علمدار کربلا کا خطبہ

قمر رضوی،اسلام آباد
علمدار کربلا جناب ابوالفضل العباس علیہ افضل السلام کی شخصیت وہ عجیب اور محیرالعقول شخصیت ہے، جسکی عظمت و رفعت کا ادراک ہمارے فہم و ذکا سے بالاتر ہے۔ آپ کو سیدالشہداء امام عالی مقام سے وہی نسبت حاصل ہے جو مولائے متقیان جناب علی المرتضٰی علیہ السلام کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھی۔ آپ کی عظمت و بزرگی کا اندازہ لگانا ہم کج فہموں کاکام نہیں، بس اتنا معلوم ہے کہ فرزند رسول کی نصرت کی خاطر امام علی علیہ السلام نے آپکو خدا سے خصوصی طور پر طلب فرمایا تھا۔ آپ سراپا اطاعت و فرمانبرداری تھے اور جس طرح سے آپ نے میدان کربلا میں ایک امام اور مطیع کے رشتے کو عملی طور ہر ثابت کرکے دکھایا، وہ تا قیامت تمام مطیعانِ امام کے لیئے مشعل راہ بن گیا۔ کیا کہنے آپکی اطاعت کے، کہ امامِ معصوم سیدِ سجاد علیہ السلام آپکی توصیف کچھ یوں فرماتے ہیں کہ

"جو کوئی اپنے وقت کے امام کی اطاعت کا اسلوب سیکھنا چاہے، تو اس چاہیئے کہ میرے محترم چچا ابوالفضل العباس علیہ السلام سے سیکھے۔"

محض یہی نہیں، امام سجاد علیہ السلام نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ

"میرے چچا حضرت عباس علیہ السلام کو روز محشر خدا وہ مقام عطا فرمائے گا جس پر انبیاء و مرسلین رشک کریں گے۔"

غازی عباس علیہ السلام اپنے بچپنے سے لیکر شہادت تک امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سائے کی مانند رہے اور ایسے ہی حقِ رفاقت نبھایا جیسے آپکے والد مولا علی علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نبھایا تھا۔ مولا کی حیاتِ مبارکہ کے اکثر پہلو ہنوز ہم سے پوشیدہ ہیں جسکی وجہ سے ہماری ارواح تشنگی کے عالم میں بھٹک رہی ہیں۔

چند روز قبل ایک نجی محفل میں ایسی ہی عارفانہ گفتگو میں ہمارے ایک رفیق حجۃ الاسلام جناب فیاض مطہری صاحب نے ایک ایسی بات کا تذکرہ کیا جس نے میرے رونگٹے کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ ہوش بھی اڑا دئے۔ جناب فیاض مطہری صاحب نے مجھے مولا غازی علیہ السلام کا وہ خطبہ سنایا، جو آپ نے اہلِ مکہ سے اس وقت خطاب فرمایا جب امام حسین علیہ السلام 7 ذی الحجۃ 60ھ کو حج کے احرام کو عمرے کے احرام سے تبدیل فرما رہے تھے۔ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام نے یہ معرکۃالآرا گفتگو اس عالم میں فرمائی کہ خانہءکعبہ کی چھت آپکا منبر بنی ہوئی تھی اور آپکا ایک دستِ مبارک کعبہ کی چھت پر تھا جبکہ دوسرا اپنے آقا امام علیہ السلام کی جانب۔ مولا علیہ السلام نے جو گفتگو فرمائی، وہ قاریئین کے ازہانِ عالیہ اور ارواحِ عارفہ کی بالیدگی کے لیئے پیشِ خدمت ہے جسکا ایک ایک حرف عرفان کا ایک سمندر ہے۔ مولا فرماتے ہیں،

بسم الله الرّحمن الرّحیم

حمد ہے اس اللہ کے لیے جس نے اسے (کعبے کو) میرے مولا (امام حسین علیہ السلام) کے والد گرامی (جناب علی علیہ االسلام) کے قدم سے شرف بخشا جو کل تک پتھروں سے بنا ایک کمرہ تھا، ان کے ظہور سے قبلہ ہو گیا ۔

