قرآن و حدیث میں نفاق شناسی

از نذرحافی

nazarhaffi@yahoo.com

 

مقدمہ

کسی بھی انقلابی تحریک کے لیے مشکل اور سخت ترین مرحلہ اس تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد اس تحریک کو باقی رکھنا ہوتا ہے ۔چونکہ جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے توابتدامیں ایک گروہ اس تحریک کی ڈٹ کر مخالفت کرتا ہے اور اس تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔اس کے باوجودجب وہ تحریک کامیاب ہونے لگتی ہے یا کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ مخالف گروہ اس انقلابی تحریک کا حصہ بن کر اس انقلابی تحریک کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہوجاتاہے ،قرآن نے اس گروہ کو منافقین کے گروہ سے تعبیر کیا ہے ۔

اسی طرح کا مسلہ اسلام کے ساتھ بھی پیش آیا،جب اسلام کی تحریک اٹھی تو کوئی منافق موجود نہیں تھا، جس نے جو کچھ بھی کہنا تھا وہ کھل کر کہتا ،واضح وآشکار الفاظ میں مخالفت کرتا لیکن جب مدینے میںاسلام پھیل گیا تواس کے سخت ترین دشمنوں نے یہ دیکھا کہ کھل کرمخالفت کرنے کاکوئی فائدہ نہیں،انھوں نے اسلام کی صفوں میں شامل ہو کر اسے نابود کرنے کی سعی شروع کردی ،تب قرآن مجیدنے بھی منافقین کی راہ و روش کو کھل کر بیان کرناشروع کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیامبر ۖ اور آئمہ کی سرپرستی کے باوجود اسلام کو جو نقصان منافقین سے پہنچا وہ کسی اور دشمن سے نہیں پہنچا۔یاد رہے کہ یہ مسلہ صرف پیامبر ۖ کے زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر دور کے انقلابی معاشرے کو اس طرح کے منافقین کاسامناکرناپڑتاہے۔ لہٰذا ہرانقلابی معاشرے( خصوصااسلامی انقلابی معاشرے) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بقا کے لئے منافقین کی نشانشیوں ،اہداف اور طریقہ واردات کو ا چھی طرح پہچانے تاکہ منافقین کو اپنی صفوں سے جدا کرکے ان کے اہداف کو ناکام بنا سکے۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ صدر اسلام کی طرح عصرِ حاضرمیں بھی منافقین کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ لہذاہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن و سنّت کی روشنی میں منافقین کو پہچانیں اور ان کی سازشوں سے عالمِ اسلام کو آگاہ کریں۔

 

لغت میں منافق

منافق ،مادہ نفق سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب نفوذ کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔" نفق" اس سرنگ کو کہتے ہیں جو زمین کے اندر بنائی جاتی ہے تاکہ اس سے مخفیانہ استفادہ کیاجائے۔

بعض مفسرین کے نزدیک بہت زیادہ حیوانات مثلاً جنگلی چوہا اور لومڑی اپنے رہائشی بِل میں دو سوراخ بناتے ہیں۔ عام طورپرآمدورفت کے لئے ان میں سے صرف ایک سوراخ کوہی استعمال کرتے ہیںلیکن جب انھیںکوئی خطرہ محسوس ہوتاہے تووہ فرارہونے کے لئے دوسرے سوراخ سے بھاگ جاتے ہیں۔ اس دوسرے مخفی سوراخ کو عربی میں نافقاء کہتے ہیں۔

 

اصطلاح میں منافق

منافق وہ ہے جوایک خاص اور مخفیانہ طریقے کا انتخاب کرے تاکہ چھپ کر معاشرے میں اپنا اثرورسوخ قائم کرے اور خطرے کے وقت چپکے سے بھاگ جائے۔

نبی اکرم ۖ کی ایک حدیث کی روشنی میںمنافق وہ ہے جس کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہو ۔(بحارالانوارج ٦٩ص٢٠٧)

اسی طرح ایک مقام پر امام علی فرماتے ہیں :کتنا برا ہے وہ انسان کہ جس کا ظاہرتو موافق ہو لیکن وہ باطنی طور پر منافق ہو۔

پس منافق یعنی مکاّر،دو چہرے والا، ظاہر میں دوست باطن میں دشمن۔یہاں پر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ جھوٹ اور نفاق میں کوئی فرق ہے یانہیں۔

 

جھوٹ اور نفاق میں فرق

جھوٹ میں انسان حقیقت کو چھپاتا ہے اور خلاف حقیقت اظہار کرتا ہے۔ اس کے برعکس نفاق میں،انسان باطل کوچھپاتاکر حقیقت کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ نفاق کا تعلّق عقیدہ سے ہے جبکہ جھوٹ کا عقیدہ سے کوئی تعلّق نہیں۔منافق ایسی گفتگو یا کام کرتا ہے جس پر اس کا کوئی ایمان نہیں ہوتا۔منافق جھوٹ سے بھی وقتی طور پر فائدہ اٹھاتاہے۔ جھوٹ اور نفاق کے باہمی تعلق کو اگرسادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ہم کہ سکتے ہیںکہ یہ دونوں کبھی کبھار جمع ہو جاتے ہیں اور کبھی جدا بھی،نفاق اور جھوٹ میں گہرا ربط ضرور پایا جاتا ہے لیکن یہ ہمیشہ جمع نہیں ہوتے۔

