غم حسینؑ
اُستاد سیدجواد نقوی
فقال رسول اللہ اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ حَرَارَۃًفِی قُلُوبِ المُؤْمِنِینَ لَاتَبْرُدُ اَبَداً
رسول خاتم کافرمان ہے کہ شہادتِ حسین ؑ ، قتلِ حسین ؑ و خونِ حسین ؑ میں ایسی تڑپ اور حرارت موجود ہے جو ہمیشہ کیلئے مومنین کے دلوں کو گرماتی رہے گی اور ہرگز یہ تڑپ اور حرارت ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ صدیاں گزر گئی ہیں لیکن یہ عشق، یہ جوش، یہ ولولہ، یہ تڑپ اور یہ حرارت مسلسل بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ اگرچہ بعض نادان واحمق لوگ اپنی خام خیالی کی بنیاد پربسااوقات یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس حرارت،تڑپ اور شعلۂ عشق کو کم کردیں، مومنین کے دلوں کو سرد کردیں او ر امام حسین ؑ سے دور کردیں لیکن اس کا روز افزوں ہونا قانونِ الٰہی ہے۔
زندہ دل، حرمِ خدا ہے
خداوند تبارک وتعالیٰ نے انسان کا دل بنایا،اُس دل میں اپنی محبت ڈال دی اور اُس دل کو اپنا حرم بنادیا لہٰذا جب تک یہ انسان کا دل ہے اورزندہ دل ہے اُس میں یادِ خدا ضرور رہے گی۔اگر یادِ خدا، ذکرخدا، محبت خدا اور خوفِ خدا نہ ہوتو یہ دل نہیں رہتا اور جب انسان کا دل انسان کا دل نہ رہے، انسان بھی انسان نہیں رہتا۔ انسان کی انسانیت اُس کے دل کی وجہ سے ہے، اُس کے جسم کی وجہ سے نہیں ہے اوردل اُس وقت انسانی ہوتا ہے جب اُس کے اندر یادِ خدا وخوفِ خدا موجود ہو۔خصوصاً روایات میں ہے کہ جب یہ خوفِ خدا جوانی میں انسان کے دل میں آجائے، جب خدا کسی جوان کو اپنی محبت کیلئے منتخب کرلے اوراُس کے دل میں اپنی محبت ڈال دے، اُس جوان کے اندر اپنی ذات کا عشق ڈال دے اوراُس جوان کے اندر اپنی ذات کاخوف ڈال دے تو یہ جوان کادل خداوند تبارک وتعالیٰ کاسب سے اعلیٰ حرم ہے۔ اگرچہ دل جس عمر میں بھی خدا کیلئے تیار ہوجائے وہ حرمِ خدا ہے لیکن خصوصاً جب جوان کے دل میں عشقِ خدا آجائے تو یہ بڑا پاکیزہ دل ہے اورجب دل میں خدا کاخوف آجائے، اللہ کی محبت آجائے خدا کے اولیاء کی محبت بھی آجاتی ہے، چونکہ حبِ خدا اپنے مظاہر سے دور نہیں ہے۔
’’قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ‘‘ (آل عمران۔۳۱)
اگر تم اللہ کو پسند کرتے ہو تورسول اللہ کی پیروی کرو، رسول اللہؐ کی پیروی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تمہیں پسندکرے گا۔
اورخدا جس دل کو انتخاب کرلیتا ہے اُس دل میں اپنے اولیاء کی محبت ڈال دیتا ہے اورسب سے بڑھ کرحبِ علی ؑ واولادِ علی ؑ ڈال دیتا ہے۔
رسول اللہ سے روایت منقول ہے اے علی ؑ !کبھی بھی کوئی مومن اگرچہ اُسے شکنجوں میں جکڑا جائے، اُسے خارِ مغیلاں پرگھسیٹا جائے، اُسے عذاب و تکلیفیں پہنچائی جائیں لیکن کبھی کوئی مومن تجھ سے نفرت نہیں کرے گا اوراگر ساری دُنیا کی لالچ کسی منافق کو دی جائے وہ کبھی تجھ سے محبت نہیں کرے گا۔
عشقِ حسینؑ ، انسانیت کا معیار
بعض چیزیں خدا نے معیار قرارد ی ہیں۔ حبِ حسین ؑ ، عشق بذاتِ حسین ؑ اور تڑپ جو عاشورا و کربلا نے انسان کے دلوں میں ایجاد کی ہے یہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا معیار ہے۔ جس دل کوخدا نے غمِ حسین ؑ کی نعمت کیلئے انتخاب کرلیا اُس دل کے اندر کشش حسین ؑ ڈال دی تو دراصل اُس دل کے اندر وہ حرارت ڈال دی جواُسے ہرگز ٹھنڈا نہیں ہونے دے گی۔ انسانیت کا معیار اور علامت یہی محبتیں اور یہی غم ہیں۔ محبت کی بابت تو ہم سنتے رہتے ہیں، محبت آتی ہی اُس دل میں ہے جس دل کو محبوب کے ساتھ کوئی مناسبت حاصل ہوتی ہے لیکن اللہ کاایک قانون یہ بھی ہے کہ خدا غم کیلئے بھی دل کو منتخب کرتا ہے۔اللہ ہر غم ہر دل میں نہیں ڈالتا۔ ہم فخر کریں ا ور دُعائیں دیں اُن لوگوں کو جنہوں نے ہمیں غمِ حسین ؑ سے آشناء کیا ہے اور وہ لوگ جو غمِ حسین ؑ کو ہمارے دلوں میں زندہ وتازہ رکھتے ہیں اوراسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیتے، البتہ رسول اللہ کے فرمان کے مطابق یہ اہتمامِ خدا ہے۔
وسیلہ بنانا، سنتِ خدا ہے
اللہ وسیلے فراہم کرتا ہے اور بغیر سبب یا وسیلے کے کچھ کرنااللہ کی سنت نہیں ہے۔ کبھی کوئی کام اللہ نے بغیر وسیلے کے انجام نہیں دیا۔ یہ ذاتِ قدیر ہر کام کسی سبب کے ذریعے سے انجام دیتی ہے، اُسے آپ کوحرارت دینی ہوتی ہے توسورج کو وسیلہ بناتا ہے، اُسے آپ کی پیاس بجھانی ہوتی ہے توپانی کو وسیلہ بناتا ہے، اُسے آپ کی بھوک مٹانی ہوتی ہے تو کھانے کو وسیلہ بناتا ہے، اُسے آپ کو آرام دینا ہوتا ہے تورات کو وسیلہ بناتا ہے اوراسے آپ کو رزق دینا ہوتا ہے تو دن کو وسیلہ بناتا ہے اورہر چیزکا ایک وسیلہ بناکر انسان کو اپنے مقرر کردہ وسیلے سے اپنی نعمتوں تک پہنچاتا ہے۔
کونسا غم نعمت ہے؟
خدا کے مقرر کردہ وسیلے جو ہمارے دلوں کے اندر غم حسین ؑ ویادِ حسین ؑ کو زندہ رکھتے ہیں وہ درحقیقت ہم پر عظیماحسان کرتے ہیں۔اللہ انہیں وسیلوں کے ذریعے سے غم کو زندہ رکھتا ہے لیکن کونسا غم؟ وہ غم جو انسان کے دل میں تڑپ پیداکرے، وہ غم جو انسان کے دل میں حرارت، جوش اور جذبہ پیدا کرے۔ رسول اللہ فرماتے ہیں
’’اِنَّ لِقَتْلِ الْحُسَیْنِ حَرَارَۃًفِی قُلُوبِ المُؤْمِنِینَ‘‘
مومنین کے دلوں میں شہادتِ حسین ؑ ، غمِ حسین ؑ ، ذکرِ حسین ؑ اور خونِ حسین ؑ ایک حرارت وتڑپ پیدا کرتا ہے۔ وہ تڑپ درحقیقت خداوند تبارک وتعالیٰ کی جانب سے نعمت ہے جوخدا کسی دل کو انتخاب کرکے اسکے اندر ڈال دیتا ہے۔
اگرچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کئی غموں میں مبتلا ہیں، کسی کے دل میں غمِ دُنیا ہے، کسی کے دل میں غمِ دوراں ہیں، کسی کے دل میں غمِ مال وغمِ اولاد ہے یعنی ہرایک انسان کے دل میں کسی نہ کسی چیز کاغم موجود ہے اور انسان جس طرح اپنے ’ہم‘ سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح اپنے غم سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
’’ہم‘‘ کا مفہوم
’ہم ‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں’ہم ‘ ہمت کو کہتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ تیرا ہم وغم کیا ہے یعنی تیری ہمت کیا ہے، تیرا ارادہ کیا ہے، تیری مراد کیا ہے، تیری جستجو کیا ہے، تیرا مقصد کیا ہے، تیرا ہدف کیا ہے، جو چیز انسان کا ہم ہوتی ہے، جو انسان کا مقصد ہوتی ہے، انسان کے اندراُسی سے دوری کا غم بھی پیدا ہوتا ہے۔ پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کاہم کیا ہے، جو ہم ہے وہی آپ کاغم ہے۔ اگر انسان کاہم دُنیا ہے، انسان کا غم بھی دُنیا ہے۔ اگرہمِ انسان اولاد ہے غمِ انسان بھی اولاد ہے، اگر ہمِ انسان شخصیت ہے غمِ انسان بھی شخصیت ہے۔ اپنے غم دیکھو اوراپنے اردگرد کے لوگوں کے غم دیکھو ۔ کبھی کوئی جوتے کیلئے غمگین ہے، کوئی جوڑے کیلئے غمگین ہے، کوئی موبائل کیلئے غمگین ہے، کوئی موٹرسائیکل کیلئے غمگین ہے، کوئی روزگار کیلئے غمگین ہے، کوئی ڈگری کیلئے غمگین ہے، کوئی ویزے کیلئے غمگین ہے، ہر شخص اُسی چیز کے بارے میں غم میں مبتلا ہے جس کو اُس نے اپنا ’ہم‘ یا اپنا مقصد بنایا ہے۔ غم انسان کے دل میں اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنے ہم سے دور ہوتا ہے۔ اُردو میں ہم اور ہے فارسی میں ہم اور ہے، ساری زبانوں میں لفظِ ہم استعمال ہوتا ہے لیکن سب سے خوبصورت ہم عربی زبان کا ہم ہے۔
انسان کی قیمت!
