حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی بارگاہ میں مرزا دبیر

کلام :مرزا دبیر ؔ

(١)
بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے
مریم درود خواں ہے یہ کس کی جناب ہے
شان خدا عیاں ہے یہ کس کی جناب ہے
دہلیز آسماں ہے یہ کس کی جناب ہے
کرسی زمیں سے لیتی ہے گوشے پناہ کے
بیٹھا ہے عرش سایہ میں اس بارگاہ کے
(٢)
حورانِ ہشت خلد ہیں سب اہتمام کو
درالسلام در پہ کھڑا ہے سلام کو
سجدہ نہیں حلال ہے بیت الحرام کو
سورج نثار صبح کو ہے چاند شام کو
دیکھا کریں کھڑے ہوئے اس آستان کو
یاں بیٹھنے کا حکم نہیں آسمان کو
(٣)
صحرائے لامکاں کی فضا اس سے تنگ ہے
جنت کا نام اس کی بزرگی کا ننگ ہے
فضل خدا کے سائے کا ہرجا پہ ڈھنگ ہے
یاں دھوپ میں بھی کاغذ ابری کا رنگ ہے
زائر کو اس حریم کے عیش و نشاط ہے
اس کا بچھونا رحمت حق کی بساط ہے
(٤)
عفت پکارتی ہے مقام حجاب ہے
شیعو! جناب فاطمہ کی یہ جناب ہے
حواء و آسیہ کا یہ باہم خطاب ہے
زہرا کے رعب و دبدبہ سے زہرہ آب ہے
جاری ہے منہ سے جاریۂ فاطمہ ہو تم
مخدومہ کائنات کی یہ ، خادمہ ہو تم
(٥)
ہر خشتِ روضہ دفتر ِ حکمت کی فرو ہے
موقوف یاں زمانے کا ہر گرم و سرد ہے
گرمی کا ہے بخار نہ کلفت کی گرد ہے
ہر صاحبِ مراد کے پہلو میں درد ہے
ہم تم یہ جانتے تھے کہ سوتی ہے فاطمہ
اس کی خبر نہیں ہے کہ روتی ہے فاطمہ
(٦)
شانِ خدا ہے صل علیٰ شانِ فاطمہ
حیدر کی جا نماز ہے دامانِ فاطمہ
روزہ ہر ایک روز ہے مہمانِ فاطمہ
کہتی ہے عید فطر میں قربان فاطمہ
بہرِ نماز قوت کو تقلیل کرتی ہیں
تسبیح حق میں آپ کو تہلیل کرتی ہیں
(٧)
بیہوش ہے فضائلِ زہرا میں عقل و ہوش
خود بے لباس اور خلائق کی پردہ پوش
عسرت سے بے حواس مگر یادِ حق کا ہوش
فاقہ سے چہرہ خشک پہ دردِ دلی کا جوش
زیور نہ ہے گلے میں نہ پہنا ہے ہاتھ میں
تسبیحِ خاکِ حمزہ کا کنٹھا ہے ہاتھ میں
(٨)
باغِ فدک جو غصب ستمگار نے کیا
سب کو مطیع فاطمہ غفار نے کیا
حاکم ہر ایک درد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔نے کیا
زہرا نے جو کہا وہی آزار نے کیا
صادق سے اس بیان کی صحت حصول ہے
روشن دعائے نور سے شانِ بتول ہے
(٩)
شرم و حیا وہ ہے کہ حیا شرمسار ہے
ششدر ہیں سب کہ پانچ جگہ اک مزار ہے
پر وہ جو تھا حیات میں سب آشکار ہے
شہرت سے ان کے معجزوں کی ننگ و عار ہے
رہتی نہ پردے میں جو کرامت بتول کی
حاجت نہ ہوتی خلق خدا کو رسولۖ کی
(١٠)
رُخ یادگار قدرت پروردگار ہے
دل راز دار خلوت پروردگار ہے
سرجاں نثار رحمت پروردگار ہے
تن خاکسار رفعت پروردگار ہے
تسبیح سے عیاں شرف فاطمہ ہوا
ذکر خدا کا فاطمہ پر خاتمہ ہوا
(١١)
باغوں میں خلد نہروں میں کوثر ہے انتخاب
قبلوں میں کعبہ مصحفوں میں آخری کتاب
تاروں میں ماہتاب مبیں پھولوں میں گلاب
سب عورتوں میں فاطمہ مردوں میں بوتراب
شاہِ زنانِ وقت مسیحا کی ماں ہوئی
زہرا ہر ایک عصر میں شاہِ زناں ہوئی
(١٢)
اُلفت خدا کے بعد حبیبِ خدا کی ہے
منصف کے آگے یہ بھی ولا کبریا کی ہے
پروا نہ فاقے کی نہ شکایت جفا کی ہے
ایذا فقط جدائی خیر الورا کی ہے
آب و غذا کی فکر نہ سونے کا دھیان ہے
آنکھوں میں شکل باپ کی رونے کا دھیان ہے
(١٣)
کچھ نوش کر لیا جو کسی نے کھلا دیا
