی طرح جب کوئی مومن امام زمانہ کو اپنی ایمانی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو وہ انہیں آداب و کردار کو انجام دیگا جو امام پسند کرتے ہیں۔
جیسا کہ علی اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:
اے اللہ لازم ہے کہ تیری زمین تیری حجت سے خالی نہ رہے جولوگوں کو تیرے دین کی طرف ہدایت کرے اور تیرے دین کی تعلیم دے تا کہ تیری حجت باطل نہ ہواور تیرے اولیاء کی اتباع کرنے والے گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں ہدایت مل چکی ہو۔
چاہے یہ حجت ظاہر ہو جس کی اطاعت نہ کی جارہی ہو یا پوشیہ ہو اور دشمن اس کی تاک میں ہو کہ خود لوگوں کی نظرون سے پوشیدہ ہوجبکہ لوگ ہدایت یافتہ ہوں اور اس کا علم اور احکام مومنین کے دلوں میں ثابت ہوں جب پر وہ عمل کریں۔(8)
پس مجھے یقین رکھنا چاہیئے کہ میں اپنے امام عصر کی نظروں سے دور نہیں ہوں ، وہ میری جگہ اور میرے حال سے آگاہ اور واقف ہیں، اگرمیں ان لوگوں میں سے بن جاؤں جو امام کی نسبت ان کے آداب و اخلاق کی رعایت کرتے ہیں تو میں ان کی (امام کی ) عنایت و محبت کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہوں ۔
اور اگر میں اہل غفلت اور ان کی باتوں سے دوری اختیار کروں تو خداوند کریم آواز دے گا:
و من اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا و نحشرہ یوم القیمة اعمی۔ قال رب لم حشرتنی اعمی و قد کنت بصیرا ۔ قال کذلک اتتک ایتنا فنسیتھا کذلک الیوم تنسی۔
اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی تنگ بھی ہی اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا بھی محشور کریں گے ۔وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تونے مجھے اندھ اکیوں محشور کیاہے جب کہ میں دار دنیا میں صاحب بصیرت تھا ارشاد ہوگا کہاسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیاجائے گا۔
( 9)اور یہی نہیں بلکہ:
قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلا یا جائے گا۔(10)
آخرت کی بربادی سے بچنے کے لئے اور اپنے امام وقت کی عنایت و توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے ، امام کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ اور شفی قرار دیں ،انہیں ہر امور میں ( ہر کام میں )پناہگاہ قرار دیں ، جب مشکلات و سختی آئے تو امام کی بارگاہ سے لولگا ئیں۔
٣۔ امام زمانہ کی بارگاہ میں خدمت کے سلسلے میں کوشش کرنا
ہمیں اپنی زندگی میں جتنا ممکن ہوسکے ، امام زمانہ کی بارگاہ میں خدمت کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے اس لئے کہ یہ زندگی انہیں حضرت کے با برکت وجود سے باقی ہے ۔ تمام فرشتے ان کی خدمت کرتے ہیں ، ان کے حکم کے مطابق امور جہان کو انجام دیتے ہیں، فرشتے امام کی اجازت کے بغیر بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے امام صادق اپنی زندگی میں آخری امام کی خدمت کرنے کے سلسلے میں ارشاد
فرماتے ہیں:!
