امام حسنؑ کی زندگی کا خلاصہ
تحریر و ترتیب۔ ایس ایچ بنگش
آپ کی ولادت
آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے ۔ ولادت سےقبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایکٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا
اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہپیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میںآپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامنسے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سورئہ کوثرکیایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔
آپ کانام نامی
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکمخدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اوربعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی
پیدائش کے بعدجبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمیرومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کاکہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے
پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہواتھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھاہوا تھا۔
زبان رسالت دہن امامت میں
علل الشرائع میں ہے کہ جب امام حسن کی ولادت ہوئی اورآپ سرورکائنات کیخدمت میں لائے گئے تو رسول کریم بےانتہا خوش ہوئے اور ان کے دہن مبارکمیں اپنی زبان اقدس دیدی بحارالانور میں ہے کہ آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو
آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں ا قامتفرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسن اسے چوسنے لگے اسکے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا
بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ امام حسن کو لعاب دہن رسول کم اورامام حسین کوزیادہ چوسنے کاموقع دستیاب ہوا تھا اسی لیے امامت نسل حسین میں مستقر ہوگئی۔
آپ کا عقیقہ
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سےعقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی (اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳) ۔
علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیاگیاتھا (مطالب السؤل ص ۲۲۰) کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کےوقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ، لحمہا
بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ“ خدایا اس کیہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کےخون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمدکے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
امام شافعی رح کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسن کاعقیقہ کرکے اس کے سنتہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی (مطالب السؤل ص ۲۲۰) ۔
بعض معاصرین نے لکھا ہے کہ آنحضرت نے آپ کاختنہ بھی کرایا تھا لیکن میرےنزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ امامت کی شان سے مختون پیداہونا بھی ہے۔
کنیت و القاب
آپ کی کنیت صرف ابو محمدتھی اور آپ کے القاب بہت کثیرہیں: جن میںطیب،تقی، سبط اور سید زیادہ مشہور ہیں، محمدبن طلحہ شافعی کابیان ہے کہآپ کا”سید“ لقب خود سرور کائنات کاعطا کردہ ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۱) ۔
زیارت عاشورہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کالقب ناصح اور امین بھی تھا۔
امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن اسلام پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکنقرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیا ہے اوراپنے دامن میں جابجا آپ کےتذکرہ کو جگہ دی ہے خود سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلقارشادفرمائی ہیں:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بھت زیادہ احادیثبیان کی ھیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلامکے بارے میں فرمایا (۷)
”یہ دونوں میرے بیٹے امام ھیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔“ (کنایہ ھےظاھری خلافت کے عھدیدار ھونے یا نہ ھونے کا)۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہالسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی آپ کے والدبزرگوار کی خلافت کے بعد آپ کی جانشینی کے بارے میں بھی بھت زیادہاحادیث موجود ھیں۔( ارشاد مفید )
رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ھوں تو بھی اسکو دوست رکھ" ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت
کے جوانوں کے سردار ھیں۔"ایک دن امام حسن علیہ السلام اپنے نانا کی پشت پر سوار تھے ایک شخص نے
کھا: واہ کیا خوب سواری ھے!
پیغمبر(ص) نے فرمایا: بلکہ کیا خوب سوار ھیں!