قرآن نے جہاں بھی نفاق اورمنافق کے بارے میں بات کی ہے وہاں منافقین کی دل کے ساتھ زبان کے دوہرے پن کو بھی بیان کیا ہے۔مثلاً:

منافق لوگ جان لیں کہ جو کچھ وہ زبان سے کہتے ہیں انکے دلوں میں نہیں ہے اور جو کچھ بھی وہ چھپاتے ہیں خدا اسے جانتا ہے (سورئہ آل عمران آیہ ١٦٧)

ایک جگہ قرآن نے منافقین کو جھوٹا قرار دیا ہے،ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ جب منافق تیرے پاس آتے ہیںتو کہتے ہیںہم گواہی دیتے ہیںکہ آپ خدا کے رسول ہیں۔ خدا جانتا ہے کہ وو جھوٹے ہیں۔(سورئہ منافقون۔آیہ۔١)

جھوٹ کے نفاق کے سا تھ تعلق کو سمجھنے کے بعد یہ بھی جاننا چاہیے کہ تقیہّ اور نفاق میں کیا فرق ہے چو نکہ تقیّہ اورنفاق دونوں میں انسان کے ظاہر اورباطن میں فرق کے ساتھ ساتھ، اس عقیدہ کا اظہار کیاجاتا ہے جس پر ان کا ایمان نہیں ہوتااور جس عقیدے کو چھپایا جاتا ہے اس پر ان کا ایمان ہوتا ہے۔اب یہاں یہ سوال ذہن میں آ سکتا ہے کہ تقیّہ بھی نفاق ہے؟

 

تقیّہ اور نفاق میں فرق

یاد رہے کہ تقیّہ میںانسان کفر کا اظہار کرتا ہے اور ایمان کو چھپاتاہے جبکہ نفاق میں انسان کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کا اظہار کرتا ہے ،اس جہت سے یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

قرآن ایک مومن جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اس کے تقیّہ کے بارے میں یوں فرماتا ہے۔

ایک مرد مومن جو آ ل فرعون میں سے تھااپنے ایمان کو چھپاتا تھااور کفر کا اظہارکرتا تھا( سورئہ غافر آیہ٢٨)

اس کے برعکس قرآن نے منافق کے بارے میں یوں فرمایا۔

لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا اورآخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ ایمان نہیں رکھتے ۔(سورئہ البقرہ ٨ تا ١١)

امام صادق تقیّہ کے بارے میں فرماتے ہیں۔التّقیّة جنّةالمومن ۔

تقیّہ مومن کی ڈھال ہے۔

 

منافقین کے بارے میں قرآن کی آیات

منافقین کے بارے میں قرآن مجیدسورہ بقرہ میں ارشاد فرماتاہے:

وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاﷲِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِینَ (٨) یُخَادِعُونَ اﷲَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ ِلاَّ َنفُسَہُمْ وَمَا یَشعُرون (٩) فِی قُلُوبِہِمْ مَرَض فَزَادَہُمْ اﷲُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَاب َلِیم بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (١٠) وَِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الَْرْضِ قَالُوا ِنَّمَا نَحْنُشْعُرُو مُصْلِحُونَ (١١) َلاَِنَّہُمْ ہُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ

 

(١٢) وَِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا َنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَائُ َلاَِنَّہُمْ ہُمْ السُّفَہَائُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ (١٣) وَِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَِذَا خَلَوْا ِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا ِنَّا مَعَکُمْ ِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ (١٤) اﷲُ یَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (١٥) ُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ (١٦)مَثَلُہُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا َضَائَتْ مَا حَوْلَہُ ذَہَبَ اﷲُ بِنُورِہِمْ وَتَرَکَہُمْ فِی ظُلُمَاتٍ لاَیُبْصِرُونَ (١٧)

(8)کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں ۔

(9)یہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ اپنے ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھتے بھی نہیں ہیں

(10) ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے۔اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں انہیں درد ناک عذاب ملے گا

(11) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں

(12) حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فسادکو سمجھتے بھی نہیں ہیں

(13)جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آ تو کہتے ہیں کہ ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں حالانکہ اصل میں یہی بے وقوف ہیں اور انہیں اس کی واقفیت بھی نہیں ہے

(14)جب یہ صاحبانِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہاری ہی پارٹی میں ہیں ہم تو صرف صاحبانِ ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں

(15) حالانکہ خدا خود ان کو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیںسرکشی میں ڈھیل دیئے ہوئے ہے جو انہیں نظر بھی نہیں آرہی ہے

(16) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو دے کرگمراہی خرید لی ہے جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے

(17)ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے (جو بیابان کی تاریکی میں راستہ ڈھونڈ رہا ہو)جس نے آگ جلائی جب آگ نے ارد گرد کو روشن کر دیا(تو وہ راستہ چلنے لگا)توخدا نے اسے بجھادیا اور انہیں تاریکی میں چھوڑ دیاہے اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔

 

آیات کی توضیح و تشریح:

مذکور بالاآیات میں خدا نے منافقین کی خصوصیات بیان کی ہیں کہ وہ دو چہرے والے ،دھوکے باز،بے شعور ،قلبی وروحی مریض،جھوٹے ،مفسد ،خودبین،نادان،طغیان گر،ہدایت اور گمراہی کے خریدار اورسترہویں آیت میں منافقین کو اس مسافر سے تشبیہ دی ہے جو رات کی تاریکی میں بیابان میں چلا گیا وہاں ایک جگہ یہ مسافر آگ جلاتا ہے تاکہ راستہ دیکھ سکے جب آگ جلتی ہے تو یہ راستہ چلنے لگتا ہے اتنی دیر میں تیز آندھی آتی ہے اور آگ بجھ جاتی ہے، یہ شخص وہاں رات کی وحشت ناک تاریکی میں گر فتار ہو جاتا ہے کہ اب کیا کرے۔جو شخص بھی خدا اور مومنین کو دھوکہ دینے اورہوشیاری دکھانے کی کوشش کرتا ہے باالاخر اس کاانجام اسی مسافر کی طرح ہوتا ہے۔جس کی آگ(جس کے ذریعے وہ راستہ دیکھتا ہے) بیابان میں رات کی تاریکی میں آندھی کے جھونکے سے بجھ گئی ہو۔

منافقین ،مومنین اور کفّار کے درمیان ہوتے ہیں اورمومنین اور کفّارمیں سے جو گروہ بھی کامیاب ہوتا ہے اسی گروہ کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی منافقانہ چال سے جتنا بھی فائدہ حاصل کریں اس کی مدت اس آگ کی طرح جو جنگل میں روشن کی گئی تھی او ر آندھی کے ایک جھونکے کے ساتھ ہی بجھ گئی بہت کم ہوتی ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ منافقین اپنے ساتھیوں اور کفّار کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہوتے،یہ لوگ صرف اپنے نفع کے لیے کام کرتے ہیںجونہی انہیں کوئی موقع ملتا ہے

 

اپنے ساتھیوں اور کفّار کے ساتھ بھی دھوکہ کر جاتے ہیں۔قرآن ان کی اس کیفیت کے بارے میں فرماتا ہے:

مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰؤُلَآئِ ۔ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَلَہ سَبِیْلًا(١٤٣)

وہ(منافقین)ان کے درمیان متذبذب ہیںنہ اس طرف ہیںاور نہ اس طرف(نہ مومنوں کی صف میں ہیں اور نہ کافروں کی صف میں)جس کو بھی خدا گمراہ کرے وہ ہر گز کوئی راستہ نہیں پائے گا)سورئہ نسائ١٤٣

بعض مفسرین استوقد نارًا سے یہ نکتہ نکالتے ہیں کہ منافقین نور تک پہنچے کیلے آگ سے استفادہ کرتے ہیں اورآگ دھواں بھی رکھتی ہے شعلہ اور راکھ بھی جبکہ مومنین خالص نور اورچراغ کی روشنی سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ منافقین کے باطن میں آگ ہوتی ہے اگر نور بھی ہو تو وہ بھی نہایت کم اور مختصر مدت کے لیے۔یہ کم نور، وجدان اور فطرت توحیدی کی وجہ سے ہے جو کہ ان کے سابقہ ایمان کی طرف اشارہ ہے۔بعدمیں اندھی تقلید، تعصّب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تاریک پردہ ان کے دلوں پر چھاجاتا ہے۔

بعض مفسرین نے( استوقدنارا )کے بارے میں کہا ہے کہ اگر اس کو فتنہ انگیزی کے معنی میں لیا جائے تو اس صورت میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ منافق کو فتنہ انگیز اور مفسد کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اوراس طرح تشبیہ دینے کی وجہ ایجاد فتنہ و فساد ہے۔

 

قرآن وسنّت کی روشنی میں نفاق کی علامتیں

قرآن مجید نے نفاق کی علامات کچھ اس طرح بیان کی ہیں:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یَخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوْ خَادِعُہُمْ وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا۔

منافقین چاہتے ہیں کہ خدا کو دھوکہ دیں جبکہ خدا ان کو دھوکہ دے رہا ہے یہ لوگ جب نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کیساتھ اٹھتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ریا کاری کرتے ہیں خدا کو بہت کم یاد کرتے ہیں اور یہ لوگ بے ہدف ہیں۔سورئہ نسائ١٤٢

