ہدایت کے چراغ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نذر حافی
وعظ و نصیحت کرنے کا شوق توہم میں بچپن سے ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کبھی کبھار تو ہم اپنے سے بڑوں کو بھی نصیحت کر بیٹھتے ہیں، کبھی کبھی صرف اس لئے بھی دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں تاکہ دوسروں کو پتہ چلے کہ ہم علم اور تقوی کی کس معراج پر فائز ہیں۔ ہماری اکثر یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہدایت کا جو چراغ ہمارے سینے میں روشن ہے وہ دوسروں کے سینے میں بھی روشن ہوجائے۔ اس کوشش میں بعض اوقات ہمارے چراغ سے اِدھر اُدھر آگ بھی لگ جاتی ہے لیکن ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں چونکہ ہم تو صرف مثبت پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور ہمارے نزدیک مثبت پہلو یہی ہے کہ تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا عمل ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ چنانچہ ہماری نصیحت ہمیشہ تنقید سے شروع ہوتی ہے اور نیش و نشتر کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے. ہم نے کبھی بھی کسی کو سراہا نہیں بلکہ ہمیشہ دبایا ہے۔ مجموعی طور پرہمارا اپنا زیادہ وقت دوسروں کی خامیاں نکالنے، ان کی باتوں کی نفی کرنے اور انہیں نیچا دکھانے میں ہی صرف ہوجاتا ہے۔ کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش میں کبھی کبھار ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم سورج کو چراغ دکھا رہے ہیں البتہ ہمارے ارد گرد کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو ہماری طرح فقط گفتار کے غازی نہیں ہیں۔ ان کے عمل سے ہدایت کے چراغ جلتے ہیں، ان کے نقش قدم سے زمانہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور ان کا کردار ہی وعظ و نصیحت ہوتا ہے۔
ایسے مردان باصفا اللہ کے بندوں کے درمیان عام سے لوگ ہوتے ہیں، سادہ سی زندگی بسر کرتے ہیں اور ساری زندگی اپنے آپ کو دین کا رہبر سمجھنے کے بجائے خادم ہی سمجھتے رہتے ہیں۔
ان لوگوں میں سے ایک بڑا نام شہید عبدالحسین برونسی کا بھی ہے۔ شہید برونسی ایران میں تربت حیدریہ کے نزدیک گلبوی کدکن نامی گاوں میں ۱۳۲۱ش میں پیدا ہوئے۔
کفر اور طاغوت کے ساتھ ٹکرانے کی سوچ بچپن سے ہی ان کی روح میں رچی بسی تھی۔ اس بناء پر انہوں نے چوتھی جماعت میں ہی ایک طاغوتی استاد کے کرتوتوں نیز سکول کے غیر مناسب ماحول کے باعث سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔
۱۳۴۱ میں انہیں دین کی پابندی کرنے کے جر م میں سرکار نے طلب کیا اور وہیں سے طاغوتی افسروں اور فوجیوں کے ہاتھوں ان کی توہین اور اذیت کی ابتداء ہوئی۔
۱۳۴۷ش ان کی شاد ی کا سال ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مذہبی اور روحانی خاندان کا انتخاب کیا۔ یہیں سے ملک پر مسلط طاغوتی نظام کے خلاف ان کی منسجم اور مسلسل جدوجہد کا از سرِ نو آغاز ہوا۔
پہلوی حکومت کے اصلاحات ارضی جیسے فراڈوں کے خلاف ان کے اعتراضات نے زور پکڑا تو نتیجتاً انہیں اور ان کے خاندان کو مشہد مقدس میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ اس سے بھی ان کی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔
کچھ مدت کے بعد انہوں نے اپنے مقدس ہدف کے ساتھ مستریوں کا سخت اور تھکا دینے والا کام شروع کیا ۔بعد ازاں ان کی طاغوت مخالف سرگرمیوں میں شدت آنے،پے در پے زندان جانے،ساواک کے ظالمانہ شکنجوں نیز انقلاب اسلامی کی کامیابی اور ان کے سپاہِ پاسداران میں شامل ہونے جیسے واقعات ان کی درس و تدریس اور مستریوں کے کام میں آڑے آئے۔
جب صدام نے ایران پر حملہ کیا تو جنگ کے ابتدائی دنوں میں وہ محاذ جنگ پر تشریف لے گئے۔یہ دور، ان کی زندگی کی تاریخ میں ایک اور سنہرہ صفحہ بن گیا۔
ان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنا پر انہیں مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں کہ ان میں سے آخری ذمہ داری"۱۸ جواد الائمہ" بٹالین کی سربراہی تھی۔خیبر کی جنگی کاروائی سے پہلے انہیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی۔
اسی ذمہ داری کے ساتھ بدر کی جنگی کاروائی میں وہ ایثار و فدا کاری کی اعلیٰ سرحدوں کو چھوتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
اس با افتخار جرنیل کی شہادت۱۳۶۳/۱۲/۲۳ش کو ہوئی۔ان کی لاش کو ۱۳۶۴/۱۲/۲۳ کو مشہد مقدس میں کفن دفن کی گئی۔
ان کے ایک جاننے والے سید کاظم حسینی نے اپنی یادداشتوں میں ان کا ایک واقعہ کچھ اس طرح نقل کیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ابھی انقلاب کی کامیابی میں تین چار سال رہتے تھے،اُن دنوں میری ایک دکان تھی۔عبدالحسین کی وہیں پر رفت و آمد کے باعث میں انقلاب اور بہت سارے انقلابیوں سے آشنا ہوا۔بہت سارے کاموں اور پروگراموں میں اُنہوں نے ہمیں بھی ہاتھ سے پکڑا اور بقول معروف ہمیں بھی اس طرح کچھ نہ کچھ توفیق نصیب ہوئی،ایک دفعہ اُنہوں نے مجھے کہا کہ سید!میں چاہتا ہوں کہ اس دفعہ تم سے بہت زیادہ کام لوں۔میں نے سوچا کہ پہلے جیسے کاموں کی طرح اس دفعہ بھی کوئی کام ہو گا۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم تو ہروقت پاوں پر تیار کھڑے ہیں ،ابھی بھی تیار کھڑے ہیں۔اُنہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ آج اس قول پر آپ کا پورا اترنا مشکل ہے۔میں نے اُنہیں اطمینان کے ساتھ کہا کہ آزمانے کی کوئی فیس نہیں۔مجھے ازما کر دیکھ لیں۔اُنہوں نے اپنا ہاتھ ترازو کے پلڑے پر رکھا،اپنے جسم کو تھوڑا سا آگے جھکایا اور بولے کہ ایک پرانے لباس کا جوڑا لے لو تاکہ ہم اپنے کام پر نکلیں۔میں نے پوچھا کہ پرانا لباس کس لیئے؟ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پاوں پر تیار کھڑے ہیں تو پھر چون و چرا نہ کریں۔وہ خود مستریوں کا کام کرتے تھے۔میرا خیال تھا کہ مجھے بھی کہیں مٹی گارے کے کام پر لے جانا چاہتے ہیں۔میں نےایک پرانا لباس اُٹھایا ،دکان کا دروازہ بند کیا اور اُن کے ساتھ چل پڑا۔میراگمان درست نکلا،ایک شہنشاہ کے حریفوں میں سے ایک معروف حریف اور عالم دین کے ہاں ہمیں مٹی گارے کا کام ہی کرنا تھا ۔میں نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور اُن کے ساتھ مشغول ہو گیا۔اُن کے کہنے کے مطابق میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکا۔