عید میلادالنبی[ص]کا جشن

پروفیسر عبدالحق

عید کے لغوی معنی لوٹ کر آنے والا وقت ہے لیکن اس سے مراد خوشی کا دن لیا جاتا ہے اور میلاد کے معنی ولادت کے ہیں۔ النبی سے مراد ہمارے حضور نبی ¿ پاک حضرت محمد مصطفی ہیں۔ مطلب یہ کہ خوشی کا وہ دن جس روز ہمارے حضور نبی ¿ پاک اس دنیا کی ہدایت و رہنمائی کے لئے پیدا ہوئے۔ لیکن میں نہایت عجز و انکساری سے اور دست بستہ یہ عرض کروں گا کہ آج کے دور میں یہ تہوار جس طریق سے منایا جاتا ہے قرون سابقہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عید میلاد النبی کی تقریب منانے کا مقصد یہ ہے کہ حضور کے اسوہ ءحسنہ کو اپنی زندگیوں کا محور بنایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو آپ کی سنت کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے اس غرض کے لئے ہمیں تاریخ عالم کے اس دور پر نگاہ ڈالنا ہو گی جس میں حضور اس وقت دنیا میں تشریف لائے اور دیکھنا پڑے گا کہ اس وقت اہل عالم کی اخلاقی اور روحانی حالت کیسی تھی کہ جس کی اصلاح و تعمیر کے لئے حضور کو مبعوث فرمایا گیا۔ ساتھ ہی اس دور کا موجودہ دور سے موازنہ بھی کرنا ہو گا تاکہ ہمیں یہ اندازہ ہو سکے کہ ہم اس جہاد زندگانی کے طویل سفر کی کون سی کٹھن منزلوں سے گزر رہے ہیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں اہل علم کی اخلاقی، روحانی اور سیاسی حالت انتہا درجے کی پستی تک پہنچ چکی تھی۔ ہر طرف ظلم و عصیاں، فسق و فجور، کفر و شرک، جہالت و منافقت اور تمّرد و سرکشی کا دور دورہ تھا۔ علم و بصیرت کے ضیا بخش تمام منور چراغ بجھ چکے تھے۔ تمام انبیائے سابقین کی پاکیزہ تعلیمات کفر و جہالت کے دبیز پردوں میں ڈھک چکی تھیں۔ تہذیب و شرافت اس مقام پر پہنچ چکی تھی جہاں حیا شرم سے منہ چھپا لے اور اخلاق عالیہ مارے ندامت کے سر جھکا لے۔ روحیں لذت عرفان و ہدایت سے بے بہرہ، آنکھیں نور ایمان و حیا سے محروم، دل جذبہ غیرت و حمیت سے عاری اور کان صدائے حق و صداقت سے نامانوس ہو چکے تھے۔ ہر خطہ زمین پر وحدت قومی و ملی کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ بندوں کا بندوں کے ساتھ نہایت بہیمانہ اور وحشیانہ سلوک تھا۔ سورج، چاند اور ستاروں کے علاوہ روئے زمین کی ذلیل سے ذلیل چیزوں کو تخت معبودیت پر بٹھایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانیت حیوانیت کی تمام سرحدیں عبور کر کے ننگ و ناموس کے تمام پردے چاک کر چکی تھی اور بڑی بیتابی اور اضطراری کیفیت سے جام الست کی اس گردش آفریں کی منتظر تھی جو تکمیل دین و ہدایت اور اتمام جود و نعمت کی شراب طہور پلا کر بزم عالم میں ایک ابدی نشاط اور دائمی کیفیت و وجدان کی سازگار فضا پیدا کرنے والی تھی۔ان تغیرات پُرخطر کے دوران سیات کے دیو استبداد کے پنجہ میں جکڑی ہوئی اور موت کے دروازہ پر سسکیاں لے لے کر دم توڑتی ہوئی انسانیت کی آواز جب عرش بریں تک پہنچی تو رب العالمین کی ربوبیت کا جذبہ ترحم سایہ فگن ہو گیا اور وادی بطحا اور تمام عالم کے ہر قسم کے اندھیروں کو نور علم و ہدایت اور وجدان و عرفان میں بدلنے کے لئے اس سراج منیر کو 12 ربیع الاول پیر کے دن طلوع کر دیا جس کی روشنی میں جبین نیاز کے ہزاروں تڑپتے سجدوں کا نبی ¿پاک کی صورت میں ظہور ہونے والا تھا۔