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کودوسترکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ
ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیےجارہے ہیں اورباری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہےکہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئےکسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا(اصابہ جلد ۲ ص ۱۲) ۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنےلگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتےدیکھا(نورالابصارص ۱۱۹) ۔
ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیےجارہے تھے ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہےیہ سن کرآنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے (اسدالغابة جلد۳ ص ۱۵ بحوالہ ترمذی)۔
امام بخاری اور امام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسنکوکندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں توبھیاس سے محبت کر ۔ حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعتپڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اوروہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہوگئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپسے اس کاتذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میراگل امید ہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہمیرابیٹا سید ہے اوردیکھو یہ عنقریب دوبڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔
امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاءپڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرتنماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ
سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اسکا ذکر کیا گیا توفرمایا کہ میرافرزندمیری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہچاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اسلیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔
حکیم ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہتھے کہ حسنین آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمینپرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیا اور منبر سے اتر کر انہیں
آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا (مطالبالسؤل ص ۲۲۳) ۔
امام حسن کی سرداری جنت
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہسرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کےوالدبزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرورپاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آججبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کےسردارہیں اور ان کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں (کنزالعمالج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷) اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہحضرت علی صرف سیدہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔
جذبہ اسلام کی فراوانی
مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوکرکہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جسکی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھکہہ چکے ہیں اب اس میں سرموفرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہشکی ،آپ کی عمراگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسیجرائت کاثبوت دیاجس کاتذکرہ زبان تاریخ پر ہے ۔ لکھاہے کہ ابوسفیان کیطلب سفارش پر آپ نے دوڑکر اس کی داڑھی پکڑ لی اورناک مروڑ کر کہا کلمہشہادت زبان پرجاری کرو،تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کرامیرالمومنینمسرور ہو گئے (مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶) ۔
امام حسن اور ترجمانی وحی
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائیکم سنی کے عالم میں اپنے نانا پرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول
میراجی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اورسنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کاوقت بتادیا ۔ ایک دن امیرالمومنینحسن سے پہلے داخل خانہ ہوگئے اورگوشئہ خانہ میں چھپ کربیٹھ گئے۔ امام
حسن حسب معمول تشریف لائے اورماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروعکردی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یااماہ قدتلجلج لسانی وکل بیانی لعلسیدی یرانی“مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اوربیان مقصدمیں رکاوٹہورہی ہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہےہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیااور بوسہ دینے لگے(بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۱۹۳) ۔
ام حسن اور تفسیر قرآن
علامہ ابن طلحہ شافعی بحوالہ تفیر و سیط واحدی لکھتے ہیں کہایک شخص نے ابن عباس اورابن عمرسے ایک آیت سے متعلق ”شاہد و مشہود“ کےمعنی دریافت کئے ابن عباس نے شاہد سے یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ
بتایا اور ابن عمرنے یوم جمعہ اور یوم النحر کہا اس کے بعدوہ شخص امامحسن کے پاس پہنچا، آپ نے شاہدسے رسول خدا اور مشہود سے یوم قیامت فرمایااور دلیل میں آیت پڑھی :
۱ ۔ یاایہاالنبی اناارسلناک شاہدا ومبشرا ونذیرا ۔ائے نبی ہم
نے تم کوشاہد و مبشر اورنذیربناکربھیجاہے ۔
۲ ۔ ذالک یوم مجموع لہ الناس وذالک یوم مشہود۔ قیامت کاوہ دنہوگا جس میں تمام لوگ ایک مقام پرجمع ہوں کردیے جائیں کے، اوریہی یوممشہود ہے ۔ سائل نے سب کاجواب سننے کے بعدکہا ”فکان قول الحسن احسن“ امام
حسن کا جواب دونوں سے کہیں بہترہے (مطالب السؤل ص ۲۲۵) ۔
امام حسن کی عبادت
امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام زبردست عابد، بےمثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھیکبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثرموت، عذاب، قبر، صراط اور بعثت و
نشور کویاد کرکے رویاکرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زردہوجا یاکرتاتھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتےتھے آپ کامعمول تھاکہ جب دروازہ مسجدپرپہنچتے توخدا کو مخاطب کرکے کہتےمیرے پالنے والے تیراگنہگاربندہ تیری بارگاہ میں آیاہے اسے رحمن ورحیماپنے اچھائیوں کے صدقہ میں مجھ جیسے برائی کرنے والے بندہ کومعاف کردے آپجب نماز صبح سے فارغ ہوتے تھے تواس وقت تک خاموش بیٹھے رہتے تھے جب تکسورج طالع نہ ہوجائے (روضة الواعظین بحارالانوار)۔
آپ کازہد
امام شافعی لکھتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے اکثراپناسارامال راہخدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایاہے وہ عظیم وپرہیزگارتھے۔
آپ کی سخاوت
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھمانگادست سوال دراز ہوناتھاکہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاںدے دیں اور فرمایاکہ مزدور لاکراسے اٹھوالے جا اس کے بعدآپ نے مزدورکی
مزدوری میں اپناچغابخش دیا(مراة الجنان ص ۱۲۳) ۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کوخداسے دعاکرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزاردرہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی (نورالابصار ص ۱۲۲) ۔
آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کومحروم واپس نہیںفرماتے ارشادفرمایاکہ میں خداسے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادتڈال رکھی ہے اورمیں نے لوگوں کودینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہاگراپنی عادت بدل دوں، توکہیں خدابھی نہ اپنی عادت بدل دے اورمجھے بھیمحروم کردے (ص ۱۲۳) ۔