لیکن عزا میں کچھ نہ غذا نے مزا دیا
غش میں کسی نے منہ میں جو پانی چوا دیا
قطرہ پیا اور آنکھوں سے دریا بہا دیا
نسبت ہے کس سے فاطمہ کے شورشین کی
زہرا کے بعد روئی ہے زینب حسین کی
(١٤)
سن کم قلق زیادہ قلق سے فغاں سوا
سینہ سے دل تو دل سے جگر ناتواں سوا
رونے سے ہر گھڑی کے ہوئیں نیم جاں سوا
تپ وہ کہ نبضوں سے طپش استخواں سوا
جب فاطمہ نے ہائے پدر کہہ کے آہ کی
واں ہل گئی ضریح رسالت پناہ کی
(١٥)
اے مومنو! زبانی فضہ سے یہ بیاں
گھر سے ہوا جنازہ پیمبر کا جب رواں
بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی مخدومہ جہاں
اک ہفتہ رات و دن رہیں حجرے کے درمیاں
دیکھا جو ہی جناب کی تو آنکھ بند ہے
آواز آہ آہ کی دل سے بلند ہے
(١٦)
بیٹے پکارتے ہیں کہ للہ باہر آئو
اماں نہ اتنا رئوو غلاموں پہ رحم کھائو
نانا کہاں گئے ہیں بلا لائیں ہم بتائو
ہم کرتے پھاڑتے ہیں نہیں تو گلے لگائو
نانا کے بعد ہائے یہ بے قدر ہم ہوئے
سب اک طرف حضور کے بھی پیار کم ہوئے
(١٧)
ہمسائیاں یہ کہتی ہیں اے عاشق پدر
دیدارِ مصطفیۖ تو ہے موقوف حشر پر
ان کے عوض تو اپنی زیارت سے شاد کر
حجرے میں بیٹھتی ہے یہ کہہ کر وہ نوحہ گر
اب میں ہوں اور ہر ایک حقارت سے صاحبو
بابا موئے تو خاک زیارت سے صاحبو
(١٨)
القصہ بعد ہفتہ کے دن آٹھواں ہوا
اور نیل پوش ظلمت شب سے جہاں ہوا
یاں مہر برج حجرۂ ماتم عیاں ہوا
پر اس طرح کہ مردہ کا سب کو گماں ہوا
یہ شکل ہوگئی تھی عزا میں رسولۖ کی
پہچانی بیٹیوں نے نہ صورت بتول کی
(١٩)
وہ وقت شام اور وہ اندھیرا ادھر ادھر
ششدر ہر ایک رہ گیا منہ دیکھ دیکھ کر
زینب نے آکے حجر ے میں ڈھونڈا بچشم تر
چلائی ہائے لوگو نکل جائوں میں کدھر
ماں میری کیا ہوئیں میں قلق سے ملول ہوں
مڑ کر پکاری آپ میں ہی بتول ہوں
(٢٠)
فضہ بیان کرتی ہے اس وقت کا یہ حال
دبلا پے سے ہوا تھا بدن صورت ہلال
ماتم کے نیل چھاتی پہ رونے سے آنکھیں لال
منہ زرد ہونٹ خشک پریشان سر کے بال
روتی چلیں مزارِ رسولۖ انام کو
جس طرح شمع گورِ غریباں پہ شام کو
(٢١)
اندھیرا فاطمہ کے نکلنے سے ہوگیا
طوفانِ نوح اشکوں کے ڈھلنے سے ہوگیا
برہم زمانہ ہاتھوں کے ملنے سے ہوگیا
عاجز فلک بھی راہ کے چلنے سے ہوگیا
حوا کفن سے قبر میں منہ ڈھانپنے لگی
آدم لحد میں تڑپے زمیں کانپنے لگی
(٢٢)
جز اشک دونوں آنکھوں میں ہر شے تھی خارخار
گر کر ردا الجھتی تھی پائوں سے بار بار
اور ماتمی قبا کا گریباں تھا تار تار
دل تھا ضعیف و زار پہ روتی تھی زار زار
جب آہ کی تو چار طرف بجلیاں گریں
تھرا کے یاں گریں کبھی غش کھا کے واں گریں
(٢٣)
قدسی تھے فرش عرش معلی کے آس پاس
تسبیح کی خبرتھی نہ تہلیل کے حواس
دوزخ جدا خروش میں مالک جدا اداس
غلمان و حور و جن و پری پرہجوم یاس
غل تھا کہ سب کے دل کو ہلاتی ہے فاطمہ
ہے ہے نبیۖ کی قبر پہ آتی ہے فاطمہ
(٢٤)
رشتے کے لوگ فضہ نے بڑھ کر ہٹا دئیے
ہمسائیوں نے غرفوں کے پردے گرا دئیے
مردوں کے منہ پہ دوڑ کے دامن اڑھا دئیے
سب نے چراغ اپنے گھروں کے بجھا دئیے
کہتی تھی فضہ ان کے پدر کا یہ شہر ہے
نامحرموں نے بی بی کو دیکھا تو قہر ہے
(٢٥)
یثرب میں وقت یہ زہرا کا تھا ادب
دن کو پھرایا بلوے میں زینب کو ہے غضب
القصہ آئی قبر پہ وہ کشتۂ تعب
پر کس گھڑی کہ ہلتی تھی قبرِ رسولۖ رب
