گمشدہ بیٹے

علی رضا صالحی

عصر جدید میں اسلام کے سیاسی تحرّک کا فکر وہ عظیم گوہر بےبہا ہے، جسے امام خمینی (رہ) جیسے فقیہ مجاہد نے بحر قرآن و سیرت اہلبیت (ع) کی عمق میں ایک عمر کی شناوری کے بعد اپنی بصیرت افروز نگاہوں سے پہچان لیا اور اس الہٰی فریضے کو ’’پرچم انقلاب اسلامی‘‘ کے سانچے میں ڈھال کر اپنے پاکیزہ ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام کر فرزندان اسلام کو سونپ دیا۔ آج انقلاب اسلامی کی مسلسل کامیابیوں اور پیش قدمیوں نے مظلومین و مستضعفین جہان کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کر دی ہے۔ تاریخ کے سینے میں دھڑکنے والی مزاحمتی تحریکوں کے درمیان جتنی استقامت، شجاعت و ایثار کے ساتھ اس انقلاب اسلامی نے طاغوت کی ناک خاک پر رگڑی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔

بجھی ہوئی خاکستر سے شعلہ نور کا روشن ہونا، عصر حاضر کا زندہ معجزہ ہے۔ ملت اسلامیہ کے ’’خاموش و ساکت‘‘سمندر کے ساحل سے ایک ایسی ملت کا انسجام ہوا جس نے ’’فرہنگ شہادت‘‘ کو پھر سے زندہ کیا۔ طاغوت و استکبار کی اجتماعی قوت کے ساتھ تن تنہا تینتیس سالہ ہمہ جہت مبارزہ و استقامت اور اس انقلاب اسلامی کے نظریاتی و فکری فرزند’’حزب اللہ‘‘ کی سرزمین لبنان پر ولادت اور اس نومولود ’’فکرموسی‘‘ کے ہاتھوں فرعون زمان کی شکست و ریخت نے تاریخ بشریت کو ایک اور موڑ دیا۔

ان تمام حادثات و تحولات میں جو چیز زمانے کی کہن مزاجی کے سینے کو چیرتے ہوئے عرفان کی نئی رفعتوں کی طرف بڑھتی ہے وہ امام خمینی (رہ) کی فکر اور بصیرت و دور اندیشی کی صلابت و پائیداری ہے۔
می رسد مردی کہ زنجیر غلاماں بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
جرات و شہادت کی شاہراہ پر نصب دانشگاہ کربلا سے ماخوذ فکر خمینی (رہ) و ’’راہ ولایت فقیہ‘‘ کا یہ پرچم پوری امت مسلمہ کو دعوت شرکت و عمل دے رہا ہے جس نے اس پرچم کے سائے تلے وفاداری کا سفر شروع کیا، اسے نور بصیرت و شعلہ استقامت اپنی حصار میں لے لیتا ہے اور وہ غزہ کی پٹی میں تین سال تک محصور رہ کر بھی یزید وقت کے سامنے شکست قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتا۔ جس نے نجات امت کی حبل متین (راہ ولایت فقیہ) کی دعوت و حجت کے سامنے لیت و لعل، مصلحت پسندی اور لاتعلقی کی ردا اوڑھتے ہوئے طاغوت کے ساتھ پنجہ آزمائی کی اور اس راہ عزت و افتخار پر سفر کرنے سے انکار کر دیا، وہ کروڑوں میں ہو کر بھی مٹھی بھر حسینیوں کے سامنے نشان عبرت بن جاتا ہے۔ جس نے ولایت فقیہ کے الہٰی نظام کے ہاتھوں بیعت کر لی اور حق و باطل کے ابدی معرکے میں خاموش و غیر جانبدار رہنے کی بجائے یزیدان وقت کے گریبان میں ہاتھ ڈالا، آج ملت کا وہ طبقہ اس انتظار میں نہیں کہ واشنگٹن، تل ابیب، ماسکو اور ریاض میں ’’ملت اسلامیہ‘‘ کی تقدیر کے فیصلے اور منصوبے رقم کیے جاتے رہیں بلکہ وہ خود آگے بڑھ کر دشمن کی سازشوں کا بساط الٹ دیتے ہیں۔ وہ مکروہ و بھیانک سازشوں کے جواں ہونے سے پہلے ’’ام الفساد‘‘ کی گود میں ہی ان ناپاک عزائم کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ جس کی تابندہ مثال امت حزب اللہ لبنان کے کفن پوش مجاہدین ہیں، جو اس وقت شام میں تشیع کی عزت کے نگہبان اور عالم اسلام کے ماتھے کا جھومر بنے ہوئے ہیں۔

