‎اے اہل مدینہ

سید اکمل حیسن ۔لندن
آل محمد کا جو قافلہ اس مقام پر پہنچا جو دو راہاتھا ایک راستہ مدینہ کو اور دوسرا کربلا کو کی جانب جاتاتھا جناب سید سجاد علیہ السلام اور مستورات مخدارات نے اپنے رہبر اور وقت کے امام سے فرمایا کہ ہمین کربلا کی طرف لے چلو تاک ہ شہدا کی ابدی خوابگاہون کی زیارت کر لیں اور یہ وہ قافلہ تھا جس کو واقعہ کربال کے بعد کربلا کی پہلی زیارات نصیب ہوئیں تھیں۔ محترمہ بی بی سریکتہ الحسین کے ھسب الھکم کربلا کا راستہ اختیار کیا گیا جب سر زمین کربلا میں اسیران شام کا ورود ہوا جہاں آل رسول کے گھر برباد ہوتئے تھے اور جہان گلستانِ ذہرار تاراج ہوا تھا ان درد ستائی بیبیوں کو روز عاشور کچھ اس طرح سے یاد آ گیا اور یہ بات درست بھی ہے کہ جب روز عاشور کا دن یہ مخدرات عصمت کیس طرح سے پھول سکتی تھیں خاص طور پر عصر، عاشور۔ کربلا کے میدان میں مستورات مخدرات عصمت و طہارت اور حرم آل محمد ہوں اور رونے کی پابندی ختم ہو چکی ہوں تو کس قدر گریہ اور بکا ہوا ہو گا کس انداز سے مامتم کی صدا بلند ہوئی ہو گی جناب زینب و اُم کچلوم کو پھائیوں کے مزار ام لیلیٰ کو اپنا فرزند ارجند علی اکبر علیہ السلام اور ام رباب کو چھ ماہ کا صغیر جناب علی اصغر علیہ السلام اور تمام بیبیاں اپنے اقرابا کو یاد کر کے اس دردناک انداز اور لہجے میں نوحہ پڑھتی تھیں جن کو سن کر پتھر کا کلیجہ بھی پھٹ جانے کو ہوتا تھا اور شیدت غم سے دل بارہ بارہ تھا

‎ادھر شام سے اسیران آل محمد علیہاسلام واپس ہوئے اور ادھر مدینہ سے جناب جابر بن عبداللہ اور بنی ہاشم کی ایک جماعت عین اسی وقت کربلا میں وارد ہوئے دونوں سوگوار اور ماتم دار قافلے ایک ہی وقت میں زمین کربال میں وارد ہوئے رونے کی گھڑی تھی اور ماتم کا دن تھا نوحوں اور فریادوں سے میدان پھرا ہوا تھا مستورات اہل بیت اور زائرین کی جماعت کو چیخوں اور نالہ و فریاد سے دھرتی ہلتی اور زمین کانپ رہی تھی فضا اس طرح سوگوار تھی اور کربلا کا کارزار اشکبار تھا جونہی سیدانیاں محملن سے اتریں منہ پر طمانچے اننکھوں میں انسو اور زبان پر مرثیے تھے ادھر سے جناب زین العابدین علیہ اسلام امام چہارم اور اُدھر سے جناب جابر انساری کی جمعت بنی ہاشم اکٹھے مل کر گریہ اور ماتم میں مصروف ہوئے جناب جابر نے سید سجاد کو پرسا دیا مدینہ کے ہاشمیوں نے تعزیت ادا کیا بہنیں بھائیوں کی قبرون پر گریں وارثوں اور زائروں نے عزیز وں اور شہیدوں کے مففن پر پیٹھ کر خوب اور دل کھول کر گریہ و ماتم کیا اور ایک دوسرے کو پرسہ دیا۔ آس پاس کی بستیوں میں بنی اس کی عورتیں نے جب سنا کے خواہر حسین شہید کربلا اور پسر امام مظلوم شہید کربلا اور اسیران کوفہ و شام واپس کربلا آ چکے لیں اور اماں جائی نے بھائی اور جناب حضرت سجاد علیہ السلام نے بابا اور چچا عباس علمدار اور شہیدان کربلا کی صف ماتم بچھائی ہے مظلوم شہیدوں کے وارچ کربلا پہنچے ہوئے ہیں وہ عورتین سیاہ لباس مبلوس کر کے جناب ام مصائب خواہر حسین علیہ السلام اور ام کچلوم اور تمام مستورات کو پرس دینے کے لئے آئیں بنی اس کی یہ عورتیں بارہ محرم کو وقت دفن اجساد بھی متمی لاباس میں آئی تھیں اب اسیراں شام کے ورود کے وقت بھی ماتمی لباس مین کریہ و بکا کرتی سر پیٹتی دپختران زہرا سلام اللہ علیہا کے قریں تعزیت ادا کرنے کے لئے آئیں تین دن اہل بیت رسول کربال میں مقیم رہے اور بربر گریہ و ماتم ہوتا رہا