تربت کے گرد پھرنے سے طاقت تو گھٹ گئی
لے کر بلائیں قبر سے زہرا لپٹ گئی
(٢٦)
چلائی آہ وا ابتا وا محمدا
نورِ الہ وا ابتا وا محمداۖ
شاہوں کے شاہ وا ابتا وا محمداۖ
واللہ آہ وا ابتا وا محمداۖ
بابا بتول آئی ہے تسلیم کے لئے
اٹھتے نہیں مزار سے تعظیم کے لئے
(٢٧)
گزرے ہیں آٹھ دن کہ زیارت نہیں ہوئی
اس بے نصیب سے کوئی خدمت نہیں ہوئی
منبر ہے سونا وعظ و نصیحت نہیں ہوئی
مسجد میں بھی نماز جماعت نہیں ہوئی
حضرت کے منہ سے وحی خدا بھی نہیں سنی
جبرئیل کے پروں کی صدا بھی نہیں سنی
(٢٨)
حجرہ وہی ہے گھر وہی ہے ایک تم نہیں
تارے وہی قمر ہے وہی ایک تم نہیں
شب ہے وہی سحر ہے وہی ایک تم نہیں
ہے ہے یہ بے پدر ہے وہی ایک تم نہیں
دیتے ہیں سب دعا کہ ٹھہر جائے فاطمہ
اور فاطمہ یہ کہتی ہے مر جائے فاطمہ
(٢٩)
تسلیم مری اے پدر نامدار لو
یہ بال بکھرے ہاتھوں سے اپنے سنوار لو
راضی ہوں میں نہ گود میں بھی زینہار لو
مشتاق ہوں کہ فاطمہ کہہ کر پکار لو
پوچھو یہ تم مزاج تمہارا بخیر ہے
لونڈی کہے کہ حال جدائی سے غیر ہے
(٣٠)
کس دل کو غم میں آپ کے آہ و فغاں نہیں
وہ کون گھر ہے بین کا جس میں بیان نہیں
آنسو وہ کون ہے کہ جو سیل رواں نہیں
امت پہ تم سا کوئی نبی مہرباں نہیں
خالق کے بعد بندوں کے جو کچھ تھے آپ تھے
رانڈوں کے شوہر اور یتیموں کے باپ تھے
(٣١)
خواہاں ہر ایک دم رہے امت کے چین کے
کی مہر تم نے قتل پہ میرے حسین کے
احساں تھے شیعوں پر نبی ٔ مشرقین کے
نعرے بلند کرتے ہیں سب شوروشین کے
اولاد کا بدل ہے پدر کا بدل نہیں
یہ درد وہ ہے جس کی دوا جز اجل نہیں
(٣٢)
آساں پسر کا داغ ہے مشکل پدر کا داغ
وہ کچھ دنوں کا داغ ہے یہ عمر بھر کا داغ
یہ تن بدن کا داغ ہے وہ اک جگر کا داغ
پیدا ہوا پسر تو مٹا اس پسر کا داغ
بے حشر کے تمہاری زیارت نہ ہوئے گی
ہوگی وہ کون آنکھ کہ جواب نہ روئے گی
(٣٣)
اور باپ بھی وہ باپ کہ سرتاجِ انبیا
نورِ خدا جلال خدا رحمت خدا
روزِ ازل سے تابہ ابد کل کا پیشوا
بیٹی کے صدقے بیٹی کے بچوں پہ بھی فدا
کیونکر نہ اپنی موت مجھے اب قبول ہو
دنیا میں ایسا باپ نہ ہو اور بتول ہو
(٣٤)
کیا سو رہے ہو قبر میں تنہا جواب دو
چلا رہی ہے آپ کی زہرا جواب دو
مولا جواب دو مرے آقا جواب دو
دل مانتا نہیں کہ کروں کیا جواب دو
بولو میں صدقہ جائوں بہت دل ملول ہوں
آخر بتول ہوں میں تمہاری بتول ہوں
(٣٥)
پھرتے تھے جب سفر سے مرے پاس آتے تھے
لونڈی کے بے ملے نہ کسی حج کو جاتے تھے
فاقہ مرا جو سنتے تھے کیا کیا کھلاتے تھے
جو جو میں ناز کرتی تھی حضرت اٹھاتے تھے
کیسی حقیر بعد رسول کریم ہوں
در یتیم آگے تھی اب میں یتیم ہوں
(٣٦)
بابا اذاں بلال کے منہ کی مجھے سنائو
بابا نمازی آتے ہیں مسجد میں تم بھی جائو
بابا وصی کو اپنی بلا کر گلے لگائو
بابا نواسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں منہ دکھائو
اک اک گھڑی پہاڑ ہے مجھ دل ملول کو
بابا کہو بلائو گے کس دن بتول کو
(٣٧)
پھرتی ہے یاں سکینہ کی غربت نگاہ میں
زہرا نبیۖ کی قبر پہ ہے اشک و آہ میں
آئے جو اونٹ بیوئوں کے مقتل کی راہ میں
بیساختہ سکینہ گری قتل گاہ میں
بیداد اہلِ ظلم نے کی شوروشین پر
رونے دیا نہ بیٹی کو لاشِ حسین پر
(٣٨)
القصہ فاطمہ ہوئیںبے ہوش قبر پر