علی ۔ کافرمانا ہے کہ اے انسان! تیری قیمت وہی ہے جو تیرا ’ہم ‘ہے
’’قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ ہِمَّتِہِ‘‘
ہرانسان کی قیمت وہی ہے جو اُس کی ہمت ہیبعض اوقات ہم کہتے ہیں بڑی قیمتی جان چلی گئی، کبھی کسی کا کوئی موبائل گم ہوتا ہے کہتے ہیں بڑا قیمتی موبائل گم ہوگیا۔ موبائل سستے بھی ہیں اور قیمتی بھی ہیں، اسی طرح انسان بے قیمت بھی ہیں اور قیمتی بھی ہیں۔ بے قیمت انسان کون ہیں اور قیمتی انسان کون ہیں؟ علی ؑ فرماتے ہیں کہ جب انسانوں کی قیمت لگاؤ تو اُن کا وزن نہ تولو کہ کتنے کلو کے ہیں، جب انسانوں کی قیمت لگاؤ تواُن کی ڈگریاں نہ تولو کہ اس کے پاس کتنی ڈگریاں ہیں، جب انسان کی قیمت لگاؤ تواُس کا مال نہ تولو کہ اس کے پاس کتنا مال ہے، جب انسان کی قیمت لگاؤ تواُس کاخاندان نہ تولو کہ کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے، جب انسان کی قیمت لگاؤتو پہلے اُس کی ہمت دیکھ لو کہ اُس کا زندگی کے اندر مقصد کیا ہے۔ انسان کی قیمت انسان کے مقصد سے پیدا ہوتی ہے۔ وہی جو تیری ہمت ومقصود ہے وہی تیری قیمت ہے: اگر تو دُنیا تک پہنچنا چاہتا ہے پہلے یہ دیکھ لے دُنیا کی کتنی قیمت ہے ؟ قیمتی جان کس کو کہتے ہیں؟
قیمتی نفوس کا خریدار خدا ہے
خداوندمتعال نے فرمایا کہ میں نے تمہیں جوجانیں دی ہیں یہ جانیں تمہارے اختیار میں ہیں، یہ جانیں تمہاری گروی ہیں، اپنے نفوس کو آزاد کراؤ، آزاد کراکے ان کو قیمتی بناؤ، اتنا قیمتی بناؤکہ اس پوری کائنات میں تمہاری جان کاکوئی خریدار نہ مل سکے، اس لئے کہ اس جان کی کوئی قیمت ادا ہی نہ کرسکتا ہو۔ جب انسان اپنی جان کو اُس نقطے پر پہنچادیتا ہے تواللہ کہتا ہے اس جان کا خریدار میں ہوں۔ جان سب کو اللہ نے دی ہے لیکن بعض انسانوں نے اس جان کواتنا بے قیمت کردیا ہے کہ اس کو ڈھیرپر پھینک دو توبھی کوئی اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہے اور جس نے اس جان کو قیمتی بنالیااللہ اُس جان کا خریدار ہے۔
’’اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ‘‘ (التوبہ، ۱۱۱)
خدا نے مومنین کے نفوس خرید لئے ہیں!
’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہَ‘‘(البقرہ، ۲۰۷)
کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے نفس کو رضائے خدا کے بدلے میں دے دیا، اُن کے نفس کو اللہ نے خرید لیا اس لئے کہ خدا کے علاوہ کسی کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے۔ لہٰذاجان کو قیمتی بناؤ۔
بے قیمت انسان کا خریدار!
آج کل ایک کباڑ کا کاروبار ہے۔کباڑ یعنی ردّی چیز یں۔جو چیزیں استعمال ہوچکی ہیں، خراب ہوچکی ہیں، خراب گاڑیاں، خراب مشینیں، خراب آلات اور دیگر بہت ساری چیزیں جولوگ استعمال کرتے ہیں جب وہ استعمال کے قابل نہیں رہتیں تو اُن کو کباڑ کہتے ہیں۔ آپ گاڑی لاکھوں روپے میں خریدتے ہیں لیکن جب یہ گاڑی ایکسیڈنٹہوکے کباڑ بن جاتی ہے تو ا سکو تول کے بیچتے ہیں کیونکہ یہ کباڑ بن گئی ہے۔کباڑکو لوگ کوڑیوں کے بھاؤ خریدتے ہیں۔ آپ بیشک کہیں کہ میری یہ گاڑی پچاس لاکھ روپے کی تھی، کباڑیہ کہتا ہے کہ اب پانچ سو سے زیادہ کی نہیں ہے،بیچنی ہے تو دو بیچوورنہ اپنی راہ لو۔ یہ گاڑی اس وقت پچاس لاکھ کی رہی ہو گی جب اس کے اندر ایسی صلاحیت وخصوصیت تھی جس نے اس کی قیمت پچاس لاکھ کردی تھی لیکن تم نے اُس کو سنبھالانہیں،تم نے اسے کباڑ بنادیا لہٰذا اب اس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔ اگر خریدار بھی ہے تو کباڑیہ خریدار ہے۔
اسی طرح خدا نے ہمیں جان دی اور کہا یہ جانیں تمہارے پاس ہیں، چاہو تو ان کو کباڑ بنادو اورچاہے تو ان کو قیمتی بنادو، اگر قیمتی بناؤ اللہ خریدار ہے اوراگر کباڑ بنادیا کباڑیہ خریدار ہے۔
آج دیکھ لیں کہ بہت سارے لوگ ہیں جن کو کباڑیوں نے خرید لیا ہے۔ بہت سارے اپنے آپ کو کباڑ کیلئے تیار کر رہے ہیں کہ ہمیں کوئی چین کی کمپنی خرید لے، کوئی بینک خرید لے۔ اگر یہ کمپنیاں خرید لیں تو انہوں نے انسان نہیں خریدا بلکہ کباڑ خریدا ہے۔تو نے اپنے آپ کو کباڑ بنایا ہے لہٰذا کباڑئیے نے خریدا ہے، اگر تو نے اپنے آپ کو قیمتی بنایا ہوتا تو تیرا خریداراللہ ہوتا۔
انسان کی قیمت، اسکاارادہ ہے!