‎تاریح اور مقاتل میں ملتا ہے کہ س روز صفر کی بپین تاریح تھی جناب جابر انصار نے فرات پر غل کیا لابس بدلا اور مرقد امام مظلوم اور مدفن تمام شہدا جو امام عالی مقام کے پائوں کی جانب ہے شہدا پر زیارت عاشور اور زیارت وارثہ کی پڑھ کر امام کو سلام پیش کیا عطیہ بن سعد عوفی کوفہ کا پاشندہ ہے تابعی ہے جابر بن عبداللہ انصاری مدینہ کے رہنے والے ہیں اور صحابی رسول خدا ہیں عطیہ بن سعد کا بہیان ہے کہ میں بھی جابر بن عبداللہ کے ہمرا تھا جب زیارت قبر حسین کے لئے کربلا میں وارد ہوئے جناب جابر نے نہر فرات پر غسل کیا ایک چادر کم سے بان لی اور دوسری جادر ندن پر اوڑھی آہستہ آہستہ ننگے پائوں قبر مبارک کی طرف چلے اور کوئی قدم بغیر ذکر کدا کے نہ اُٹھایا ۔عطیہ کا بیان ہے کہ جناب جابر بن عبداللہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے قبر مس کرائو مین نے قبر پر لے جا کر قبر مس کرائی جونہی قرب مطہر کو مسن کیا جنا ب جابر کو غش آ گیا اور قبر مظہر پر گر پڑے میں نے ان پر کچھ پانی کا چھڑکائو کیا تھوڑی دیر کے بعد غش سے افاقہ ہوا تیں بار کہا یاحسین یا حسین یاحسین اور شاید اج بھی جب زائرئیں قبر مطہر کی طرف جاتے ہیں وہ ننگے پاوں اور جب قبر مطہر کی زیارت کو ہاتھ پڑھاتے ہیں تو لیبک یا حسین لبیک یا حسین لبیک یا حسین کی صدا بلند کرتے ہیں

‎یا حسین یا حسین یا حسین کی صدا بلند کرنے کے بعد جانب جابر کی آواز بلند ہوئی اور آپ نے کہا ہ آج دوس دوست کو جواب نہیں دیتا کیونکر جو داے کہ سر تن سے جاد ہو چکا ہے مولا کی رگ گلو کٹ چکی ہیں کون بہہ گیا ہے جناب جابر قبر مبارک بر بہت گریہ کناں ہوئے اور زیارت پڑھی جسے زیارت اربعین کہتے ہیں جب فقرت ادا کئے والزی بعث محمد با لحق نبیا لقد شاد کنا کم نیما و خلتم فیہ اس وقت عطیہ کا کہنا ہے کہ ہم کیس طرھ ان کے عمل میں شریک ہوئے جب کہ ہم نشیب و فراز اور ان ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوئے انہوں نے سر تو کٹا نے ان کی عورتیں بیوہ ہوئیں بچے یتیم ہوئے جابر نے کہا کہ میں نے خود جناب حبیب خدا محمد مصطفےٰ سلی اللہ علیہ ووآلہ سشلم سے سنا ہے ہو فرامے ہیں من اجب قوما فہر منہم جو کیس قوم کو پسند کرتا ہے اس قوم کے ساتھ محشور ہو گا ۔ اور جو کسی قوم کا عمل پسند کرتا ہے وہ اس عمل مین کیس قدر شریک ہوتا ہے مجھے اس کدا کی قسم جس نے محمد مصطفیٰ سلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ھق کے ستھ اس رو زمیں پر وارد کیا مین اور میرے ساتھی اس نیت و عقیدہ پر ہین جس پر جناب سید اشہدا اور ان کے اصحاب تھے۔

