پانی بھی سمجھدار ہے
تحریر: عبداللہ کھوکھر
یہ گذرے نومبر کی 19 تاریخ تھی، جب گجرات یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر سید شبیر حسین شاہ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، جب وہ علم کی خیرات بانٹتے، تاریکیوں کو مٹانے، شعور و فکر کی بلندی کی سفارت کیلئے گھر سے درسگاہ کی طرف رواں دواں تھے۔ ان کے ہمراہ ان کے ڈرائیور بھی جہالت کے پروردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ وہ انبیاء کا فریضہ سرانجام دینے کیلئے گھر سے منزل کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے روشنی پھیلانا تھی، تاریکی مٹانا تھی، جہالت کو شکست دینا تھا اور تعصب و عصبیت کو مات دینا تھی، انہوں نے قوم و ملک کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا ہوا تھا، وہ اپنا فرض نبھانے چلے تھے، ان کو گولیوں کا نشانہ بنانے والوں نے نہ جانے کس گھر میں جنم لیا تھا، کس درسگاہ سے پڑھائے گئے تھے اور کس فکر و فلسفہ پر یقین رکھنے والے تھے، اس کا اندازہ ان کے اس عمل سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یقیناً ان کے قاتلوں کا تعلق ابوجہل کے گھرانے سے تھا، یہ جہالت، گمراہی، تعصب اور تاریکیوں کے ماحول میں پروان چڑھے تھے اور ان کی فکر پلید تھی، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی سوچ یزیدی تھی، یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ہمارے ملک کے سینکڑوں اسکول ایک صوبہ میں بارود کے ڈھیر لگا کر تباہ کر دیئے تھے اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک مسجد ضرار بنام لال مسجد کی طالبات کے نوحے پڑھے اور ملک میں خودکش دھماکوں کی نہ رکنے والی سیریز شروع کروائی۔ یہ تضاد اور تفرقہ انہیں ورثہ میں ملا ہے اور اس کی تاریخ اسلام کے جتنی ہی پرانی ہے۔ ابوجہل اسلام کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی سامنے آیا تھا، جیسے جیسے اسلام نمو پاتا گیا، ابوجہل کا کردار بھی واضح ہوتا گیا۔ رسول خدا ؐنے فرمایا تھا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، یہ کم بخت، علم سے علیؑ کی وجہ سے دور ہوگئے اور اپنے لئے جہالت کو منتخب کرلیا۔ ضد اور ہٹ دھرمی کی بھی حد ہوتی ہے، یہی ضد اور ہٹ دھرمی انہیں کربلا میں نواسہ رسول کے مقابل لے آئی اور آج اسی قبیلہ کے لوگ حسین ؑ کو باغی (نعو باللہ) اور یزید کو خلیفۃ المسلمین منوانے پر تلے ہوئے ہیں، آخر ان کی منزل ہے کیا۔۔ بو جہلیت و بولہبیت شائد!
پروفیسر شبیر حسین شاہ کے قتل سے جہالت کے پجاریوں نے ایک اور منارۂ علم گرا دیا، گمراہی کے راہیوں نے ایک اور شمع علم کو بجھا دیا، ایک اور ستارۂ روشن ڈوب گیا، ایک اور راہ دکھانے والا ہم سے روٹھ گیا، ایک اور در باب العلم سے علم کی خیرات لے کر تاریک راہوں کو روشن راستوں میں بدلنے والا ہم نے گنوا دیا۔ یہ ملک کس طرف جا رہا ہے، ہمارا معاشرہ کس روش کا شکار ہوگیا ہے، ہمارے اندر کیسے کیسے تعصبات جڑیں پکڑ چکے ہیں، ہم کس سمت سفر کر رہے ہیں، ہم کیسی اندھی، تاریک اور گھٹا ٹوپ وادی میں گم ہو رہے ہیں، کوئی اس بارے سوچے تو، کوئی اس پہلو پر غور کرے تو، کوئی اس درد کو محسوس کرے تو، کوئی اس زیان پر ماتم کرے تو، کوئی اس تکلیف پر نوحہ کناں ہو تو۔۔۔۔۔!