لو ادرکتہ لخدمتہ ایام حیاتی (1١)
اگر میں ان کے دور (امام زمانہ ) کو پالینا تو اپنی ساری زندگی ان کی خدمت و نوکری میں صرف کردیتا ۔
اس روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام قائم کی خدمت کا اہتمام کرنا سب سے بڑی و بزرگترین اطاعت ہے اور تقریب الہی کا بہترین وسیلہ ہے ۔
امام زمانہ کی خدمت کی افضل ترین عبادت اور بہترین اطاعت کی وجہ یہ ہے کہ:
١۔امام کی ولایت:
ولایت مطلقہ ہے اور خدا و رسول کی طرف سے حضرت کی جانشینی۔
٢۔ امام کا حق پدری:
امام رضا ارشاد فرماتے ہیں:الامام الایس الرفیق والوالد الشفیق ۔(1٢)
امام ایک مہربان دوست اور شفیق والدہیں۔
رسول اکرم ۖ :
انا و علی ابواھذہ الامة۔
میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا حق ہمارے ظاہری والد سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ امام ہمارے روحانی والد ہیں، ہماری نگہداشت کرتے ہیں۔
حق ، ایمان و اسلام :
جو شخص مسلمان و مومن ہوتا ہے ، ان کی خدمت کرنے کا ثواب ، آخرت میں ایک خدمتگذار کو پانے کا ہے ۔
رسول نے فرمایا:
جو مسلم کسی مسلمان قوم کی خدمت کرتا ہے تو خداوند متعال اسے جنت میں خدمت کرنے والوں کے برابر اتنے ہی خادم عطا کرے گا ۔
امام عصر کی خدمت کرنے کا طریقہ
١۔ان کاموں بجالانا جس کا امام نے حکم دیاہے ۔
٢۔وہ کام جس سے ان حضرت ۖ کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو۔
٣۔حضرت کی بارگاہ میں احسان کرنا۔
٤۔آنحضرت کی نصرت و مدد کے ذریعہ۔
٢۔آنحضرت کی یاد تذکرہ کے لئے مجلسوں ،محفلوں کا بر پاکرنا منعقد کرنا۔
٣۔ امام زمانہ کے متعلق کتابوں کی تصنیف کرنا، تالیف کرنا۔
٤۔ ان حضرت پردرود و سلام بھیجنا۔
٥۔ امام زمانہ کے دوستوں ، چاہنے والوں اور شیعوں پر بہ قصد خدمت امام ، احسان کرنا۔
روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام کے دوستوں اور شیعوں پر احسان کرنامساوی ہے (برابری ہے )امام زمانہ پر احسان کرنے کے۔
٦۔ ان حضرت کے دوستوں اور شیعوں سے نیک برتاؤ کرنا وابستگی رکھنا برابر و مساوی امام کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کے اور انہیں ہلکا یاذلیل سمجھنا بھی برابر ومساوی ہے امام کو ہلکا سمجھنے کے امام موسی کاظم سے روایت ہے۔
منلم یقدر ان یزورنا فلیزر صالحی موالینا یکتب لہ ثواب زیارتنا ،ومن لم یقدر علی صلتنا فلیصل صالحی موالینا یکب لہ ثواب صلتنا۔( کامل الزیارات باب ١٠٥)
جو ہمارے زیارت کی استطاعت نہیں رکھتا ہے اسے چاہئے کہ ہمارے نیک چاہنے والوں کی ملاقات کرے تو اس کے لئے ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا جو ہم سے جڑنے ( وابستگی) کی استطاعت نہیں رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ ہمارے نیک چاہنے والوں سے جڑے تو اس کے لئے ہم سے جڑنے کا ثواب لکھا جائے گا ۔
٤۔ مال کے ذریعہ امام عصر سے وابستگی
ہر مومن مرد و عورت کو چاہیئے کہانے مال میں سے کچھ حصہ امام زمانہ کے لئے نکالے ۔ یہ کام ہر سال کرنا چاہیئے ، اس عمل خیر میں امیر و فقیر برابر ہیںمگر یہ کہ دولتمند اپنی توانائی کے حساب سے اور غریب اپنی استطاعت کی بناپر نکالنے کے لئے مکلف ہیں۔
