دین اور دیندار

 

استاد سید جواد نقوی

حرمتِ دین:
خانۂ کعبہ ،روضۂ رسول ،آئمۂ ہدیٰ کے مشاہدِ مشرفہ کی حرمت کا خیال کرنا ہے ،روئے زمین پر موجود مساجد ،ہر وہ خطہ جو مسجد کے نام سے منسوب ہوجائے وہ صاحبِ حرمت و احترام ہے لہٰذامسجدمیں جانے کے آداب ہیں،مشاہدِ مشرفہ میں جانے کے آداب ہیں تاکہ انسان ان کی حرمت کا احساس و خیال کرے ۔اسی طرح سے زمانوں کی بھی حرمت ہے ،ذی الحجہ حرام مہینہ ہے ،ذوالقعدہ حرام مہینہ ہے ،صاحبِ حرمت ہیں و محرم الحرام حرام مہینہ ہے ،کربلا کا واقعہ محرم الحرام میں واقع ہوا ،شاید خدا کی طرف سے ایک حکمت یہ تھی چونکہ حرام کے مہینے میں سید الشہداء ؑ نے حرمتِ دین بچانے کے لیے قیام کیاہے ،حرمتِ دین پائمال ہورہی تھی ،حرمتِ اسلام پائمال ہورہی تھی ،یزید و یزیدیت کی جانب سے ہر اس چیز کی حرمت و احترام پائمال ہورہاتھا جس کا خدا نے احترام لازم قرار دیاہے ۔خدا وند تبارک وتعالیٰ نے دین مقرر کیاہے ،دین کی حرمت بھی ساتھ بیان کی ہے ،عبادا ت کا حکم دیاہے ،عبادات کی حرمت بھی مقرر فرمائی ہے ۔انبیاء ؑ مبعوث فرمائے ہیں ،انبیاء ؑ کی حرمت بھی ساتھ مقررفرمائی ہے اور جہاں پر ہمیں حکم دیا گیا کہ دین پر عمل کریں ،دین کی حفاظت کریں ،وہاں پر یہ بھی فریضہ ہے کہ دین کی حرمت کو بھی بچائیں ،نہ خود حرمتِ دین پائمال کریں اورنہ ہی کسی کو حرمتِ دین پائمال کرنے دیں ۔امام ؑ کوخدا نے محافظِ دین قرار دیاہے ،محافظِ وجودِ دین ،محافظِ ارکانِ دین ،محافظِ تعلیماتِ دین ومحافظِ حرماتِ دین ۔یزیدیت وہ نظام ہے جس میں حرمتِ دین کی پائمالی پہلا رکن ہے ،حرمتِ خدا کوتوڑنے والے ،حرامِ خدا کو حلا ل کرنے والے اوراحتراماتِ مقدسات کو پائمال کرنے والے یہ سب یزیدی نظام کے آلہ کار ہیں ۔ تمام مسلمین کے لیے محرم کا یہی پیغا م ہے کہ حرمتِ دین اتنی اہم چیز ہے جس کی خاطر انسان اپنی جان بھی دے دے ،پاک و اعلیٰ ترین جان ،نفسِ محترمہ یعنی سب سے زیادہ حرمت والا نفس یعنی نفسِ حسینی ونفسِ مطمئنہ،ونفسِ الٰہی یعنی وجودِ مبارک سید الشہداء ؑ ،یہ نفسِ محترمہ حرمتِ دین پر قربان ہو جاتاہے یعنی حرمتِ دین اس قدر عزیز ہے واہم ہے کہ یہ نفسِ محترمہ اپنے کنبے سمیت حرمتِ دین کو بچانے کے لیے قربان ہوجاتاہے ۔محرم ،حرمتوں کو بچانے کامہینہ ہے ،دفاعِ حرمتِ دین کامہینہ ہے ۔اس ماہ میں خصوصیت کے ساتھ مومنین کو متوجہ رہنا چاہیے کہ اس ماہِ پاسبانیِ حرمتِ دین ،ماہِ حفاظتِ حرمتِ دین ،ماہِ بقائے حرمتِ دین میں کوئی حرمت پائمال نہ ہو ۔خصوصاً ان مجالس کے اندر جو مجالس یادِ کربلا و سوگِ سید الشہداء ؑ میں منعقد ہوتی ہیں ،ان کے اندر الٰہی حرمتیں پائمال نہ ہوں نیز کسی بھی حرمت کو پائمال نہ ہونے دیں ۔آج ہم ایک ایسے ملک میں اور ایک ایسی سرزمین میں رہ رہے ہیں جس میں ساری حرمتیں پائمال ہوچکی ہیں ،ایک پائمال شدہ سرزمین ،جس میں قوم کی حرمت پائمال ہے ،مملکت کی حرمت پائمال ہے ،ریاست کی حرمت پائمال ہے ،حکومت کی حرمت پائمال ہے ،اسلام و دین ومذہب کی حرمت پائمال ہے ،مومن کی حرمت پائمال ہے ،انسان کی حرمت پائمال ہے ،ناموس کی حرمت پائمال ہے ،پاکستان میں زندگی کا کوئی ایسا انفرادی واجتماعی شعبہ نہیں ہے کہ جس کی حرمت پائمال نہ ہوئی ہو!اس کا راہِ حل کیا ہے ؟حرمت کو بچانے کے لیے شکستہ سرزمین میں رہنے والوں کا کیا فریضہ بنتاہے ؟حرمت شکستہ باسیوں کو فریضہ صرف رسومات بجالانا نہیں ہے، رسوماتی محرم گزار دینا نہیں ہے اور محرم کو رسم کے طور پر اور مجلس کو رسم کے طور پر گزار دینانہیں ہے بلکہ حرمت شکستہ سر زمین کے رہنے والوں کے لیے واجب ہے کہ وہ سب سے پہلے ان حرمتوں کو بحال کریں جو پائمال ہوچکی ہیں ،وہ حرمتیں لوٹائیں جنہیں ختم کر دیاگیاہے ،جنہیں توڑ دیاگیاہے ۔معلوم ہونا چاہیےکہ عزاداری یعنی محافظِ حرمتِ دین ،عزادار یعنی نگہبانِ حرمتِ دین۔
فلسفہِ عزاداری یا مقصدِ عزاداری:
سید الشہداء ؑ نے جس مقصد کے لیے قربانی دی اسی کے تسلسل کانام عزاداری ہے ،عزاداری رسمِ آباء و بزمِ شعراء نہیں ہے جبکہ ہم نے عزاداری کو رسم و بزم بنادیاہے ۔درحقیقت عزاداری تسلسلِ عاشورا ہے وعاشورہ رزم کا نام ہے ،کربلا رزم کا نام ہے ،کربلا ایک پیکار کا نام ہے ،کربلا ایک جنگ کا نام ہے ،کربلا ایک نبرد کا نام ہے ۔کس چیز کے درمیان نبرد؟ایک طرف حرمت شکن لشکر اور ایک طرف حرمت کو بچانے والا لشکر ،ایک طرف سپاہِ شیطان ،سپاہِ ابلیس و حرمت شکن اور ایک طرف نگہبانانِ حرمتِ دینِ خدا ،اس رزم کا نام عاشورا ہے اور اس پیکارکا نام کربلا ہے ۔
عزیزِمن !رسم کیا ہوتی ہے ؟رسم آباء کا یا ایک نسل کا جاری کردہ طور طریقہ جو آنے والی نسلوں میں رواج بن جائے ۔