مگر جن معاشروں کے سربراہوں نے نظام ولایت کے سلسلے میں شامی و کوفی رویہ اپنایا اور خود محوری کی راہ لی وہ تذبذب، عدم اعتماد اور بےبسی کی تصویر بن گئے۔ اُن معاشروں میں دشمن شیعہ قوت کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہو گیا اور شیعہ ہی’’ سب کچھ ‘‘ہونے کے باوجود پیش قدمی کے بجائے مدافعانہ بلکہ ضعیفانہ پوزیشن میں آ گیا۔ خود وطن عزیز پاکستان میں ملت تشیع کی حالت غور طلب ہے۔ جب دہشت گردی کے مسئلے نے، اب تک غیر جابندار بیٹھے طبقوں کو بھی ہراساں کر دیا اور اس کے سدباب کے لئے قومی سطح پہ مذاکرات کی بات چلی تو گذشتہ چار عشروں سے مسلسل لاشیں اٹھانے والی ’’صابر ‘‘ملت کو مذاکراتی عمل سے یکسر باہر کر دیا گیا اور قاتلوں اور دہشت گردوں کو مذاکرات کی دعوت دی گئی۔ دراصل حالات حاضرہ کے زندہ حقائق و مسائل اور ان سے پنجہ آزمائی کے لئے فکری و مکتبی راہوں سے چشم پوشی اور عالمی شیعہ پیش قدمیوں میں شرکت سے انکار اور عقب نشینی نے دشمن کو سرزمین پاکستان پر جسور و گستاخ بنا دیا ہے۔ وہ آج دیدہ دلیری کے ساتھ بابانگ دہل ارتکاب جرم کے لیے شام جاتا ہے اور اس کے’’ رنگین شواہد‘‘ بھی یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر ہم ان شرانگیزیوں کے سامنے بندھ باندھنے سے قاصر ہیں۔ عالمی منظرنامے میں کردار کی ادائیگی دور کی بات اب تو دشمن کا پلید ہاتھ ہماری شہ رگ (عزاداری ) تک پہنچ چکا ہے۔ آج جب روضہ دختر علی (س)، عزیز زہرا (س) و خواہر حسنین (ع) کیے دفاع حرمت کا وقت آ گیا، وہ وقت آ گیا جب مائیں اپنے بیٹوں کو کفن پہنا کر حرمت دین پر قربان ہونے کے لئے ’’میدان شام‘‘ روانہ کر دیں تو خاکم بدہن، منظر یہ ہے کہ ملت کی گود کے پَلوں کے ہاتھوں میں ہر سیاسی پارٹی کا جھنڈا تو موجود ہے، مگر تحفظ ناموس علی (ع) کا پرچم کہیں نظر نہیں آتا۔