توکل کے متعلق آپ کاارشاد
امام شافعی کابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاریفرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماریپسندہے آپ نے فرمایاکہ خدا ابوذر پر رحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میںتویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسیچیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے (مراة الجنان جلد ۱ ص ۱۲۵) ۔
امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں
علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلامگھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروںکاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کوگالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کامطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکاتوآپ اس کے قریب گئے اوراسکوسلام کرکے فرمایاکہ بھائی شایدتومسافرہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورتہوتومیں تجھے سوری دیدوں، اگرتوبھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑےدرکارہوں توکپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کوجگہ چاہئے تو مکان کاانتظامکردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے توتجھے اتنا دیدوں کہ توخوش حال ہوجائے یہسن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپزمین خداپراس کے خلیفہ ہیں مولامیں توآپ کواورآپ کے باپ دادا کوسخت نفرتاورحقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہبنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دورنہ جاؤں گا اورتاحیات آپ کی خدمت
میںرہوں گا (مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶) ۔
شرائط صلح
اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسب ذیل ہیں:
1 ۔ معاویہ حکومت اسلام میں، کتاب خدا اور سنت رسول پرعمل کریں گے۔
2- معاویہ کواپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد کرنے کاحق نہ ہوگا۔
3- شام و عراق و حجاز و یمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی۔
۴- حضرت علی کے اصحاب اور شیعہ جہاں بھی ہیں ان کے جان و مال اور ناموس
اور اولاد محفوظ رہیں گے۔
۵- معاویہ، حسن بن علی اوران کے بھائی حسین ابن علی اور خاندان رسول میں
سے کسی کوبھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں گے نہ خفیہ
طورپراورنہ اعلانیہ، اوران میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایانہیں
جائے گا۔
۶- جناب امیرالمومنین کی شان میں کلمات نازیبا جواب تک مسجد جامع اور
قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردئیے جائیں، آخری شرط کی
منظوری میں معاویہ کو عذرہوا تویہ طے پایاکہ کم از کم جس موقع پر امام
حسن علیہ السلام موجودہوں اس جگہ ایسانہ کیاجائے، یہ معاہدہ ربیع الاول
یاجمادی الاول۴۱ ء ہجری کوعمل میں آیا۔
صلح نامہ پردستخط
۲۵/ ربیع الاول کو کوفہ کے قریب مقام انبارمیں فریقین کااجتماع ہوا
اور صلح نامہ پردونوں کے دستخط ہوئے اورگواہیاں ثبت ہوئیں (نہایة الارب
فی معرفتہ انساب العرب ص ۸۰)
اس کے بعد معاویہ نے اپنے لیے عام بیعت کااعلان کردیااوراس سال
کانام سنت الجماعت رکھا پھرامام حسن کوخطبہ دینے پرمجبورکیا آپ
منبرپرتشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا:
”ائے لوگوں خدائے تعالی نے ہم میں سے اول کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کی
اورآخرکے ذریعہ سے تمہیں خونریزی سے بچایا معاویہ نے اس امرمیں مجھ سے
جھگڑاکیاجس کامیں اس سے زیادہ مستحق ہوں لیکن میں نے لوگوں کی خونریزی کی
نسبت اس امرکو ترک کردینا بہتر سمجھا تم رنج و ملال نہ کروکہ میں نے