بزم اس محفل کوکہتے ہیں جہاں پر کسی موضوع کی خیالی عکاسی کی جائے ،خیالات کی مدد سے ،ادیب مل بیٹھتے ہیں ،شعراء مل بیٹھتے ہیں ،اس کو بزم کہتے ہیں ،جہاں پر کسی موضوع کوسامنے رکھ کر خیالی دنیا میں یا خیال کی مدد سے اس دنیا میں پیش کیا جائے اور پھر وہ خیالی چیز ختم ہوجائے ۔کربلا رسمِ آباء نہیں ہے کہ اسے ادا کرکے فارغ اور سرخرو ہوجائیں ۔اہلِ رسم عین اس وقت اپنی رسم کا خاتمہ کرکے چلے جاتے ہیں جب سید الشہداء ؑ کربلامیں انہیں رزم کے لیے پکا ررہے ہوتے ہیں ۔عین اسی وقت پر جب رسم کا وقت ختم ہوجاتاہے ،رزم کا آغاز ہوتاہے ۔حسین ؑ عصرِ عاشور کو اپنے آخری لمحاتِ زندگی میں کھڑے ہوکر ’’ھل من ناصر ‘‘کی ند ا لگاتے ہیں اور اہلِ رسم عین عصرِ عاشور کو الوداع پڑھ کے گھروں کوچلے جاتے ہیں ۔جس دن عزائے حسین ۔شرو ع ہوتی ہے اس دن اہلِ رسم کی عزا ختم ہوجاتی ہے ،جس دن پاسبانِ حرمتِ خدا کا کام شروع ہوتاہے ،اس دن اہلِ رسومات کا کام ختم ہوجاتاہے ۔عاشورا آغازِ رزمِ دین ہے نہ ختمِ رزمِ دین۔رسم ختم ہوجاتی ہے چونکہ ہمارے آباء نے یوں سلسلہ شروع کیا ہے کہ یکم محرم سے دس محرم تک رسم ادا کریں ،اور دس محرم کو ختم اور وداع کا نوحہ پڑھ کے چلے جائیں اور کھلے لفظوں میں امام حسین ۔ کو خطاب کرکے کہیں کہ جو کچھ ہم نے پڑھ دیا یہ ٹھیک ہے اگلے سال تک اگر زندہ رہے توپھر آئیں گے یعنی پورا سال ہمار اآپ سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔اگلے سال زندہ رہے تو پھر اسی بزم میں آئیں گے یہی بزم و رسم دوبارہ منعقد کریں گے ۔حسین ۔ کس کو بلا رہے تھے ؟’’ھل من ناصر ‘‘کہہ کر یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ کوئی ہے جو میری شہادت پہ بزم منعقد کرے ،یا کوئی ہے جو میری شہادت کی رسم منعقد کرے بلکہ حسین ۔یہ کہہ رہے تھے کہ وہ رزم جو میں نے عصرِ عاشور تک پہنچائی ہے اس کو جاری رکھنے والا کوئی ہے؟چونکہ لشکرِ حرمت شکن ختم نہیں ہوا ،حرمتوں کو پامال کرنے والا موجو دہے ۔حرمتوں کو بچانے والے لشکر کوحسین ۔ مانگ رہے تھے کہ وہ کہاں ہے ؟
محرم اس چیز کا پیغام دیتاہے کہ آپ ا س سرزمین پر رہتے ہوئے اپنے دائیں بائیں دیکھو ،اپنے ارد گرد دیکھو ،اپنی فضاؤں میں دیکھو ،اپنے ماحول میں دیکھو ،نگاہ کروکہ کوئی حرمت باقی ہے یا نہیں ؟اگر نہیں ہے تو یہ کیسی عزا ہے کہ پاکستان میں ساٹھ سال سے عزاداری ہورہی ہے اور خود عزاداری کی حرمت باقی نہیں ہے ،منبرِ عزاکی حرمت باقی نہیں ہے ،ذکرِ عزا کی حرمت باقی نہیں ہے ۔جس ابلیس کو موقع ملتاہے وہ آکر کوئی نہ کوئی حرمت شکنی کرجاتاہے ۔آج آپ نے سنا کہ کراچی میں عزاداری کی حرمت شکنی کی گئی ۔مسجدوں کی حرمت شکنی ہوتی ہے ،امام بارگاہوں کی حرمت شکنی ہوتی ہے اور افسوس اس وقت ہوتاہے کہ جب وہ مجالسِ عزائے حسینی جو حفظِ حرمتِ دین کے لیے ہیں ،خود ان مجالس کے اندر حرمت شکنی شروع ہوجائے ،حرمتِ دین،حرمتِ ارکانِ دین ،حرمتِ علمائے دین ،حرمتِ مراجعِ دین ،حرمتِ ارکانِ تشیّع،حرمتِ رہبری،حرمتِ ولایت ،حرمتِ دولتِ کریمہ،،ان سب چیزوں کی مجالس کے اندر حرمتیں پائمال ہوں اس وقت زیادہ افسوس کامقام ہوتاہے ۔
کربلا حماسہ ہے:
محرم الحرام اور اس کا پیغام لوگوں کو حرماتِ دین بچانے کے لیے تیار کرناہے۔یہ مجالس محض رسم اور بزم نہ ہوں بلکہ یہ رزم ہوں ۔آئمہ خود شعراء کو خلعت وانعامات دے کر ان سے کربلا کے موضوع اور عاشورہ کے موضوع پر کلام لکھواتے تھے لیکن سارا کلام رزمی کلا م ہوتاتھا ،رزمیہ کلام ۔رزمیہ شاعری کو ادب کی اصطلاح میں کہتے ہیں حماسی شاعری یا حماسی کلام ،حماسی کلام وہ ہوتاہے جومیدان میں ،رزم میں جنگجو ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں ،جس میں مبارزہ ہے ،جس میں للکار ہے ،جس میں جر أت ہے ،جس میں شجاعت ہے ،جس میں ہوشیاری ہے ،جس میں دلیری ہے جبکہ رسمی شاعری جس میں فقط رسومات ہیں۔آئمہ نے خود خطیبوں کو حکم دیا اور عزا کا سلسلہ قائم کیا ،آئمہ نے خطیبوں کو یہ حکم دیا کہ ذکرِ سید الشہداء ؑ ،ذکرِ عاشورہ،و ذکرِ امام حسین ۔دنیا کو بتائیں یعنی حماسہِ حسینی دنیا کوبتائیں ،کربلا حماسہ ہے ،لفظِ حماسہ جس سے ہم آشنا نہیں ہیں چونکہ یہ اردومیں استعمال ہی نہیں ہوتا ،اس لیے کہ اردو والوں کو حماسہ سے سروکار ہی نہیں ہوتا ۔ہرزبان میں وہ رائج ہوتاہے جس کا معنٰی رائج ہو،جس کا معنٰی نہ پایا جاتاہووہ لفظ ہی نہیں ہوتا ۔