انسان کے اندرقیمت ’ہم‘ سے آتی ہے۔ہم ہمت سے ہے اور ہمت یعنی مقصد یا ارادہ۔پکے ارادے کو ہمت کہتے ہیں، جیسے کہتے ہیں بڑا باہمت آدمی ہے یعنی اس نے ارادہ کرلیا اور اب سختیوں کے سا منے تسلیم نہیں ہورہا۔ سختیاں انسان کو نہیں توڑتیں انسان کے ارادوں کوتوڑتی ہیں، مصائب انسان توڑنے نہیں آتے انسان کے ارادوں کو توڑنے آتے ہیں، مشکلات انسانوں کو نہیں توڑتیں انسانوں کے ارادوں کو توڑتی ہیں، محرومیاں انسان کو نہیں توڑتیں انسان کے ارادے توڑتی ہیں۔ جب انسان ارادہ کرکے توڑ دیتا ہے تو اپنی مراد سے دور ہوجاتا ہے اورجتنا مراد سے دور ہوتا ہے، اپنی قیمت اتنی ہی کم کرلیتاہے اور آہستہ آہستہ خود کو کباڑ بنا لیتا ہے۔
ہمتِ مرداں، مددِ خدا !
صاحبِ ارادہ و صاحبِ عزم بنیں۔ فارسی کایہ محاورہ (اسے ہم نے فارسی اہلِ زبان لوگوں سے تو نہیں سنا لیکن برِ صغیر کی فارسی میں پایا جاتا ہے) جو ہم عموماً استعمال کرتے ہیں اُردو کاحصہ بن گیا ہے کہ ’’ہمتِ مرداں مددِ خدا‘‘۔ خدا کی مدد مشروط ہے یعنی وہ ہر جگہ مدد نہیں کرتا۔ خدا اپنی مدد کوضائع نہیں کرتا۔ اللہ حکیم ہے، اللہ سمیع ہے، اللہ بصیر ہے، اللہ علیم ہے۔ جیسے آپ کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور چاہتے بھی ہیں کہ کسی فقیر کودیں لیکن آپ گداؤں کو نہیں دیتے چونکہ آپ کومعلوم ہے گدا کو دینا ضائع کرنا ہے۔ گدا اور فقیر میں فرق ہے۔ فقیر وہ ہے جس کے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن مانگتا بھی نہیں ہے،جبکہ گداوہ ہے جس کی جیب بھری ہوئی ہے پھر بھی مانگ رہاہے۔آپ کو کہاگیا ہے کہ اپنا مال فقیر کو دو، گدا کو نہ دو۔اگر فقیر کا مال گدا کودیا تو آپ اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے کہ مال کسی کاتھااوردیا کسی اور کو۔ جس کا مال ہے اُسی کو دو۔ فقیر کون ہے ؟ فقیروہ ہے جس کو تمہیں تلاش کرنا ہے، گدا وہ ہے جو تمہاری تلاش میں نکلا ہوا ہے۔ فقراء بہت ہیں،آپ کے اڑوس پڑوس میں فقراء ہیں، آپ کے رشتہ داروں میں فقراء ہیں۔ جاکر تلاش کرو اُن کی زندگیوں میں کیا کمی ہے؟ان کی زندگیوں میں کیا مشکل ہے؟ شاید بظاہر سفید پوش ہوں لیکن اُن کی زندگی میں بڑی مشکلات ہوں۔ اُن کی زندگیوں کا سہارا بنو،اُن کے بچوں کی تعلیم وتکمیل کاسہارا بنو، اُن کی بیٹیوں کی شادیوں کا سہارابنو، اُن کے بیماروں کے علاج کا سہارا بنو، اُن کے قرض اُتارنے کا سہارا بنو۔ کتنے لوگ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن کسی کو بتاتے نہیں ہیں۔ اُن کی عزت و آبرو خطرے میں ہے اورہم اُن کامال اُٹھاکے گداگروں کو دے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو قیمتی بناؤ قیمت ہم سے پیدا ہوتی ہے، مضبوط ارادہ رکھو، صاحبِ ارادہ بنو۔ اللہ نے اپنی امداد مشروط کردی ہے۔
مددِ خدا کی شرائط:
اللہ کافرمانا ہے میں ہر ایک کی مدد نہیں کرتا
’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ‘‘ (سورہ محمد، ۷)
جو میری مدد کرے گا میں اُس کی مدد کروں گا !
اللہ بے نیاز، غنی، قدیر اور قوی ہے۔ یہ اسماء اللہ ہیں۔ اللہ کے اسماء میں سے قوی(قوت والا)، قدیر(قدرت والا)، محیط(احاطے والا)، صمد( بے نیاز) اورغنی ( بے نیاز) ہیں۔ جو ذات قدیر ہے، جو ذات صمد ہے وہ ذات کہہ رہی ہے اُٹھو میری مدد کرو۔ آپ کو کس چیز کی مدد کی ضرورت ہے ؟ خدا کا جواب آئے گا وہی میری مخلوق جو تمہارے پڑوس میں تھی اگر تم اُس کی مدد کرتے تو میری مدد ہوتی۔
قرآن مجید میں آیت ہے
’’مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا‘‘ (البقرہ، ۲۴۵)
کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے ؟
حیرت کی بات ہے اللہ کو قرضِ حسنہ دے ! اے اللہ! تو محتاج ہوگیا، تجھے قرض کی ضرورت پڑ گئی؟ قرض تو وہ لیتا ہے جو بالکل ختم ہوجائے، تو بے نیاز خدا، توخالق ومالک خدا، تجھے قرض کی ضرورت پڑی؟ جواب آئے گاوہ تیرے پڑوسمیں جو میری مخلوق میں سے تھا، جو مقروض و ضرورت مند تھا اور تجھ سے قرض مانگنے آیاتھا اگر تواُس کو دے دیتا تواُس قرض دینے کا شرف اتنا بڑا تھاکہ گویاتوخدا کودے رہاہے۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض اولیاء سے کہا کہ تو میری عیادت کوکیوں نہیں آیا؟اُن نبیِ خدا، ولی خدا نے پوچھا اے پروردگار! تیری عیادت کو آناسمجھ نہیں آتا: تُو تو مبرا ہے، تو پاک ہے، تو مقدس ہے، تو اعلیٰ ہے، تو مریض کب ہوتا ہے کہ میں تیری عیادت کو آؤں؟ جواب آیا، تیرے پڑوس میں میری مخلوق میں سے ایک شخص مریض تھا اگر تواُس کی عیادت کو جاتا ایسا ہی تھا جیسے اللہ کی عیادت کو گیا۔
’’اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ‘‘ (سورہ محمد، ۷)
اللہ کی امداد مشروط ہے کہ تو اللہ کی مدد کراللہ تیری مدد کرے گا۔ اللہ کس کی مدد کرتا ہے؟ اللہ مَردوں کی مدد کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں کی مدد نہیں کرتا، یہ لفظ ’ہمت مرداں‘ کا مطلب جنسِ مردنہیں ہے کہ جنسِ عورت اُس سے باہر ہوجائے۔اس مرد ہونے سے مراد مردانگی ہے۔ امیرالمومنین ؑ نے اپنے لشکر کو بٹھایا،وہ لشکر جو جنگ کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا،کبھی کہتاتھا سردی بہت ہے، کبھی کہتاتھا گرمی بہت ہے، حضرت ؑ نے فرمایا کہ تم جو سردی اور گرمی سے بھاگتے ہو، تم دشمن کی تلوار کاسامنا کیسے کروگے ؟ اُن کو بٹھاکر حضرت ؑ نے خطبہ دیااور فرمایا:
’’یااشباہ الرجال ولارجال‘‘
اے مرد نماچہرو! اے مَردوں کی شکل والے نامردو!تمہارے چہرے مردوں والے ہیں لیکن تمہارے اندر صفاتِ مردانہ نہیں ہیں، غیرت نہیں ہے، مردانگی نہیں ہے، شجاعت نہیں ہے۔ یہ مردانہ اوصاف ہیں۔ بلند ہمت انسان کو مرد کہتے ہیں، جوبلند اہداف رکھتا ہو جو بڑے مقاصد رکھتا ہو۔خدا نے فرمایا کہ خدا اُن کی مدد کرے گا جوبلند ہمت رکھتے ہیں، چھوٹی ہمت والوں کوخدا دوسروں کے سپرد کردیتا ہے، کباڑیوں کے سپرد کردیتا ہے کہ تم ان کی مدد کرو۔ کتنے لوگ ہیں جن کو اللہ نے سیٹھوں کے حوالے کیا ہوا ہے، کتنے ایسے لوگ ہیں ویلفیئراین جی اوز کے سپرد کیا ہواہے۔
معرفتِ خدا، بذریعہ خدا
سید الشہداء ؑ دُعائے عرفہ میں فرماتے ہیں کہ اے پروردگار! مجھے اپنی معرفت اپنی ذات سے عطا فرما، مجھے اپنے آثار اوراپنی مخلوقات کے حوالے نہ کر کہ میں زمینوں کودیکھ کر خدا کو پہچانوں، میں آسمانوں کودیکھ کر خدا کو پہچانوں، میں ستاروں کو دیکھ کر خدا کو پہچانوں۔ اے پروردگار! تومجھے اپنی ذات کا قرب اپنی ہی ذاتِ بابرکت سے عطا فرما، توخود اپنی ذات کی تجلی فرما کہ حسین ؑ تجھ سے تجھ کو پہچانے۔ مجھے ان کے سپرد نہ کر کہ میں ان میں بھٹکتا پھروں، کائنات میں تلاش کرتاپھروں۔
نہج البلاغہ میں امیرالمومنین ؑ فرماتے ہیں کہ دو قسم کے لوگ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مبغوض، مترود، منفورہیں اورسب سے زیادہ خدا ان دوقسم کے لوگوں کو ناپسند کرتا ہے: ایک وہ ہے جو علم نہیں رکھتالیکن عالم بن کر لوگوں میں آبیٹھتا ہے اوردوسراجس کوخدانے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے، جس کوخدا نے دوسروں کے سپرد کردیا ہے۔
خوش نہ ہوں کہ سفارت خانے ہماری مدد کریں، ہمیں چندے دیں، این جی اوز کی مدد سے ہم اپنی مشکلات حل کریں، کبھی سوچا کروکہ اے پرورگار! مجھے این جی اوز کے حوالے کیوں کردیا؟ مجھے ویلفیئر تنظیموں کے حوالے کیوں کردیا، اے پروردگار!وہ رزق کے وسیلے جو تواپنے خاص بندوں کو دیتا ہے تو اُن وسیلوں سے مجھے رزق عطافرما، عزت کے ساتھ مجھے رزق عطافرما مجھے ان سیٹھوں کے حوالے مت کر، مجھے ان ویلفیئرسوسائٹیوں کے حوالے مت کر، مجھے یہ راشن تقسیم کرنے والوں کے حوالے مت کر، مجھے اُن کے حوالے مت کر جومجھے ایک پاؤآٹا دیتے ہیں اور ایک ٹن میری عزت ضائع کرتے ہیں۔
میں نے دیکھا پاکستان سے باہر پاکستان کے شہداء کے بچوں اور بیواؤں کی تصاویر مساجد میں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستانی شیعہ شہداء اوراُن بچوں کی تصاویر مساجد کے دروازے کے اوپر لٹکی ہوئی ہیں کہ فلاں شہرمیں اتنے شہید ہیں، یہ بیوہ ہے، یہ بچہ ہے، یہ فلاں ہے اوران کی مدد کیلئے لوگ آتے جاتے ہوئے صندوق میں پیسے ڈالتے ہیں۔ خداشاہد ہے اُس مسجد میں جاکر ندامت سے سر جھک گیا، شرمندگی ہوئی یہ دیکھ کر کہ آج ہماری حالت یہ بن گئی کہ ہمارے شہداء کے بچوں کی تصویروں کی عالمی سطح پر تشہیر ہورہی ہے تاکہ لوگ ایک ایک ڈالر ان کی مدد کیلئے ڈالتے رہیں۔ خدا کیوں ان کے سپرد کردیتا ہے؟ خوش نہ ہوا کرو کہ ہماری مدد فلاں جگہ سے ہورہی ہے۔ اللہ ہمت والوں کی خود مدد کرتا ہے، ہمت بلند کرو۔اگر ہمت کم ہوئی خدا کسی اور کے سپرد کردے گا، اگر ہمت بلند ہوئی خدااپنی تحویل میں لے لے گا اورسب کچھ عزت کے ساتھ دے گا۔
شاہین بچوں کا درسِ خاکبازی!
عموماً میں عرض کرتاہوں کہ اقبالؒ کے شاہینوں سے ایک گلہ اقبالؒ کو تھا، ایک گلہ مجھے ہے۔ اقبالؒ کو گلہ کیاتھاکہ
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
یہ بچے شیر کے ہیں لیکن سبق،نصاب اور کتابیں بکریوں والی ہیں، اُستاد بکریاں، تعلیم ساری بکریوں والی اورتعلیم شیر کے بچوں کو دی جا رہی ہے۔ شیر کے بچوں کی کلاس لگتی ہے، تعلیمی نظام میں جاتے ہیں، داخلہ ہوتا ہے شیر کے بچے کا، شیر کے بچے کوجاکر کسی جگہ لومڑی کادرس دیاجارہاہے، کسی جگہ بکری کادرس دیاجارہاہے، کسی جگہ گیدڑ کادرس دیاجارہاہے آپ دیکھ لیں یہی درس دیاجارہاہے۔ شیر کے بچے کو اگرتقویٰ سکھانا ہے تو شیر والا تقویٰ سکھاؤ،بکری والانہیں۔ بکری کو فارسیمیں’’بز‘‘ کہتے ہیں اورجس کادل بکری والاہواُس کو بزدل کہتے ہیں یعنی بکری والادل۔ بکری اور گیڈرکوئی خونخوار جانور نہیں ہے، مردہ خور ہے۔ گیڈر شکاری جانور نہیں ہے۔ گیدڑ مری ہوئی مرغی، مرے ہوئے جانور یاکسی نے کوئی شکار کیا ہواہواُس کاباقی ماندہ مردار ڈھونڈتا ہے۔ گیڈر شکاری نہیں ہے لیکن اسی گیڈر کے سامنے جب بکری آجاتی ہے یہ شکاری بن جاتا ہے۔ یعنی گیڈر میں بھی حوصلہ آجاتا ہے کچھ کرنے کا، مارنے کا، چنگھاڑنے کا، پھاڑنے کالیکن اس وجہ سے نہیں کہ گیڈر کے اندر اللہ نے یہ خصوصیت رکھی ہے بلکہ بکری کاضعف دیکھ کر، بکری کی کمزوری دیکھ کر، بکری کی بزدلی دیکھ کر، بز کی بزدلی دیکھ کر گیڈر بھی شیر بن جاتا ہے۔ شیر کے بچوں کو جب بکریوں کا تقویٰ سکھائیں یہی ہوتا ہے۔
شیر کو بکری کا درس پڑھانا!