روایتوں میں مال کے نکالنے کی مقدار کو معین نہیں کیا ہے یہ عمل مستحب موکدہ ہے بلکہ ائمہ کی تعبیر میں بہ عنوان فریضہ قرار دیا ہے۔
امام صادق سے روایت ہے:
جس نے گمان کیا کہ امام لوگوں کے مال کا محتاج ہے تو وہ کافر ہے بلکہ لوگ اس کے محتاج ہیں کہ امام ان کا مال قبول کرلیں۔
خداوند عالم فرماتا ہے:
خذ من اموالھم صدقة تطھر ھم و تزکیھم بھا۔(13)
ان کے اموال کولے تا کہ وہ صدقہ و گیرہ دینے کی وجہ سے پاک و صاف ہوجائیں۔(14)
راوی نے امام موسی کاظم سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا۔
من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرة۔( 15)
جو اللہ کو قرض حسنہ دے وہ اس کو دو چند واپس دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا اجر ہے ۔
امام نے فرمایاک، اس سے مراد امام تک مال پہونچاناہے۔
امام صادق نے فرمایا:
ایک درہم جو امام تک پہونچایا جائے وہ کو ہ اُحُد کے وزن سے گراں تر ہے ۔
یا دوسری روایت میں:
بہتر ہے ان لاکھوں درہم سے جو کسی امر خیر میں خرچ کیا جائے۔
تفسیر برہان میں امام صادق سے روایت ہے کہامام باقر نے فرمایا:
جو شخص اگر ایک سال میں اپنے مال امام تک کچھ نہ پہونچائے تو خداوند عالم روز قیامت اس کی طرف نظر رحمت نہیں کریگا بلکہ اس سے اپنی نظر ہٹالے گا۔
ان تمام روایت کا خلاصہ یہ ہے:
١۔امام زمانہ کی بارگاہ میں،زمانہ غیبت میں مال کے ذریعہ سے وابستگی رکھنا زمانہ ظہور کے بعد انجام دینے سے بہتر ہے ۔
٢۔زمانہ غیبت میں اپنے مال کے ذریعہ وابستگی رکھنے سے ،امام کو راضی و خوشنود کرتے ہیں ۔ چاہے
ہم امام کے متعلق کتابیں چھاپیں ، ان کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے مجلس منعقد کریں اور لوگوں کو ان کی طرف دعوت دیں ، چاہنے والوں اور شیعوں کی مال سے مدد کریں ، وہ علماء جو ترویج دین میں مصروف ہیں ان کی مدد کریں ، وغیرہ.....۔
٣۔ اپنے مال کو امام کی بارگاہ میں پیش کرکے ہم اپنے مال کوپاکیزہ و طاہر بناتے ہیں جو ہمارے دیگر اعمال کی طہارت کی ضمانت بن جاتا ہے۔
بیان شدہ چند ذمہ داریوں میں دیگر اہم ذمہ داریاں بھی شامل ہیں:
١۔ حضرت کی غیبت کے زمانہ میں ،امام زمانہ کے اخلاق کی پیروی کرنا اور اسے اپنا نے کو کوشش کرنا۔
٢۔ امام زمانہ کو یاد کرنا۔
٣۔امام زمانہ کی بارگاہ میں خدمات کے سلسلے میں کوشش کرنا۔
٤۔مال کے ذریعہ سے ، امام عصر سے وابستگی۔
بارگاہ امام زمانہ میں ہم دعا گوہیں کہ دوبارہ ان کے چاہنے والوں کی خدمت میں بقیہ ذمہ داریاں بھی پیش کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں گے ۔
منتظرین امام زمان کا نظام زندگی
اپنی ہر صبح کاآغاز امام کی خدمت میں سلام :
السلام علیک یا مولای یا صاحب الزمان سے کریں۔
ہر صبح و شام امام عصر کی سلامتی کی دعا کریں، آپ کی سلامتی کیلئے صدقہ دیں۔
امام کی طرف سے مستحب کام انجام دیں یا کم از کم دو رکعت نماز مستحبی پڑھ کر اس کا ثواب امام کو ہدیہ کریں۔
خداوند عالمی کی باراہ میں امام کی معرفت کیلئئے دعا کریں۔
امام کی خوشنودی کے لئے رشتہ داروں سے صلہ رحم کریں ۔ کسی ایک رشتہ دار سے ملاقات کریں یا اس کی خیریت دریات کریں۔