یہ میں نے عرض کیا ہواہے اور آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ایک کتاب ترجمہ کروا رہے تھے کہ جس میں لفظ غیرت استعمال ہوا ،عاشورائی قدروں میں سے ایک قدر غیرت ہے اس کا انگلش لفظ alternate(متبادل)جو استعمال ہواتھا وہ موزوں نہیں تھا تو ڈھونڈ رہے تھے کہ انگریزوں کی طرف یا انگلش دانوں کی طرف رجوع کیا ،کتابوں کی طرف بھی رجوع کیا ،دوسرا جہاں تک ممکن تھا کہ رسائی ہوجائے ۔آخر انگلستان فون کیا ایک انگریزی جاننے والے دوست کو کہ ایک لفظ کامعنٰی ہمیں نہیں معلوم ،کہتے ہیں کون سا لفظ ہے ؟ہم نے کہا غیرت،وہ کہنے لگے پہلے تو یہ بتائیں کہ غیرت ہے کیا چیز؟انہیں مثال دی ،کہا کہ غیرت انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہوتی ہے کہ جب انسان اپنی نامو س کے ساتھ جا رہاہواور دوسرا کوئی انہیں چھیڑے یا غلط نگاہوں سے دیکھے تو اس وقت مردکے اندر جو احساس پیدا ہوتاہے اس کو غیرت کہتے ہیں ۔انہوں نے کہا یہاں تو جو چھیڑے اس کی بڑی respectکرتے ہیں،شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آ پ نے ہماری بیوی کی طرف دیکھاہے ،آپ نے اس کو اہمیت دی ہے ،بلکہ یہاں پر تو لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں۔ظاہر ہے جس قوم کے اندر معنٰیِ غیرت نہ ہو تووہاں پر غیرت کے لیے کوئی لفظ بھی موجود نہیں ہوتا۔
جس قوم کے اندر حماسہ موجود ہو ،حماسہ کے لیے لفظ بھی موجود ہوتاہے حماسہ یعنی شجاعت،حماسہ یعنی مقاومت ،حماسہ یعنی مبارزہ ،حماسہ یعنی پیکار،کربلا حماسہ ہے ۔ایک کتاب اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ اس کو پرنٹ کرنے میں کامیاب ہوجائیں ،حماسہ وعرفان ۔ہمارے استاد بزرگوار آیۃ اللہ جوادی آملی دام ظلہ العالی کی کتاب ہے ایک دفعہ ترجمہ ہواہے پھر دوبارہ نہیں چھپی یا شاید اس کے دو ایڈیشن آئے ہیں لیکن اب وہ دستیاب نہیں ہے ۔جب یہ کتاب ترجمہ کررہے تھے تو عنوانِ کتاب رکھا حماسہ و عرفان ،اس پرسب نے مل کر کہا کہ یہ نام کسی کو سمجھ میں نہیں آئے گا چونکہ یہاں حماسہ کامطلب کسی کو معلوم نہیں ہے تو جواب یہ دیا گیا کہ اسی لیے تو اس کانام حماسہ رکھ رہے ہیں کہ اس قوم کو حماسہ کا معنٰی پتہ چل جائے ،حماسہ کی اصطلاح سے آشنا ہوجائیں اورجب حماسہ کے لفظ و معنٰی سے آشنا ہوں گے تو انشاء اللہ ایک دن روحِ حماسہ بھی اس قو م کے اندر پیدا ہوجائے گی اور جس دن حماسی روح اس قوم کے اندر پیدا ہوجائے گی تو پھراس کا خطیب بھی حماسی ہوگا ،اس کا ذاکر بھی حماسی ہوگا ،اس کا شاعر بھی حماسی ہوگااور جس دن قوم کے بچے بچے وہر زن ومرد کے اندر روحِ حماسہ آگیا توپھر کسی ابلیس کی جرأت نہیں ہے کہاس قوم کے دین و اس کی عزا اور اس کے مکتب کی حرمت کوپائمال کر سکیں ۔
کربلا کا تذکرہ صرف رسم نہیں ہے کہ ذکرِ کربلا کرو اور شفاپاؤ ،ذکرِ کربلا کرو اور ثواب کماؤ ،ذکرِ کربلا کرو اور برکت حاصل کرو ،نہ عزیزِ من !ا س تذکرے سے اپنے اندر کربلا پیدا کرو،روحِ کربلا اپنی نسل اور اپنے جوانوں کے اندر پیدا کرو ۔امام خمینی ؒ فرماتے تھے کہ جب مجلسِ عزا ہو تو اپنے شیر خوار بچوں کو بھی مجلسِ حسین ۔ میں لے کر آؤ ۔اگرچہ وہ بچہ کچھ سن نہیں رہا ،شیر خوار بچہ ہے ،امام خمینیؒ فرماتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے یہ نہ سن رہا ہو لیکن خدانے ایسا اہتمام کیاہواہے کہ روحِ حسینی و حماسی اس کے اندر منتقل ہورہی ہے کہ جب اس کی ماں مجلس میں بیٹھ کر ذکرِ حسین ابن علی ۔ سنتی ہے ،یہ ذکر اس کی ماں کے اندر اثر کرتاہے اس کی روح میں اثر کرتاہے اور وہ دودھ جو ماں بچے کوپلاتی ہے وہ حماسہ ماں کے دودھ میں شامل ہو کر بچے کی روح کے اندر چلا جاتاہے اور یہ نسل جو پروردہِ مجلسِ حسین ۔ہے یہ راہیِ راہِ حسین ۔ بن جاتی ہے ،ہم بچوں کو گھر بٹھا کے آجاتے ہیں کہ بچے کا سکول کاکام ہے ،بچے کو ہوم ورک کرنا ہے ،بچے نے اپنی نیند پوری کرنی ہے ،آپ بچوں کو گھر انٹرنیٹ پر چھوڑکر مجلس میں آجاتے ہواور بچہ محرم میں ہر فساد دیکھ رہا ہوتاہے ۔
عزیزِ من ! پھر یہ تعجب بھی کرتے ہو کہ بچے مجلسوں میں کیوں نہیں آتے ،یہ عاشور کے دن کیسے آئیں گے ؟عاشور کے دن وہ مجلس کے اندر کدھرآئے گا۔عاشور روزِ اظہارِ حماسہ ہے اور مجلس ذریعہِ پیدا ئشِ حماسہ ہے اس لیے بچے کو اس میں ضرور لاؤ ،بچے کی دوسری ساری مصروفیات ختم کرو ۔میں نے بارہا عرض کیا ہے ،بعضوں نے متبادل ڈھونڈ لیاہے کہ جی بعد میں ہم سی ڈی یا کیسٹ گھرمیں سن لیں گے ابھی آفس کاکام ہے ،جاب ہے ،فلاں جگہ پر ہیں ۔عزیزِ من !یہ بہانے نہ کرو اس سے پہلی مجلس میں ہم نے عنوان رکھاہے ،کربلا اتمامِ حجت ۔کہ جو اس میں شریک ہیں وہ سماعت فرمائیں گے اور جونہیں ہیں وہ کسی متبادل طریقے سے وہ مجالس اور موضوع بھی سماعت فرمائیں۔
کربلا اتمامِ حجت:
کربلا ہمارے لیے اتمامِ حجت ہے۔ابھی اتمامِ حجت کا سرسری معنٰی کیا ہے جوکل سے دقیق ترہوجائے گا ،یعنی یہ جو ہم نے اپنے اعمال ،اپنی زندگی اوراپنی زندگی اوراپنے رویوں کے لیے شرعی جواز بنارکھے ہیں اتمامِ حجت ان جعلی ،شرعی ،لائسنسوں کو کینسل کرنے کانام ہے،حسین ابن علی ۔ کس ہستی کانام ہے ؟حسین ۔ اس ہستی کانام ہے جس نے ہر مقدس مآب کی غیر شرعی زندگی کے لیے اس کی طرف سے بنائے ہوئے جوازکو کینسل کردیاہے اور یہ ثابت کر دیاہے کہ تیری زندگی غیر شرعی وغیر دینی ہے۔حسین ۔ اسی ہستی کانا م ہے ،اس اتھارٹی کانام ہے جس نے تمام جعلی لائسنس کینسل کردیے ہیں ،غیر شرعی زندگیوں کے شرعی لائسنس،اتمامِ حجت اسی چیز کانا م ہے،کربلا اتمامِ حجت ہے ۔ہم اپنی نسل کو اتمامِ حجت سے آشنا کروائیں ۔البتہ بعض اوقات مومنین یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کہتے ہو بچوں کومجالس میں لے کر جاؤ لیکن جب ہم مجالس میں جاتے ہیں تو وہاں جا کر پریشان ہوجاتے ہیں چونکہ وہاں رسم ہوتی ہے اور وہ بھی بدترین طریقے سے بلکہ محرم میں مجلس کے اندر حرمت شکنی کی جاتی ہے تو ہم کیسے اپنے بچوں کو وہاں لے جائیں ۔درست اعتراض ہے !بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ منبرِ محرم و مجلسِ محرم ،محرم میں ہی حرمت شکنی کا شکار ہوتی ہے اس کا علاج کیا ہے ؟اس کا علاج امر بالمعروف ہے ،اس کا علاج نہی عن المنکر ہے ،اس کاجواب ان حرمت شکنیوں پر عکس العمل دکھاناہے ،اس کا علاج خاموش رہنا اور بائیکاٹ نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف کے ذریعے سے اس کا علاج کیاجاسکتاہے ۔سید الشہداء ؑ نے فرمایا یزیدجو حرمت شکنِ دین ہے اور اس نے ہر چیزکی حرمت پائمال کردی ہے چنانچہ میں اس امت کے اندر امر بالمعروف کرنے کے لیے نکلا ہوں ۔
’’اُرِیْدُعَنْ اٰمَرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَعَنْھٰی عَنِ الْمُنْکَر ‘‘امر بالمعروف ،ہر بے حرمتی کوروکنے کانام ہے ،ہر حرمت شکنی کو روکنے کانام ہے اور جہاں غیر ذمہ دار لوگ مجالس برپا کرتے ہوں کیوں ذمہ دار لوگ مجالس برپا نہیں کرتے ؟کیوں غیر ذمہ دار لوگ مجالس برپا کریں اور ذمہ دار جا کر افسوس کریں ،کیوں غیر ذمہ دار آکر سٹیجوں پہ بیٹھیں وذمہ دار بیٹھ کر فقط تنقید کریں ،ذمہ داروں کا کام فقط غیر ذمہ داروں پر تنقیدکرنا نہیں ہے بلکہ ذمہ داروں کاکام آگے بڑھ کر ذمہ داری اپنے دوش پہ لینا ہے ۔یہ مجالسِ محرم ہیں ،مجالسِ با حرمت ہیں ،مجالسِ بااحترام ہیں ۔کربلا کا احترام ومجالس کا احترام یعنی پورے دین کی حرمت کی پاسبانی ہے ۔
اما م خمینیؒ فرماتے ہیں کہ یہ شاہ جو ایک یزید تھا سراپا ،روح کے لحاظ سے اور ظاہر کے لحاظ سے جس کی حرکات و سکنات ساری یزیدی تھیں جس نے تمام چیزوں کی حرمت نابود کردی تھی ان حرمتوں کو بچانے کے لیے امام ؒ نے قیام کیا اور مجالسِ محرم کو امامؒ نے مجالسِ حرمتِ دین ومجالسِ پاسبانیِ حرمتِ دین میں بدل دیا ۔نہ خود حرمتِ دین پائمال کریں اورنہ کسی کو حرمتِ دین پائمال کرنے دیں نہ صرف دین کی حرمت بلکہ انسان کی حرمت ۔ہر چیز کی خدا نے حرمت مقررکی ہے ،حتیٰ خدا وند تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ادیان ،وہ مذاہب جو تمہارے مخالف ہیں ان کے مقدسات کی کہ جس کی حرمت کے وہ قائل ہیں جبکہ تیرے نزدیک ان کی کوئی حرمت نہیں لیکن اس کے نزدیک حرمت ہے تواس کابھی خیال رکھ ۔مجالسِ محرم دوسروں کے مقدسا ت کی حرمت شکنی کی مجالس نہیں ہیں ،دوسروں کی دل آزاری کی مجالس نہیں ہیں بلکہ مجالسِ بااحترام ہیں ۔موضوع جو اس سلسلہِ مجالس کے لیے آپ کی خدمت میں انتخاب کیاہے اگر توفیق ہوئی و زندگی ہوئی اس سلسلے کو آخر تک جاری رکھنے کی،وہ ہے حاملانِ دین وحامیانِ دین ،حاملِ دین لوگ و حامیِ دین لوگ ۔یہ keyword دین کے ،قرآن کے ،اسلام کے ،یہ اگر کھل جائیں ،معلوم ہوجائیں تو تعلیماتِ دین واضح ہوجائیں گی ،خصوصاً آج کی نسل کی اشد ضرورت ہے کہ قرآن ودین کے یہ keywordانہیں معلوم ہونے چاہئیں ،یہ اصطلاحات کھلنے سے دین کا پورا ایک باب کھل جاتاہے بلکہ انسان کو دین میں جہت مل جاتی ہے ۔
حاملِ دین وحامیِ دین ۔
یہ موضوع کربلا سے شدید مربوط موضوع ہے کیونکہ واقعہ کربلا کے وقت جب سید الشہداء ؑ نے قیام فرمایا بہت سارے طبقات معاشرے کے اندر موجود تھے :لاتعلق لوگ ،غیر جانبدار لوگ ،خاموش و ساکت اور تماشائی لوگ،مخالفین ،منافقین اور ایک اہم طبقہ ان میں حامیِ دین تھے لیکن حاملِ دین نہیں تھے اور ایک گروہ ان میں سے حاملِ دین تھا جو سید الشہداء ؑ کے ساتھ آخر تک قائم رہا ۔اس موضوع کے لیے جو آیت سرنامہِ سخن قرار دی ہے سورہ مبارکہِ جمعہ کی پانچویں آیت میں خدا وند تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے جو آپ ہر جمعے کو سنتے ہیں ۔