علمِ دین سے مراد علمِ تقویٰ ہے۔کہتے ہیں جوان کو متقی بنا دیا۔پہلے کتنے انقلابی جوان نظر آتے تھے آج کل نظر نہیں آتے، پوچھتے ہیں کہاں چلے گئے؟ کہتے ہیں انہوں نے فلاں صاحب کے درسِ تقویٰ میں شرکت کی تھی، آج کل نظر نہیں آتے،یعنی کس نے شیر کو بکری بنادیا؟ شیر کو شیر کاتقویٰ سکھاؤ، شاہین کو شاہین کاتقویٰ سکھاؤ شاہین کو ممولوں کادین نہ پڑھاؤ۔ تعلیمی اداروں کے اندر جاتے ہیں وہ شاہین کے ممولے بنارہے ہیں، شیر کو بکری بنارہے ہیں اوربہت کامیاب تعلیمی نظام ہے۔
سرکس دیکھاہوگاآپ نے، کس طرح وہ وحشی جنگلی جانور کو پکڑ کراُس کو مسخ کرکے کرسی پر لابٹھاتے ہیں۔ ہاتھی کو کرسی پر لابٹھاتے ہیں، شیر کو کرسی پر لا بٹھاتے ہیں یہ رونے کا مقام ہے۔ جب ایک شیر آپ بلی بنا ہوا دیکھو تو ہنسو مت، روؤ چونکہ انسان نے یہ ظلم کیا، یہ ستم کیا کہ شیر کو بلی بناکر سرکس میں تماشے کیلئے لے آیااوراس سے بڑا ظلم انسان خود انسان کے ساتھ کررہاہے کہ انسان کے بچوں کو جو اقبالؒ کے بقول شاہین کے بچے تھے ان کو جب بلی بنا دیتا ہے، ان کو جب خرگوش بنادیتا ہے، ان کو جب چوہوں جیسا درس دیتا ہے، ان کو جب بکریوں والا تقویٰ سکھاتا ہے اُس سرکس کے منظر سے بھی زیادہ قبیح منظر ہوتا ہے، اتنا کرسی پربیٹھاہوا شیر برا نہیں لگتا جتناایک جوان جس کے اندر سے روح نکال دی گئی ہو برا لگتا ہے۔
ہم سے ہمت چھین لی گئی ہے، ہمیں بزدل بنادیا ہے۔ دین بزدلوں والا، دُنیا بزدلوں والی، تعلیم بزدلوں والی، انتخاب بزدلوں والا، مستقبل بزدلوں والا، فیکلٹی بزدلوں والی، اُستاد بزدل ہر طرف زمین آسمان سے بزدلی ہی بزدلی ہے اور بزدلی کے اثرات آج آپ پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، یہ ذلت بزدلی کا نتیجہ ہے، بے غیرتی کا نتیجہ ہے۔ آج جو اس ملک وملت کو سامنا کرنا پڑرہاہے۔ کوئی چیز محفوظ نہیں ہے، فوج پر حملے ہورہے ہیں، مملکت کی یہ حالت بن گئی ہے، حکمرانوں کی یہ حالت بن گئی ہے اور ملت ٹی وی پر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہی ہے، ٹی وی سرکس دکھاتا ہے، وہاں جانورہیں یہاں روزانہ انسانوں کا سرکس دکھاتا ہے۔ پاکستانیوں کی یہ درگت بزدلی وبے غیرتی کی وجہ سے بن گئی ہے۔ جوانوں کا دین، دلیروں کا دین، مردوں کا دین، شجاعوں کا دین اختیار کریں۔
کربلا بزدلوں کا میدان نہیں!
کربلا بزدلوں کیلئے نہیں تھی، عاشورہ بزدلوں کیلئے نہیں ہے، عاشورہ کا کیا ربط ہے بزدلوں کے ساتھ! لیکن بزدل بھی اگر عاشورہ کی کوئی رزم بجالا ئے تو وہ بھی کربلائی اور عاشورائی ہوجائے گا۔کربلا رسم نہیں ہے، کربلا بزم بھی نہیں ہے۔ یہ گمان ذہن سے نکال دو کہ ہم بزمِ عزاء منعقد کرکے کربلائی ہو جائیں گے اور ہم رسمِ کربلا انجام دے کر کربلائی ہوجائیں گے۔ کربلا نہ بزم ہے نہ رسم ہے، کربلا رزم ہے۔ دلیروں کی رزم ہے، شجاعوں کی رزم ہے، ہمت مرداں رکھنے والوں کی رزم ہے۔ وہاں پر اگربچہ بھی تھا تو وہ بھی مردانہ وار لڑا، اگر بوڑھا بھی تھاتو وہ بھی مردانہ وار لڑا، اگرخواتین بھی تھیں تو وہ بھی مردانہ وار لڑیں۔ کربلا بزدلوں کا میدان نہیں ہے،کوئی بزدل کربلا آیا ہی نہیں۔کیوں فقط چھانٹی ہوکر بہترپہنچے؟بہتر لاکھ میں سے بہتر پہنچے، باقی کہاں رہ گئے؟ باقی کہاں بیٹھے ہوئے تھے؟ کربلا میں فقط بہادر اور شجاع آئے۔ بہادرانہ و مردانہ ہمت پیدا کرو۔
اس قوم کا جوان جب سوچتا ہے تو بزدلوں کی طرح سوچتا ہے، جب انتخاب کرتا ہے توبزدلوں کی طرح کرتا ہے، اپنے لئے زندگی کے میدان کا انتخاب بھی بزدلانہ کرتا ہے۔ کیا سوچتا ہے، میں کیا پڑھوں؟ کونسی فیکلٹی انتخاب کروں؟ ڈرتا ہے کہ کہیں غلطی سے ایسا مضمون نہ پڑھ لوں جس میں روٹیاں کم ہو جائیں، روٹیوں کی کمی کے خوف سے اس کا دل لرز رہاہے۔ بزدل یہی تو ہوتا ہے بزدل کو اگر کہو توڈرتا ہے کہ مجھے کچھ ہونہ جائے،اسی کو بزدل کہتے ہیں۔ اندھیرے میں نہیں جاتا کہ کہیں مجھے کچھ ہونہ جائے، میت کے پاس نہیں بیٹھتا کہ کہیں میت مجھے اُٹھ کے دبوچ نہ لے۔پڑھتا ہے تو ڈرتے ڈرتے پڑھتا ہے۔ منبر حسینیؑ جو منبر شجاعت ودلیری ہے اس مذہب کاعالم آتا ہے منبر پر بیٹھتا ہے ڈرتے ڈرتے بولتا ہے، یہ تو بزدلی کا منبر نہیں ہے۔
بنتِ علیؑ کی شجاعت!
آپ چاہے بڑے سے بڑے دلیر پہلوان کوبھی لے کر آؤ، اُسکے ہاتھ پس گردن باندھو، اُسکی پشت پر تازیانے مارو، اُس کو اونٹ پربٹھاؤ، اُس کی بہنوں اوراُس کی بیوی کو سربرہنہ و پابندکرکے اُس کے سامنے بازار میں کھڑا کرو، اُس کے بچوں پر ستم کرکے بازاروں میں لے آؤاورپھر اُس سے کہو کہ تو اپنی بہن کی پرواہ بھی نہ کر، تواپنے شہید بھائی کی پرواہ بھی نہ کر جس کا سر تیرے سامنے ہے، یہ جو تیری پشت پر تازیانے ہیں ان کی پرواہ نہ کر، اپنی ناموس کی بھی پرواہ نہ کر، اس بازار میں کھڑے ہوکر فقط دس منٹ کا خطبہ دیدے۔ کون ہے دُنیا کاشجاع انسان جو ایسے عالم میں آکرکہ جب اُس کے بھائی کا سر نوکِ سناں پر ہو، اُس کے بیٹوں کا سر نوکِ سناں پرہو، اُس کی بیبیاں بہنیں وہ ساری اسیراُس کے سامنے سربرہنہ کھڑی ہوئی ہوں اوراُس کی پشت پرتازیانے برس رہے ہوں اوربہتر تن کے جنازے چھوڑ کرآیاہواورپھر بازارِ کوفہ میں کھڑے ہوکر دلیرانہ خطبہ دے؟ علی ۔کی بیٹی کے علاوہ کوئی یہ کام کرہی نہیں سکتا۔
اگر یہ مردانگی دکھائی تو علی ؑ کی بیٹی نے دکھائی۔ وہ خطبہ سن کر لگتا ہے کہ یہ وہ بی بی ہے جو کربلا سے کوفہ تک تازیانے کھاتی آئی ہے ؟ وہ خطبہ سن کر لگتا ہے کہ یہ وہ بی بی ہے جس کے سامنے اس کابھائی نوکِ سناں پر ہے ؟ لگتا ہے یہ وہ بی بی ہے جس کے سامنے یتیمانِ شہداء بھوکے وپیاسے ہیں؟ یہ خطبہ سن کر ایسا نہیں لگتا بلکہ یہ خطبہ سن کر ایسے لگتا ہے کہ یہ ایک انتہائی دلیر و شجاع انسان ہے جو پورے دشمنوں کو اور پورے بازار کو مخاطب کرکے کہہ رہا ہے
’’اَلا! یَااَہْلِ الْکُوفَہ، یااہل المکروالغدر‘‘
اے کوفہ والو! اے مکارو! اے غدارو! اے ہزار چہرہ لوگو! سنو میری بات!