منافقین اپنے آپ کو نہایت باہوش تیز اور چالاک سمجھتے ہیںاس کے بر عکس مومنین کو سادہ اور نادان،ان کی احمقانہ فکر کی نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کہ بعض کاموں کا خدا کو بھی پتہ نہیںحالانکہ خدا ان کوگوں کو مہلت دے رہا ہوتا ہے تاکہ اتمام حجّت ہو جائے ۔ اس بارے میں نبی اکرم ۖسے ایک روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ۖ سے پوچھا کہ قیامت کے دن عذاب سے نجات کس میں ہے ؟آپ ۖنے جواب دیا کہ خدا کے ساتھ چالاکی نہ کرو اس لیے کہ جو بھی خدا کے ساتھ چالاکی کرے خدا بھی اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے اور اس کے دل سے ایمان کو لے لیتا ہے اور جو بھی خدا کے ساتھ چالاکی کی کوشش کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے لیکن نہیں سمجھتا۔ اس شخص نے پوچھا بندہ خدا سے کیسے دھوکہ کھاتا ہے آپ ۖ نے جواب دیا کہ وہ خدا کے فرمان پر عمل کرتا ہے (نماز،روزہ انجام دیتاہے)لیکن غیرِخدا کے لیے انجام دیتا ہے، ریا کاری کرتا ہے جو کہ شرک ہے اور ریاکار قیامت کے دن چار ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا :

١۔ اے کافر ٢۔اے فاجر٣۔اے زیاں کار٤۔ اے دھوکہ باز!تیرا عمل ضائع ہو گیا، آج کے دن تجھے کوئی اجر نہیں دیا جائے گا ۔اپنا اجر ان لوگوں سے مانگ جن کی خوشنودی کے لیے تونے اعمال انجام دیے ہیں۔المیزان ج ٥ ص١٢٣

منافقین کی فکر اور عقل درک نہیں کرتی کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیںبالکل ایک ایسے شاگرد کی طرح جو نہایت چالاکی کے ساتھ بہانے بنا کر، استاد کا دیا ہوا سبق یاد نہیںکرتا اور سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے استاد کو دھوکہ دیا ہے لیکن بہت جلد امتحان اور نتیجے کے وقت اپنے کیے پر پشیمان ہوتا ہے ،تب جا کر سمجھتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ دھوکہ کرتا رہا۔

منافقین خدا کو بہت کم یاد کرتے ہیںاور ریا کرتے ہیں ۔قرآن کی اس آیت کے بارے میں حضرت علی فرماتے ہیںکہ وہ لوگ جو خدا کو یاد نہیں کرتے خدا ان کے

 

بارے میں فرماتا ہے کہ جو کوئی خدا کو خلوت اور جلوت میں یاد کرے اس نے خدا کو بہت یاد کیا لیکن منافقین خدا کو ظاہراًتو یاد کرتے ہیں لیکن خلوت میں یاد نہیں کرتے اسی وجہ سے خدا نے فرمایا ہے کہ یہ لوگوں کے سامنے ریا کرتے ہیں اور خدا کو بہت کم یاد کرتے ہیں(المیزان ج٥ ص١٢٣)

پیامبر ۖمنافق کی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ منافق کی نمازاس طرح ہے کہ وہ ہمیشہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ سورج غروب کرے تو نماز کے لئے اٹھے، (اور جب نماز پڑھتا ہے تو)کوے کی طرح سر زمین پر مارتا ہے اور خدا کو بہت کم یاد کرتا ہے(المیزان ج٥ ص ١٢٣)

 

قرآن و سنّت کی روشنی میںمنافقت کے نقصانات

١۔ہدایت سے دوری

قرآن مجید نے نفاق کو ہدایت کے راستے میں رکاوٹ قراردیاہے ۔مناقفق کو اپنے نفاق سے جو سب سے بڑانقصان پہنچتاہے وہ ہدایت سے دوری ہے۔جیساکہ سورہ منافقون کی پہلی ٣آیات میں ارشاد پروردگارہے:

اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُاِنَّکَ لِرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لََرُسْوُلہ وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ

لَکٰذِبُوْنَ(١) اِتَّخَذُوْا اِیْمَانَھُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ اِنَّھُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(٢) ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ(٣)

جب منافق لوگ تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ رسول خداہیں خدا جانتا ہے کہ تو اس کا بھیجا ہوا رسول ہے اور خدا گواہی دیتا ہے کہ

منافقین جھوٹے ہیں ،وہ قسمیں اٹھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو خدا کے راستے سے روکیں ،کتنا برا ہے کہ انھوں نے ایمان لایا پھر کافر ہو گئے اس وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگائی گئی ہے اور وہ حقیقت کو درک نہیں کرتے۔ (المنافقون ،١۔٣)

منافقین کا ایمان کے بڑے بڑے جھوٹے دعوے کرنا ،جھوٹی قسمیں کھانا ،ان کا ہدف کہ لوگوں کو سیدھے راستے سے منحرف کرنا ،منافقین کی وہ مہم صفات ہیں جن کی وجہ سے خدا ان کو ہدایت نہیں کرتا۔ان صفات کی وجہ سے انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور پھرجب انسان کا دل مکمل طور پر سیاہ ہو جائے توانسان قابل ہدایت نہیں رہتا،جیسا کہ علمائے اخلاق کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں دو چھوٹے نقطے ہوتے ہیں ایک سیاہ اور ایک سفید ،جب انسان نیک کام کرتا ہے تو سفید نقطہ بڑھنے لگتا ہے لیکن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو سیا ہ نقطہ بڑھنے لگتا ہے اگر انسان گناہ پر گناہ کرتا رہے تو یہ سیاہ نقطہ اتنا پھیل جاتاہے کہ پورے دل کو سیاہ کر دیتا ہے یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے کہ انسان کو کوئی گناہ بھی گناہ نہیںلگتا ،اس کے بعد انسان حقیقت کو درک نہیں کرتا۔منافقین کے دل مکمل سیاہ ہو تے ہیں اسی وجہ سے خدا نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ قابل ہدایت نہیں ہیں۔