‎اربعین (چہلم) کے دن عربی مرثیہ ایک عربی شاعرہ نے اسیران شام کی واپسی پر کربلا پر چند اشعار کہے جس کا ترجہ کچھ اس طرح کیا جا سکتا ہے

‎اے مرد مومن اُٹھ اور پیسوین صفر کو اپنا غم و حزن تازہ کر کیونکہ اس روز آل بنی ہاشم اور اصحاب کے سر کربلا میں دفن ہونے کے لئے واپش آئے تھے اے زائرین بقعہ کربال اس خطہ مین بی ہاشم کے اطفال ذبھ کئے گئے اس خطہ امین کر مٹھی بطور سرمہ آنکھوں میں لگا ہاتئے افسوس پاک شہزادیاں جس دن روتی چٰتی اپے مقتولوں کو قتل گاہ اور مرقد اطہر پر گر گئیں کتنا غم نام منظر تھا سہیدوں کی وارث مخدرات بنی ہاشم کی نظریں جب قبروں پر بڑیں اور ان کے محمل قبور مطہرہ کی قریب پہنچے تو اُنہوں نے بے ہو کر ناقہ سے اپنے آپ کو قبور پر گرا دیا اور ہر بی بی کو نے قبر مطہر کو گلے سے لپٹا کر اور اپنے پیارے کے مدفن پر دوزانو پیٹھ کر مرثیہ پرھا ان میں ایک بی بی اس اس میں حسین علیہ السلام کو بکار رہی تھی کہ منہ بیٹ پیٹ کر اپنی آنکھوں سے آنسوئوں کی برستار جاری کر رہی تھی کیس بی بی کی صدا ان الفاظ میں بلند تھی واجدہ و ابتا کہہ کر فریا د نوحہ کر رہی تھیں اور کوئی بچی اپنے چھوٹے سن میں یتیم ہونے کا دردباک بین کر رہی تھی پس کا ش اُم کثلوم کو اس ھال میں نوحہ کرتے دیکھتے کہ ارض کربلا کی مٹی اپنے سر کے بالوں میں ڈال رہی ہے۔ 
‎اے سر ھسین کو ان کے بدن کے ستھ قبر مین دفن کرنے والے ذرا خیال کرن چاند پر مٹی نہ ڈالنا تم کیس دل سے قمر زہرا کو زمیں میں دفن کر رہے ہو اس سر کو سوائے مرقد بدن حسین کے کہیں اور دفن نہ کرنا کیونکہ وہ باغ فردوس کا ایک خطہ اور ٹکڑا ہے۔
‎اس کی ریش مبارک میں جوخون لگا ہوا اس نہ دھونا یہ بزرگی اور ضیعفی کا خصاب ہے اسے رہنے دو اور جو تیروں کی نوکیں اس کے بدن میں پیوست ہو چکی ہیں انہیں نکالنا مبادا خون کوش مار کر بدن پر نہ پھیل جائے