زینب کے پاس روتی گئی فضہ ننگے سر
زینب نے پوچھا خیر تو ہے بولی پیٹ کر
جامہ نبیۖ کا دو کہ سنگھائوں میں نوحہ گر
ہمسائیاں بھی گرد ہراساں کھڑی ہوئیں
بی بی کی اماں جان ہیں غش میں پڑی ہوئی
(٣٩)
نانا کا خاص جامہ نواسی نے لا دیا
فضہ نے جا کے بی بی کو غش میں سنگھا دیا
خوشبو نے اس کی وصل نبیۖ کا مزا دیا
جامہ پہ بوسہ فاطمہ نے جا بجا دیا
پڑھ کر درود بات سنائی وہ یاس کی
جو بیبیاں تڑپنے لگیں آس پاس کی
(٤٠)
وہ یہ سخن ہے آہ پکاری وہ بے پدر
یعقوب نے جو سونگھا تھا پیراہن پسر
یوسف کے دیکھنے کی توقع تھی کس قدر
میری امید قطع ہے بابا سے عمر بھر
پوچھوں کہاں تلاش کروں کس دیار میں
یوسف تو میرا سوتا ہے لوگو مزار میں
(٤١)
یہ کہہ کے پیٹنے لگی خاتون نیک ذات
گھر میں زنانِ ہاشمیہ لائیں ہاتھوں ہاتھ
کافر بھی رحم کھائے جو دیکھے یہ واردات
امت کا اب سلوک سنو فاطمہ کے ساتھ
نظروں سے نور چشم نبیۖ کو گرا دیا
دروازۂ علی ولی کو گرا دیا
(٤٢)
آگے نہ سن سکیں گے غلامانِ فاطمہ
در کے تلے بلند ہے افغان فاطمہ
کیا وقت بیکسی ہے میں قربانِ فاطمہ
رکتی ہے سانس ہونٹوں پہ ہے جان فاطمہ
محسن جدا تڑپتا ہے پہلو میں دل جدا
ماں مضمحل جدا ہے پسر مضمحل جدا
(٤٣)
سہمے ہوئے حسین و حسن پاس آتے تھے
دروازہ ننھے ہاتھوں سے مل کر اٹھاتے تھے
گھبرائیو نہ والدہ یہ کہتے جاتے تھے
اٹھتا نہیںتھا در تو علی کو بلاتے تھے
زہرا پکارتی ہے وصی رسول کو
اے ابنِ عم کہاں ہو بچائو بتول کو
(٤٤)
سن کر یہ استغاثۂ خاتون دوسرا
یوں دوڑے مرتضیٰ کہ گری دوش سے عبا
دروازہ کو اٹھایا تو اے وامصیبتا
پہلو ملا شگافتہ محسن ہوا ہوا
دریا لہو کے دیدۂ حق بیں سے بہہ گئے
اللہ سے صبر شکر خدا کہہ کے رہ گئے
(٤٥)
اس پر بھی ظالموں نے نہ خوف خدا کیا
سامان قتل نائب خیر النسا کیا
انبوہ گرد حضرت مشکل کشا کیا
اچھا علاج پہلوئے خیر الورا کیا
گھر سے کنندہ در خیبر کو لے چلے
چادر گلے میں ڈال کے حیدر کو لے چلے
(٤٦)
بولا فلک میں بندۂ احساں ہوں یا علی
قدرت پکاری تابع فرماں ہو یا علی
کی عرض موت نے میں نگہباں ہوں یا علی
دل نے کہا میں صبر کا خواہاں ہوں یا علی
بے جا نہیں گلے میں گرہ آسماں کی ہے
ہشیار یا علی یہ گھڑی امتحاں کی ہے
(٤٧)
کیا کیا گلا رسن میں گھٹا دم خفا ہوا
پر شکر حق میں بند نہ مشکل کشا ہوا
غل تھا خدا کا شیرا اسیر جفا ہوا
خیر الامم کے مرتے ہی ہے ہے یہ کیا ہوا
رسی گلے میں ہے ستم تازہ دیکھنا
ایمان کی کتاب کا شیرازہ دیکھنا
(٤٨)
پہنچا جو بزم کفر میں وہ دیں کا کبریا
دیکھا نبیۖ کی قبر کو اور آہ یہ پڑھا
موسی کے آگے ورد جو ہارون نے کیا
نکلالرز کے پنجۂ خورشید برملا
اعجاز سے رسولۖ کے روشن جہاں ہوا
یعنی لحد سے دستِ مبارک عیاں ہوا
(٤٩)
آئی ندا ارے یہ ہمارا وزیر ہے
حیدر نہیں اسیر پیمبر اسیر ہے
تم سب غلام ہو یہ تمہارا امیر ہے
کیا قہر ہے کہ دست خدا دستگیر ہے
شر کرتے ہو برادر خیر الورا سے تم
کیوں بت پرستو! پھر گئے آخر خدا سے تم
(٥٠)
ہم نے غدیر خم میں کیا تھا وصی کسے
کہتی ہے خلق صاحب نادِ علی کسے
مشکل کے وقت ڈھونڈتے ہیں سب نبی کسے
قدرت ہے یہ سوائے علی ولی کسے
اول پدر سے خوش دل آدم کو کر دیا
پھر غم سے تم کو تم سے جدا غم کو کر دیا
(٥١)