حکومت اس کے نااہل کودے دی اوراس کے حق کوجائے ناحق پررکھا، میری نیت اس
معاملہ میں صرف امت کی بھلائی ہے یہاں تک فرمانے پائے تھے کہ معاویہ نے
کہا”بس ائے حضرت زیادہ فرمانے کی ضرورت نہیں ہے“ (تاریخ خمیس جلد ۲ ص
۳۲۵) ۔
تکمیل صلح کے بعد امام حسن نے صبر و استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان
تمام ناخوشگوار حالات کوبرداشت کیا اور معاہدہ پرسختی کے ساتھ قائم رہے
مگر ادھر یہ ہواکہ امیرشام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدارکے
مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہوکرنخیلہ میں جسے کوفہ کی سرحد سمجھنا
چاہئے، قیام کیا اور جمعہ کے خطبہ کے بعد اعلان کیاکہ میرا مقصد جنگ سے
یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو روزے رکھنے لگو، حج کرو یا زکواة
اداکرو، یہ سب توتم کرتے ہی ہومیرا مقصد تویہ تھاکہ میری حکومت تم پرمسلم
ہوجائے اوریہ مقصدمیراحسن کے اس معاہدہ کے بعدپوراہوگیا اورباوجودتم
لوگوں کی ناگواری کے میں کامیاب ہوگیا رہ گئے وہ شرائط جومیں نے حسن کے
ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچےہیں ان کاپوراکرنا یانہ کرنا میرے
ہاتھ کی بات ہے یہ سن کرمجمع میں ایک سناٹاچھاگیا مگراب کس میں دم تھا کہ
اس کے خلاف زبان کھولتا۔
شرائط صلح کاحشر
مورخین کااتفاق ہے کہ امیرمعاویہ جومیدان سیاست کے کھلاڑی اور مکر و زور
کی سلطنت کے تاجدار تھے امام حسن سے وعدہ اور معاہدہ کے بعد ہی سب سے مکر
گئے ”ولم یف لہ معاویة لشئی مماعاہد علیہ“ تاریخ کامل ابن اثیرجلد ۳ ص
۱۶۲ میں ہے کہ معاویہ نے کسی ایک چیزکی بھی پرواہ نہ کی اورکسی پرعمل نہ
کیا، امام ابوالحسن علی بن محمدلکھتے ہیں کہ جب معاویہ کے لیے امر سلطنت
استوراہوگیاتواس نے اپنے حاکموں کوجو مختلف شہروں اور علاقوں میں تھے یہ
فرمان بھیجاکہ اگرکوئی شخص ابوتراب اوراس کے اہل بیت کی فضیلت کی روایت
کرے گاتومیں اس سے بری الذمہ ہوں، جب یہ خبرتمام ملکوں میں پھیل گئی اور
لوگوں کو معاویہ کامنشاء معلوم ہوگیاتوتمام خطیبوں نے منبروں پر سب و شتم
اور منقصت امیرالمومنین پرخطبہ دینا شروع کردیا کوفہ میں زیادابن ابیہ
جوکئی برس تک حضرت علی علیہ السلام کے عہدمیں ان کے عمال میں رہ چکاتھا
وہ شیعیان علی کواچھی طرح سے جانتاتھا ۔ مردوں،عورتوں، جوانوں، اوربوڑھوں
سے اچھی طرح آگاہ تھا اسے ہرایک رہائش اورکونوں اورگوشوں میں بسنے والوں
کاپتہ تھا اسے کوفہ اوربصرہ دونوں کاگورنربنادیاگیاتھا۔
اس کے ظلم کی یہ حالت تھی کہ شیعیان علی کوقتل کرتااوربعضوں کی آنکھوں
کوپھوڑدیتا اور بعضوں کے ہاتھ پاؤں کٹوادیتاتھا اس ظلم عظیم سے سینکڑوں
تباہ ہوگئے، ہزاروں جنگلوں اورپہاڑوں میں جاچھپے، بصرہ میں آٹھ ہزار
آدمیوں کاقتل واقع ہواجن میں بیالیس حافظ اورقاری قرآن تھے ان پرمحبت علی
کاجرم عاید کیاگیا تھا حکم یہ تھا کہ علی کے بجائے عثمان کے فضائل بیان
کئے جائیں اورعلی کے فضائل کے متعلق یہ فرمات تھاکہ ایک ایک فضیلت کے عوض
دس دس منقصت ومذمت تصنیف کی جائیں یہ سب کچھ امیرالمومنین سے بدلالینے
اور یزیدکے لیے زمین خلافت ہموارکرنے کی خاطرتھا۔
کوفہ سے امام حسن کی مدینہ کوروانگی
صلح کے مراحل طے ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام اپنے بھائی امام حسین
علیہ السلام اور عبداللہ ابن جعفر اور اپنے اطفال و عیال کولے کر مدینہ
کی طرف روانہ ہوگئے تاریخ اسلام مسٹر ذاکرحسین کی جلد ۱ ص ۳۴ میں ہے کہ
جب آپ کوفہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے تومعاویہ نے راستہ میں ایک پیغام
بھیجااوروہ یہ تھا کہ آپ خوارج سے جنگ کرنے کے لیے تیارہوجائیں کیونکہ
انہوں نے میری بیعت ہوتے ہی پھرسرنکالاہے امام حسن نے جواب دیا کہ اگر
خونریزی مقصودہوتی تومیں تجھ سے صلح کیوں کرتا۔
جسٹس امیرعلی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ خوارج ابوبکر اور عمر