’’مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا‘‘
اس آیت کوجب ہم پڑھتے ہیں یا سنتے ہیں تو ایک ہی لفظ کی طرف فوراً توجہ دوڑ کے جاتی ہے اور وہ لفظ حمار ہے یعنی گدھا ،لیکن اس میں keyword گدھا نہیں ہے بلکہ keyword حُمل ہے یعنی اس آیت کے ذریعے سے جس چیز کو مرکزی نقطہ قرار دے کر اس کی طرف توجہ دلائی دی جارہی ہے وہ یہ جملہ ہے ۔
’’مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا‘‘
ایک ہی آیت کے اندر تین دفعہ یہ لفظ تکر ارہواہے البتہ الگ الگ شکلوں میں
’’حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا ، یَحْمِلُ أَسْفَارًا‘‘
تین دفعہ ایک آیت کے اندر لفظ حامل یا ا س سے مربوط حالت تکرار ہوئی ہے معنٰی بہت سادہ سا ہے وہ قوم جنہیں تورات دی گئی
’’مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃ‘‘
جنہیں تورات حمل کروائی گئی لیکن انہوں نے پھرحملِ تورات نہیں کیا ،حاملِ تورات نہیں بنے ،میں سادہ ترجمہ عرض کر رہاہوں ۔وہ لوگ جنہیں حاملِ توراتبنایا گیاہے لیکن انہوں نے تورات کوحمل نہیں کیا ان کی مثال گدھے کی طرح ہے کہ جس طرح گدھا کتابیں حمل کرتاہے ،انہوں نے اس طرح تورات کو حمل کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ
’’بِءْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اﷲِ ‘‘
دینِ خدا وآیاتِ الٰہی کوجھٹلانے والی قوموں کی مثال بہت بد ہے ،بہت خراب ہے ۔
’’وَاﷲُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِین‘‘
خدا ظالم قوموں کو ہدایت نہیں کرتا
اللہ تعالیٰ نے دین مقرر کیا ،دین کے آئین و منشور بنائے ،آسمانی کتابیں نازل کیں،کبھی تورات ،کبھی انجیل ،کبھی زبور ،کبھی قرآن اپنے انبیا ء ؑ کے ذریعے قوموں تک پہنچائیں ۔جہاں انبیاء ؑ کو بتایا کہ کس طرح سے یہ منشوروآئین لوگوں تک پہنچانے ہیں ؟وہاں پر لوگوں کو بھی بتایا کہ تم نے اسے کس طرح سے لیناہے؟انبیاء ؑ کو فرمایا کہ آپ نے ابلاغ کرناہے ،دین کی تبلیغ کرنی ہے دین کو پہنچاناہے ،منشور وآئین لوگوں تک پہنچاناہے اور قوموں سے کہا ،لوگوں سے کہا کہ تم نے اس کو انبیاء ؑ سے لیناہے ،دین کو حمل کرناہے ،حاملِ دین بنناہے ۔حاملِ دین ،قرآن کی مخصوص اصطلاح ہے ۔اب قوموں نے کتابیں تولے لیں لیکن حاملِ کتاب نہیں بنیں ۔ان کے افراد حاملِ دین نہیں بنے ۔قاریِ کتاب بن گئے ،حافظِ کتا ب بن گئے ،مفسرِ کتاب بن گئے ،کاتبِ کتاب بن گئے ،پبلشرِکتاب بن گئے لیکن حاملِ کتاب نہیں بن سکے جبکہ اللہ تعالیٰ کو یہ مقصود و مطلوب تھا کہ یہ حاملِ کتاب بنیں۔لہٰذا بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں منشورِ الٰہی دیا ،ان کو حامل بنایا اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم حامل بن سکتے ہیں لیکن جب انہیں کتاب دے دی گئی ومنشور دے دیا گیا تو عملاًانہوں نے ثابت کر دیا کہ حامل نہیں ہیں ۔
’’ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوہَا ‘‘
حمل نہیں کرسکے
کتاب ان کے پاس تھی کتاب کے ہوتے ہوئے بھی حاملِ کتاب نہیں تھے اور جب کتاب کے ہوتے ہو ئے حاملِ کتاب نہ ہوں ان کو تشبیہ کے ساتھ بیان کیا کہ ان کی مثال ایسے ہے جیسے گدھے کے اوپر کتابیں لادی ہوئی ہوں ۔کتاب ہوتے ہوئے اگر امت حاملِ کتاب نہ بنے ،اس کی مثال قرآن نے دی ہے کہ ان کی مثال گدھے کی ہے ۔نکتہ اسی حمل کے اندر ہے یہی معنٰی سمجھنا ہے ۔
عزیزِ من !بعض اوقات ایک نکتہ اگر سمجھ میں آجائے یعنی keyword اگر سمجھ میں آجائے تو پورا دین سمجھ میں آجاتاہے ۔
ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں آیا جوکہ ایک بدو ،دیہاتی ،بھیڑ بکریاں چرانے والا سادہ آدمی تھا ،حضرت ؐ کی خدمت میں آکر کہنے لگا کہ مجھے آپ سے کام ہے میں بھیڑ بکریاں ،ریوڑ ایسے ہی چھوڑ کر آیاہوں اور مجھے جلدی بھی ہے جبکہ مجھے آپ سے دین بھی سیکھناہے اور میر ے پاس وقت بھی نہیں ہے کہ میں آپ کے پاس یہاں سالہا سال رہوں ،شاگردی اختیار کرلوں ،صحابی بن جاؤں ،صبح شام آپ کے ساتھ گزاروں ،ایسا بھی نہیں ہوسکتا چونکہ پیچھے کام کاج ہے اور دین بھی مجھے ضرور سیکھنا ہے آپ مجھے دین سکھائیے۔حضرتؐنے اس کو دین سکھایا ،سورہ زلزال کی آخری دو آیات پڑھیں ،فرمایا کہ
’’ فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہ، وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہ‘‘
(سورہ زلزلۃ،آیت۷،۸)
