خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قذافی ۔۔۔

 نذر حافی

nazarhaffi@yahoo.com

۷جنوری ۱۹۴۳ء کولیبیا میں  پیدا ہونے والا یہ سورما جو اپنے آپ کو امیرالمومنین بھی کہتاہےگزشتہ ۴۲ سالوں سے  عالم اسلام کے سینے پر مونگ دل رہاہے۔ ۱۹۶۹ سے لے کر اب تک بہت زیادہ مونگ دلنے کے باعث اکثر اس کے پیٹ میں اسلامی ہمدردی کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں ۔اس کے سامنے جب بھی بات فلسطین کی چھڑےیا کشمیر کی ،عالم اسلام کے غم میں اسے کچھ ہوش نہیں رہتاکہ وہ کیا کہے جارہاہے،جیساکہ ۳۰مارچ ۲۰۰۹ کو عرب سربراہوں کے اکیسویں اجلاس میں اس نے برملا عرب سربراہوں کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ  مجھ جیسے عالم اسلام کے عظیم لیڈر  اور امیرالمومنین کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ تم جیسے دو ٹکے کے لوگوں ساتھ مل بیٹھے۔موصوف کو عالم اسلام کے دو ٹکے کے سربراہوں کے ساتھ بٹھانے کے چکر میں لبنان کے رہنما موسی صدر نے ۱۹۷۸میں لیبیا کا دورہ کیا تو یہ ان کا آخری دورہ ثابت ہوا۔بین الاقوامی اداروں سے لے کر دو ٹکے کے لیڈروں سمیت سب نے اپنی تن من کی بازی لگادی لیکن اس امیرالمومنین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے موسی صدر کے بارے میں کو ئی راز نہیں اگلا۔یاد رہے کہ اس نے موسی صدر کو اس وقت اغوا کروا دیا جب اسرائیل کا خاتمہ  نزدیک ہو چکا تھا۔قذافی نے ۱۹۷۸ میں وہی کچھ کیا جو۱۹۷۹میں ایران میں اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد صدام نے کیا تھا۔اگر صدام اور قذافی اس وقت استعمار کی مدد نہ کرتے تو پورا عالم اسلام یوں امریکہ و یورپ کے قدموں میں ڈھیر نہ ہوتا۔ گزشتہ نودنوں سے لیبیاکے لوگ مسلسل احتجاجی مظاہروں میں مصروف ہیں اور قذافی کی تصویروں پر جوتوں کی بارش ہورہی ہے۔اس وقت تک امیرالمومنین کے حکم سے ۲۰۰۰ سے زائد مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے اور۱۵۰ سے زائد سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نہتے مظاہرین پر گولی نہ چلانے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی ہے۔اپنے سرکاری ٹی وی  پر خطاب کرتے ہوئے  گزشتہ دنوں امیرالمومنین قذافی  نے  کہا ہے کہ  وہ قوم کے نہیں بلکہ اقوام کے لیڈر ہیں ،ان کے پیروکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں،انہوں نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ  اپنے مخالفین کو لال بیگوں اور صحرائی چوہوں کی مانند مار ڈالیں۔ظاہر ہے جب اتنے عظیم الشّان امیرالمومنین کے سامنے دوسرے اسلامی سربراہوں کی حیثیت دو ٹکے کی ہے تو ان کے مخالفین کی حیثیت بھی تو لال بیگوں اور صحرائی چوہوں جیسی ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ معمر قذافی کے پیروکار پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ،اس بارے میں ہمیں پوری دنیا کی تو کچھ خبر نہیں البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ موصوف کے پیروکار کسی اور ملک میں ہوں یا نہ ہوں پاکستان میں ضرور ہوں گے چونکہ پاکستان ایک ایسا پیارا ملک ہے کہ یہاں سے ہر کسی کو پیروکارمل جاتے ہیں۔
کرنل قذافی کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ  وہ گھبرائیں نہیں، امیرالمومنین ملا عمر کے جتھے سے لے کر امیرالمومنین ضیا الحق اور صدام تک سب کو یہیں سے پیروکار ملے ہیں ۔یہ وہ سر زمین ہے جہاں سے ہر کانے،لولے لنگڑے،ظالم اور ڈکٹیٹر کو آسانی سے مرید مل جاتے ہیں۔ہمارے ہاں عوام تو عوام ،میڈیا  اور میڈیا سے وابستہ لوگ بھی امیرالمومنین حضرات کے مرید بن جاتےہیں۔ اگرہمارے ہاں کانے امیرالمومنین کا ٹرینڈ چل پڑے تو ہمارا میڈیا بھی کانا ہوجاتاہے اور  تمام حالات و واقعات کو صرف ایک آنکھ سے دیکھتاہے،اسے  نہ بے گناہوں کا خون دکھائی دیتاہے،نہ بے نواوں کے بین سنائی دیتے ہیں،نہ ڈالروں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ شدّت پسندی کا خطرہ  درک ہوتاہے۔
اگر کسی ڈکٹیٹر کے امیرالمومنین بننے کا ٹرینڈ بن جائے تو پھر قلم و کاغذ پر ایک ہی طرز فکر حاکم ہوجاتاہے کہ فلاں اسلام کا شیدائی ہے،اگر فلاں نہ رہاتو ملت کاشیرازہ بکھر جائے گا،مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا،فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل مسٹر قذافی بھی کچھ ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں کہ اگر میں نہیں رہاتوملک ٹوٹ جائے گا،قبائل بکھر جائیں گے،نظم و نسق درہم برہم ہوجائے گا۔۔۔
بغیر کسی تعصب کے آپ ظالموں،آمروں اور بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہر آمر صفت انسان اور متکبر مزاج شخص کی زبان پر یہی کلمات جاری ہوتے ہیں کہ اگر میں نہیں رہا تو سب بکھر جائیں گے۔۔۔شہنشاہ ایران کو بھی یہی گھمنڈ تھا اور پرویزمشرف کو بھی یہی وہم تھا۔
پاکستانی میڈیاسے وابستہ لوگوں کو اب تو سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک ظالموں کو امیرالمومنین بناتے رہیں گے اورڈکٹیٹروں کے قصیدے لکھتے رہیں گے۔کیا ابھی وہ وقت نہیں آگیا کہ  قذافی ،صدام  اور ضیاالحق کے چہرے سے نقاب اور طالبان و القاعدہ کے پس منظر سے پردہ اٹھایاجائے۔پاکستانی میڈیا کب تک خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھتا رہے گا۔

Add new comment