کومانتے اور حضرت علی علیہ السلام اور عثمان غنی کونہیں تسلیم کرتے تھے
اوربنی امیہ کومرتد کہتے تھے۔
صلح حسن اور اس کے وجوہ و اسباب
استاذی العلام حضرت علامہ سیدعدیل اختر اعلی اللہ مقامہ (سابق پرنسپل
مدرسة الواعظین لکھنؤ) اپنی کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن کے ص ۱۵۸ میں
تحریر فرماتے ہیں :
امام حسن کی پالیسی بلکہ جیساکہ باربارلکھاجاچکاہے کل اہلبیت کی
پالیسی ایک اورصرف ایک تھی (دراسات اللبیب ص ۲۴۹) ۔وہ یہ کہ حکم خدا اور
حکم رسول کی پابندی انہیں کے احکام کااجراء چاہئے، اس مطلب کے لیے
جوبرداشت کرناپڑے، مذکورہ بالاحالات میں امام حسن کے لیے سوائے صلح
کیاچارہ ہوسکتاتھا اس کوخود صاحبان عقل سمجھ سکتے ہیں کسی استدلال کی
چنداں ضرورت نہیں ہے یہاں پرعلامہ ابن اثیرکی یہ عبارت (جس کاترجمہ درج
کیاجاتاہے) قابل غورہے:
”کہاگیاہے کہ امام حسن نے حکومت معاویہ کواس لیے سپردکی کہ جب معاویہ نے
خلافت حوالے کرنے کے متعلق آپ کوخط لکھااس وقت آپنے خطبہ پڑھا اورخداکی
حمدوثناکے بعدفرمایاکہ دیکھوہم کوشام والوں سے اس لیے نہیں دبناپڑرہاہے
(کہ اپنی حقیقت میں) ہم کوکوئی شک یاندامت ہے بات توفقط یہ ہے کہ ہم اہل
شام سے سلامت اورصبرکے ساتھ لڑرہے تھے مگراب سلامت میں عداوت اورصبرمیں
فریاد مخلوط کردی گئی ہے جب تم لوگ صفین کوجارہے تھے اس وقت تمہارادین
تمہاری دنیاپرمقدم تھا لیکن اب تم ایسے ہوگئے ہوکہ آج تمہاری دنیاتمہارے
دین پرمقدم ہوگئی ہے اس وقت تمہارے دونوں طرف دوقسم کے مقتول ہیں ایک
صفین کے مقتول جن پررورہے ہودوسرے نہروان کے مقتول جن کے خون کابدلہ
لیناچاہ رہے ہوخلاصہ یہ کہ جوباقی ہے وہ ساتھ چھوڑنے والاہے اورجورورہاہے
وہ توبدلہ لیناہی چاہتاہے خوب سمجھ لوکہ معاویہ نے ہم کوجس امرکی دعوت دی
ہے نہ اس میں عزت ہے اورنہ انصاف ، لہذا اگرتم لوگ موت پرآمادہ ہوتوہم اس
کی دعوت کوردکردیں اورہمارااوراس کافیصلہ خداکے نزدیک بھی تلوارکی باڑھ
سے ہوجائے اوراگرتم زندگی چاہتے ہوتوجواس نے لکھاہے مان لیاجائے
اورجوتمہاری مرضی ہے ویساہوجائے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے لوگوں نے
چلاناشروع کردیابقابقا، صلح صلح، (تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۲) ۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ کیااب بھی امام حسن کے لیے یہ رائے ہے
کہ صلح نہ کریں ان فوجیوں کے بل بوتے پر(اگرایسوں کہ فوج اوران کی قوتوں
کوبل بوتا کہاجاسکے) لڑائی زیباہے ہرگزنہیں ایسے حالات میں صرف یہی چارہ
تھاکہ صلح کرکے اپنی اوران تمام لوگوں کی زندگی تومحفوظ رکھیں جودین رسول
کے نام لیوا اورحقیقی پیروپابندتھے ،اس کے علاوہ پیغمبراسلام کی پیشین
گوئی بھی صلح کی راہ میں مشعل کاکام کررہی تھی (بخاری) علامہ
محمدباقرلکھتے ہیں کہ حضرت کواگرچہ کی وفائے صلح پراعتماد نہیںتھالیکن آپ
نے حالات کے پیش نظرچاروناچاردعوت صلح منظورکرلی (دمعئہ ساکبہ)۔
حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت
مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین
ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی
کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان
کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی، چنانچہ انہوں نے ۵/ بارآپ
کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ
روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے
جعدہ بنت اشعث کے پاس امیرمعاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن
شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے
یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے ہلاک
کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ،
ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص
۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔
مفسرقرآن صاحب تفسیر حسینی علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسن
مصالحہ معاویہ کے بعدمدینہ میں مستقل طورپرفروکش ہوگئے تھے آپ کواطلاع
ملی کہ بصرہ میں رہنے والے محبان علی کے اوپرچنداوباشوں نے شبخون مارکران
کے ۳۸ آدمی ہلاک کردئیے ہیں امام حسن اس خبرسے متاثرہوکربصرہ کے لیے
روانہ ہوگئے آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن عباس بھی تھے ،راستے میں بمقام
موصلی سعدموصلی جوجناب مختارابن ابی عبیدہ ثقفی کے چچاتھے کے وہاں قیام
فرمایا اس کے بعدوہاں سے روانہ ہوکردمشق سے واپسی پرجب آپ موصل پہنچے
توباصرارشدیدایک دوسرے شخص کے ہاں مقیم ہوئے اوروہ شخص معاویہ کے فریب
میں آچکاتھا اورمال ودولت کی وجہ سے امام حسن کوزہردینے کاوعدہ کرچکاتھا
چنانچہ دوران قیام میں اس نے تین بارحضرت کوکھانے میں زہردیا، لیکن آپ بچ
گئے ۔
امام کے محفوظ رہ جانے سے اس شخص نے معاویہ کوخط لکھا کہ تین بارزہردیے
چکاہوں مگر امام حسن ہلاک نہیں ہوئے یہ معلوم کرکے معاویہ نے زہر ہلاہل
ارسال کیا اورلکھاکہ اگراس کاایک قطرہ بھی تودے سکاتویقینا امام حسن ہلاک
ہوجائیں گے نامہ برزہراورخط لیے ہوئے آرہاتھا کہ راستے میں ایک درخت کے
نیچے کھاناکھاکرلیٹ گیا ،اس کے پیٹ میں درداٹھا کہ وہ برداشت نہ
کرسکاناگاہ ایک بھیڑیابرامد ہوا اوراسے لے کر رفوچکرہوگیا، اتفاقا امام
حسن کے ایک ماننے والے کااس طرف سے گزرہوا، اس نے ناقہ، اورزہر سے
بھرہوئی بوتل حاصل کرلی اور امام حسن کی خدمت میںپیش کیا،امام علیہ
السلام نے اسے ملاحظہ فرما کرجانماز کے نیچے رکھ لیاحاضرین نے واقعہ
دریافت کیاامام نے نہ بتایا۔
سعدموصلی نے موقع پاکرجانمازکے نیچے سے وہ خط نکال لیاجومعاویہ کی طرف
سے امام کے میزبان کے نام سے بھیجاگیاتھا خط پڑھ کر سعدموصلی آگ بگولہ
ہوگئے اورمیزبان سے پوچھاکیامعاملہ ہے، اس نے لاعلمی ظاہرکی مگراس کے
عذرکوباورنہ کیاگیا اوراس کی زدوکوب کی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا اس
کے بعدآپ روانہ مدینہ ہوگئے۔
مدینہ میں اس وقت مروان بن حکم والی تھا اسے معاویہ کاحکم تھاکہ جس
صورت سے ہوسکے امام حسن کوہلاک کردو مروان نے ایک رومی دلالہ جس کانام
”الیسونیہ“ تھا کوطلب کیااوراس سے کہا کہ تو جعدہ بنت اشعث کے پاس
جاکراسے میرایہ پیغام پہنچادے کہ اگرتوامام حسن کوکسی صورت سے شہید کردے
گی توتجھے معاویہ ایک ہزاردینارسرخ اورپچاس خلعت مصری عطاکرے گا اوراپنے
بیٹے یزیدکے ساتھ تیرا عقد کردے گا اوراس کے ساتھ ساتھ سودینا نقد بھیج
دئیے دلالہ نے وعدہ کیا اور جعدہ کے پاس جاکراس سے وعدہ لے لیا، امام حسن
اس وقت گھرمیں نہ تھے اوربمقام عقیق گئے ہوئے تھے اس لیے دلالہ کوبات چیت
کااچھاخاصا موقع مل گیا اوروہ جعدہ کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔
الغرض مروان نے زہربھیجااورجعدہ نے امام حسن کوشہدمیں ملاکر
دیدیا امام علیہ السلام نے اسے کھاتے ہی بیمارہوگیے اورفوراروضہ رسول
پرجاکر صحت یاب ہوئے زہرتوآپ نے کھالیا لیکن جعدہ سے بدگمان بھی ہوگئے،
آپ کوشبہ ہوگیا جس کی بناپرآپ نے اس کے ہاتھ کاکھاناپیناچھوڑدیااوریہ
معمول مقررکرلیاکہ حضرت قاسم کی ماں یاحضرت امام حسین کے گھرسے
کھانامنگاکرکھانے لگے ۔
تھوڑے عرصہ کے بعد آپ جعدہ کے گھرتشر یف لے گئے اس نے کہاکہ
مولا حوالی مدینہ سے بہت عمدہ خرمے آئے ہیں حکم ہوتوحاضرکروں آپ چونکہ
خرمے کوبہت پسندکرتے تھے فرمایالے آ،وہ زہرآلودخرمے لے کرآئی اورپہچانے
ہوئے دانے چھوڑکرخودساتھ کھانے لگی امام نے ایک طرف سے کھانا شروع کیا
اوروہ دانے کھاگئے جن میں زہرتھا اس کے بعد امام حسین کے گھر تشریف لائے
اورساری رات تڑپ کربسرکی، صبح کوروضة رسول پرجاکردعامانگی اور صحتیاب
ہوئے_
امام حسن نے بارباراس قسم کی تکلیف اٹھانے کے بعداپنے بھائیوں سے تبدیلی
آب وہواکے لیے موصل جانے کامشورہ کیااورموصل کے لیے روانہ ہوگئے، آپ کے
