عید میلادالنبی[ص]کی اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین و ھو المعین و صلی اللہ علیٰ محمد و آلہ الطاھرین۔

 حضرت آیۃ اللہ دوزدوزانی ۔۔۔۔۔۔

معصومین علیہم السلام کے ایام ولادت و تواریخ وفات و شہادت شعائر اسلامی کا جزء ہیں جس طرح حضرات معصومین علیہم السلام کی وفات و شہادت کے موقع پر مجالس عزاء کا انعقاد ان کی یاد منانا ہے اسی طرح ان حضرات کے ایام ولادت میں محافل و جشن مسرت کا انعقاد ان کے مقام و حشمت کی تعظیم ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: "یفرحون لفرحنا و یحزنون لحزننا" ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں مغموم۔ امامؑ کی اس حدیث پر نظر کی جائے تو اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امامؑ نے امر خیر کو حکم کی صورت میں نہیں بیان کیا بلکہ اسے خصوصیت شیعہ میں شمار فرمایا ہے (کسی حکم کو اخباری قالب میں بیان کرنا شدّت اہمیت پر دلالت کرتا ہے) یعنی امامؑ یہ بیان کررہے ہیں کہ جب وہ ہماری ولادت کی تاریخ کو یا اس جیسی خوشیاں سنتے ہیں تو بے ساختہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
آپ کی اخدام عالیہ میں یہ ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا کہ خوشی کسے کہتے ہیں؟ خوشی اور مسرت سے مراد قلبی مسرت ہے یا یہ کہ سب جمع ہوکر مٹھائیاں تقسیم کریں اور ان کے مناقب، نثری اور نظمی پیرائے میں بیان کریں یا اس سے بھی دو قدم آگے جشن مسرت کا اہتمام اس طرح کریں جس طرح شادیاں منائی جاتی ہیں یا اسی طرح کے دوسرے طریقے۔ وہ چیز جو حزن و مسرت کے لئے بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا تعلق دل سے ہے اور ضروری مقدار میں اس کا اظہار ہونا چاہئے۔
لیکن یہ کہ ہم ایسے امور انجام دیں جو شان و عظمت معصومین علیہم السلام سے تناسب نہ رکھیں اس حدیث شریف میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو اس جانب دلالت کرتا ہو۔ چہ بسا بعض جاہلوں کی طرح ہم یہ کہیں کہ فلاں دن قلم اٹھا لیا جاتا ہے اور گناہ تحریر نہیں ہوتے عقل اس چیز کو قبول نہیں کرتی، کائنات میں مرفوع القلم دیوانے یا بچے ہوا کرتے ہیں لیکن سمجھدار افراد سے تکلیف اٹھا لینا روح اسلام سے سازگار نہیں ہے کیونکہ دین اسلام کا ہدف افراد کی تربیت اور تکامل انسانی ہے جس سے ایک لمحہ کی غفلت صدیوں کا خسران ہے۔ پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں: "بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" آخر اس حدیث کا معنی کیا ہے؟ کیا یہ حدیث ہمیں اس چیز کی اجازت دیتی ہے کہ ہم جمع ہوکر ایسے امور انجام دیں جو بعثت پیغمبر اسلام ﷺ کے متضاد ہوں، جن کی وجہ سے مقصد بعثت پائمال ہوتا ہو ہمارے دلوں پر جلی حرفوں میں یہ چیز کندہ ہونی چاہئے کہ ہمارے تمام افعال مطابق دین اسلام ہوں۔
اس مبارک دن جو اہم گفتگو آپ کے حضور میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم سب نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے موقع پر خوشحال ہیں اس دن صرف شیعوں کی عید نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کی عید ہے، ہمیں اس مبارک دن صرف خوشیاں ہی نہیں منانی چاہئے بلکہ اس حدیث کی روشنی "احیوا امرنا" ایک اہم فریضۂ دینی کو ادا کرنا چاہئے ؛ امامؑ فرماتے ہیں ہمارے امور کا احیاء کرو۔ ان اہم امور میں سے ایک امر احیائے رسالت ہے جو راہ ولایت میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مقصود گفتگو یہ نہیں کہ ہم مجموعی طور پر ان امور کو فراموش کرچکے ہیں بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس انداز سے اسے احیاء کرنا ہے اس انداز اور اس شان سے احیاء نہیں کیا جارہا ہے۔
نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ عید میلاد النبیؐ کے موقع پر خوشیاں طبل ونقارہ کی صورت میں منائی جارہی ہیں۔ ایسے شرمناک مناظر ٹیلی ویژن صفحات پر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں آخر ان چیزوں کا مطلب کیا ہے؟ ان بیہودہ افعال کی وابستگی میلاد النبی ﷺ سے کیا ہے؟ کیا ہمیں حضرتؐ سے شرم نہیں آتی؟ آیا یہ طبل و نقارے "احیوا امرنا" کا مصداق ہیں؟ مصادیق واقعی سے اس قدر فاصلہ کیوں ہے؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت عیسیٰ مسیحؑ کی ولادت کے موقع پر جو اوائل دی ماہ (شمسی مہینہ کا نام) میں ہے دنیا میں کس قدر خوشیاں منائی جاتی ہیں یہاں تک کہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی اسی تاریخ کے مطابق اداری امور انجام پاتے ہیں، اسلامی ممالک اپنے اداری امور عیسوی تاریخ کے مطابق انجام دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ ایران اسلامی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض تالیفات کا سن طباعت میلادی تاریخ کے مطابق ثبت کیا جاتا ہے۔
ہم حضرت مسیح کے مخالف نہیں ہیں، ان کی عظمت کے منکر بھی نہیں؛ ہم ان کی نبوت کے معتقد ہیں لیکن اسلامی فرامین کے مطابق۔
میرا سوال یہ ہے کہ آیا جس طرح حضرت مسیح کی ولادت کے ایام میں اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے کیا پیغمبر اسلام ﷺ کے یوم ولادت کو بھی ویسی ہی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے؟ ذرا غور تو کیجئے اس دن کا عیسائیوں نے کس طرح تعارف کرایا ہے کہ ایرانی مملکت کے صدر بھی تہنیت و تبریک پیش کرتے ہیں۔
وہیں حضرت ختمی مرتبت کی ولادت کے موقع پر یہ سوال ذہن و دل کو جھنجھوڑتے ہیں کہ ہم نے اس دن کی عظمت کا اعلان کس طرح کیا؟ ہم نے اس دن کا تعارف عالم انسانیت سے کرایا یا نہیں؟ کیا ہم نے دنیا کو بتایا کہ یہ دن روح کائنات حضرت ختمی مرتبت ﷺ کی ولادت کا دن ہے؟
ہاں! اگر ہم نے خوشیاں بھی منائی تو ایسی جو روح اسلام سے سازگار نہیں ہیں اگر مجھ میں توانائی ہوتی تو کم از کم قم کی مقدس سرزمین پر حضرتؐ کے یوم ولادت کا جشن اسی طرح مناتا جس طرح منانے کا حق ہے۔
ہم ایام عزاء میں سرمایہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن انصاف سے بتائیے کیا عاشورا کی بازگشت حضرتؐ کی جانب نہیں ہے؟ آخر کیوں ہم اس حد تک غافل ہیں؟ آخر ہم نے اس مبارک دن کو اس کے شایان شان کیوں نہیں منایا؟
آج ہمارے جوان مسیحی ہورہے ہیں لیکن ہم خوابِ غفلت میں ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک معزز شخص میرے پاس تشریف لائے تھے انہوں نے بتایا کہ ان کا داماد مسیحی ہوچکا ہے، انہوں نے ایک مفصل داستان اس سلسلہ میں بیان کیا کہ وہ لوگ کیا کرتے ہیں۔
بعض شہروں میں ایسی نوٹوں کو گھروں کے اندر ڈالا جاتا ہے جس کے ایک طرف ہزار تومان تحریر ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے اس طرح کے پیغامات کہ مسیح آئیں گے اور یہ کریں گے وغیرہ۔۔۔
یہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے کہ اگر ہمارے جوانوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے نبیؐ کی ولادت کے موقع پر کیسے کیسے غیر معمولی واقعات پیش آئے تو وہ اتنی آسانی سے مسیحی نہ ہوں اور دین اسلام سے روگردان نہ ہوں۔