اور حضور نے مہد سے لے کر لحد تک زندگی کے پُرپیچ اور کٹھن راستوں کے ہر تاریک موڑ پر اپنے حسن عمل اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے وہ تابدار نقوش منقش فرمائے جو قیامت تک ہر نئے راہرو کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوں گے اور ہر بھولے بھٹکے کو اس کی صحیح منزل کی طرف نشاندہی کرتے رہیں گے۔دنیا کی تاریخ کا کوئی باب اتنا سیاہ نہیں جتنا چھٹی صدی عیسوی میں تھا اور کسی نبی یا کسی مصلح کو اتنا اہم اور مشکل کام پیش نہ آیا جتنا ہمارے حضور کو۔ تاہم آپ نے جس خوش اسلوبی صبر و ثبات، حلم و استقامت اور تحمل و بردباری سے اپنے کام کو نبھایا اور وہ نبی ¿پاک ہی کا کام تھا۔ ایک وقت تھا جب آپ نے وحی نبوت کے نازل ہوتے ہی اپنے آنے کا مقصد اپنے خاندان والوں کے سامنے بیان فرمایا تو وہ متکبر و رعونت سے بھرے ہوئے لوگ جنگلی درندوں کی مانند بپھر گئے اور صرف خود ہی دشمنی پر نہیں تُل گئے بلکہ مکہ میں زیارت کیلئے باہر سے آنے والے لوگوں کے کان بھی بھرتے اور حضور کو کاہن اور جادوگر کہہ کر لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عداوت کا بیج بھی بوتے۔ ان حالات میں جبکہ حضور تمام ملک عرب میں نہایت ہی جاہل اور اکھڑ مزاج دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے آپ نے انتہائی صبر و سکون اور ثابت قدمی سے مسلسل دن اور رات ایک کر کے اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی مرضی اور ارادہ کی تبلیغ کی اور بہت تھوڑے عرصہ میں امیری غریبی کے امتیازات، فاتح اور مفتوح کے مابین تفاوتوں اور مختلف زبانوں اور مختلف رنگتوں کے مابہ الامتیاز کو یکسر مٹا کر سب کو دین واحدہ کے رشتوں سے متحد و متفق، ہم سطح و ہم خیال، ہم اعتقاد و ہم آواز اور یکساں و مساوی بنا دیا۔ عدل و احسان اور الفت و یگانگت کی نہروں کے سوتے پھوٹ نکلے۔ دشمن دوست بن گئے، جاں ستاں، جاں نثار و غمگسار ہو گئے اور دنیا والوں نے ایک ایسا معجزہ دیکھا جو قرون سابقہ کے انبیاؑ میں سے کوئی نہ دکھا سکا تھا اور وہ معجزہ یہ تھا کہ حضور نے دنیا کی قلب ماہیت کر دی۔ دلوں میں کفر و شرک اور نفاق کی جگہ نور ایمان کی شمعیں جگمگا اٹھیں اور اہل عالم نے حق و صداقت کے نورانی چہرے کا عام مشاہدہ کر لیا۔آج جب ہم حضور کی پیدائش باسعادت کے روز آپ کی یاد منانے کے لئے اتنا بڑا اہتمام کرتے ہیں تو ہماررے لئے سب سے اہم امر یہ ہے کہ ہم حضور کی پیدائش کی غرض و غایت کو نہ بھولیں اور اس مقصد کی تکمیل کی خاطر جان کی بازی لگا دینے کا عہد کریں اور جس طرح ہمارے آقا نے خود مشکلات اور مصائب کا ڈٹ کر مقابل کیا اور انجام کار اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران ہو کر دنیا کو نجاست کفر و شرک سے بچا لیا ہم بھی اسی راہ پر چل کر حضور کی سنت کو زندہ جاوید بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے مطابق زندگیاں بسر کریں اور جشن عید میلاد النبی ان کے شایان شان طریق پر منانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں۔وما علینا الا البلاغ
:::::::::::::بشکریہ::::::::::::نوائے وقت::::::::::::::::http://www.nawaiwaqt.com.pk/miscellaneous/18-Jan-2013/%D8%B9%DB%8C%D8%AF...

Add new comment