قرآن نے مومنین کی سب سے زیادہ توجہ منافقین کی طرف دلائی ہے اورمومنین کومنافقین سے خبردارکیاہے۔قرآن مجیدمیں جتنی منافقین کی مذمت کی گئی ہے اتنی کسی اور اسلام کے دشمن کی مذمت نہیں کی گئی۔قرآن نے منافقین کی جہاں بھی مذمت کی ان کی صفات بھی بیان کیں تاکہ ان کو پہچانا جائے اور پیامبر اسلامۖ کو بھی سب سے زیادہ خطرہ انہی سے تھا،آپ ۖ فرماتے ہیں مجھے سب سے زیادہ خطرہ منافق سے ہے یہ اس کام کو انجام دیتا ہے جس کو پسند نہیں کرتا اورجسے پسند کرتا ہے ایسی بات نہیںکرتا (نمونہ ج٢٤ ص١٤٦) ۔

امام سجاد فرماتے ہیں ۔منافق دوسروں کو برائی سے روکتا ہے لیکن خود نہیں رکتا،نیکی کا حکم تو دیتا ہے لیکن اسے خود انجام نہیں دیتا۔(نمونہ ج ٢٤ ص١٧٧)

پس قرآن اور احایث کی روشنی میں یہاںتک منافق کی جو صفات ذکر ہوئی ہیں یہ وہ صفات ہیں جو ہدایت سے دور کرتی ہیں ۔

 

 

 

٢۔منافقین رحمت الٰہی سے محروم ہیں

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یَْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمَعْرُوفِ وَیَقْبِضُونَ َیْدِیَہُمْ نَسُوا اﷲَ فَنَسِیَہُمْ ِنَّ الْمُنَافِقِینَ ہُمْ الْفَاسِقُونَ ۔

منافق مراورمنافق عورتیں ،آپس میں سب ایک ہیں۔یہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کرتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو باندھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے خدا کو فراموش کیا ہے اور خدانے بھی ان کو فراموش کر دیا ہے۔ (سورئہ توبہ ٦٧)

یہاں پر جو خدا نے جو کہا کہ(خدانے ان کو فراموش کر دیا ہے)اس طرح کی تعبیرات ہماری روزمرّہ زندگی میں بھی دیکھنے میں آتی ہیں ،مثلاً جب کوئی شخص اپنی ذمہ داری انجام نہ دے تو ہم کہتے ہیں کہ چونکہ تو نے اپنی ذمّہ داری انجام نہیں دی اس کام کوئی اجر نہیں دیا جائے گا۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی فرماتے ہیںکہ ان کوگوں نے دنیا میں خدا کو فرامو ش کیا اس کی اطاعت نہیں کی اس کے پیامبر پر ایمان نہیں لائے خداوند آخرت میں ان کو بھول جائے گا ان کے کسی عمل کا اجر نہیں دے گا۔

مفسّرین ِامامیہ کے مطابق ایک آدمی کے لیے دنیا میں ایک بڑا عذاب یہ ہے کہ خدا اس شخص کو اسی کے حال پر چھوڑ دے۔ اسی لیے ایک مومن کو یہ دعا کہ خدا اس کو خود اسی کے حال پر نہ چھوڑے کبھی ترک نہیں کرنی چاہیے ۔منافقین کو دنیا میں خدا نے ان کو انہیں کے حال پر چھوڑا ہوا ہے ۔

 

٣۔منافقین کے لیے ختم النبیّن ۖ کی شفاعت بھی قبول نہیں کی جائے گی

اسْتَغْفِرْ لَہُمْ َوْ لاَتَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِینَ مَرَّةً فَلَنْ یَغْفِرَ اﷲُ لَہُمْ ذَلِکَ بَِنَّہُمْ کَفَرُوا بِاﷲِ وَرَسُولِہِ وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ۔

(اے پیامبر)آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں(برابرہے)اگر ستّر بار ان کے لیے استغفار کریں تب بھی خدا انہیں ہر گز نہیں بخشے گا اس لیے کہ انہوں نے خدا اور پیامبر کا انکار کیا ہے اور خدا فاسقوں کی ہدایت نہیں کرتا۔(سورئہ توبہ٨٠)

یہاں پر جو کہا گیا کہ سترّ بار بھی پیامبر،ۖ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اس سے مراد یہ نہیں کہ اکتہرویں بار شفاعت قبول کی جائے گی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت بالکل قبول نہیں کی جائے گی،یہ اسی طرح ہے جیسے ایک شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تو سو بار بھی کہے تو تیری بات نہیں مانوں گا یعنی کسی صورت میں تیری با ت نہیںمانی جائے گی۔ پس منافقین کے پاس نجات کاکوئی راستہ نہیں مگر یہ کہ مرنے سے پہلے خودتوبہ کر لیں۔