کعبہ میں کس نے پہلے اذاں دی ہے برمحل
سویا ہے کون فرش پہ میرے مرے بدل
کس بندہ کا خدا کے لئے ہے ہر اک عمل
کس کی عطا کا عقدہ ہو اہل اتیٰ سے حل
توریت میں خدا نے ابو شنتیا کہا
انجیل میں جو نام دیا انبیا کہا
(٥٢)
تصریح قل کفیٰ کی ہے کیا مرتضی علی
تشریح انما کی ہے کیا مرتضیٰ علی
تفسیر لافتا کی ہے کیا مرتضیٰ علی
تاثیر ہر دعا کی ہے کیا مرتضیٰ علی
گنجینۂ علومِ خدا داد کون ہے
جبرئیل سے فرشتہ کا استاد کون ہے
(٥٣)
سب سن رہے تھے یہ کہ ہوا حشر جا بجا
دیکھا زنان ہاشمیہ ہیں برہنہ پا
اور ام سلمہ زوجۂ پیغمبر خداۖ
پہلو سنبھالے فاطمہ کا وامصیبتا
زہرا خموش آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے
جامہ رسولۖ پاک کا سر پر دھرے ہوئے
(٥٤)
پہنچی قریب حاکم ظالم جو وہ جناب
لہجے میں مصطفی کے کیا اس سے یوں خطاب
آہوش میں کہ صابروں کو اب نہیں ہے، تاب
ہاں بال کھولتی ہوں الٹتی ہوں میں نقاب
دنیا تباہ ہوگی مرا گھر تو لٹ گیا
بس بس گلا بہت مرے والی کا گھٹ گیا
(٥٥)
کانپی یہ سن کے مسجد پیغمبر خدا
دیواریں سب زمیں سے یکایک ہوئیں جدا
تعظم آہ فاطمہ اٹھ اٹھ کے کی ادا
کھولا مخالفوں نے گلوئے شہ ہدا
گھر کو روانہ سیدۂ فاقہ کش ہوئیں
آتے ہی گر پڑیں صف ماتم پہ غش ہوئیں
(٥٦)
قرآن لے کے بیٹیاں دوڑیں برہنہ سر
منہ پر ورق ورق کی ہوا دی بچشم تر
تب چشم نیم وا سے یہ بولی وہ بے پدر
اے بیٹیو نہ انس کرو مجھ سے اس قدر
رویت تھی جس پدر سے وہ سر پر رہا نہیں
دیکھو میں گھر میں رہنے بھی پاتی ہوں یا نہیں
(٥٧)
کیا کیا کہوں میں دختر خیر الامم کا درد
پہلو کا درد ہاتھ کا درد اور شکم کا درد
بچوں کی بے کسی کا علی کے الم کا درد
ہر اک غضب کا حادثہ ہر اک کا ستم کا درد
وہ ماتم اور آہ وہ عسرت بتول کی
محسن کا چہلم اور سہ ماہی رسولۖ کی
(٥٨)
منہ سے پدر کا نام لیا اور رو دیا
قرآن پڑھ کے ہدیہ کیا اور رو دیا
فرش نبی کی دیکھی ضیا اور رو دیا
تکیوں کو سونگھا بوسہ دیا اور رو دیا
صرفہ نہ آہ میں نہ بکا میںبین میں
بے غش ہوئے افاقہ نہ تھا شوروشین میں
(٥٩)
آخر وفور گریہ سے عاجز ہوئے عرب
حیدر کے پاس رونے کی فریاد لائے سب
کی عرض فاطمہ سے کہو اے ولی رب
یا سیدہ تمہاری رعیت ہے جان بلب
کھانے کا کوئی وقت نہ سونے کا وقت ہے
جو وقت ہے وہ آپ کے رونے کا وقت ہے
(٦٠)
ماں باپ نے ہمارے بھی دنیا سے کی قضا
ہم تو نہ ایسا روئے نہ پیٹے نہ کی عزا
فرمایا مرتضیٰ نے کہ بتلائو تو بھلا
تم میں سے کس کا باپ ہوا ہے رسولۖ سا
الزام کوئی دے نہیں سکتا بتول کو
سمجھاتا ہوں میں خیر یتیم رسولۖ کو
(٦١)
باہر سے مرتضیٰ گئے گھر میں جھکائے سر
منہ ڈھانپے رو رہی تھی اکیلی وہ خوش سیر
دینے لگے پیام عرب شاہ بحرو بر
گھبرا کے بولی ہائے کروں کیا میں نوحہ گر
قابو میں موت ہووے تو مر جائوں یا علی
بابا کا سوگ لے کے کدھر جائوں یا علی
(٦٢)
میری طرف سے اہل مدینہ کو دو پیام
لوگو خفا نہ ہو مری رخصت ہے صبح شام
دو چار دن تمہارے محلہ میں ہے مقام
رونے کی دھوم ہوچکی اب کام ہے تمام
دل جس کا مردہ ہو اسے جینے سے کام کیا
بابا سدھارے مجھ کو مدینہ سے کام کیا
(٦٣)
رونے میں اختیار نہیں بے پدر ہوں
لوگو مجھے نہ ٹوکو کہ خستہ جگر ہوں میں
امیدوار موت کی آٹھوں پہر ہوں میں