ایسی دلیری کس کے اندر ہے؟ بنت علی ؑ وہاں کو ئی رسم انجام نہیں دے رہی تھیں۔ کوفہ کوئی رسم گاہ نہیں تھی، کوفہ زینب ؑ کی رزم گاہ تھی۔کربلاحسین ؑ کی رزم گاہ تھی کوفہ وشام زینب کی رزم گاہ تھی۔
ہم نے کربلا سے رزم نکال کراُس کو بزم بنادیا، کربلا سے رزم جدا کر کے اس کو رسم بنادیا۔ رزم دلیروں کاکام ہے بزم ادیبوں کاکام ہے۔ رسم سادہ لوحوں کاکام ہے، کربلا کو رزم جُو چاہئیں، کربلا کو اہل رزم چاہئیں، کربلا کو دلیر لوگ چاہئیں، کربلا کو شجاع چاہئیں۔ دلیرانہ بات کرو، ہمت پیدا کرواپنے اندر، ہم بلند کرو اپنا، مقصود اپنا بڑا رکھو، مقصد عالی رکھواپنا۔
اعلیٰ غم، عالی ہمت سے مشروط
چھوٹی چیز کی نیت مت کرو، ختم ہوجاؤگے۔ اپناہم بلند کرو، جب تمہاراہم بلند ہوجائے گا، تمہارا غم بھی بلند ہوجائے گا۔ پہلے خداتوفیقِ ہمت دیتا ہے پھر توفیقِ غم دیتا ہے۔ ہم یعنی اپنے مقصد تک پہنچنے کی ہمت اور پختہ ارادہ اورغم اس مقصد سے دوری پر پیدا ہونے والے احساس کا نام ہے۔ وہ احساس جو انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے کہ میں پیچھے رہ گیا اس کو غم کہتے ہیں۔ غم یہ نہیں ہوتا کہ وہ آگے چلا گیا، غم یہ ہوتاہے کہ میں پیچھے رہ گیاہوں۔ غم فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے، غم ہجران کی وجہ سے ہوتا ہے، غم پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اپنے ہم بلند کرو اور اپنے غم بھی بلند کرو۔ آپ کوروٹیوں کا غم نہ ہو، آپ کو جوتوں کا غم نہ ہو، آپ کو لباس کا غم نہ ہو، آپ کو نوکری کا غم نہ ہو، آپ کو لباس کا غم نہ ہو، آپ کو ملازمت کا غم نہ ہو، آپ کو خواہشات کا غم نہ ہو، آپ کوہوس کا غم نہ ہو، آپ کوشہوات کا غم نہ ہو۔ اگرخدا نے آپ کو ہمت بلند عطا کی ہے تو غم بھی اُتنا ہی بلندپیدا کرو۔
غمِ حسین ؑ کا مفہوم
غمِ حسین ؑ سے مراد یہ نہیں کہ حسین ؑ کے قتل کی وجہ سے ہمیں غم وافسوس ہو رہا ہے، یہ احساساتی غم ہے۔ غمِ حسین ؑ سے مراد یہ ہے کہ وہ’ ہم‘ جو حسین ؑ کاتھا، حسین ؑ کے پیروکار کاہوجائے اوروہ غم جو حسین ؑ کاتھاوہ حسین ؑ کے پیروکار کے دل میں آجائے۔ حسین ۔ کاہم بھی تھا، حسین ۔کا غم بھی تھا۔ عزادارِ حسین ؑ کس کو کہتے ہیں؟ عزادارِ حسین ؑ وہ ہے جس کاہم وغم وہی ہوجائے جو حسین ؑ کا ہم وغم تھا۔ حسین ۔ کویہ غم نہیں تھاکہ میرا بیٹا مارا جائے گا، میں پیاسا رہ جاؤں گا، مجھ سے روٹی چھن جائے گی، میری ناموس اسیر ہوجائے گی۔ حسین ۔ کو غم یہ تھا کہ میں صاحبِ عزت حسین ؑ ، میں امامِ اُمت حسین ؑ ، میں رہبرِ الٰہی حسین ؑ اور میں اس زمانے میں رہوں کہ جس کے اوپر یزید کا سایہ ہو! یزید کے سائے میں رہنا حسین ؑ کا سب سے بڑاغم تھا۔ یزید کے سائے میں رہناغمِ حسین ؑ ہے۔
اہلبیت ؑ کے غم اور ہمارے غم!
خدا غمِ حسین ؑ اس دل میں ڈالتا ہے جس دل میں ہمِ حسین ؑ ڈالتا ہے۔ یہ توفیقِ الٰہی ہے۔ امامِ پنجم حضرت امام محمد باقر ؑ کا فرمانا ہے کہ جب عید الفطر و عید ا لاضحی کا دن آتا ہے تو ہم آلِ محمد ؐ کاغم تازہ ہوجاتا ہے۔امامِ باقر ۔ گواہِ کربلا اور کربلا کے عینی شاہد ہیں، روایات میں ہے کہ اُس وقت امام ؑ کی عمر یا تین سال کی تھی یاپانچ سال کی تھی۔ اُس بچپن میں امام باقر ۔ کربلا میں موجودتھے۔ کربلا کے عینی شاہد یہ فرمارہے ہیں کہ جب عید کادن آتا ہے ہم آلِ محمدؐ کاغم تازہ ہوجاتا ہے۔ راوی نے پوچھا کونسا غم؟ کیا شہدائے کربلا یاد آجاتے ہیں، امام ؑ نے فرمایا اُنہیں تو ہم بھولتے ہی نہیں ہیں،وہ غم نہیں۔ یوں نہیں کہ مجھے اپنے جد یا اپنے عزیز یاد آ جاتے ہیں وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں ہیں، عید کے دن ہمارا یہ غم تازہ ہوجاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روزِ عید، روزِ امام مسلمین، روزِ رہبر مسلمین، یومِ امام مسلمین اس دن کو وہ مسند جو خدا نے ہمارے لئے بنائی ہے اُس کے اوپر طاغوت بیٹھاہوادیکھتے ہیں ہماراغم تازہ ہوجاتا ہے۔ غمِ امام باقر ؑ وہ نہیں ہے جو میرے اور آپ کے غم ہیں۔ معمولی انسان اور معصوم میں یہی تو فرق ہے، ہم ایک طرف سے کہتے ہیں وہ معصوم ہیں اور دوسری طرف سے ہم اُنہیں اپنے جیسا سمجھنا شروع کردیتے ہیں، اگر تو نے یہ کہا کہ امامِ باقر ؑ کاغم وہی ہے جو میرا غم ہے پھر امامِ باقر ؑ تیرے جیسے ہوجائینگے۔
ہماری خواتین کے غم کیا ہیں؟ پتہ نہیں بیٹی کی شادی ہوگی یا نہیں ہوگی، بیٹے کو اچھی عورت ملے گی یا نہیں ملے گی اور بیٹی کے لئے غم یہ ہے کہ اس کا جہیز پورا ہوگا یا نہیں ہوگا، یہ شوہر کے گھر میں آباد ہوگی یا نہیں ہوگی، اب جب آباد ہوگی تو خدا ان کو بچہ دے گا یا نہیں دے گا، یہ ہماری خواتین کے غم ہیں!
