مظلومیت کا کرتہ

تحریر: علی رضا صالحی

اسٹال پر اخبار دیکھ کر میں نے ایک اخبار اٹھا لیا مگر شہ سرخی پر نظر پڑتے ہی جھٹک کر پھینک دیا، مجھے جھرجھری سی آنے لگی اور مال روڈ پر چلتے ہوئے مجھے خوف سا آنے لگا۔ آج پھر سانحہ راولپنڈی کی آڑ میں راولپنڈی اور گلگت بلتستان کے مومنین کو ہراساں کیا جا رہا تھا۔ آخر یہ حکومتی ذمہ دار سب کچھ جاننے کے باوجود کیوں ہاتھ دھو کر بےگناہوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟ کون نہیں جانتا کہ عاشورا کے دن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جلوس عزا کے پرامن شرکاء پر حملہ کیا گیا، بےبنیاد الزامات لگائے گئے، تہمت طرازیاں کی گئیں اور پھر بلاجواز اور ثبوت کے کئی بےگناہوں کو محض تکفیری اقلیتی ٹولے کی خوشنودی کی خاطر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ عدالت و انصاف کا کیسا معیار ہے کہ جو عناصر آج تک وطن عزیز میں شدت پسندی، دہشت گردی، تکفیر بازی، تفرقہ، بدامنی، قتل و غارت اور پاک فوج پر حملوں کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ صرف چند جھوٹی اور بےبنیاد تصویریں دکھا کر مظلومیت کا کرتہ پہنے ہوئے ہیں اور وطن عزیز کی خاطر بےمثال، لازوال اور بےلوث تاریخی وفاداری نبھانے والوں کو ناکردہ جرم کی کڑیاں پہنائی گئیں۔

اے کرسی نشینو!
لگتا ہے آپ بہت ہی بھولے ہیں یا حد سے زیادہ شاطر ۔۔۔!
نہیں تو آپ وطن عزیز کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے والی اس سازش کا حصہ نہ بنتے۔ پاکستان کے اندر ملتِ تشیع کی تاریخ وطن کے استحکام، تحفظ اور ترقی کی راہ میں لازوال ایثار و وفاداری کی روشن مثالوں سے لبریز ہے۔ پاکستان کی سربلندی کے لئے ملت تشیع کا دفاع و استحکام، لاکھوں شہداء کا پاک لہو، بصیرت افروز نور اور وفا کی سرخی اس ملت کی وحدت امت کے لیے عظیم قربانیوں کی گواہ ہے۔ حالیہ دنوں میں دیدہ و دانستہ ملت تشیع کے اتحاد و استحکام پاکستان کے ملی کردار کے ترجمان خطے کے مومنین کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ گھناونی حرکت کسی بھی طرح اسلام و پاکستان دوستی کا عنوان پانے سے قاصر ہے۔ گلگت بلتستان فرزند صالحِ پاکستان ہے اور اگر پاکستان اپنی "جغرافیائی اولاد" میں سے کسی پر ناز کر سکتا ہے تو یہ "گلگت بلتستان" اور اس کے "باشندے" ہیں۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل قومی اخبارات بےشک انجینئرنگ، میڈیکل، آئی ٹی اور دیگر اعلیٰ فنی مہارتیں سکھانے والی یونیورسٹیوں کا اشتہار دوسرے شہروں کے نام سے شائع کریں لیکن اگر اتحاد بین المسلمین، حب الوطنی، مادرِ وطن سے وفاداری اور الفت سیکھنی ہے تو گلگت بلتستان کی "اسلامی جامعہ" کی ورق گردانی کرنی پڑے گی۔