پروفیسر سید شبیر حسین پر وار کرنے والوں نے اسلام، پاکستان اور ہمارے معاشرے کے چہرے پر جو ضرب لگائی، اس کا داغ شاید ہی مٹ پائے۔ کسی بھی استاد یا مادر علمی پر حملہ علم و دانش پر حملہ متصور ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ حملہ پروفیسر شبیر حسین پر نہیں اسلام پر حملہ تھا کہ اسلام علم و دانش، فہم و فراست اور برہان و دلیل کا محافظ ہے۔ ایک استاد ایک یونیورسٹی اور درسگاہ میں علم و دانش اور فہم و فراست اور شعور و فکر کی بلندی کیلئے دن رات ایک کرنے والے کا قتل معاشرے کو تاریکیوں میں دھکیلنے کی سازش کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔
بے حد افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاسی مداری ہر اس جگہ پہنچ کر کیمرہ کے سامنے "اچانک رونما" ہوجاتے ہیں، جہاں میڈیا نے فوکس کیا ہے۔ اگر کسی معمولی مسئلہ پر میڈیا نے شور مچایا ہوا ہو، این جی اوز نے اُٹھایا ہوا ہو، غیر ملکی اداروں نے دلچسپی ظاہر کر دی ہو اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا معاملہ ہو تو دنیا بھر کی مصروفیات ترک کرکے سیاسی مداری چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، ہمدردیاں جتلانے پہنچ جاتے ہیں، مگر ایک پروفیسر، ایک یونیورسٹی استاد، ایک معمار قوم، ایک مفکر کو دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ خون میں نہلا دیا گیا، مگر کسی بڑی سیاسی شخصیت نے دو حرف رسماً بھی نہ کہے۔
کوئی میڈیا ٹیم لے کر جنازے میں نہ پہنچا، حکومتوں کی یہی کوتاہی اور غفلت ہی تو ہے، جس کے باعث پاکستان کے مایہ ناز تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی میں اساتذہ کے ساتھ اسی سوچ کے پروردہ آج وہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں جو ایک منہ زور بدمعاش شریفوں کے محلوں میں عزت داروں کے ساتھ رکھتا ہے اور منہ زوری کرتا ہے، پنجاب یونیورسٹی میں اگر حکومت نے اب راست اقدام نہ کیا تو کئی دہائیوں کا گند اس عظیم مادر علمی سے کبھی نہ نکل پائے گا اور اساتذہ کی تکریم کا جو تقاضا اور اسلامی و اخلاقی حکم ہے، وہ کبھی بحال نہ ہوسکے گا۔
بات سید شبیر حسین شاہ کی ہو رہی تھی اور حکومت و حکمرانوں کی کوتاہی و غفلت کی بھی، گجرات میں بھی شدید خطرات کے باوجود پروفیسر شبیر حسین شاہ کیلئے سکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا، حالانکہ انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں اور انتظامیہ اس سے آگاہ بھی تھی۔ پاکستان میں قائم ہزاروں مدارس میں سے کسی نے ان کے قتل پر اظہار افسوس تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ سیاسیات کے استاد تھے، شاید اس لیے کہ وہ تعصبات کے خاتمے کی بات کرتے تھے، شائد اس لیے کہ و ہ معاشرے میں اپنی دل نوازی اور مسکراہٹیں بکھیرنے کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے، شائد اس لیے کہ ان کو علم کی خیرات باب العلم سے ملی تھی، شائد اس لیے کہ وہ باب العلم سے اپنا شجرہ نسب رکھتے تھے، شائد اس لیے کہ وہ ایک سید اور شیعہ گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ ان کے جرائم بن گئے تھے۔
ابھی ایک سال پہلے پاکستان کے مایہ ناز آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر علی حیدر اور ان سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر سید شبیہہ الحسن ہاشمی کو پنجاب کے درالخلافہ لاہور شہر میں دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا۔ ان کے جسموں میں اترنے والی گولیوں کے نشان ابھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوئے، ابھی ان کا درد کم نہیں ہوا، ابھی ان کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے، ابھی ان کے قتل کی ایف آئی آر گرد آلود نہیں ہوئی۔ ابھی حکمران نہیں بدلے، ابھی برسراقتدار پارٹی بھی نہیں بدلی کہ ایک اور ایف آئی آر نامعلوم قاتلوں کے نام درج کرلی گئی ہے۔ معلوم نہیں یہ نامعلوم قاتل جو اپنے عمل، بھیانک کردار اور نامہ اعمال سے مکمل جانے اور پہچانے جاسکتے ہیں، حکمرانوں کو کب نظر آئیں گے، جب ان کی دست درازی حکمرانوں کے گھر تک پہنچ جائے گی، شائد۔؟
مگر یہ بات تو سب پر عیاں، واضح اور روشن ہے کہ جب مذاکرات کی بات آتی ہے تو ان کے چہرے سب کو دکھائی دینے لگتے ہیں، ان کے ٹھکانے اور مکان واضح ہوجاتے ہیں۔ میں گذشتہ چند برسوں میں اعلٰی عدلیہ کی پھرتیوں کا بھی عینی شاہد ہوں کہ اس نے کیسے کیسے اپنی اہمیت کا ہمیں احساس دلایا۔ اپنے مقام، مرتبہ، اختیارات اور آزادی کے گیت لکھوائے، اپنے طاقتور ہونے کے احساس کو پاکستان کی سب سے بڑی اور طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فورسز کے سربراہوں کو اپنے پاس بلوایا، مگر اس تمام طاقت، اختیار اور آزادی کا ڈنکا بجانے والوں سے ایک سوال ہے کہ آپ نے کسی دہشت گرد کو پھانسی گھاٹ پر چڑھایا، کسی دہشت گرد گروہ کے سربراہ کو اپنی عدالت کے کٹہرے میں بلوایا اور کسی کالعدم گروہ کو اس کی قانون شکن کارروائیوں اور کھلے عام سرگرمیوں پر نوٹس بھیجا۔
جاتے جاتے اتنا تو بتا جائیں کہ امریکہ سے آپ کا کیا رشتہ ہے، جس کے ایک دہشت گرد جاسوس کو آپ کی ماتحت عدلیہ نے قانونی تقاضے پورے کئے بغیر چھوڑ دیا تھا اور آپ کی زبان آج تک گنگ رہی ہے، حالانکہ وہ قاتل تھا، ناصرف وہ قاتل تھا اس کی مدد کو آنے والوں نے بھی ایک پاکستانی کو کچل کر پھینک دیا تھا اور آپ نے چپ کا روزہ نہیں توڑا۔۔ شائد اس لیئے کہ
بہتا ہے ہمیشہ یہ نشیبوں کی طرف ہی
دریاؤں کا پانی بھی سمجھدار ہے کتنا
Add new comment