امام خمینی ؒ اور استعماری سازشیں
بسم الله الرحمن الرحیم
حسن مصطفی
انقلاب اسلامی ایران کے کامیابی کے بعد عالمی استکبار کے مفادات کو سخت خطرات لاحق ہوگئے خصوصاً استعمار کی پریشانی تب اور بڑھ گئی جب اس انقلاب کے سپریم لیڈر امام خمینی نے "صدور انقلاب" یا "انقلاب درآمد کرنے" کا نظریہ پیش کیا، اس نظریئے میں انھوں نے یہ بیان کیا کہ یه اسلامی انقلاب پوری دنیا کے مستضعفین یعنی جبر و استبداد کے شکنجے میں پسے ہوئے لوگوں کا انقلاب ہے اور یه کسی خاص جغرافئے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لہذا یه انقلاب عنقریب پوری دنیا میں خاص کر ہمسایہ اسلامی ممالک میں نفوذ کر جائے گا۔
ایک طرف سے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے اقوام عالم ـ خصوصاً امت مسلمہ ـ کو خواب غفلت سے بیدار کیا تو دوسری طرف سے خود عرب ممالک کے آمروں ڈکٹیٹر حکمرانوں کی استعمار نوازی، کرپشن اور عوام دشمنی بھی عرب ریاستوں کے بسنے والے مسلمانوں کو جگانے کا باعث بنی۔
ایسے حالات میں دانشمند طبقہ عرصہ دراز سے عرب دنیا میں کسی عوامی و اسلامی انقلاب کی لہر اٹھنے کا منتظر تھا۔
عالمی استکبار بھی اس متوقع انقلاب کی آہٹ پر کان لگائے ہوئے تھا اور آنے والے حالات کے پیش نظر منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔
استعماری طاقتوں نے کسی متوقع انقلاب کا راستہ روکنے یا اسے ناکام بنانے کے لئے" متبادل حکومت یا متبادل حکمران" کی تھیوری تیار کی۔
اس تھیوری کے مطابق کرپٹ نظام کو بچانے کے لئےحسب ضرورت حکومتوں یا حکمرانوں کی فقط ظاہری صورت میں تبدیلی لانے کو ضروری سمجھا گیاہے۔ اس طرح اگر حالات خراب ہونے کی وجہ سے ایک ڈکٹیٹر بھاگنے پر مجبور ہو جائے تو ایک اور متبادل استعمار نواز پارٹی یا شخصیت کو بروئے کار لایا جائے یا پھر انقلابی پارٹی کو صفحه هستی سے مٹا دیا جائے اور مختلف غلط فہمیوں، پروپیگنڈوں اور مشکلات کے ذریعے عوامی جوش و جذبے کو ٹھنڈا کیا جائے۔
عالمی استکبار نے انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے وقت بھی انقلاب اسلامی کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے کے لئے ایسی ہی ایک کوشش کی تھی۔
ایران میں اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لئے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ٹھیک آٹھ دن بعد امریکہ نے ایرانی کردستان کے علاقے میں ایک داخلی جنگ بھڑکائی تھی، اس جنگ کا مقصد نئے نئے انقلاب کی قوت اور قیادت کو ختم کرنا تھا۔
ایران کی انقلابی حکومت کو داخلی جنگ میں مصروف کرکے صدام کو ایران پر حملے کی شہ دی گئی تا که داخلی جنگ میں الجھی ہوئی انقلابی قیادت کو سنبھلنے سے پہلے ہی کچل کر شہنشاہ ایران کی جگہ اپنے نئے ایجنٹوں کو ایران کا حاکم بنایا جائےاور یوں دوباره ایران پرعالمی استکبار کاقبضہ بحال ہو جائے۔ ایسے ہی موقعوں پر ایک با بصیرت لیڈر کی موجودگی کی اشد ضرورت ہوتی ہے تا که وه انقلاب کو اپنے اصلی راستے سےمنحرف نه ہونے دے۔