گرشام کو بچی تو چراغ سحر ہوں میں
ماتم ہے غیر کا کہ تمہارے رسولۖ کا
پر تم کو ناگوار ہے رونا بتول کا
(٦٤)
سب کے نبیۖ کا سوگ ہے کل کے نبیۖ کا غم
یہ بھی نصیب اپنا کہ الزام پائیں ہم
یہ کیا سمجھ کے منہ سے نکالا کہ روئو کم
بے رونقی رسولۖ کے ماتم کی ہے ستم
بے جا تمہاری یہ خَفَگی ہے میں روئونگی
کچھ ہو مرے تو جی کو لگی ہے میں رونگی
(٦٥)
حیدر کا اس بیان سے ٹکڑے ہوا جگر
بیت الحزن بنایا بقیعہ میں جلد تر
لکھا ہے ہاتھ تھام کے بیٹوں کا ہر سحر
واں جا کے رویا کرتی تھی دن بھر وہ بے پدر
ہنگام شام حیدر کرار جاتے تھے
روح نبیۖ کی دے کے قسم ان کو لاتے تھے
(٦٦)
اک دن نگاہ کرتے ہیں کیا شاہ لافتا
مطبخ ہے گرم آرد جو ہے گندھا ہوا
نہلا رہی تھیں بچوں کے مل مل کے دست و پا
پھیلا دئیے تھے کرتے بھی دھو کر جدا جدا
پوچھا کہ اتنے کاموں کا جو شغل آج ہے
اس وقت کچھ بحال تمہارا مزاج ہے
(٦٧)
بولی کہ آج رات کو ہو جائوں گی بحال
کل میرے کاروبار میں خود ہوگے تم نڈھال
خدمت کا میرے بچوں کی ہوگا کسے خیال
نہلا دھلا دیا کہ پریشاں کریں گے بال
کرتے بھی دھوئے قوت بھی کل تک کا دے چلی
سہرا نہ باندھا ایک یہ ارمان لے چلی
(٦٨)
پوچھا علی نے تم کو یہ کیونکر ہوا یقیں
صدیقہ نے کہا شدنی ہے یہ شک نہیں
پچھلے کو روتے روتے جو سوئی میں دلحزیں
دیکھا کہ ایک باغ میںہے شاہ مرسلیں
محسن کو میرے اپنے گلے سے لگاتے ہیں
بہلاتے تھے نہ رو تری ماں کو بلاتے ہیں
(٦٩)
مجرے کو میں جھکی تو کہا ہو کے بیقرار
زہرا کہاں تھی تو، ترا بابا ترے نثار
آجلد ڈھونڈتا ہے یہ معصوم بار بار
یاں تو رہے گی چین سے میرا ہے اختیار
یاں غاصب فدک نہ کبھی آنے پائے گا
یاں تازیانہ تجھ کو نہ کوئی لگائے گا
(٧٠)
یہ سن کے ننگے پائوں میں اس باغ سے پھری
بس دیکھنا تھا آپ کا دیدار آخری
سہواً اگر ہوئی ہو کچھ آزردہ خاطری
بخشو مجھے کہ موت ہے، نزدیک اب مری
رو کر کہا علی نے ہمیں عذر خواہ ہیں
واللہ بے قصور ہو تم سب گواہ ہیں
(٧١)
معصوم سے بھی ہوتی ہے بی بی خطا کبھی
عسرت کا تم زباں پہ نہ لائیں گلا کبھی
اچھا لباس مانگا نہ اچھی غذا کبھی
بیمار جب پڑیں نہ طلب کی دوا کبھی
کیا خوب تم نے مجھ سے نباہی ہے فاطمہ
کیونکر نہ ہو تو نورالٰہی ہے فاطمہ
(٧٢)
دنیا کے مال و جاہ پہ تم نے نظر کی
فرمائش ایک دن اسد اللہ پر نہ کی
یوں صبر سے جہاں میں کسی نے بسر نہ کی
فاقہ کشی پہ اپنے پدر کو خبر نہ کی
پہلو یہ در گرا میں حمایت نہ کر سکا
شرمندہ ہوں کہ حق کی رعایت نہ کر سکا
(٧٣)
وہ بولی یہ کنیز نوازی ہے سر بسر
فرمائیے وصیت اولیٰ پہ اب نظر
ہر بے پدر کے بعد بنے آپ تھے پدر
سبطین تو حضور کے ہیں پارۂ جگر
گر چاہتے ہو قبر میں زہرا کے چین کو
دنیا نہ رنج میرے حسن اور حسین کو
(٧٤)
کل ایک رات اور ہیں ماں والے میرے لال
بے مادری کی صبح ہے کل اور یہ خرد سال
اب میری طرح آپ کو انکار ہے خیال
اوجھل نہ ہونے پائیں نظر سے یہ نونہال
حاسد کی چشم بد سے بچائے خدا انھیں
سرمہ کی طرح آنکھوں میں رکھیو سدا انھیں
(٧٥)
مغرب تلک بس اور ہے ماں ان کے سر پر اب
کل صبح یہ گھریں گے یتیمی میں ہے غضب
پروانہ رہیو میرے چراغوں پہ روز و شب
بن ماں کا جان کے گوئی گھڑکے نہ بے سبب
یہ دونوں ہیں سپرد جناب امیر کے
جوشن ہیں میرے آپ صغیر و کبیر کے