اہل بیت خاص کر امام سے متعلق چند صفحات کا ضرور مطالعہ کریں۔
کسی ایک فرد سے اہل بیت خاص کر امام عصر سے متعلق گفتگو کریں۔
لوگوں کو امام عصر کی طرف دعوت دیں۔
خداکی بارگاہ میں امام کے اعوان و انصار میں شامل ہونے کی دعاکریں۔
امام عصر کے دوستوں ، ان کے خدمت گذاروں کے لئے دعا کریں ۔
روزانہ نماز صبح کے بعد دعائے عہد پڑھیں ۔
توبہ و استغفار کریں، کیونکہ ہمارے گناہ ہی ان سے دوری کا سبب ہیں۔
جمعہ کے دن دعائے ندبہ اور امام زمان کی زیارت ضرورپڑھیں ، اور زیارت روز جمعہ پڑھنا نہ بھولیں۔
امام عصر کے روز ولادت (١٥ شعبان ) کی مناسبت سے اپنے گھر میں جشن کا ضرور انتظام کریں ، چاہے وہ کتنا ہی مختصر ہی کیوں نہ ہویا کسی جشن کے پرگرام میں شرکت کریں ۔
انشاء اللہ امام عصر کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں گی ۔
آپ کی نسبت آپ کی رعیت اور شیعوں کے بعض فرائض
١۔ غیبت النعمانی ۔ محمد بن ہمام نے جعفر ب محمد بن مالک سے انہوں نے عباد بن یعقوب سے انہوں نے یحیی بن علی سے انہوں نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے سنا کہ ابوعبداللہ فرماتے ہیں قائم کے ظہور سے پہلے غیبت سے ، میں نے عرض کی کیوں؟ فرمایا:خوف محسوس کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اپنے شکم کی طرف اشارہ کیا پھر فرمایا:
اے زرارہ یہ وہ منتظر ہیں کہ جنکی پیدائش کے بارے میں شک کیا جائے گا چنانچہ بعض تو کہیں گے کہ ان کے والد مرگئے اور ان کوکوئی اولاد نہیں تھی ، بعض کہیں گے حمل تھا، بعض کہیں گے وہ غائب ہیں بعض کہیں گے وہ اپنے والد کی وفات سے دوسال قبل پیدا ہوئے تھے اور وہ منتظر ہیں مگر یہ خدا ۔چاہتا ہے کہ ۔شیعوں کے دلوں کا امتحان لے ، اس وقت باطل پرست شرک میں پڑجائیں گے ، زرارہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی :
میں قربان ! اگر میں اس زمانہ کو پاؤں تو کیا عمل انجام دوں ؟فرمایا اے زرارہ ! اگر تم اس زمانہ کو پاجاؤ! تو اس دعا کوپڑھو :
اللھم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف نبیک ( لم اعرفک نخ ) اللھم عرفنی رسولک فانک ان لم تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک اللھم عرفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ظللت عن دینی۔
. تو مجھے اپنی معرفت عطا کردے کییونکہ اگر تو مجھے اپنی معرفت سے نہیں نوازے گا تومیں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کرسکوں گا اپنے رسول ۖ کی معرفت عطا کردے کیونکہ۔
اگر میں تیرے رسول ۖ کی معرفت نہیں حاصل کرسکوں گا تو تیرے حجب کو بھی نہیں پہچان سکوں گا، اے اللہ ! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطافرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت کی معرفت سے محروم رکھے گا تو میں اپنی دین سے بھٹک جاؤں گا۔
پھر فرمایا: اے زرارہ !مدینہ میں ایک غلام کا قتل ضروری ہے ، میں نے عرض کی : قربان جاؤں ! یہ وہی تو نہیں ہے جس کو سفیانی کا لشکر قتل کرے گا ؟ فرمایا: نہیں۔ بلکہ اس کو فلاں خاندان کا لشکر قتل کرے گا، وہ خروج کرے گا ۔
یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہوگا اور لوگ یہ بھی نہ سمجھ سکیں گے کہ وہ کس لئے آیا ہے چنانچہ وہ غلام کو پکڑکر قتل کردے گا جب وہ ظلم و جور اور سرکشی سے غلام کو قتل کردے گا تو خدا نہیں مہلت دے گا ، اس وقت فرج کی توقع کی جائیگی کافی میں اپنی سند سے اور کمال الدین میں اپنی سند سے ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔( 16)
(کتاب مکیال المکارم کے آٹھویں باب میں آپ کے بارے میں بندوں کی ایسی ذمہ داریاں اور تکالیف لکھی ہیں ان میں سے ہرایک پرسیر حاصل بحث کی ہے
١۔ آپ کے آداب و صفات ، خصائص اور آپ کے ظہور کی حتمی علامتوں کی معرفت حاصل کرنا، آپ کا ذکر ادب کے ساتھ کرنا۔یعنی صرف آپ کے القاب ، حجت ، قائم ، مہدی ، صاحب الزمان اور صاحب الامر ، ہی سے آپ کا ذکر کرنا ۔ کھلم کھلا آپ کا نام نہ لینا ، آپ کانام وہی ہے جو رسول ۖ کا نام ہے، آپ کا نام لینا کے سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔
ان میں سے بعض کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا نام لینا حرام ہے جو آپ کا نام لیے سمجھتے ہیں، یہاں اس سے بحث کرنے کا وقت نہیں ہے بلکہ اس سے ہم اپنی دوسری کتاب ۔ جو اس کتاب کا تتمہ کے طور پر لکھنے کا ارادہ کیا ہے ۔ میں بحث کریں گے لہذا احتیاط سے کام لیتے ہوئے اور مسلک احتیاط پر چلتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ عام محافل و مجالس میں صراحت کے ساتھ آپ کا نام لینا جائز نہیں ہے۔
انہیں ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے : خود بھی آپ سے محبت کریں اور دوسروں میں انہیں محبوب بنائیں ، آپ کے ظہور و فرج کا انتظار کریں آپ سے ملاقات کے اشتیاق کا اظہار کریں ،آپ کے
فضائل و مناقب بیان کریں ، آپ کے فراق میں مغموم و محزون رہیں ان محافل و مجالس میں شریک ہوں جن میں آپ کے فضائل و مناقب بیان ہوتے ہیں کہ آپ کے فضائل نشر کریں اور اس سلسلہ میں پیسہ خرچ کریں کہ یہ دین خدا کی ترویج اور اس کے شعائر کی تعظیم ہے ، آپ کی نیابت میں حج کریں ، آپ کی طرف سے کسی کو نائب کر حج و طواف کیلئے بھیجیں ۔
آپ کی طرف سے نیابت رسول ۖ اور ائمہ کے مشاہد مشرفہ کی زیارت کیلئے بھیجیں ، فرائض یومیہ کے ہر فریضہ یا روز جمعہ کو آپ سے تجدید بیعت کریں ، مستحب ہے کہ فریضہ کے بعد تجدید بیعت کریں۔
جیسا کہ امام صادق سے روایت کی گئی ہے ۔ اس موضوع پر امام صادق سے متصل السند احادیث نقل ہوئی ہیں ۔ فرمایا: جو ہر صبح کو چالیس روز تک پڑھے گا وہ حضرت قائم کے انصار میں ہوگا دعا کا سرنامہ یہ ہے : بسم اللہ الرحمن الرحیم اللھم رب النور العظیم .الخ
ان کے نیک و پرہیزگار شیعوں کی مالی مدد کرے ، مومنوں کو خوش کرے کہ یہ آپ کی مسرت کا باعث ہوتا ہے آپ کی طرف متوجہ ہو کر زیارت پڑھے ۔ سلام کرے ، آپ سے توسل کرے اور آپ کو خدا کی بارگارہ میں اپنا شفیع بنائے آپ سے استغاثہ کرے آپ سے اپنی حاجت طلب کرے آپ کی طرف لوگوں کو بلائے ان کی راہنمائی کرے۔
آپ کے حقوق کی رعایت و حفاظت کرے نفس کور ذیل صفات سے پاک کرے اور اخلاق حمیدہ کے زیور سے اسے آراستہ اور ان سے جسمانی یا روحانی نسبت رکھنے والوں ، جیسے سادات ، علماء اور مومنین کا تقرب حاصل کرے اور ان کے ٹھہرنے اور آنے جانے کی جگہوں جیسے مسجد سہلہ ، مسجد اعظم کوفہ و غیرہ کے تعظیم کرے ۔