اس موقع پر امام خمینی نےبصیرت اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے عالمی استکبار کےمنصوبوں کو ناکام بنا دیا اور ااسلامی انقلاب کو منزل مقصود تک پهنچایا۔ آج کل عرب دنیا ایک ایسے ہی موڑ پر کھڑی ہے جہاں عالمی استکبار اس کی انقلابی موجوں کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتاہے۔استعمار کی پوری کوشش ہے کہ وہ عرب دنیا میں " متبادل حکومتیں یا حکمران"سامنے لائے اور اس طرح لوگوں کو بیوقوف بناکر عرب دنیاکے ذخائر کو لوٹتارہے۔ اب عالمی استکبار چاهتا ہے که وه اس انقلاب کی طوفانی موجوں پر سوار ہو کر اپنے مفادات کی نہ صرف یہ کہ حفاظت کرئے بلکہ اگلے کئی سالوں تک کے لئے اس انقلاب کی اصل روح کو بھی مار دے۔ اگرچہ مصر، تیونس ، اردن اور یمن میں آنے والے اس انقلاب میں اسلامی روح ہے ، یہ انقلاب ،اسلامی نظام کی تشکیل، عالمی استکبار اور امپریالیسم کی نابودی اور مخالفت کے لئے ابھراہے لیکن استعمار کی بھرپور کوشش یہ ہے کہ وہ اس انقلاب سے اسلامی روح نکال دے اور ایسےلیڈروں اور دھڑوں کو متبادل کے طور پر لائے جو از سرنو نئے انداز اور نئی چالوں کے ساتھ استعماری منصوبوں کو آگے بڑھائیں اب اس انقلاب کو طاقت کے ذریعے روکنا ممکن نظر نہیں آتا اور ویسے بھی ایرانی عوام سے بالواسطہ جبکہ عراق اور افغانستان کی عوام سے بلاواسطہ ٹکراکر استعمار کو یہ تجربہ ہوگیاہے کہ کسی بھی ملک کی عوامی طاقت سے ٹکرانا استعمار کے فائدے میں نہیں ہے لہذا عرب دنیا میں ٹکرانے کے بجائے تبدیلی یا متبادل کی سیاست اپنائی گئی ہے۔ اس وقت مصر تیونس اردن اور یمن کے لوگ تو ((نو مبارک نو، نو بن علی نو...)) کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن دوسری طرف سے امریکه، اسرائیل اور برطانیہ سمیت دیگرتمام استعماری قوتوں کے تھنک ٹینکس اپنے منصوبے کے تحت عرب دنیاکو"متبادل"پر راضی کرنا چاہتے ہیں۔
ان مشکل حالات میں اگر چه راشد الغنوشی جیسے لیڈر<جنہوں نےامام خمینی کی تحریک تجدید حیات اسلام کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے> سے کسی حد تک امیدیں تو وابسته کی جاسکتی ہیں لیکن سچ بات تو یہ ہےکہ اس وقت عرب دنیا میں امام خمینی جیسے با بصیرت ،شجاع اور الہی لیڈر کی کمی کا شدت سے احساس پایا جاتا ہے ۔ آج ہمارے عرب بھائیوں کو استعمار سے مقابلے کے لئے فکر امام خمینی کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں متحد ہونا پڑئے گا اور تمام تر ذاتی و فرعی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہوگا چونکہ دشمن کے پاس واحد کارگر ہتھیار تفرقہ اندازی کا ہے۔وہ موقع ملتے ہی عربوں میں نت نئے ٹولے ایجاد کرئے گا اور مختلف فرقہ وارانہ و علاقائی تعصبات کی آگ بھڑکا کر استعمار کے خلاف اٹھنے والے اس انقلاب کو اس کے اصل راستے سے بھٹکانے کی پوری کوشش کرئے گا۔ اس بات کا اندازه اوبامه کے اس بیان سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اس کے بقول امریکه بڑی گہرائی سے تیونس مصر اور وسطی ایشاء کے حالات کا مکمل طور پر جائزه لے رہا ہے۔
اب یہ تو دنیاکا ہر مسلمان جانتاہے کہ امریکہ کیوں وسطی ایشیا ء کا گہرائی سے جائزہ لے رہاہے۔پس اس کٹھن وقت میں عربوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگرچہ آج امام خمینی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی فکر اور نظریہ تو ہمارے سامنے موجودہے،ان کی فکر پر عمل کر کے حزب اللہ اور حماس کی طرح پوری دنیااستعمار اور استعماری ایجنٹوں کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔
........
Add new comment