ہمراہ حضرت عباس اورچند ہواخواہان بھی گئے، ابھی وہاں چندیوم نہ گزرے تھے
کہ شام سے ایک نابینا بھیج دیاگیا اوراسے ایک ایسا عصادیاگیاجس کے نیچے
لوہالگایاہواتھا جوزہرمیں بجھاہواتھا اس نابینا نے موصل پہنچ کر امام حسن
کے دوستداران میں سے اپنے کوظاہرکیا اورموقع پاکر ان کے پیرمیں اپنے
عصاکی نوک چبھودی زہرجسم میں دوڑگیا اور آپ علیل ہوگئے، جراح علاج کے لیے
بلایاگیا، اس نے علاج شروع کیا، نابینا زخم لگاکر روپوش ہوگیاتھا، چودہ
دن کے بعدجب پندرہویں دن وہ نکل کرشام کی طرف روانہ ہواتو حضرت عباس
علمدارکی اس پرنظرجاپڑی آپ نے اس سے عصاچھین کراس کے سرپراس زورسے ماراکہ
سرشگافتہ ہوگیااوروہ اپنے کیفروکردارکوپہنچ گیا ۔
اس کے بعد جناب مختار اوران کے چچا سعد موصلی نے اس کی لاش
جلادی چنددنوں کے بعدحضرت امام حسن مدینہ منورہ واپس تشریف لے گئے۔
مدینہ منور میں آپ ایام حیات گزاررہے تھے کہ ”ایسونیہ“ دلالہ
نے پھرباشارئہ مروان جعدہ سے سلسلہ جنبائی شروع کردی اورزہرہلاہل اسے دے
کرامام حسن کاکام تمام کرنے کی خواہش کی، امام حسن چونکہ اس سے بدگمان
ہوچکے تھے اس لےے اس کی آمدورفت بندتھی اس نے ہرچندکوشش کی لیکن موقع نہ
پاسکی بالآخر، شب بست وہشتم صفر ۵۰ کووہ اس جگہ جاپہنچی جس مقام پرامام
حسن سورہے تھے آپ کے قریب حضرت زینب وام کلثوم سورہی تھیں اورآپ کی
پائیتی کنیزیں محوخواب تھیں، جعدہ اس پانی میں زہرہلاہل ملاکرخاموشی سے
واپس آئی جوامام حسن کے سرہانے رکھاہواتھا اس کی واپسی کے تھوڑی دیربعدہی
امام حسن کی آنکھ کھلی آپ نے جناب زینب کوآوازدی اورکہا ائے بہن، میں نے
ابھی ابھی اپنے نانااپنے پدر بزرگوار اور اپنی مادرگرامی کوخواب میں
دیکھاہے وہ فرماتے تھے کہ اے حسن تم کل رات ہمارے پاس ہوگے، اس کے بعدآپ
نے وضوکے لیے پانی مانگااورخوداپناہاتھ بڑھاکرسرہانے سے پانی لیا اورپی
کرفرمایاکہ اے بہن زینب ”این چہ آپ بودکہ ازسرحلقم تابناقم پارہ پارہ شد“
ہائے یہ کیساپانی ہے جس نے میرے حلق سے ناف تک ٹکڑے ٹکڑے کردیاہے اس کے
بعدامام حسین کواطلاع دی گئی وہ آئے دونوں بھائی بغل گیرہوکرمحوگریہ
ہوگئے، اس کے بعدامام حسین نے چاہاکہ ایک کوزہ پانی خودپی کرامام حسن کے
ساتھ ناناکے پاس پہنچیں، امام حسن نے پانی کے برتن کوزمین پرپٹک دیاوہ
چورچورہوگیاراوی کابیان ہے کہ جس زمین پرپانی گراتھا وہ ابلنے لگی تھی ۔
الغرض تھوڑی دیرکے بعد امام حسن کوخون کی قے آنے لگی آپ کے جگرکے
سترٹکڑے طشت میں آگئے آپ زمین پرتڑپنے لگے، جب دن چڑھاتوآپ نے امام حسین
سے پوچھاکہ میرے چہرے کارنگ کیساہے ”سبز“ ہے آپ نے فرمایاکہ حدیث معراج
کایہی مقتضی ہے، لوگوں نے پوچھاکہ مولاحدیث معراج کیاہے فرمایاکہ شب
معراج میرے نانا نے آسمان پر دو قصر ایک زمردکا، ایک یاقوت سرخ
کادیکھاتوپوچھاکہ ائے جبرئیل یہ دونوں قصرکس کے لیے ہیں، انہوں نے عرض کی
ایک حسن کے لیے اوردوسرا حسین کے لیے پوچھادونوں کے رنگ میں فرق کیوں ہے؟
کہاحسن زہرسے شہیدہوں گے اورحسین تلوارسے شہادت پائیں گے یہ کہہ کرآپ سے
لپٹ گئے اوردونوں بھائی رونے لگے اورآپ کے ساتھ درودیواربھی رونے لگے۔
اس کے بعدآپ نے جعدہ سے کہا افسوس تونے بڑی بے وفائی کی، لیکن یادرکھ
کہ تونے جس مقصد کے لیے ایساکیاہے اس میں کامیاب نہ ہوگی اس کے بعد آپ نے
امام حسین اوربہنوں سے کچھ وصیتیں کیں اور آنکھیں بندفرمالیں پھرتھوڑی
دیرکے بعدآنکھ کھول کرفرمایاائے حسین میرے بال بچے تمہارے سپرد ہیں
پھربند فرما کرناناکی خدمیں پہنچ گئے ”اناللہ واناالیہ راجعون“ ۔
امام حسن کی شہادت کے فورا بعدمروان نے جعدہ کواپنے پاس بلاکردو عورتوں
اور ایک مرد کے ساتھ معاویہ کے پاس بھیج دیامعاویہ نے اسے ہاتھ پاؤں
بندھواکردریائے نیل میں یہ کہہ کرڈلوادیاکہ تونے جب امام حسن کے ساتھ وفا
نہ کی، تویزیدکے ساتھ کیاوفاکرے گی(روضة الشہداء ص ۲۲۰ تا ۲۳۵ طبع بمبئی
۱۲۸۵ ءء وذکرالعباس ص ۵۰ طبع لاہور ۱۹۵۶ ءء۔
Add new comment