ہم نے کب بیان کیا کہ حضرتؐ کی ولادت کے موقع پر طاق کسریٰ کی کیا حالت ہوئی، ہزار سالہ آتشکدہ کس طرح خاموش ہوا، دریاچۂ ساوہ خشک ہوگیا، وادیٔ ساوہ (ایک جگہ جو شام و کوفہ کے درمیان واقع ہے) میں کس طرح آب رواں ہوا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے بیان نہیں کیا، لیکن کم بیان کیا ہے۔ ہم نے ان امور کی وضاحت نہیں کی اگر ہم نے صحیح طریقے سے بیان کیا ہوتا تو کبھی اس طرح کی ہزیمت ہمارے جوانوں کو اٹھانا نہ پڑتی۔ ہماری تحریریں اس سلسلے میں بہت کم ہیں۔ ہمارے بیانات قاصر اور کم رونق ہیں۔ ہم نے صرف مدحیہ اشعار پر اکتفاء کیا ہے ہمارے اشعار کے مضامین بھی کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ شرمندگی ہوتی ہے۔
ایک دن ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ ان دنوں اس طرح کے بیانات کی خاطر محافل کا انعقاد کرنا چاہئے میں نے ان سے کہا کہ میری بھی یہی خواہش ہے لیکن ذرا انصاف سے بتائیے کہ کتنے لوگ اس طرح کی محافل میں شرکت کریں گے؟
نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس ماہ ربیع میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو ہمارے نبی ﷺ کے شایان شان ہو۔
ہاں! یہ بات میڈیا کے ذریعے ضرور سننے میں آئی ہے کہ اوائل فروردین (شمسی مہینہ) میں عید باستانی کی مناسبت سے چودہ میلیار اس ام اس ردّ و بدل ہوئے۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کل کیا کرتے ہیں (حضرتؐ کی ولادت کا دن) آخر ہم کل ٹیلیفون پر ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں یا نہیں؟ آخر اس خبر کو میڈیا بیان کرتی ہے یا نہیں؟
اگر آنے والے دن کے اس ام اس (sms) کی تعداد کو بھی بتایا جائے تو بہتر ہوتا لیکن کیا کیا جائے ان امور پر تشویق و ترغیب نہیں ہوتی۔
انشاء اللہ المستعان آپ تمامی حضرات ان دنوں اس امر خیر کی ترویج میں کوتاہی نہیں کریں گے اور ایک پرشکوہ جشن کا انعقاد فرمائیں گے۔ و صلی اللہ علیٰ محمد و آلہ الطاھرین۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم و بہ نستعین و ھو المعین و صلی اللہ علیٰ محمد و آلہ الطاھرین۔

معصومین علیہم السلام کے ایام ولادت و تواریخ وفات و شہادت شعائر اسلامی کا جزء ہیں جس طرح حضرات معصومین علیہم السلام کی وفات و شہادت کے موقع پر مجالس عزاء کا انعقاد ان کی یاد منانا ہے اسی طرح ان حضرات کے ایام ولادت میں محافل و جشن مسرت کا انعقاد ان کے مقام و حشمت کی تعظیم ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: "یفرحون لفرحنا و یحزنون لحزننا" ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم میں مغموم۔ امامؑ کی اس حدیث پر نظر کی جائے تو اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امامؑ نے امر خیر کو حکم کی صورت میں نہیں بیان کیا بلکہ اسے خصوصیت شیعہ میں شمار فرمایا ہے (کسی حکم کو اخباری قالب میں بیان کرنا شدّت اہمیت پر دلالت کرتا ہے) یعنی امامؑ یہ بیان کررہے ہیں کہ جب وہ ہماری ولادت کی تاریخ کو یا اس جیسی خوشیاں سنتے ہیں تو بے ساختہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
آپ کی اخدام عالیہ میں یہ ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا کہ خوشی کسے کہتے ہیں؟ خوشی اور مسرت سے مراد قلبی مسرت ہے یا یہ کہ سب جمع ہوکر مٹھائیاں تقسیم کریں اور ان کے مناقب، نثری اور نظمی پیرائے میں بیان کریں یا اس سے بھی دو قدم آگے جشن مسرت کا اہتمام اس طرح کریں جس طرح شادیاں منائی جاتی ہیں یا اسی طرح کے دوسرے طریقے۔ وہ چیز جو حزن و مسرت کے لئے بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا تعلق دل سے ہے اور ضروری مقدار میں اس کا اظہار ہونا چاہئے۔