کام کے شروع میں ہی رہ گیا لیکن جان کنی کے عالم میں ہی میں نے دو تین گھنٹے لگائے۔اس کے بعد جا کر میں ایک جگہ بیٹھ گیا۔میں نے تھکاوٹ اور بد حالی کے عالم میں کہا کہ بس اب مجھ سے نہیں ہو سکتا۔وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ میں مٹی ،گارے اور اس طرح کے سخت کام کرنے کا عادی نہیں ہوں ۔شائد اسی وجہ سے انہوں نے مجھ پر زیادہ سختی نہیں کی۔یہاں تک کے جب میں لباس کو تبدیل کر کے باہر پھینکنا چاہتا تھا وہ مسکراتے ہوئے آئے اور مجھے بڑے اچھے طریقے سے الوداع کیا۔اگلے دن دوبارہ میرے پیچھے آئے اور کہنے لگے اپنے کام والے لباس کو اُٹھائیں اور چلیں۔میں ایک لحظے کے لیے خاموش ہو گیا کہ کیا کہوں۔لیکن کچھ دیر بعد میں نے ذرا شوخ انداز میں کہا کہ میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں کہ میں اس طرح کے کام نہیں کر سکتا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے آو چلیں آج تمہیں زیادہ سخت کام نہیں دونگا۔مجھے یہ قطعا پسند نہیں تھا کہ میں اُن کی بات کو ٹالوں لیکن مجھ سے یہ کام ہونے والا بھی نہیں تھا۔میں نے کوئی بہانہ ڈھونڈنے کے لیے اپنے سر پر خارش کرنا شروع کر دیا۔وہ کہنے لگے کہ اس طرح مُس ،مُس کرنے اور سر پر خارش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔جاو لباس اُٹھاو اور چلو۔وہ سنجیدگی اور مضبوطی سے بات کرتے تھے۔میں نے بھی فیصلہ کیا کہ اپنے دل کی بات کو ٹھیک طریقے سے بیان کروں۔میں نے کہا کہ جناب برونسی! اگر میں آوں تو میں کام کم کرتا ہوں ۔اس طرح میرے لیےبھی کوئی زیادہ اجر نہیں ہے اور آپ کے کام میں بھی آڑے آتا ہوں۔اُن کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ختم ہو گئی۔اُنہوں نے مجھے اس وقت اُس ہد ہد کی مثال دی جو اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لا کر آتش نمرود پر گراتا تھا۔ اُنہوں نے میدان عمل میں بہت خوبصورت اور منطقی انداز میں اس مثال کو انقلاب کے ساتھ ربط دیا اور کہنے لگے کہ تم جتنی بھی ان علماء کی خدمت کر سکتے ہو اُس کی اپنی جگہ پر ایک خاص اہمیت ہے۔پھر وہ خاموش ہو گئے۔میں ہمیشہ کی طرح ہمہ تن گوش اُن کی باتوں سے لذت اُٹھا رہا تھا۔اُنہوں نے اپنی باتوں کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ درحقیقت اس وقت علمائے کرام ، اسلام کو زندہ کرنے کے لیے خدمت کر رہے ہیں۔ہماری اُن کے لیے خدمت اور کام خدا اور اسلام کے لیے ہے۔
کیاہم بھی شہید برونسی کی طرح میدان عمل میں کھڑے ہوکر دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں۔ یقینا نہیں، انقلاب اسلامی کی کامیابی اور مسلسل فتوحات کے پیچھے شہید برونسی جیسے مخلصین کی کاوشیں کارفرما ہیں۔ اگر ہم بھی میدان عمل میں کھڑے ہوجائیں تو ہمارے ہاں بھی انقلاب اسلامی آسکتاہے۔ اسلئے کہ انقلاب کسی ملک یا قوم کی ملکیّت نہیں، یہ وہیں پر آتا ہے جہاں کے لوگ خود میدان عمل میں اترتے ہیں۔ انقلاب کھوکھلی نصیحتوں سے نہیں بلکہ عملی میدان سے جنم لیتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اور بڑھتے رہیں یونہی قدم کے نعرے لگانے سے پہلے، ہمیں اپنے قدموں پر بھی ایک نگاہ ڈالنی چاہیے کہ ہمارے قدم کہاں کھڑے ہیں، میدان عمل میں یا میدان عمل سے باہر۔
Add new comment