جس نے ذرہ برابر خیر انجا م دیا وہ قیامت کے دن ا س کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابرشر کیا وہ بھی اس شر کو دیکھے گا ۔نہ یہ کہ شر کا عذاب دیکھے گا بلکہ خود شر مجسم ہوگاجسے وہ دیکھے گا ،یہ خیر و شر دونوں اپنے اندر دیکھے گا یہ دو جملے اس نے سنے اور کہا والسلام،میں آپ ؐ کی ساری بات سمجھ گیا ۔پرانے لوگ ،سینئر لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے جو آپ سے دین سیکھ رہے تھے وہ بڑے معنٰی خیز انداز میں ہنسنے لگے کہ ہم اتنے سینئر ،اتنے پرانے ہوگئے ہمیں ابھی تک دین سمجھ میں نہیں آیا اس نے ایک سورہ کی دو آیتیں سنیں اور خدا حافظ کہہ کر جارہاہے کہ مجھے سارا دین سمجھ میں آگیاہے جب ان کی طنزیہ ہنسی رسول اللہ نے مشاہدہ فرمائی توان کو متوجہ کرکے فرمایا :
’’لَقَدْ رَجَعَ رَجُلٌ فَقِیھَا‘‘
یہ فقیہ بن کر لوٹ رہاہے
عزیزان !ایسا ہوتاہے بعض اوقات سالہا سال انسان دین پڑھتاہے ،کسی مدرسے کے اندر ،کسی حوزے کے اندر اور پڑھتاہی جاتاہے ،پڑھتاہی جاتاہے ۔ہمارے استاد بزرگوار آیت اللہ جوادی آملی (دام ظلہ العالی) فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہیں جتنا زیادہ پڑھتے ہیں اتنے زیادہ شاگرد تر ہوتے جاتے ہیں ،پڑھ پڑھ کے انسان استاد بنتاہے لیکن بعض ایسے ہیں جوجتنا پڑھتے ہیں اتنے شاگرد تر بنتے جاتے ہیں یعنی وہ پڑھتے ہی جاتے ہیں اور ساری عمر پڑھنے کے باوجود دین سمجھ میں نہیں آتا ،کیوں نہیں آتا ؟چونکہ دین کا password ان کے پاس نہیں ہے ۔دین کا keyword ان کے پاس نہیں ہے ۔شہید مطہری ؒ کے بارے میں ہے کہ شہید مطہری ؒ کل بار ہ سال حوزہ علمیہ قم میں رہے اور بارہ سال میں اس شخصیت نے وہ دین سمجھا جو بعض بارہ صدیوں تک بھی نہیں سمجھ سکے ۔ ہم بعض اوقات کہتے ہیں کہ اعلم کون ہے ؟اعلم وہ ہے کہ جس نے چوہتر سال پڑھاہو ،چوہترسال پڑھنے سے اعلم نہیں بنتا ،ممکن ہے سالوں کے لحاظ سے اس نے کم سال لگائے ہوں لیکن دین کا keyword اس کے پاس موجود ہواور دین کو وہ سمجھ گیاہو۔اس لیے امام خمینیؒ فرماتے تھے کہ شاہ کی حکومت گرنے کے بعد اور انقلاب کی کامیابی کے بعد وہی عام ،لوفر ،لفنگے لڑکے جو آوارہ پھرتے رہتے تھے ،جو موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ویلنگ کرتے تھے ،تبدیل ہو کر بسیج بن گئے اور شہدائے اسلام کے درجے پر فائز ہوئے ۔امام ؒ فرماتے تھے خدا وند تبارک وتعالیٰ نے ان جوانوں کے اندر دین کو اس طرح سے ڈال دیا ہے جس طرح شہدائے کربلا کے اندر دین آگیاتھا ۔شہدائے کربلا میں سالہا سال سے دین پڑھنے والے نہیں تھے (اتفاقاًشاید ایک بھی ایسا نہیں تھا )جوبہت پرانے شاگردِ دین ہوں ،جو پڑھتے ہی رہے ہوں اور بس پڑھتے ہی رہے ہوں ۔زہیر ابن قین جو دو ہفتے پہلے امام ؑ کے حامی بنے ،دو ہفتے پہلے اما م ؑ کے ساتھ آکر ملے ،عاشورہ سے دو ہفتے پہلے ان کی امام ؑ سے ملاقات ہوئی ،وھب قلبی جو دو محر م یاپہلی محرم کو امامؑ سے ملے اب امام ؑ نے ان کو دین سکھایا اوردین کا keyword دے دیا،ان کو جب keyword سمجھ میں آگیا تو سارا دین ان کو سمجھ میں آگیا ،ان کی دنیا ہی بدل گئی ۔ایسے ہوتاہے ،ہم بعض اوقات ایسے افراد کو دین نہ سمجھنے پر دلیل قرار دیتے ہیں یا عمل کے ترک کرنے پر ،مثلاً حُر کی بھی بے حرمتی کرتے ہیں اور امام حسین ۔ کی بھی ،نما ز کی بھی اور اللہ کی بھی ۔جب انہیں منبروں سے کہا جاتاہے کہ حُر نے کون سی نمازیں پڑھی تھیں ؟حُر کی بھی بے حرمتی کی ،نماز کی بھی بے حرمتی کی ،حُر وہ نمازی ہے کہ ابھی امامؑ کے ساتھ آکرنہیں ملا تھا ،پھر بھی امام ؑ کے پیچھے نماز پڑھتاتھا ۔جب حُر کی پہلی ملاقات ہوئی امام ؑ کے ساتھ،نماز کاوقت ہوا ،امام ؑ نے کہا کہ نمازکاوقت ہوگیاہے ہم ادھر جماعت کراتے ہیں تم اپنے لشکر کے ساتھ جماعت کراؤ (جب دشمن بن کرآیاتھا ،راستہ روکنے آیا تھا )حُر نے کہا کہ جب نواسہِ رسول ْ موجود ہوں تو میری کیا جرأت ہے کہ میں نمازپڑھاؤں ،کہا میں راستہ روکوں گا آپ کو جانے نہیں دوں گا چونکہ مجھے یہ ماموریت ملی ہے لیکن میں نے نماز آپ ؑ کے پیچھے پڑھنی ہے ۔یعنی گمراہی کے ایام میں بھی حُرنے نماز ترک نہیں کی ،حُرکی تبدیلی کا سبب کیا تھا ؟وہ یہ تھا کہ حُر کو keyword سمجھ میں آگیا ،راستہ مل گیاِ ،حُر کے لیے دین کھل گیا ،بدلنے میں دیر نہیں لگی ۔جبکہ لشکرِ عمرِ سعدمیں ایسے حافظانِ قرآن ،مفسرِ قرآن وقاریانِ قرآن موجود تھے جو قتل کرکے بھی فخر کرتے تھے اور جب سید الشہداء ؑ پر حملہ کرتے تو قربۃً الی اللہ کہتے تھے ۔قاضیِ شریح،جو ایک بہت بڑا قاضی تھا ،امیرالمومنین ؑ نے اس کو منسوبِ قضاوت کیاتھا یعنی امیرالمومنین ؑ کا مقررکردہ قاضی ،قاضی القضات ،قاضی شریح جواتنا بڑا فقیہ و عالم ،اس نے حکم دیا تھا کہ حسین ابنعلی ۔