تقیہ کے بارے میں ایک علمی بحث

دشمنوں کے مقابلے میں دنیاوی اور دینی نقصانات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنے باطنی عقیدے اور ایمان کو چھپانے کا نام تقیہ ہے تقیہ ہر مسلمان شخص کا ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جس کا سرچشمہ قرآنی آیات ہیں:

 

قرآن کی نگاہ میں تقیہ

قرآن مجید میں تقیہ سے متعلق بہت سی آیات ہیںان میں سے یہاں ہم بعض کا ذکر کرتے ہیں :

(لایَتَّخِذْ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ َوْلِیَائَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اﷲِ ف شَْئٍ ِلاَّ َنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاةً)(١)

 

(١)سورہ آل عمران آیت: ٢٨.

مومنوں کو چاہیے کہ وہ اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج نہیں ہے .

یہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر جان خطرہ میں ہو تو تقیہ کرتے ہوئے ان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کیا جاسکتا ہے.

ب:( مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ ِیمَانِہِ ِلاَّ مَنْ ُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنّ بِالِْیمَانِ وَلٰکِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَب مِنْ اﷲِ وَلَہُمْ عَذَاب عَظِیم )(١)

جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لے سوائے اس کے جسے کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں ہے)لیکن وہ شخص جس کے سینہ میں کفر کے لئے کافی جگہ پائی جاتی ہو اس کے اوپر خد ا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے .

 

مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں یہ لکھا ہے :ایک دن کفار نے جناب عمار ابن یاسر کو ان کے ماں باپ کے ہمراہ گرفتار کرلیا اور ان سے کہنے لگے کہ اسلام کو

 

(١)سورہ نحل آیت: ١٠٦

چھوڑ کر کفر و شرک اختیار کرلو تو عماربن یاسر کے ہمراہ افراد نے ان کے جواب میں توحید و رسالت کی گواہیاں دینا شروع کردیں جس پر کفار نے ان میں سے بعض کو شہید کرڈالا اور بعض پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھانے لگے اس وقت جناب عمار نے اپنے باطنی عقیدے کے برخلاف تقیہ اختیار کرکے ظاہری طور پر کفر کے کلمات کو اپنی زبان پر جاری کیا تو کفار نے انہیں چھوڑ دیا پھر اسکے بعد جناب عمار انتہائی پریشانی کے عالم میں رسول خدا کی خدمت میں پہنچے تو آنحضرت نے انہیں تسلی دی اور پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی .(١ )

اس آیت اور اس کی تفسیر سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبرخداۖ کے زمانے میں اصحاب بھی جان ومال کی حفاظت کے لئے اپنے باطنی عقیدے کو چھپا کر تقیہ کرتے تھے.

 

تقیہ شیعوں کی نگاہ میں

بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمران ہمیشہ شیعوں سے برسرپیکار رہے ہیں اور انہوں نے شیعوں کے قتل عام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے(٢)

 

(١)اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی کی تفسیر در المنثور جلد٤ ص١٣١ (طبع بیروت) کا مطالعہ کیجئے.

(٢)بنی امیہ اور بنی عباس کے حکام کے حکم پر شیعوں کے بے رحمانہ قتل عام کے سلسلے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان کتابوں''مقاتل الطالبین''(مصنفہ ابوالفرج اصفہانی) ''شہداء الفضیلة(مصنفہ علامہ امینی)''، ''الشیعہ والحاکمون''(مصنفہ محمد جواد مغنیہ)کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

اس بنا پر اس زمانے میں شیعوں نے قرآن مجید کے حکم کے مطابق انتہائی سخت حالات میں اپنے سچے عقائد چھپا کر اپنی اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی جانیں محفوظ کی تھیںواضح ہے کہ اس ظلم و ستم کی فضا میں شیعوں کے لئے تقیہ کے علاوہ کوئی ایسا چارۂ کار نہیں تھا جو شیعوں کو نابودی سے بچاتالہذا اگر وہ ظالم حکام، شیعوں کے دشمن نہ ہوتے اور شیعوں کا بے گناہ قتل عام نہ کرتے تو ہر گز شیعہ تقیہ اختیار نہ کرتے یہاں پر اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تقیہ صرف شیعوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی جب اپنے ایسے دشمنوں کے مقابلے میں قرار پاتے ہیں جو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے دشمن ہیں (جیسے کہ خوارج اور وہ ظالم حکومتیں جو ہر حرام کام کو جائز سمجھتی ہیں )اور ان سے مقابلہ کی طاقت بھی نہیں ہوتی تو وہ اپنی جان کی حفاظت کی خاطر تقیہ کا سہارالیتے ہیں اس بنیاد پر اگر اسلامی معاشرے کے تمام افراد اپنے فقہی مذاہب میں اتفاق رائے رکھتے ہوئے وحدت واخوت کی زندگی گزارنا شروع کردیں تو پھر ہرگز انھیں تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

 

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:

١۔تقیہ کی اساس قرآن مجید پر ہے اور صدر اسلام میں پیغمبراکرمۖ کے اصحاب بھی تقیہ کر تے تھے اور آنحضرتۖ ان کے اس عمل کی تائید فرماتے تھے یہ سب تقیہ کے جائز ہونے کی دلیلیں ہیں.

٢۔شیعہ اپنے مذہب کو بچانے اور دشمنوں کے سفاکانہ قتل عام سے محفوظ رہنے کے لئے تقیہ کرتے تھے .

٣۔تقیہ صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مسلمان بھی تقیہ کرتے ہیں.

٤۔تقیہ کرنا اور اپنے باطنی عقائد چھپانا صرف کفار کے مقابلے میں ہی انجام نہیں پاتا بلکہ تقیہ کا معیار (مسلمانوں کی جان بچانا) عمومیت رکھتا ہے اور ہر ایسے ظالم دشمن کے سامنے کہ جس کے ساتھ مقابلے کی قدرت نہ ہو یا اس سے جہاد کرنے کے شرائط پورے نہ ہورہے ہوں تقیہ ضروری ہوجاتا ہے .

٥۔اگر مسلمانوں میں مکمل وحدت اور ہم فکری پیدا ہوجائے تو ہرگز ان کے درمیان تقیہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی.

 

Add new comment