‎اس مظلوم شہید کی قبر پر کچھ پانی چھڑک دنیا کیونکہ صاحب مرقد پیاسا شہید ہوا جب کہ شدت پیاس سے قل و جگر پھن رہے تھے اور گدن پر شمر کا خنجر تھا اس طرح قبر مظرہ پر بنی چھڑک کر مظلوم حسین کا دل ٹھنڈا کر دینا۔ ششمائے صغیر علی اصغر کو باب کے ستھ آغوش قبر میں دفن کر دنیا کیونکہ معصوم بچہ پاب کی گود سے مانوس ہے اور یتیمی کی طاقت نہیں رکھتا 
‎اے واپس ارض مدینہ جانے والے قیدیو وہ ارض پاک سر سبز ہے اپنے پیاروں عزیزوں کو کون کا تحفہ بنا لو جب کوئی مسافر سفر سے واپس آتا ہے تو کوئی نہ کوئی تحفہ لاتا ہے تم گھی خون آلود کپٹرے وغیرہ خون شہدا محفوظ کر کے رکھ لو جب مدنیے جانا تو دا امجد کو مخاطب ہو کر کہنا نان یہ اس سفر کی سوغات لائی ہیں۔ 
‎ہر بی بی قبور مظہرہ پر دل کھول کر روئی چند دن قیام کے بعد حضرت سجاد ساربان قافلہ نے سفر کی تیاری کی اس روز بیبیون نے قبرون سے آخر وداع کیا جناب سکینہ نے آخری بار بابا کی قبر سے وداع کرتے ہوئے کربلا کو مخاطب ہو کر کہا 
‎اے زمیں کربلا میں زہرا کے چان کو تیرے سپرد کر رہی ہوں افسو تیری گود مین بھی ہاشم کے چاند اور ستار دفن ہوئے ہیں جن کے بدنوں کو خون کے ساتھ غسل دیا گیا اور زمین کربلا کی خاک ار اڑ کر گرد کا لبا پہناتی رہی
‎ کامل التواریچ میں درج ہے کہ جناب رباب بنت امراء القیس زوجہ امام حسین پر اس بے گور و کفن اور پیاسے شہید کی دھوپ پر لاش دیکھ کر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی قبر پر رہائش اکتیار کر لی پور ایک سال قبر پر مجاور بن کر رہیں اس کے بعد واپس مدینہ گئیں اور یہ بھی منقول ہے کہ ساری زندگی سایہ میں نہ پیٹھیں اور نہ ٹھنڈا پانی پیا وفادار پیوی اپنے پعصوم آقا کی مظلومانہ موت کے صدمہ میں گھل گھل کر اپنے آق و نامدار کو جنت میں جا ملی ساد دھوپ پیں پیٹھنے سے اپ کی رنگت تبدیل ہو گی تھی۔

‎مدینہ میں اہل حرم کی آمد واقعہ کربلا کے بعد

‎جناب امام سجاد نے جب دیکھا کہ ان کی پھوپھیاں پہنیں اور دیگر مستورات شب و روز گریہ و بکا اور ماتم حسین میں مصروف ہیں اور کیس وقت بھی گریہ و بکا سے فارغ نہیں ہوتیں ایک قبر سے اُٹھتی ہیں اور دوسر قبر پر گریہ و بکا کرنے پیٹھ جاتی ہیں تو انہوں نے سفر کی تیاری کی اور تین دن کے قیام کے بعد وفن مدینہ روانہ ہوئے 
‎دنیا کا دستور ہے کہ جب مسافر مراجعت کرے وطن کی طرف جانے کی تیاری کرئے تو ان کہ چہروں پر کچھ خوشی کہ آثار نمودار ہوتے ہیں اور دل مسرتوں سے پھر جاتے ہیں مگر یہ مسافرین مدینہ اس قسم کے مسافر نہ تھے جنہیں وطن جانے کی خوشی ہوتی یہ حسرتوں کے ساتھ گریہ و ماتم کے ساتھ واپش جا رہے تھے کیونکہ یہ سارا کنبہ شہید کروا کے گھ بار لٹا کے قیدی بند کی سختیاں پرداشت کر کے روانہ ہو رہے تھے اس لئے حست ان کے دامن گیر تھی رنج و الم ان پر چھایا ہوا تھا آل محمد کی شہزادایاں پانے عزیزوں کو زمین کر بلا کے سپرد کر کے حسین و عباس جیسے بھائی اکبر قاسم جیسے گل بدن عون محمد جیسے جری سے جحروم ہو کر گھر کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ مائوں کی گودی بچوں کے خالی تھیں رسیوں کے اور تازیانوں کے نشان پاک و پاکیزہ بدنوں پر نمایان تھے فرزند فسول اور دلبند علی و بتول پر اگر چہ منزل و مقام اس کا ہم سے بہت دور ہے اس کے بعد اس نے ججھ سے مخاطب ہو کر کہا اے اخبر موت دینے والے تو نے فرزند بتول کی موت کی خبر دے کر ہمارے زخموں کو تازہ کر دیا جو ابھی مندمل نہ ہوئے تے تو کون ہے اس نے کہا میں پشیر بن خدلم ہوں مجھے میرے مولا و آقا امام سجاد علیہ السلام نے روانہ کیا ہے مدینہ سے دور اپنے اور اہل عیال حسین علیہ السلام کے ہمراہ موجود ہیں۔