نے حکومتِ وقت کے خلاف بغاوت کی ہے اس بغاوت کی سزا موت ہے۔اس قاضی الشرائع نے فتویٰ دیا،یہ کون ساعالم و فقیہ تھا ،یہ وہ عالم و فقیہ تھا جس نے سالہا سال دین پڑھا ،صحابہ سے دین پڑھا ،بزرگوں سے دین پڑھا لیکن دین اس کے لیے کھلانہیں ،اس کے لیے واضح نہیں ہوا ۔خدا وند تبارک وتعالیٰ نے دین نازل کیا ،انبیاء ؑ کو بھیجا تاکہ دین کو ان تک پہنچا دیں یعنی ابلاغ کریں ،اور قوموں سے کہا کہ تم دین کو حمل کرو ،تم حاملِ دین بنو، آج ہم اپنے آپ کودیکھیں کہ ہم دین کے حامی، دین پر عمل بھی کررہے ہیں،دین کو اپنا یا ہوا بھی ہے یانہیں؟لیکن وہ نکتہ جو ہمیں تلاش کرناہے وہ یہ ہے کہ آیا ہم حاملِ دین ہیں یانہیں ہیں ؟دین حمل بھی کیاہے یانہیں کیا ؟چونکہ بنی اسرائیل ،دین دار قوم کو خدا نے فرمایا کہ انہوں نے تورات لے لی ،علمائے یہودنے تورات لے لی ،تورات حفظ کر لی ،تورات کی تفسیر کر لی ،تورات کی تفسیر کے ساتھ ساتھ ا س میں تحریف بھی کرلی لیکن وہ حاملِ تورات نہیں بن سکے ،حامی بن گئے لیکن حامل نہیں بن سکے ،جب انسان حامل بن جائے اس وقت انسان کا کردار کربلائی بنتاہے ۔
حمل کا معنٰی کیا ہے ؟حمل عربی زبان میں بوجھ اٹھانے کوکہتے ہیں ،وز ن اٹھانے کو کہتے ہیں ۔بعض چیزیں ہوتی ہیں جن کا وزن ہوتاہے ان کو اگر انسان اٹھائے ،اپنے دوش پہ لے لے ،اس کو عرب حمل یا حملہ کہتے ہیں یعنی بوجھ اٹھانا ،جو وزنی چیز نہ ہو جس کے اندر ثقل نہ ہو ، جس کابوجھ نہ ہو ،اس کے اٹھانے کوحمل نہیں کہتے ،اس کو اور ناموں سے یاد کرتے ہیں ،حامل کا محمول وہ ہے جس کے اندر بوجھ ہو ،وزن ہو ۔قرآن مجید میں خدا وند تبارک وتعالیٰ نے انسان کے لیے ذکر کیا کہ خدا وند تبارک وتعالیٰ نے اپنی امانت پہاڑوں پہ پیش کی ،زمینوں پہ پیش کی ،آسمانوں پہ پیش کی لیکن کسی نے بھی نہیں اٹھائی
’’إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَۃَ عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا ‘‘ (سورہ احزاب،آیت۷۲)
حمل کرنے کے لییہم نے اپنی امانت پیش کی، اب حاملِ امانت کون ہوگا؟ آسمانوں کو پیش کی ،زمینوں کو پیش کی ،پہاڑوں کو پیش کی تو انہوں نے انکار کردیا ،امانتِ خدا اٹھانے سے انکار کر دیا
’’فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَہَا ‘‘
ہم نے امانت سے انکار کر دیا کہ ہم سے یہ امانت نہیں اٹھائی جاسکتی کیونکہ یہ بہت ہی سنگین ہے ،اس کا بہت بوجھ ہے ،ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم اس امانت کواٹھا سکیں
’’وَأَشْفَقْنَ مِنْہَا‘‘
ڈر گئے ،خوفزدہ ہوگئے ،امانت اور بوجھ دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے
’’وَحَمَلَہَا الْإِنْسَانُ ‘‘
انسان نے بڑھ کر اس امانت کواٹھا لیا ،اس بوجھ کواٹھا لیا
’’إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا‘‘
خدا وند کا فرماناہے کہ یہ انسان ظالم اور جاہل ہے
’’إِنَّہُ کَانَ ظَلُومًا جَہُولًا‘‘
یہاں امانت کے لیے حمل کا لفظ استعمال ہواہے کہ ہم نے امانت حمل کے لیے زمین کو دی لیکن وہ اس کو نہیں اٹھا سکی ،اس امانت کااتنا بوجھ تھا کہ زمین متحمل نہیں ہو سکی ،اس امانت کا اتنا بوجھ تھا کہ آسمان متحمل نہیں ہوسکے اور اس امانت کا اتنا بوجھ تھا کہ پہاڑ اتنی عظمت کے باوجو د اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکے ،حاملِ امانت نہیں بنے لیکن انسان نے بڑھ کر یہ بوجھ اٹھالیا ،انسان حاملِ امانتِ خدا بن گیا ۔حمل کا لفظ بہت سارے موارد میں استعمال ہوتاہے لیکن جہاں بھی استعما ل ہوتاہے خواہ وہ مادی مصداق میں ہو ،دین کے بارے میں ہو یا دین کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں ہو ،جو چیز اٹھا ناذرا مشکل ہو ،توانائی کی ضرورت ہو ،طاقت کی ضرورت ہو ،جس کے اندر بوجھ ہو ،ثقل ہو ،وزن ہو ،اس کے اٹھانے کوحمل کہتے ہیں ۔دین کے بارے میں خدا وند تبارک تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ حمل کامحتاج ہے آپ کو اسے حمل کرنا پڑے گا یعنی دین کے اندر ایک ثقل ہے ،دین کے اندر ایک بوجھ ہے ،دین کے اندرا یک دشواری ہے ،وہ تمہیں اپنے دوش پہ لیناہے ،اگر تم حاملِدین نہیں بنے تودو حالتیں ہوں گی ،یا بے دین یا اگر حامیِ دین بن گئے یعنی دین لے لیا لیکن حمل نہ کیا فقط اپنے پاس رکھ لیا تواس صورت میںیہ تشبیہ ہے جو کہ سورہِ جمعہ میں دی گئی ہے ۔جو دین دار ہو کر حملِ دین نہ کرے ،حاملِ دین نہ بنے ان کے لیے تشبیہ سورہِ جمعہ ہے ۔
’’کَمَثَلِ الْحِمَار‘‘