کرسی نشینو!
آپ نے اب تک محبت کو ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلموں کی کہانیوں میں ڈھونڈا ہے۔ بےشک محبت اور حب الوطنی کے چھوٹے چھوٹے قطرے شاذ و نادر ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن اگر اتحاد، محبت اور حب الوطنی کا سمندر دیکھنا ہے تو اس باپ کو دیکھو جو خود تو سانحہ چلاس میں شہید ہونے والے اپنے بیٹے کی سنگسار شدہ میت کا انتظار کر رہا ہے، مگر دوسرے شہروں کے دوسرے مسالک کے لوگوں کو پناہ دیتے ہوئے اس فکر میں گھل رہا ہے کہ کہیں اس کے آنگن میں موجود مسلمان مہمانوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ "امن" وہ نہیں جو گولیاں اور ایمونیشن کے ختم ہونے پر، مہلت کے حصول کے لیے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر "معاہدے" کے نام پر دستخط کرے۔ پھر تازہ دم ہو کر بےگناہ لوگوں کا قتل عام شروع کر دے۔ "امن" کا درس پڑھنا ہے تو یہاں کے علماء کے الفت اور روداری کے شہد ٹپکتے خطبات سننا ہونگے جو اسلام و پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں اور فسادات کے کوہ پیکر شعلوں کو مسلسل صبر اور بصیرت کے پانی سے بجھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر مادرِ وطن کے استحکام اور حفاظت کا نقشہ کھینچنا ہے تو ان وادیوں کے ماہ پاروں پر مشتمل پاک فوج کے ان دستوں سے ڈھارس باندھ لو جنہوں نے آپریشن راہ نجات سے لے کر وزیرستان آپریشن تک دہشتگردی کی ہر لڑھکتی چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جنہوں نے پرشوق نعرہ حیدری کے گونج سے سوات، وزیرستان، باجوڑ، اورکزئی اور کرم ایجنسیز تک پھیلے، صہیونی سر پرستی میں قائم "خیبر" کے قلعوں کو سرنگوں کر دیا۔ جرات کا نام تو آپ نے بہت سنا ہے لیکن اگر شجاعت کی وراثت کی حقیقی داستان سننی ہے تو دشمن کی سرزمین کے اندر کارگل کے پہاڑوں پر جمے شہدائے این ایل آئی کے خون کے قطرات میں ڈھونڈو اور اگر یقین نہیں آتا تو سیاچن گلیشئر پر، پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر سفید برفانی جنگی وردی میں ملبوس، اس خطے کی سپوتوں سے پوچھو کہ عشقِ خاک وطن کیا ہوتا ہے۔

اس بات سے تو آپ بخوبی باخبر ہیں کہ وطن عزیز کے ایک صوبے میں معدنی وسائل کی رائیلٹی نہ ملنے پر پوری ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دیا گیا۔ وطن کے عزیز از جاں پرچم کو شہید کردیا گیا۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے سبز پاکستان کی زرعی رگوں میں دوڑتے سفید چاندی کے قطرات کن لوگوں کے کندھوں کو چھو کر آبشاروں کی شکل میں بہہ رہے ہیں؟ جی یہ یہی وفادار، بےلوث، پرامن اور محب وطن لوگ ہیں جو خود تو غربت کی پیوند زدہ چادر میں لپٹے ہوئے ہیں مگر وطنِ عزیز کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اپنے خطے کی رگوں کا لہو پیش کر رہے ہیں۔ یہ پورے پاکستان کے "محسن اور میزبان" ہیں۔ اگر آپ پاکستان میں وہ خطہ تلاش کریں جہاں تعصب، لسانیت، فرقہ پرستی جرائم کا نام و نشان نہ ہو، جہا ں غیر مقامی و دیگر مسالک کے لوگ اپنی جان، مال اولاد اور املاک سب کچھ کو مکمل محفوظ تصور کرتے ہوں، جہاں انتہائی باخبر انٹیلیجنس اور حساس اداروں کے ذمہ دار بھی اپنے ماتحتوں کو یہ کہہ دیتے ہیں "ایک دو گھنٹے ڈیوٹی دینے کے بعد آرام سے سو جاو، یہاں "ایسا ویسا" کچھ بھی نہیں ہو گا۔ جہاں اعلٰی ترین فوجی اور سول آفیسر بھی بغیر محافظین کے عام لوگوں کے درمیان گھل مل جاتے ہیں۔ جہاں فرقہ واریت کے نام پر آج تک ایک مرغی بھی قتل نہیں ہوئی۔ جہاں 98 فیصد اکثریتی آبادی 2 فیصد اقلیتی طبقہ پر ہر لمحہ اخوت، الفت، ہمدردی اور خیر سگالی کے جذبات کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی ہے۔ کیا پاکستان کے کسی دوسرے شہر میں امن عامہ اور حب الوطنی کا ایسا ماحول نظر آتا ہے؟ یہ اس خطے کے باسیوں کی پاکستان کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی، امن پسندی اور وفاداری کا ناقابلِ انکار نمونہ ہے۔ بلکہ اگر پاکستان میں ملت تشیع پر بیرونی امپورٹڈ پالیسیوں کے تحت دباو نہ ڈالا گیا اور مکتب و اساس ِتشیع پر حملہ نہ کیا گیا اور انہیں دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کرکے اس باشرف ملت کے غیور فرزندوں کو ملت اسلامیہ کی خدمت کا موقع دیا گیا تو ملت تشیع یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وطن عزیز کو امن، عزت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔

واہ رے صاحب!
اب پہچانا آپ نے اپنے محسن کو؟ یہ آپ کی غلطی نہیں۔ در اصل اس ایثارگر طبقے کی قربانیوں پر دیدہ و دانستہ پردہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ آپ کو تاریخ ِوطن کے تمام مشاہیر کا ذکر تفصیل سے پڑھایا جاتا رہا لیکن اس خطے کے عشقِ وطن سے لبریز ان پابرہنہ سربکف مجاہدین کا تذکرہ نہیں ہوا جنہوں نے چنار کی لاٹھیوں کی مدد سے ڈوگرہ فوج کو مار بھگانے کے بعد خطے کے مستقبل کو خلوص و عقیدت کے طبق میں رکھ کر بلا شرط و شروط پاکستان کے دامن میں رکھ دیا۔ جو محض پاکستان کی خاطر 70 سالوں سے اپنے چہروں پر کشمیری ماسک چڑھائے ہوئے ہیں اور اپنے تمام تر سیاسی، آئینی، صوبائی و معاشی حقوق جہاد کشمیر کی بھینٹ چڑھائے ہوئے ہیں۔ دفاعِ وطن کے باب میں یہ موضوع ہمیشہ تشنہ تفصیل رہ جاتا ہے کہ معرکہ کارگل، جنگ سیاچن اور آپریشن راہ نجات سے لے کر وطن عزیز کو دہشت گردی کے جبڑے سے نکالنے کے لیے لڑی جانے والی تمام جنگوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے ہمیشہ کون لڑتا رہا اور کن کے بیٹوں کے جوان لہو سرکش زمینوں کو رام کرنے میں رزق خاک بنتے رہے؟۔

صاحب!
آپ ذرا مزید غور سے دیکھیں۔ یہاں آپ کو کئی نادر چیزیں نظر آئیں گی۔ ساری دنیا کو فرقہ واریت لہولہان کرتی ہے مگر یہاں کے باشندوں نے خود فرقہ واریت کو دفن کر دیا ہے۔ سارا پاکستان لسانیت کی شعلوں میں جھلس رہا ہے مگر یہاں آپ حب الوطنی اور خالص ترین پاکستانیت کے قابل فخر جذبات میں نہا سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے آپ وطن کے جس گوشے میں جائیں وہاں صوبائیت کا نوکیلا پنجہ آپ کو نوچنے کی کوشش کرے گا مگر یہاں اگرچہ صوبائی و آئینی حقوق سے محرومیت کے بادل چھائے ہوئے ہیں مگر پھر بھی آپ کو جذباتی زخموں پر رکھنے کے لیے امید کا پھاہا ضرور ملے گا اور ہاں جب آپ قتل و غارتگری کے بےرحم مگر مچھ سے بھاگ کر اس روحانی جنت میں قدم رکھیں گے تو آپ کو احساس ہو گا درندگی کی نسبت انسانیت بھی کوئی چیز ہے جو لائق احترام ہے۔ میں خیال ہی خیال میں ارباب اقتدار کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر ٹھیک فوارہ چوک پر ایک "خاکی پتلون" والا "جرم وفا" کے ایک اور مجرم کو ہراساں کر رہا تھا۔ میں نے بائیک روک لی اور اس پولیس والے کے پاس جا کر اس کے کان میں آہستہ سے کہا "سر !آپ اس "کالے لباس" والے کی جس طرح بھی تلاشی لیں اس کے وجود سے آپ کو مادر وطن سے وفا کی خوشبو اور اہل اسلام کے لیے الفت کے پھولوں کی پتیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔

Add new comment