(٧٦)
واری یتیم بچوں کا ہوتا ہے دل حباب
چلا کے ان کی بات کا دینا نہ تم جواب
بہنوں کو ان کی ان سے سوا ہوگا اضطراب
ان کے لیجو ہاتھ میں بے حد و بے حساب
زینب سے ہوشیار کہ نازوں کی پالی ہے
اور دوسرے حسین کی یہ رونے والی ہے
(٧٧)
عرض دوم یہ ہے مجھے شب کو اٹھائیو
اور قبر کا نشاں نہ کسی جا بنائیو
تربت میں خود اتاریو اور خود لٹائیو
پھر کانپ کر کہا کہ الٰہی بچائیو
آنکھوں کے آگے قبر کی تنہائی پھر گئی
موتی کی اک لڑی تھی کہ آنکھوں سے گر گئی
(٧٨)
بولی کہ یا علی یہ قیامت کا وقت ہے
مرنے سے سخت قبر کی وحشت کا وقت ہے
میت پہ بعد دفن یہ آفت کا وقت ہے
اس وقت وارثوں کی محبت کا وقت ہے
ہمدم نہیں رفیق نہیں مہرباں نہیں
یہ وہ جگہ ہے کوئی کسی کا جہاں نہیں
(٧٩)
وہ اجنبی مکاں وہ اندھیرا ادھر ادھر
پہلے پہل وہ بستی سے ویرانے کا سفر
نہ شمع روشنی کے لئے نہ شگاف در
ہمسایہ وہ کہ دوسرے سے ایک بے خبر
کس کو کوئی پکارے کہاں جائے کیا کرے
آسان سب پہ قبر کی مشکل خدا کرے
(٨٠)
اکثر تمہاری شان میں فرماتے ہیں پدر
تربت میں اپنے شیعوں کی لیتے ہیں یہ خبر
امیدوار میں بھی ہوں یا شاہِ بحروبر
قرآن پڑھیو قبر کے پہلو میں بیٹھ کر
اس وقت مردے بے کس و بے یار ہوتے ہیں
زندوں سے انس کے یہ طلبگار ہوتے ہیں
(٨١)
آئی ندا رسولۖ کی بی بی میں آئوں گا
ہوتے ہی دفن تجھ کو گلے سے لگائوں گا
آغوش میں لئے ہوئے جنت میں جائوں گا
فاقہ کے بدلے میوۂ جنت کھلائوں گا
محبوبۂ خدا و نبیۖ تیرا نام ہے
مدفن ترے محبوں کا دارالسلام ہے

(٨٢)
ناگاہ مہر نے کیا دنیا سے انتقال
مسجد میں مرتضیٰ گئے محزون و خستہ حال
حجرے میں باپ کے گئی خاتون خوش خصال
اسما سے بولی مظہر اسمائے ذوالجلال
کافور جلد فاطمہ زہرا کے پاس لا
پانی ہمارے غسل کو لا اور لباس لا
(٨٣)
حجرے میں غسل کر کے پڑھی آخری نماز
سجدے میں سر جھکا کے کہے اپنے دل کے راز
آواز ارجعی سے کیا حق نے سرفراز
زہرا نے اپنے پائوں کئے قبلہ کو دراز
حوروں نے پھر بہشت میں برپا یہ غل کیا
پیٹو قضا نے شمع پیمبر ۖ کو گل کیا
(٨٤)
یاں سب کھڑے تھے حجرے کے نزدیک بیقرار
کلمہ کے بعد جب نہ صدا آئی زینہار
حجرے میں پیٹتے ہوئے دوڑے سب ایک بار
چلائی ام سلمیٰ لٹی میں جگر فگار
کیں سوگوار آہ رنڈاپے میں کر گئیں
بی بی مجھے تباہ رنڈاپے میںل کر گئیں
(٨٥)
پھر تو ہر ایک کوچہ میں محشر بپا ہوا
اپنے پرائے دوڑے کہ ہے ہے یہ کیا ہوا
فضہ پکاری سیدہ کا واقعہ ہوا
حجرہ بتول پاک کا ماتم سرا ہوا
چھاتی قلق سے دیکھنے والوں کی پھٹ گئی
منہ رکھ کے منہ پہ مردے کے زینب لپٹ گئی
(٨٦)
لے کر بلائیں کہتی تھی بیٹی نثار ہو
اماں میں ہول کھاتی ہوں تم ہوشیار ہو
بھیا زمیں پہ لوٹتے ہیں ہمکنار ہو
تم آنکھ کھول دو تو سبھوں کو قرار ہو
ہے ہے یہ چپکے رہنے کی کیا بات ہوگئی
نانا کا فاتحہ نہ دیا رات ہوگئی

(٨٧)
اٹھیے چراغ قبر نبیۖ پر جلائیے
بیت الحزن میں پیٹنے رونے کو جائیے
پہلو کا درد کیسا ہے یہ تو بتائیے
دیکھوں میں نبض ہاتھ تو اپنا بڑھائیے
کیوں آپ کھولتی نہیں چشم پر آب کو
کیا غش میں دیکھتی ہو رسالتمآبۖ کو
(٨٨)
عورات ہاشمیہ بھی ہیں سب یہ بیقرار
پائین کو زنان قریشی کی ہے قطار
اور پہلوئوں میں آپ کا کنبہ ہے اشکبار
سب پوچھتی ہیں آپ کو زینب سے بار بار