 

٤۔ قیامت کے دن منافق کا انجام

نبی اکرمۖ فرماتے ہیں ،قیامت کے دن منافق انسان اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک زبان گردن کی طرف سے پیچھے کولٹکی ہو گی اور ایک زبان اس کے آگے لٹکی ہو گی اور وہ آگ میں جل رہی ہو گی اور اس کا بدن کوئلہ کی طرح ہو جائے گا ۔یہ وہ شخص ہوگاجس کے دنیامیں دوچہرے تھے۔(وسائل الشیعہ ج١٢ ص٢٥٨)

 

 

 

 

قرآن کی روشنی میں منافقین کی شناخت

١۔بول چال ،لحن کلام ،اشارے کناے سے پہچاننا

وَلَوْ نَشَائُ لََرَیْنَاکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیمَاہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِی لَحْنِ الْقَوْلِ وَاﷲُ یَعْلَمُ َعْمَالَکُمْ ۔

اگر ہم چاہیں تو آپ کونشانی بتائیں تاکہ آپ انہیں ان کے چہرے سے پہچان لیں اور آپ انہیں ان کی باتوں سے بھی پہچان سکتے ہیں اور خدا تمہارے اعمال سے باخبر ہے (سورئہ محمد٣٠)

منافقین کی شناخت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ منافقین کو ان کی بول چال ،لحن کلام ،اشارے کناے سے پہچانا جا سکتا ہے ۔ایسا ممکن نہیں کہ ایک شخص طولانی مدت تک اپنے دل میںایک بات کو چھپاسکے جیساکہ امیرالمومنین اس بارے میں فرماتے ہیں کوئی شخص بھی دل میں کچھ نہیں چھپا سکتا مگر سوچے سمجھے بغیراس کی زبان سے ظاہر ہو جاتا ہے ۔(نمونہ ج١ص٤٧٩)

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیامبر ۖ منافقین کو ان کی نشانیوں سے پہچانتے تھے۔

 

٢۔میدان جنگ میں جہادکا موقع

منافقین کو پہچاننے کا دوسرا طریقہ میدان جنگ میںجہادکا موقع ہے، جنگ سے پہلے جنگ کے لیے مدد جمع کرنے کے وقت ،میدان جنگ میں ،دشمن کے شدید حملوں کے وقت ،جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کے وقت منافق شخص کو پہچاننے کے لیے قرآن کی بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں ،مخصوصاً سورئہ توبہ اور سورئہ احزاب میں منافقین پر خصوصی روشنی ڈالی گئی جس کی وجہ سے عام فہم لوگ بھی منافقین کو ایسے حالات میں پہچان لیتے تھے ۔

اس ضمن میں سورہ توبہ کی آیت ٤٩ملاحظہ فرمائیں:

وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ ائْذَنْ لِی وَلاَتَفْتِنِّی َلاَفِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیطَة بِالْکَافِرِینَ ۔

بیشک انہوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ کی کوشش کی تھی اور تمہارے امور کو الٹ پلٹ دینا چاہا تھا یہاں تک کہ حق آگیا اور امر خدا واضح ہوگیا اگرچہ یہ لوگ اسے ناپسند کررہے تھے ۔

سورئہ توبہ کی آیت ٤٩ کی تفسیر میں مفسرین نقل کرتے ہیں کہ جب پیامبرۖ مسلمانوں کو جنگ تبوک کے لیے تیار کر رہے تھے تو ایک آدمی قبیلہ بنی سلمہ میں سے تھا جس کا نام

جد بن قیس تھا ۔وہ اوّلین درجے کہ منافقین میں سے تھا پیامبر کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں جنگ میں شرکت نہ کروں چونکہ میں عورتوں کی طرف بہت جلد راغب ہوتا ہوںاور اگر میری آنکھ کسی عورت پر پڑھ گئی تو ممکن ہے میرا دل اسی پر رک جائے اور جنگ سے ہاتھ کھینچ لوں۔

پیامبر ۖ نے اس کو اجازت دے دی ،اس وقت یہ آیت نازل ہوئی تب پیامبرۖ نے قبیلہ بنی سلمہ کی طرف رخ کر کے کہا کہ تمہاراسردار کون ہے انھوں نے کہا کہ جد بن قیس ہمارا سردار ہے لیکن وہ مرد بخیل اور بزدل ہے ۔آپۖ نے فرمایا ؛بخل سے بڑھ کر کوئی درد نہیں پھر کہا آج کے بعد تمہارا سردار بشر بن یراد ہے (نمونہ ج٧ص٤٣٧)

 

٣۔طرز استدلال

منافقین کی پہچان کا ایک طریقہ ان کا طرز استدلال ہے۔چنانچہ کہاجاتاہے کہ پیامبر ۖ نے جد بن قیس کو اس کے طرز استدلال سے پہچان لیا تھا کہ یہ منافق