‎بشیر کا بنیان سن کر تمام لوگ مرد و زن بتیابانہ مدینہ سے باہر کی طرف دوڑ پڑے پشیر گھوڑے پر سوار تھا گھؤرتے کو ایڑ لگائی اور تیزی سے خیام گار امام سجاد علیہ السلام میں آیا وہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ گزرنے کا راستہ نہ ملتا تھا وہ گھوڑئے سے اتر پڑا آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور تامام مدینہ والوں کی زبان پر نوحہ و گریہ تھا ۔ زنان مدینہ سر کھول کر ماتم کنان تھیں انتا گریہ و بکا کی صدا بلند ہو رہی تھین کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ وفات فسول کے بعد مدینہ مین اس قدر تم و فماتم کبھی نہیں ہوا تھا جتنا اس روز ہوا ہر مر و زان گریہ کناں اور ماتم دار تھا ۔ بشیر کہاتا ہے میں نے مجمع کو چیر کر لوگوں کے سرون کو پھلانگتا ہوا امام کی خدمت میں آیا ابھی امام کیمہ کے اندر تھے اس اثان مین اسیر دمشق ان کے ہاتھ میں رومال تھا بار بار انسو پونچھتے تھے مگر آنسو تھے کہ نہ تھمنے کا نام لیتے تھے مولا کے پیچھے کامد نے کرسی اُٹھائ ہوئی تھی خادم نے کر سی رکھی مولا سجاد اس پر بیٹے جو ہی فرزند فسول اس پر بیٹھے اور لوگوں کی دید آپ پر پڑی دھاڑین مار مار کو گریہ کر نہ شروع کر دیا اور شہدیان کربال کا برسا دے رہے تھے رسم تعزیت اد کر رہے تھے اور اشکوں کا ہدیہ پیش کر رہے تھے امام سجاد نے کچھ دیر کے بعد گریہ پر قابو پایا نہ جاے چالیس سال خون رونے والے امام نے جو واقعہ کربلا کا عنیی شاہد بھی ہے کس طرح سے اپنے آپ گریہ کو قابو کیا ہو گا اور لوگوں کو اشار کیا کہ بیٹھ جاو اور ایک طویل خطبہ اس اسیر شام نے دیا اس خطمہ کو کسی اور تحریر ًمیں آپکی خدمت میں پیش کروں گا۔ 
‎امام سجادعلیہ السلام کے قلب جگر مین گہرے زخم تھے پہتے ہوئے آنسوں کھولے سروں اور خاک آلودہ بالوں کے ساتھ نوحہ و مرثیہ پڑھتی ہوئیں بی بی مدینہ کی جانب روانہ ہوئیں۔ ھقیقت یہ ہے کہ واپش وطن مدینہ ان ضرور تھا ورنہ بفرمان ان کے وطن واپش انے کے لائق نہ تھے۔ جب شہر مدینہ کے در و دیوار نظر آئے تو ان افسرد چہروں پر نہ تو خوشی کے کوئی آثار تھے گرد اے اٹے ہوئے چہرے پر رنج اور پڑھ گیا در بدر کی ساتئی ہوئی شہزادیوں کا جب انہیں مدینہ کی دیواوں پر نظر پڑی تو نانا کا مدینہ یاد آگیا بھای حسین یاد آگیا اماں زہرا یاد آگیئں جناب سجاد نے بشیر بن حذلم کو جو قافلہ کے ہمراہ پاسبانوں میں سے تھا کو احکام جاری کئے کہ اہل مدینہ کو ہمارے آنے کی خبر کر دو اور انہیں شہادت امام حسین علیہ السلام کی خبر سنادو۔ 
‎بشیر جب مسجد بنوی کے دروازے پر آیا تو بلند آواز سے روتے ہوئے لوگوں کو خبر دی 
‎اے مدینےوالوں اب یہ شہر رہنے کے لائق نہیں رہا حسین کربال مین شہید ہوئے اور میرے آنکھیں انسو بہا رہی ہیں جس حیسن تو صھرا کی تپتی ریت پر خون میں غلطاں بے گورو کفن چھوڑ دیا گیا اور س ان کا نوک نیزہ ہر نصب کر کے جا بجا پھریا گیا 
‎اے اہل مدینہ دیکھو امام زین العابدین ، پھوپھیوں بہنوں اور باقی مستورات کے ساتھ پیرون مدینہ قیام فرما ہیں مین تمیں ان کی اطلاع اور شہادت حسین کی خبر دینے آیا ہوں ۔
‎ان للہ و انا الیہ راجعون

‎حوالہ مجا لس حسین ١٤١١ ہجری

 

 

Add new comment