آج ملت اشک ندامت بہاتے، چہرے کو ہاتھوں سے چھپائے، شام کی طرف رخ کر کے یہی عرض کرے گی کہ بنت زہرا (س)! دختر علی (ع)! خدارا معاف کیجئے! حرمت اہلبیت (ع) پر قربان کرنے کے لیے، اخباری بیانات، مذمتی اجلاسوں، زور دار تقریروں، نعروں اور پوسٹرز کے علاوہ ہمارے دامن میں کچھ بھی نہیں۔ جی ہاں! ہم نے جان بوجھ کر نسل نو کو نظام ولایت اور سپاہ ولایت سے دور رکھا۔ میدان خالی پاکر شیطانی و سفیانی روپ بدلے قزاق آئے اور ملت کے خزانوں سے دامن بھر بھر کر ہیرے جواہرات چرا لے گئے۔ آج 86ء سے اب تک لسانیت کا طوفان مچا کر بلادالعروس کو خون میں نہلانے والے پارٹی کے لیے جیئے جیئے کا نعرہ لگانے والے، دہشت گردوں کے شفیق و دلنواز سرپرست حکمرانوں کے لیے تقاریر کا مسودہ لکھ کر دینے والے، پانچ سال تک شیعوں کے پاراچنار میں تڑپتے اور چلاس میں سنگسار ہوتے لاشوں، آہوں اور سسکیوں کے درمیان اقتدار کے مزے لوٹنے والے بےغیرت اور بےروح پارٹیوں کا جنازہ اٹھا کر پھرنے والے ہجوموں کے تمام مناظر سے ایک ہی نوحے کی سوز ابھرتی ہے۔
وائے نادانی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

بعید نہیں کہ انصاف کا سر منافقت اور خیانت کے بلے سے کچلنے والے، ایجنسیوں کے پروردہ پارٹی کے سربراہ کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے بھی ملت کا ہی کوئی ’’بھٹکا ہوا راہی‘‘ کھڑا ہو۔ اصل بحث اس میں ہے کہ ہمیں وہ راستہ ہی نہیں دکھایا گیا جو نظام ولایت تک جاتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ نظام یزید میں ضم ہونے کا سبق پڑھایا گیا اور پالیسیاں بنا کر دی گئیں۔ اتحاد کے نام پر یزید پرستوں کے ہاتھ کلائیوں سے پکڑ کر، ہلاہلا کر پیش قدمی کے لیے بپھری ہوئی ملت کو خاموش کیا گیا۔ کم ہی ایسے ہیں جو پیروان یزید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دندان شکن جواب دیں اور خاموش کریں۔ دراصل دشمن نے بڑی کاوشوں اور زحمتوں کے بعد ملت کے اذہان میں یہ بات ڈال دی ہے کہ شیعہ جوان چاہے جس طرف، جس سمت، جس پارٹی یا گروہ میں جائے مگر دین کی طرف نہ جائے، لیکن حرمت رسول (ص) اور عظمت قرآن و وحدت امت کے نگہبان شجاع و بابصیرت قافلے کے خیمے کا در اب بھی کھلا ہے۔ آج وہ وقت ہے کہ ہم "یا ابانا استغفر لنا ذنوبنا انا کنا خاطیئن" کہتے ہوئے نور ولایت وحدت کی طرف قدم بڑھائیں۔ آج بھی ’’یعقوب (ع) ولایت‘‘ کی نماز شب کی جگر دوز آہوں اور نالوں کا ’’عنوان‘‘ اپنے فکری و نظریاتی فرزندوں کی ’’راہ ولایت و شہادت ‘‘ پر واپسی کی دعا ہے اور یقین جانئے!

جس دن یعقوب (ع) ولایت کے کھوئے ہوئے اور گمشدہ بیٹے اپنے آقا حفظہ اللہ کے حضور پہنچ جائیں، اس دن سرزمین پاکستان سے امریکی، صیہونی و یزیدی مداخلت و سازشوں کی بساط الٹ دی جائے گی اور اسلام عزیز کتابوں کی دبیز سطروں سے نکل کر سماج پر حکمرانی کرے گا اور اسی دن فلسطین و کشمیر ملت اسلامیہ پاکستان کے ہاتھوں فتح ہو گا۔

Add new comment