ہے۔

 

٤۔صداقت اور امانت داری

منافقین کی پہچان کا ایک طریقہ ان کی صداقت اور امانت داری بھی ہے ممکن ہے کہ ایک شخص نمازیں پڑھتا ہو روز ے ر کھتا ہو لیکن اگر وہ شخص سچا اور امانت دار نہیں ہے تو اس شخص کے اندرنفاق ہے۔جیسا کہ امام صادق فرماتے ہیںکہ لوگوں کے لمبے لمبے رکوع و سجود کی طرف نگاہ نہ کرو چونکہ ممکن ہے کہ یہ ان کی عادت ہو بلکہ ان کی سچائی اور امانت داری پرتوجہ دو (نمونہ ج٧ص٤٣٧)۔

اس سے پتہ چلتاہے کہ سچائی اور امانت داری ایمان کا سرچشمہ ہیں جبکہ ر کوع اور سجود ممکن ہے کہ نفاق کے ساتھ ہوں۔

 

٥۔حضرت علی سے بغض

منافق کی پہچان کا ایک طریقہ حضرت علی سے بغض بھی ہے ،اس بارے میں ابو سعید خذری سے روایت ہے کہ پیامبرۖ کے زمانے میں ہم منافقین کو حضرت علی کی نسبت بغض سے پہچانتے تھے (نمونہ ج٧ص٤٣٧)۔

 

منافقین کی خصوصیات احادیث کی روشنی میں

معصومۖ کی حدیث ہے کہ منا فق وہ ہے جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے ،جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کو نشر کرتا ہے ،جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ،جب اسے کوئی امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے ،جب مالدار ہوتا ہے تو اسے کم لگتا ہے ،جب تنگ دست ہوتا ہے تو وہ شوروغل کرتا ہے۔(تحف العقول٢١٢)

حضرت علی فرماتے ہیں کہ منافق جب نگاہ کرتا ہے تو فضول سرگرمی میں پڑ ھ جاتا ہے ،جب خاموش ہوتا ہے تو غفلت کرتا ہے، جب بولتا ہے تو بیہودگی بکتا ہے، جب خود کو بے نیاز احساس کرتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے، جب اسے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو آہ و بکاہ شروع کرتا ہے اور جلدی ناراض ہوجاتا ہے اور دیر سے راضی ہوتا ہے،خدا سے ناراض رہتا ہے، اس کے لیے بہت زیادہ بھی کم ہے ،اگر کسی شر کو انجام نہ دے تو اسے افسوس رہتا ہے کہ اسے کیوں انجام نہیں دیا ۔

(تحف العقول ٢١٢)

امام سجاد فرماتے ہیں کہ منافق دوسروں کوانکار کرتا ہے لیکن خود انکار کو قبول نہیں کرتا۔ جو دوسروں کو حکم دیتا ہے اس پر عمل نہیں کرتا جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو دائیں اور بائیں جھانکتا ہے، جب رکوع میں جاتا ہے خود کو بھیڑ کی طرح زمین پر گراتا ہے جب سجدے میں جاتا ہے تو (پرندوں کی طرح)چونچ زمین پر مارتا ہے،

جب رات ہوتی ہے تو صرف کھانا کھانے کے چکر میں ہوتا ہے، جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب اسے وعدہ دیا جاتا ہے تو وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے ،جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے اگر اس کی مخالفت کرو گے تو تمہاری غیبت کرے گا (الامالی للصّدوق٤٩٣)

اسی طرح کتاب اختصاص کے صفحہ٢٢٨پرامام صادق کی ایک حدیث میں ارشادہے:

نفاق کی چارعلامتیں ہیں ؛ ١۔ سنگدلی ٢۔آنسو کا نہ آنا٣۔گناہ میں مداومت ٤۔دنیامیں حریص

 

منافق ترین شخص

امام علی فرماتے ہیں ؛ منافق ترین شخص وہ ہے جو خدا کی اطاعت کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا ۔گناہ سے روکتا ہے لیکن خود گناہ سے نہیں رکتا (غررالحکم٤٥٩)

 

 

قرآن و سنّت کی روشنی میں منافقین سے بچنے کا طریقہ

خداوندِ عالم منافقین کے رویے اور ان سے بچنے کے بارے میں فرماتاہے:

سَیَحْلِفُونَ بِاﷲِ لَکُمْ ِذَا انقَلَبْتُمْ ِلَیْہِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْہُمْ فََعْرِضُوا عَنْہُمْ ِنَّہُمْ رِجْس وَمَْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَائً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ (٩٥)

جب ان کی طرف پلٹ کر جائوجلدی سے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں اٹھاتے ہیں تاکہ تم ان سے اعراض (صرف نظر) کرو،پس ان سے اعراض( دوری اختیار) کرو (سورئہ توبہ آیہ٩٥)