اہل بیت کی خواتین کے یہ غم نہیں ہیں۔ یہ پست غم ہیں یہ میرے اور آپ کے غم ہیں، یہ کم ہمت لوگوں کے غمہیں۔ بلند ہمت لوگوں کے غم بھی بلند ہوتے ہیں۔ خدا نے اُن کو اُن غموں کیلئے انتخاب کیا ہے۔ وہ غم جو انبیاء کے دلوں میں ڈالے، وہ غم جو آئمہ ؑ کے دلوں میں ڈالے، وہ غم جو اولیاء کے دلوں میں ڈالے اور پیروانِ اولیاء کو اللہ نے انتخاب کیا تاکہ یہ غم مٹنے نہ پائیں۔ غمِ حسین ؑ ، حسین ؑ کی شہادت سے شروع نہیں ہوتا، غم حسین ؑ ، حسین ۔ کی زندگی میں شروع ہوتا ہے۔ غمِ حسین ؑ کیا ہے؟ غمِ حسین ؑ وہ ہے جس نے حسین ؑ سے گھر چھڑوایا، جس نے حسین ؑ سے نانا ؐکا روضہ چھڑوایا، جس نے حسین ؑ سے ماں کا مقبرہ چھڑوایا، جس نے امامِ حسن ؑ کی قبر چھڑوائی،جس نے حسین ؑ سے مدینہ چھڑوایا، جس نے حسین ؑ سے مکہ چھڑوایا، کعبہ چھڑایا ہے، جس نے حسین ؑ سے اپنا کنبہ چھڑوایا ہے۔ وہ غم کیاتھا؟ وہ غم یہ تھا کہ میں امامِ عزت ہوتے ہوئے ذلت کی زندگی بسر کروں! یہ غم ہے حسین ؑ کا۔ امام میں ہوں سایہ یزید کاہو! یہ امام حسین ؑ کا غم تھا۔
غمِ حسین ؑ کی معرفت!
غمِ حسین ؑ کیلئے خدا نے آپ لوگوں کو چنا ہے لیکن پہلے یہ سمجھو غمِ حسین ؑ کیا چیز ہے، غمِ حسین ؑ کی معرفت پیدا کرو، غمِ حسین ؑ احساسات نہیں ہیں، جذبات نہیں ہیں،غمِ حسین ؑ بہت گہرا ہے، غمِ حسین ؑ کیلئے خدا جس دل کو انتخاب کرلے وہ دل الٰہی ہوجاتا ہے۔ جس طرح حسین ؑ سے غمِ حسین ؑ نے گھر چھڑا دیاآج بھی جس انسان کے دل میں غمِ حسین ؑ آجائے گا اُس سے آج بھی غمِ حسین ؑ گھرچھڑوادے گا، آج بھی غمِ حسین ؑ اُس سے زندگی چھڑوادے گا، آج بھی غمِ حسین ؑ اُس سے چَین چھڑوادے گا۔
رسمی غم اور حقیقی غمِ حسینؑ
آج ہم رسمی غم مناتے ہیں۔ صرف موت کی خبر ہمیں غمگین کررہی ہے، جبکہ ہمیں اُس چیز کا سوگوار ہونا چاہئے جس پر خود حسین ؑ سوگوار ہیں، جس کاغم خود حسین ؑ منارہے ہیں۔لیکن ہم فقط رسم بجالاتے ہیں، پہلی محرم کوغم کاآغاز کرتے ہیں اور دس محرم کو ابھی حسین ؑ میدانِ کربلا میں کھڑے ہیں ندائے استغاثہ بلند کررہے ہیں، تنہا رہ گئے ہیں اورحسین ؑ بلارہے ہیں
’’این فرسان الھیجہ‘‘
میرے شیر کہاں ہیں؟ میرا اکبر ؑ کہاں ہے؟ میرا عباس ؑ کہاں ہے؟ میرا حبیب کہاں ہے؟ میرا مسلم ابن عوسجہ کہاں ہے؟ جب حسین ؑ طلب کر رہے ہیں فرسان الھیجہ کو، اپنے شیروں کو، اپنے دلیروں کو اُسی وقت ہم یہاں پر بیٹھ کر الوداع کا ماتم کرکے سلام پڑھ کے گھر کوچلے جاتے ہیں۔ کس نازک موقع پر الوداع کرتے ہو؟ دس محرم کوہم اپنی عزاء کو سب کچھ سمیٹ کر ختم کردیتے ہیں، دس محرم کو ہم اپنا عزاخانہ بند کردیتے ہیں، دس محرم کے بعد اختتام ہوگیا۔ جس دن حسین ؑ کا غم شروع ہوتا ہے ہماری رسم ختم ہوجاتی ہے۔ اگر ہمیں عزاداری کے اندروہ غم لے کر آتا جو حسین ؑ کومدینے سے کربلالایاتھا توہم کبھی بھی ٹِک کر آرام سے نہ بیٹھتے، ہم کبھی بھی اختتام نہ کرتے، ہم کبھی بھی حسین ؑ کو الوداع نہ کہتے، ہم کبھی بھی نہ کہتے اے حسین ؑ ! اس سال یہ ماتم کافی ہوگیا اگلے سال زندہ رہے تو پھر آئینگے، اگر نہ آسکے تو یہی ماتم ہے قبول فرما، یہ کبھی بھی نہ کہتے بلکہ کہتے اے حسین ؑ ! جس طرح تو گھر سے نکلا پھر گھر لوٹ کر نہیں آیا میں بھی تیری راہ میں نکلا ہوں اب کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گا۔
غمِ آئمہؑ طاھرین کی حقیقت !
ہم کیا سمجھتے ہیں اہلبیت ؑ کے غم کیا تھے؟ علی ؑ کا غم کیا تھا؟ علی ؑ کا غم وہ نہیں تھا جو ہماراغم ہوتا ہے۔علی ؑ کو گھر کاغم نہیں تھا، علی ؑ کا یہ غم نہیں تھا کہ میرے بچے شہید ہوجائینگے، بلکہ علی ؑ کاغم وہ تھا جو انہیں پچیس سال عالمِ تنہائی میں رلاتا رہا۔ غمِ فاطمہ 236باغِ فدک یا فقط چندکھجوروں کے درخت نہیں تھے، یہ تو صرف حق کی طرف متوجہ کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ غمِ فاطمہ یہ تھا کہ اعلانِ غدیر ساری اُمت نے سنا اوردو مہینہ دس دن بعد رسول اللہ کی یہاں سے رحلت ہوگئی اور یہ اُمت اپنی تمام رسومات میں مبتلا ہے لیکن ولایت علی ؑ بھول گئی ہے۔ یہی غم فاطمہ کو اس دُنیا سے لے کر چلاگیا، یہ غمِ حسن ؑ تھا، یہ غمِ حسین ؑ تھا۔ آج امامِ زمانہ ؑ کاغم میرے اور آپ جیسا نہیں ہے۔ امامِ زمانہ ؑ کا غم سارے آئمہ ؑ کاغم ہے۔یہ امام ؑ وارثِ غم آئمہ ؑ ہیں۔ جو غم ہر معصوم ؑ کو تھا وہ سارا غم آج امامِ زمانہ ؑ کے قلبِ نورانی میں ہے۔امامِ زمانہ ؑ کاغم یہ ہے کہ جس کیلئے ہمارے اجداد نے اتنی قربانیاں دیں وہ مقصد آج بھی حاصل نہیں ہورہا۔ امامِ زمانہ ؑ کاغم یہ ہے کہ میں بارہ سو سال سے پرد�ۂ غیبت میں منتظر بیٹھا ہوں کہ کب وہ نسل پیدا ہوتی ہے، کب وہ جوان پیدا ہوتا ہے جو آکر امامِ زمانہ ؑ کو اس غم سے بچائے، اس غم سے نکالے اور وہ میدان ہموار کرے تاکہ ظہورِ عدالت و ظہورِ امام ؑ ہوجائے اور امام ؑ آکر اس سارے غم کی تلافی کردیں جو تاریخ بھر میں چھایارہا۔ امام ؑ کا حقیقی غم یہ ہے، امام ؑ ان واقعات سے غمگین نہیں ہیں جنہیں ہم باعث سمجھتے ہیں۔
غم کا مقصد کے متناسب ہونا!