آپ کے ظہور کا وقت مقرر کرنے سے پرہیز کرے ، اور وقت مقرر کرنے والوں کی تکذیب کرے اسی طرح نیابت خاصہ کا دعوی کرنے اور غیبت کبری میںوکالت کا دعوی کرنے والوں کو جھٹلائے اور آپ سے ملاقات کرنے میں کامیابی کے لئے کوشش کرے اور اس کیلئے خدا سے دعا کرے اور اعمال و اخلاق اور سید الشہداء اور نبی و معصومین کی زیارت میں آپ کی اقتداء کرنا کہ یہ امام زمانہ کے ساتھ تعلق ہے
۔ برادران کے حقوق ادا کرے مصباح المتہجد ۔ ایک جماعت نے بتایا ہے کہ جس نے ابو محمد ہارون بن موسی تلعکبری سے روایت کی ہے کہ ابو علی محمد بن ہمام نے انہیں اس دعا کی خبر دی اور بتایا کہ شیخ ابو عمر عمر وی قدس اللہ روحہ نے انہیں املا کرایا اور کہا کہ اس کو پڑھا کرو یہ دعا قائم آل محمد ۖکی غیبت کے بارے میں ہے:
اللھم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف رسولک اللھم عرفنی رسولک فانک ان لم تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک اللھم عرفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ظللت عن دینی۔
اے اللہ مجھے اپنی معرفت عطا کردے کیونکہ اگر تومجھے اپنی معرفت نہیں عطا کرے گا تو میں تیرے رسول کونہیں پہچان سکوں گا۔ اے اللہ ! مجھے اپنے رسول ۖ کی معرفت عطا کردے کیونکہ اگر تو مجھے اپنے رسول ۖ کی معرفت سے نہیں نوازے گا تو مجھے اپنی حجت کی معرفت حاصل کرسکوں گا اے اللہ ! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کردے کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت کی معرفت سے نہیں نوازے گا تو میں اپنے دین سے دور ہی رہوں گا۔
اللھم لا تمتنی میتة جاھلیة ولاتزغ قلبی بعد اذھدیتینی اللھم فکما ھدیتنی لولایة من فرضت علی طاعة من ولایة (ولاة نخ جمال الاسبوع) بعد رسولک صلواتک علیہ و الہ حتی والیت ولاة امرک امیر المومنین و الحسن و الحسین و علیاو محمدا و جعفرا و موسی و علیا و محمدا و علیا و الحسن والحجة القائم المھدی صلواتک علیھم اجمعین۔
اے اللہ! مجھے جاہلیت کی موت نہ دینا اور ہدایت عطا کرنے کے بعد میرے دل کو کج نہ کرنا ، اے اللہ ! جس طرح تو مجھ پر واجب کی ہے یہاں تک کہ میں نے تیرے ولی امر ، امیر المومنین ، حسن و حسین ، علی ، محمد ، جعفر ، موسی ، علی ، محمد علی ، حسن و حجة القائم المہدی ، ان سب پر تیرا درود ہو ۔ سے محبت کی اور انہیں اپنا ولی مان لیا۔نے اس کی ولایت کی طرف میری ہدایت کی ہے کہ جس کی اطاعت تونے اپنے رسول ۖ کے بعد قراردی ۔
بلال حسین جعفری

١۔نہج البلاغہ خظ ٤٥ ،مستدرک الوسائل ٥٤١٢
2۔ اسی کو ینابیع المودة میں ص ٤٩٤پر نقل کیا ہے
3۔ینابیع المودة ص ٤٢١
4۔نہج البلاغہ ج٢خ١٨٥
5۔اصول کافی ج ٢ ص ٧٧
6۔ سورہ آل عمران آیت ١٩٦، ١٩٧، ١٩٨
7۔ روضہ کافی ج٨ ص ٢٥٣
8۔کمال الدین ج ١ ص ٣٠٢
9۔سورہ طہ آیت ١٢٤۔١٢٦
10 سورہ بنی اسرائیل آیت ٧١
11۔بحار الانوار ج٥١، باب ٦
12۔ اصول کافی ، جلد ١، صفحہ ٢٠
13۔سورہ توبہ آیت ١٠٣
14۔کافی ج ٣ص ١٨٢ ا
15۔سورہ بقرہ آیت ٢٤٥
16۔اصول کافی ج ٣ص ١٨٢ ا

 almustafa.blogfa.com

Add new comment