اماں کہو کہاں کا پتہ دوں کدھر گئیں
یہ تو نہیں زباں سے نکلتا کہ مر گئیں
(٨٩)
میں دودھ بخشوانے نہ پائی کہ چل بسیں
شربت بنا کے لانے نہ پائی کہ چل بسیں
سجادے سے اٹھانے نہ پائی کہ چل بسیں
میں بے نصیب آنے نہ پائی کہ چل بسیں
کیا جلد تر زمانہ ہوا انتقال کا
ہے ہے ابھی تو سن ہے کل اٹھارہ سال کا
(٩٠)
اے میری فاقہ کش مری نادار اماں جان
اے میری بے دوا مری بیمار اماں جان
کنبہ کی آبرو مری سردار اماں جان
اے میری صابرہ مری ناچار اماں جان
نانا موئے تو ہوں کوئی تازہ خطاب دو
اماں جواب دو مری اماں جواب دو
(٩١)
ہمسائے عذر کے لئے ڈیوڑھی پر ہیں بہم
کہتے ہیں آپ روئیں مزاحم نہ ہوں گے ہم
خاطر ہو ان کی جمع ندامت ہو ان کی کم
منہ ڈھانپ کر جو بین کریں آپ ایک دم
اتنا تو ان سے کہہ کے یہ احسان کیجو
زینب جو مجھ کو روئے اسے رونے دیجیو
(٩٢)
ناگاہ آئے روتے ہوئے شاہ اوصیا
غسل و حنوطِ فاطمہ خود حجرے میں کیا
استبرق بہشت بریں کا کفن دیا
تابوت میں لٹا کے گلے سے لگالیا
بولے کفن میں کھول کے رخسار فاطمہ
مشتاقو! آئو دیکھ لو دیدار فاطمہ
(٩٣)
پھرنے لگیں کنیزیں جنازے کے آس پاس
جھک کر بلائیں بی بیوں نے لیں بحال یاس
اب کیا کہوں کہ شدت غم سے ہے دل اداس
نزدیک ہے، وہ وقت کہ سب ہوئیں بے حواس
گھر میں علی لحد میں نبیۖ تھرتھراتے ہیں
بن ماں کے بیٹے ماں کے جنازے پہ آتے ہیں
(٩٤)
ننھے سے سر کھلے تھے نہ سر پر تھیں ٹوپیاں
کہتے تھے کچھ تو منہ سے نکلتا تھا ہائے ماں
لکھا ہے جب جنازے پہ پہنچے وہ نیم جاں
حسرت سے دیکھا مردے کا منہ اور یہ کی فغاں
اماں غلام آئے ہیں رخصت کے واسطے
جاتی ہو تم نبیۖ کی زیارت کے واسطے

(٩٥)
نانا جو پوچھیں خادموں کی خیر و عافیت
کہیو زمانہ خون کا پیاسا ہے بے جہت
بابا کے قتل کی ہے نمازوں میں مشورت
نانا ہمارے دل کو ہو اب کس کی تقویت
شفقت کا ہاتھ آپ نے سر سے اٹھا لیا
اک والدہ تھیں ان کو بھی تم نے بلالیا
(٩٦)
ہونے لگے وداع یہ کہہ کر وہ درد مند
عاشق نے بے ملے ہوئے رخصت نہ کی پسند
یوں کانپی فاطمہ کہ کھلے سب کفن کے بند
تھرا کے دونوں ہاتھ برابر ہوئے بلند
قبریں یتیموں کی اسی صدمہ میں ہل گئیں
بانہیں گلے میں ڈال کے پیاروں سے مل گئیں
(٩٧)
بانہیں گلے میں بیٹیوں کے زہرا نے ڈال دیں
اور سینے سے لپٹ گئے جھک کر وہ نازنیں
ہاتف نے دی علی کو ندا اے امیر دیں
روتے ہیں ہر فلک پہ ملک ہلتی ہے زمیں
تسکین عرشِ اعظمِ رب ہدا کرو
بیٹوں کو ماں کی لاش سے جلدی جدا کرو
(٩٨)
منہ چوم کر یتیموں کا بولے یہ مرتضیٰ
لو روتے ہیں ملائکہ اب ماں سے ہو جدا
فضہ پکاری بی بی کے اعجاز پر فدا
بس عاشق حسین و حسن پیار ہو چکا
بانہیں نکالو دفن میں اب دیر ہوتی ہے
آئی ندا کہ روح نہیں سیر ہوتی ہے
(٩٩)
ہونے لگے وداع یہ کہہ کر وہ نیک نام
ننھے سے سر جھکا کے کیا آخری سلام
پھر تو رہی نہ فاطمہ کو طاقتِ قیام
تھرائیں یوں کہ بند کفن کھل گئے تمام
عاشق کو بے ملے ہوئے کس طرح کل پڑے
فوراً کفن سے دست مبارک نکل پڑے
(١٠٠)
اب نذر دے یہ مرثیہ اور عرض کر دبیرؔ
یا سیدہ تمہیں قسم خالق قدیر
بہر رسولۖ پاک و پے حضرت امیر
تم پر فدا ہے والدۂ ذاکر حقیر
فرمائیے وہ لطف کہ وہ رستگار ہو
حلہ کفن ہو روضۂ رضواں مزار ہو

Add new comment