لیکن یہ کہ ہم ایسے امور انجام دیں جو شان و عظمت معصومین علیہم السلام سے تناسب نہ رکھیں اس حدیث شریف میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جو اس جانب دلالت کرتا ہو۔ چہ بسا بعض جاہلوں کی طرح ہم یہ کہیں کہ فلاں دن قلم اٹھا لیا جاتا ہے اور گناہ تحریر نہیں ہوتے عقل اس چیز کو قبول نہیں کرتی، کائنات میں مرفوع القلم دیوانے یا بچے ہوا کرتے ہیں لیکن سمجھدار افراد سے تکلیف اٹھا لینا روح اسلام سے سازگار نہیں ہے کیونکہ دین اسلام کا ہدف افراد کی تربیت اور تکامل انسانی ہے جس سے ایک لمحہ کی غفلت صدیوں کا خسران ہے۔ پیغمبر ﷺ فرماتے ہیں: "بعثت لاتمم مکارم الاخلاق" آخر اس حدیث کا معنی کیا ہے؟ کیا یہ حدیث ہمیں اس چیز کی اجازت دیتی ہے کہ ہم جمع ہوکر ایسے امور انجام دیں جو بعثت پیغمبر اسلام ﷺ کے متضاد ہوں، جن کی وجہ سے مقصد بعثت پائمال ہوتا ہو ہمارے دلوں پر جلی حرفوں میں یہ چیز کندہ ہونی چاہئے کہ ہمارے تمام افعال مطابق دین اسلام ہوں۔
اس مبارک دن جو اہم گفتگو آپ کے حضور میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم سب نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے موقع پر خوشحال ہیں اس دن صرف شیعوں کی عید نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کی عید ہے، ہمیں اس مبارک دن صرف خوشیاں ہی نہیں منانی چاہئے بلکہ اس حدیث کی روشنی "احیوا امرنا" ایک اہم فریضۂ دینی کو ادا کرنا چاہئے ؛ امامؑ فرماتے ہیں ہمارے امور کا احیاء کرو۔ ان اہم امور میں سے ایک امر احیائے رسالت ہے جو راہ ولایت میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مقصود گفتگو یہ نہیں کہ ہم مجموعی طور پر ان امور کو فراموش کرچکے ہیں بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جس انداز سے اسے احیاء کرنا ہے اس انداز اور اس شان سے احیاء نہیں کیا جارہا ہے۔
نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ عید میلاد النبیؐ کے موقع پر خوشیاں طبل ونقارہ کی صورت میں منائی جارہی ہیں۔ ایسے شرمناک مناظر ٹیلی ویژن صفحات پر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں آخر ان چیزوں کا مطلب کیا ہے؟ ان بیہودہ افعال کی وابستگی میلاد النبی ﷺ سے کیا ہے؟ کیا ہمیں حضرتؐ سے شرم نہیں آتی؟ آیا یہ طبل و نقارے "احیوا امرنا" کا مصداق ہیں؟ مصادیق واقعی سے اس قدر فاصلہ کیوں ہے؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت عیسیٰ مسیحؑ کی ولادت کے موقع پر جو اوائل دی ماہ (شمسی مہینہ کا نام) میں ہے دنیا میں کس قدر خوشیاں منائی جاتی ہیں یہاں تک کہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی اسی تاریخ کے مطابق اداری امور انجام پاتے ہیں، اسلامی ممالک اپنے اداری امور عیسوی تاریخ کے مطابق انجام دیتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ ایران اسلامی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض تالیفات کا سن طباعت میلادی تاریخ کے مطابق ثبت کیا جاتا ہے۔
ہم حضرت مسیح کے مخالف نہیں ہیں، ان کی عظمت کے منکر بھی نہیں؛ ہم ان کی نبوت کے معتقد ہیں لیکن اسلامی فرامین کے مطابق۔
میرا سوال یہ ہے کہ آیا جس طرح حضرت مسیح کی ولادت کے ایام میں اس قدر اہتمام کیا جاتا ہے کیا پیغمبر اسلام ﷺ کے یوم ولادت کو بھی ویسی ہی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے؟ ذرا غور تو کیجئے اس دن کا عیسائیوں نے کس طرح تعارف کرایا ہے کہ ایرانی مملکت کے صدر بھی تہنیت و تبریک پیش کرتے ہیں۔