قرآن کی اس آیت میں تعرضو اور اعرضوا کے کلمات استعمال ہوئے ہیں دونوں کا مصدر اعراض یعنی صرفِ نظر کرنایادوری کرناہے ۔ یہاں پر مومنین کو کہا گیا کہ اعراض یعنی دوری اختیارکرو ۔چونکہ منافقین ،مومنین سے چاہتے ہیں کہ ان کے نفاق کے مقابلے میں سکوت اختیار کریں اوران کی مذمت نہ کریں ۔بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خدانے منافقین سے دوری کرنے کا اس لیے کہاہے تاکہ منافقین کو ذلیل ورسوا کرے اور مومنین ان کی ہم نشینی سے بچیں۔

پیامبرۖ فرماتے ہیں ،جوچار چیزیں دل کو آلودہ کرتی ہیں ان میں سے ایک مُردوں سے دوستی ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ ُمردے کون ہیں تو آپ نے فرمایا:

ایمان اور اللہ کے دین ے منحرف لوگ(یعنی منافق)۔(وسائل الشیعہ ج١٦ ص٢٦٦)

 

قرآن کی روشنی میں مومنین اور منافقین کا موازنہ

١۔منافقین بعضھم َمن بعض لیکن مومنین بعضھم اولیاء بعض۔

٢۔منافقین یامرون بالمنکر و ینھون عن المعروف اس کے برعکس اہل ایمان یامرون بالمعروف عن المنکر۔

٣۔منافق نسُواللہ لیکن خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا یقیمون الصّلاة۔

٤۔ منافقین یقبضون ایدیھم لیکن اہل ایمان یوتون الزّکٰوة۔

٥۔ منافقین الفاسقون مومنین یطیعون اللہ ہیں۔

٦۔خدا نے منافقین کو جہنّم کا وعدہ دیا ہوا ہے لیکن مومنین کے لیے جنّت کا۔

٧۔منافقین کے لیے لعنھم اللہ لیکن مومنین کے لیے رضوان من اللہ۔

٨۔منافق کے لیے عذاب مقیم ایمان والوں کے لیے الفوز العظیم۔

نفاق کا علاج

١۔منافقین کی خصوصیات اور علامات کو ترک کرنا

نفاق کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ روایات و آیات میں منافقین کی مذکورہ صفات سے نجات حاصل کی جائے۔

 

٢۔ حضور ۖ پر صلوٰت

پیامبر ۖ فرماتے ہیں،مجھ پر بلند آواز سے صلوات پڑھو کیونکہ یہ نفاق کو ختم کرتی ہے (الکافی٢۔٤٩٣)

 

 

نتیجہ:

 

اسلامی معاشرے میں منافقین آج بھی سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ دینِ اسلام کو کمزورکرنے کے لئے مسلمانوں کے بیچ میں علاقائیت ،

فرقہ واریت اور نفرت کے بیج بورہے ہیں تاکہ مسلمان آپس میں خون خرابہ کرتے رہیں اورایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے دیتے رہیں۔

منافقین کے مقابلے کے لئے مومنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان منافقین کو اچھی طرح پہچانیں ،چاہے یہ منافقین کسی بھی روپ میں آئیں ان کے فریب اور دھوکے میں خود بھی نہ آئیں اور دوسروں کو بھی ان کی کارستانیوں سے آگاہ رہنے کا شعور بخشیں۔اگرمومنین ،منافقین کوقرآن واحادیث کی روشنی میں اچھی طرح پہچان لیں تو منافقین کسی صورت میں بھی اپنے ارادوںمیں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔

 

٭(خلاصہ مطالب)٭

٭منافق ،مادہ نفق سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب نفوذ کرنا اور آگے بڑھنا ہے۔

٭منافق ایسی گفتگو یا کام کرتا ہے جس پر اس کا کوئی ایمان نہیں ہوتا۔

٭نفاق اور جھوٹ میں گہرا ربط ضرور پایا جاتا ہے لیکن یہ ہمیشہ جمع نہیں ہوتے۔

٭ تقیّہ میںانسان کفر کا اظہار کرتا ہے اور ایمان کو چھپاتاہے جبکہ نفاق میں انسان کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کا اظہار کرتا ہے ۔

٭منافقین اپنے آپ کو نہایت باہوش تیز اور چالاک سمجھتے ہیںاس کے بر عکس مومنین کو سادہ اور نادان۔

٭منافق ترین شخص وہ ہے جو خدا کی اطاعت کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا ۔

٭منافقین کے پاس نجات کاکوئی راستہ نہیں مگر یہ کہ مرنے سے پہلے خودتوبہ کر لیں۔

٭نفاق کی چارعلامتیں ہیں ؛ ١۔ سنگدلی ٢۔آنسو کا نہ آنا٣۔گناہ میں مداومت ٤۔دنیامیں حریص ۔

٭ منافقین کی پہچان کا ایک طریقہ ان کا طرز استدلال ہے۔

٭قرآن مجیدمیں جتنی منافقین کی مذمت کی گئی ہے اتنی کسی اور اسلام کے دشمن کی مذمت نہیں کی گئی۔

٭پیامبر ۖ فرماتے ہیں،مجھ پر بلند آواز سے صلوات پڑھو کیونکہ صلوات نفاق کو ختم کرتی ہے۔

Add new comment