اے بد ترین کافرو اور فاجرو! تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امام کے لیے روکتے ہو جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے؟

اور اگر اللہ کا واضح حکم نہ ہوتا، اسکے بلند اسرار نہ ہوتے اور اس کا مخلوق کو آزمائش میں ڈالنا نہ ہوتا تو یہی اللہ کا گھر خود اڑ کر میرے مولا (حسین علیہ السلام) کے پاس آجاتا۔ لیکن میرےکریم مولا نے خود اس کے پاس آکر اس کوعظمت بخشی۔

بے شک لوگ حجرِ اسود کو چومتے ہیں اور حجرِ اسود میرے مولا کے ہاتھوں کو چومتا ہے۔

اللہ کی مشیت، میرے مولا کی مشیت ہے اور میرے مولا کی مشیت، اللہ کی مشیت ہے۔ خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تم پر اس طرح حملہ کرتا جیسے کہ عقاب غضبناک ہو کر اڑتا ہوا چڑیوں پر حملہ کرتا ہے اور تم کو چیر پھاڑ دیتا۔

کیا تم ایسے لوگوں سے خیانت کرتے ہو جو بچپن ہی سے موت سے کھیلتے ہوں اور کیا عالم ہوگا ان کی بہادری کا جبکہ وہ عالمِ شباب میں ہوں؟

میں قربان کردوں اپنا سب کچھ اپنے مولا پر جو کہ اس پوری کائنات پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کا سردار ہے۔

اے لوگو! تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ ( کیا موازنہ ہے خاندانِ یزیدلعنۃ کا خاندانِ رسالت سے؟)

ایک طرف شراب پینے والے ہیں اور دوسری طرف حوضِ کوثر کے مالک ہیں۔

ایک طرف وہ ہیں جن کا گھر لہو لعب اور سارے جہان کی نجاستوں کی آماجگاہ ہے اور دوسری طرف پاکیزگی کے جہان اور آیاتِ قرانیہ ہیں اور وہ گھر جس میں وحی اور قرآن ہے۔

اور تم اسی غلطی میں پڑ گئے ہو جس میں قریش پڑے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور تم اپنے نبی کے نواسے کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہو۔ قریش اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام کی ہیبت و جلال کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور یہ کیسے ممکن ہوگا تمہارے لیے ابا عبداللہ الحسین کا قتل، جبکہ اسی علی کا بیٹا، رسول کے بیٹے کی حفاظت پر مامور ہے۔ اگر ہمت ہے تو آؤ! میں تمہیں اس کا راستہ بتاتا ہوں۔ میرے قتل کی کوشش کرو اور میری گردن اڑاؤ تا کہ تم اپنی مراد پا سکو۔

اللہ تمہارے مقصد کو کبھی پورا نہ کرے اور تمہارے آباء و اولاد کو تباہ کرے اور لعنت کرے تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر ۔

قاریئین گرامی قدر! یہ الفاط نہیں جو مولا غازی علیہ السلام کی زبان مبارک سے ادا ہوئے، بلکہ وہ انمول نگینے ہیں جو تاقیامت اہلِ فکر کے شعور کو روشن کرنے کے واسطے ادا ہوئے تھے۔ مگر صد افسوس کہ یہ موتی اب تک ہماری اپنی غفلت و کوتاہی کے باعث ہم سے پوشیدہ رہے۔ اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم خود بھی ان تمام حقائق و واقعات کا مطالعہ کریں اور علماء و ذاکرین سے بھی درخواست کریں کہ وہ مذکورہ بالا خطبہ کی مانند دیگر اسرار کی بھی پردہ کشائی فرمائیں، جو اب تک ہم سے مخفی رہے۔ تاکہ ہم اپنی قلیل حیات کو کسی حد تک مقصدِ عاشورہ سے ہم آہنگ کرنے کی ٹوٹی پھوٹی سی کوشش کرسکیں۔ خدا ہم سبکی توفیقاتِ خیر میں اضافہ فرمائے اور ہمیں اطاعتِ غازی کا وہ اسلوب سکھلا دے کہ ہم اپنے امام کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت پا سکیں۔ خدا ہم سبکا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

Add new comment