وہیں حضرت ختمی مرتبت کی ولادت کے موقع پر یہ سوال ذہن و دل کو جھنجھوڑتے ہیں کہ ہم نے اس دن کی عظمت کا اعلان کس طرح کیا؟ ہم نے اس دن کا تعارف عالم انسانیت سے کرایا یا نہیں؟ کیا ہم نے دنیا کو بتایا کہ یہ دن روح کائنات حضرت ختمی مرتبت ﷺ کی ولادت کا دن ہے؟
ہاں! اگر ہم نے خوشیاں بھی منائی تو ایسی جو روح اسلام سے سازگار نہیں ہیں اگر مجھ میں توانائی ہوتی تو کم از کم قم کی مقدس سرزمین پر حضرتؐ کے یوم ولادت کا جشن اسی طرح مناتا جس طرح منانے کا حق ہے۔
ہم ایام عزاء میں سرمایہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتے یہ بہت اچھی بات ہے لیکن انصاف سے بتائیے کیا عاشورا کی بازگشت حضرتؐ کی جانب نہیں ہے؟ آخر کیوں ہم اس حد تک غافل ہیں؟ آخر ہم نے اس مبارک دن کو اس کے شایان شان کیوں نہیں منایا؟
آج ہمارے جوان مسیحی ہورہے ہیں لیکن ہم خوابِ غفلت میں ہیں۔ ابھی چند دنوں پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک معزز شخص میرے پاس تشریف لائے تھے انہوں نے بتایا کہ ان کا داماد مسیحی ہوچکا ہے، انہوں نے ایک مفصل داستان اس سلسلہ میں بیان کیا کہ وہ لوگ کیا کرتے ہیں۔
بعض شہروں میں ایسی نوٹوں کو گھروں کے اندر ڈالا جاتا ہے جس کے ایک طرف ہزار تومان تحریر ہوتا ہے اور دوسری طرف ان کے اس طرح کے پیغامات کہ مسیح آئیں گے اور یہ کریں گے وغیرہ۔۔۔
یہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے کہ اگر ہمارے جوانوں کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے نبیؐ کی ولادت کے موقع پر کیسے کیسے غیر معمولی واقعات پیش آئے تو وہ اتنی آسانی سے مسیحی نہ ہوں اور دین اسلام سے روگردان نہ ہوں۔
ہم نے کب بیان کیا کہ حضرتؐ کی ولادت کے موقع پر طاق کسریٰ کی کیا حالت ہوئی، ہزار سالہ آتشکدہ کس طرح خاموش ہوا، دریاچۂ ساوہ خشک ہوگیا، وادیٔ ساوہ (ایک جگہ جو شام و کوفہ کے درمیان واقع ہے) میں کس طرح آب رواں ہوا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم نے بیان نہیں کیا، لیکن کم بیان کیا ہے۔ ہم نے ان امور کی وضاحت نہیں کی اگر ہم نے صحیح طریقے سے بیان کیا ہوتا تو کبھی اس طرح کی ہزیمت ہمارے جوانوں کو اٹھانا نہ پڑتی۔ ہماری تحریریں اس سلسلے میں بہت کم ہیں۔ ہمارے بیانات قاصر اور کم رونق ہیں۔ ہم نے صرف مدحیہ اشعار پر اکتفاء کیا ہے ہمارے اشعار کے مضامین بھی کبھی ایسے ہوتے ہیں کہ شرمندگی ہوتی ہے۔
ایک دن ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ ان دنوں اس طرح کے بیانات کی خاطر محافل کا انعقاد کرنا چاہئے میں نے ان سے کہا کہ میری بھی یہی خواہش ہے لیکن ذرا انصاف سے بتائیے کہ کتنے لوگ اس طرح کی محافل میں شرکت کریں گے؟
نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس ماہ ربیع میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو ہمارے نبی ﷺ کے شایان شان ہو۔
ہاں! یہ بات میڈیا کے ذریعے ضرور سننے میں آئی ہے کہ اوائل فروردین (شمسی مہینہ) میں عید باستانی کی مناسبت سے چودہ میلیار اس ام اس ردّ و بدل ہوئے۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم کل کیا کرتے ہیں (حضرتؐ کی ولادت کا دن) آخر ہم کل ٹیلیفون پر ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں یا نہیں؟ آخر اس خبر کو میڈیا بیان کرتی ہے یا نہیں؟
اگر آنے والے دن کے اس ام اس (sms) کی تعداد کو بھی بتایا جائے تو بہتر ہوتا لیکن کیا کیا جائے ان امور پر تشویق و ترغیب نہیں ہوتی۔
انشاء اللہ المستعان آپ تمامی حضرات ان دنوں اس امر خیر کی ترویج میں کوتاہی نہیں کریں گے اور ایک پرشکوہ جشن کا انعقاد فرمائیں گے۔ و صلی اللہ علیٰ محمد و آلہ الطاھرین۔

Add new comment