آئمہ اور اولیاء کے غم بڑے غم ہوتے ہیں۔بڑے غم خد ان لوگوں کو دیتا ہے جن کے ’ہم‘ بڑے ہوتے ہیں، جن کی ہمتیں بڑی ہوتی ہیں، جن کے ارادے بڑے ہوتے ہیں۔ خدا نے روٹیوں کاغم ہر ایک کے اندر ڈال دیا، خدا نے ہر عورت کے اندر احساساتی غم ڈال دیا، ہر وہ شخص، وہ چہرہ جس کو نسوانی شکل دی اُس کے اندرخدا نے یہ غم بھی ڈال دئیے، بچوں کے غم، بچوں کے کپڑوں کے غم، بچوں کی زندگیوں کے غم، بچوں کی شادیوں کے غم، بچوں کی مشکلات کے غم، بچوں کی بیماریوں کے غم، یہ ہر عورت کے اندر موجود ہیں لیکن غمِ فاطمہ زہراء 236 الگ ہے، غمِ زینب عُلیا الگ ہے،غمِ خدیجہ کبریٰ الگ ہے اُن غموں کاوارث کون بنے گا؟ وہ غم خدا ہر دل میں نہیں ڈالتا۔جس کاہم خدا ہوجائے اُس کاغم بھی خدا ہوجاتا ہے، جس کا ہم حسین ؑ ہوجائے اُس کاغم بھی حسین ؑ ہوجاتا ہے، جس کا ہم دین ہوجائے اُس کوغم بھی دین ہوجاتا ہے، جس کا مقصد دین ہوجائے اُس کوغم بھی دین ہی ہوتا ہے، جس کا ہم اسلام ہو جائے اُس کاغم بھی اسلام ہوجاتا ہے۔ سید الشہداء ۔سے اس غم نے گھر چھڑوایا اور سید الشہداء ۔نے ہل من ناصر مانگے، ناصر کون ہیں ؟ کون آکر وارثِ غمِ حسین ؑ بنے ؟ یہ غم کون اُٹھائے؟ بقول حافظ شیرازی کے
پردل ہی باید بار غم کشد
رخش می باید تن رستم کشد
یعنی کوئی ایسا عاشقانہ دل ہو، کوئی بڑا دل ہو جس دل کوخدا نے بہت وسعت وشرح عطا کی ہو تاکہ وہ بارِ غم اُٹھاسکے۔ غم کا بوجھ الٰہی بوجھ ہے
پردل ہی باید بار غم کشد
غمِ حسین ؑ منتظرِ وارثان ہے
وہ دل چاہیے جو اس غم کا بوجھ اُٹھاسکے۔ غمِ حسین ؑ منتظر ہے کب وہ نسل پیدا ہوتی ہے کہ خدا اُس کوا مینِ غمِ حسین ؑ بنادے۔ غمِ حسین ؑ ، وہ غم جو حسین ؑ کے دل میں تھا وہ حسین ؑ کے دل سے حسین ؑ کے پیروکاروں کے دل میں منتقل ہو جائے، اُس غم کا وارث بننے اور اس کو برداشت کرنے کیلئے اور بڑے غم جھیلنے پڑتے ہیں۔ حسین ؑ وارثِ انبیاء ؑ ہیں، وارثِ آدم ؑ ہیں، وارثِ نوح ؑ ہیں، وارثِ ابراہیم ؑ ہیں، وارثِ اسماعیل ؑ ہیں، وارثِ موسیٰ ؑ ہیں، وارثِ رسول اللہؐ ہیں۔ زیارتِ وارثہ میں پڑھتے ہیںآپ، کیا وراثتیں ملی حسین ؑ کو ان انبیاء ؑ سے؟ جائیدادیں اور اموال نہیں، حسین ؑ کو وراثت میں یہی غم ملاہے۔ غمِ ابراہیم ؑ کے وارث حسین ؑ ہیں، غمِ نوح ؑ کے وارث حسین ؑ ہیں، غمِ آدم ؑ کے وارث حسین ؑ ہیں، غمِ موسیٰ ؑ کے وارث حسین ؑ ہیں، غمِ عیسیٰ ؑ کے وارث حسین ؑ ہیں،غمِ رسول اللہ کے وارث حسین ؑ ہیں اور آج حسین ؑ کھڑے ہوکر کربلامیں اپنیغم کاوارث مانگ رہے ہیں۔
’’ہل من ذابٍ یذب عن حرم رسول اللہ ‘‘
کوئی ہے وارثِ غمِ حسین ؑ جو حسین ؑ کاغم آکر اُٹھائے، حامل غمِ حسین ؑ بن جائے۔
غمِ حسین ؑ اور اہلبیتؑ کے مصائب!
حسین ؑ نے بہت غم اُٹھائے اس ایک غم کو باقی رکھنے کیلئے جو ساری اُمت کے دل میں مر گیاتھا مگر حسین ؑ کے دلمیں زندہ تھا۔ حاجیوں کے دل میں مرگیا تھا، نمازیوں کے دل میں مرگیاتھا، زائرین کے دل میں مر گیاتھا، رسوماتیوں کے دلوں میں مرگیاتھا، یہ غم صرف حسین ؑ کے دل میں زندہ تھا اس لئے صرف حسین ؑ آئے اور وہ ۷۲ آئے جن کے دلوں میں یہ غم زندہ تھا، وہ بہتر آئے اور اس راہ میں پھر ہزاروں غم اوردیکھے۔
اُن غموں میں سے ایک غم جوجنابِ زین العابدین ؑ کیلئے بہت شدیدغم بنا۔ سید الساجدین ؑ سے جب لوگ پوچھتے مولا ؑ !کونسی سخت منزل پیش آئی؟ بس رو کر کہہ دیتے شام، شام، شام۔ شام بڑی سخت منزل تھی، بڑے غموں کی جگہ تھی شام، کربلا کے غم اتنے شدیدنہیں تھے جتنے شام کے غم تھے۔ جب دربارِ یزید میں بیبیوں کو اورآلِ رسول کو لے جایاگیا، رسیوں میں باندھ کر دربار سجا کر نشیوں کو نشے تقسیم کرکے پلاکرحکم دیاگیا کہ آلِ رسول کو لے آئیں، آلِ رسول کو ایک قطار میں اندر لایاگیا، آکر چاروں طرف لوگ بیٹھے ہیں درمیان میں آلِ رسول کوکھڑا کردیاگیا، کھڑا کرکے یزید پوچھتا ہے میں نے سناتھاحسین ؑ کی ایک بہن تھی جس کانام زینب تھا، آیا کربلا میں ماری گئی ہے یااسیر ہوکے شام آگئی ہے؟ ایک لعین نے اشارہ کیا کہ کربلامیں ماری نہیں گئی اسیر ہوکے شام آگئی ہے۔ یہی غمِ سید سجاد ؑ تھا، جب تک سید سجاد ؑ زندہ رہے وہ منظر دربار کاجب یاد آ جاتا، جب بی بی دربار میں گئی منظر دیکھا دربار کا پکار کرفرماتی ہیں، ہمارے اُستادِ بزرگوار حضرت آیت اللہ جوادی آملی اکثر یہ فرمایا کرتے ہیں کہ یہ ایک جملہ عزاداروں کیلئے قیامت تک رونے کیلئے کافی ہے، یہ بنت علی ۔کاایک جملہ، بنت زہراء کاایک جملہ کہ جب دربارِ شام میں گئی چاروں طرف بی بی نے جب نگاہ دوڑائی اوراُس کے بعد ایک جملہ کہا، کہاآیا تم میں کوئی مسلمان موجود ہے؟آیا میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑی ہوئی ہوں؟ آیا یہ رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے ہیں؟ یہ رسول اللہ کے کلمہ گو کس کو دیکھ رہے ہیں۔ میں رسول اللہ کی بیٹی ہوں جس کاتم کلمہ پڑھتے ہوآیا کوئی موجود ہے؟ جب یزید کو بتایا گیا کہ وہ ماری نہیں گئی اسیر ہوکے شام آگئی ہے، اُس لعین نے نشاندہی کی، کیا بتایا؟ کہا وہ ایک بوڑھی خاتون کے کندھے پر ماتھا رکھ کر کھلے بالوں والی جس کے ہاتھ پس گردن بندھے ہیں جوخاتون سر ٹیک کر کھڑی ہے وہی حسین ؑ کی بہن زینب ہے۔ بس یہ جملہ نکلنا تھا سید الساجدین ۔ کا غم ابدی ہوگیا، سرمدی ہوگیا، پورے دربار کی نگاہیں اُٹھیں، یزید کی نگاہ اُٹھی اُس وقت سید سجاد ؑ نے یہ مرحلہ کیسے برداشت کیاہوگا؟ امام ؑ جب بھی شام کا نام سنتے کھڑے ہوکر فریاد کرتے،ہائے شام!
Add new comment