یعنی انسان یا کافر ہے جس نے دین لیا ہی نہیں ،دریافت نہیں کیا،قبول نہیں کیا ۔یا پھر قبول کر لیا قبول کرنے کے بعد اب اس کو حاملِ دین بنناہے ،دین کو اگر حمل نہ کیا تو یہ انسان حیوان بن جائے گا،یا کافر ہے یا مسلمان ہے یا حیوان ۔ ان تین حالتوں میں ایک حالت حیوان ہے جس کو قرآن نے ذکر کیایعنی گدھا ۔
حامیِ دین ،حامی بھی عربی لفظ ہے ،حامی،حما ،سے ہے ،ح حلوے والی (جس کو عموماً اردو میں سمجھانے کے لیے یہ (حلوے والی )علامت بیان کی جاتی ہے ،ویسے اگر عرب اس کو سمجھانا چاہیں تو کہتے ہیں ح ،اخت الجیم ،یعنی حا جو جیم کی طرح ہے ۔جیمی حا،ایک دو آنکھوں والی ھا ہے ایک جیمی حا ہے ،اردو میں ا س کے تعارف کے لیے کہتے ہیں حا،حلوے والی ،شاید یہ مسلمانوں کو تعارف کے طورپر زیادہ پسند ہوتی ہے )حمیٰ،حا،م ،ی،حمیا،حمیٰ کہتے ہیں گرمی کو ،لہٰذا بخار کوبھی حمیٰ کہتے ہیں ،کسی عرب کو اگر بخار ہوجائے تو وہ یہی کہے گا حمیٰ،یعنی فلاں کوبخار ہوگیاہے ۔قرآن مجید میںیہ لفظ کئی باراستعمال ہواہے
’’نَارٌحَامِیَۃٌ‘‘
گرم آگ
چونکہ بخارکی حالت میں انسان کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے ،بدن گرم ہوجاتا ہے اس وجہ سے بخار کی حالت کو حمیٰ کہتے ہیں ۔حامی وحمات ،یعنی وہ لوگ جو کسی چیز کے گرم جوشی کے ساتھ طرف دار بنیں ،حمایتی بنیں ،چونکہ ایک چیز جو گرم ہوتی ہے وہ جذبات ہیں ،انسان کاجوش ہے ،بعض اوقات یہ جذبات ٹھنڈے ہوجاتے ہیں بعض اوقات یہ جذبات ابھر جاتے ہیں ،گرم ہوجاتے ہیں جس کو ہم اردو زبان میں گرم جوشی کہتے ہیں یعنی جوش یا جذ بات کے اندر گرمی آگئی ہے ۔جذبات ہوتے ہی ایسے ہیں ،ان کی یہ خاصیت ہے کہ کبھی ٹھنڈے ہوجاتے ہیں ،کبھی ابھر جاتے ہیں ،ان کے اندر گرمی آجاتی ہے ،حرارت آجاتی ہے ،جب جذبات ابھر جائیں اس کو گرم جوشی کہتے ہیں اور اسی گرم جوشی کو حمایت کہتے ہیں ۔جب ہم کسی کے حامی بنتے ہیں یعنی ہمارے اندر اس شے کی نسبت ایک رغبت پیداہوتی ہے،ایک احساس پیداہوتاہے اور وہ احساس بھی بہت گرم ہوتاہے ،ابھر ا ہوا ہوتاہے اس وجہ سے ہمیں اس کا حامی کہا جاتا ہے ۔حامیِ دین یعنی وہ شخص جس کے اندر دین کے بارے میں گرم جوشی پائی جاتی ہے ،دین کی گرم جوشی ان لوگوں کے اندر زیادہ ہے ،حامیِ دین زیادہ ہیں لیکن جس چیز کی دین کو ضرورت تھی وہ حاملِ دین تھے ،دین کوحمل کرنا،دین ایک بوجھ ہے ،دین کے اندر ایک دباؤ ہے اس کو اپنے دوش پہ لینا ،اٹھانا ،وہ ذمہ داریاں عرض کروں گا کہ بوجھ کیاہے ؟ وہ یہ نہیں ہے کہ نماز کے لیے جلدی اٹھنا ،یامالی بوجھ نہیں ہے ،دین کا بوجھ ذمہ داریوں کابوجھ ہے ،مسؤلیت کابوجھ ہے ۔یہ سب بوجھ اپنے دوش پہ لینا انسان کو حاملِ دین بنا دیتاہے ۔قرآن مجیدکافرماناہے کہ وہ لوگ جن کوہم نے منشورِ دین دیا اور انہیں حاملِ دین بننا تھا ،دین لینے کے بعد دین کے حامی تو بن گئے لیکن دین کے حامل نہیں بنے ۔حاملِ دین نہ بننے سے دین بھی اپنے پاس رکھا اورحامل بھی نہیں بنے ،ان کی مثال اس حیوان جیسی ہے جس کے اوپر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور وہ ان کتابوں کو بوجھ اٹھائے ہوئے ہو ،جسمانی بوجھ لیکن اس کتاب کے اندر جو ذمہ داریاں ہیں ،اس کتاب کے اندر جو تعلیمات ہیں ،اس کتاب کے اندرجو راہنمائی اور ہدایت ہے اس حیوان کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے ۔اگر قرآن کی جلدیں بناکر (آج کل قرآن گاڑیوں پہ منتقل ہوتاہے پہلے حیوانات پہ ہوتاتھا ایک جگہ سے قرآن کی جلدیں اونٹ کے اوپر لادتے تھے اور دسرے شہر پہنچادیتے تھے)اونٹ کے اوپر سو جلدیں لاد دیں ،اٹھا کے لے جاتاہے اور اگر ہمارے پاس آجائے توہم فوراً اس اونٹ کوچومنا شروع کردیں گے چونکہ اس پہ قرآن لادا گیاہے ایساہوتاہے اونٹ پرست ملت گزری ہے ۔تاریخ میں لکھاہے کہ امیرالمومنین ؑ کا مقابلہ جنگِ جمل میں (اس جنگ کانام ہی جمل ہے ،جمل اونٹ کوکہتے ہیں یعنی علی ؑ کے مقابلے میں اس وقت افراد نہیں تھے بلکہ اونٹ مقابلے میں آیا تھا ،ایک طرف امام ؑ اور ایک طرف او نٹ )اونٹ سے ہوا ،اور ملت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ،آدھی ملت امام ؑ کی پیروکار ،آدھی ملت اونٹ کی پیروکار۔امام ؑ نے جو فوج بنائی ہوئی تھی اس کو حکم دیا کہ ان پر حملہ کرو اور امام ؑ کی فوج جب حملہ کرتی تھی تو ان کے بہت زیادہ افراد قتل ہوجاتے تھے ،زیادہ جانی نقصان انہیں کاہوتا تھا لیکن فوج تسلیم ہونے کے لیے تیار نہیں تھی ۔سینکڑوں لوگ اس لشکر کے امیرالمومنین ؑ کی فوج کے ہاتھوں مر گئے لیکن وہ تسلیم نہیں ہو تے تھے آخر کار امیرالمومنین ؑ نے انہیں بتایا کہ جب تک یہ اونٹ نہیں گرتا یہ لوگ تسلیم نہیں ہوں گے ۔اس وجہ سے امیرالمومنین ؑ نے ایک مخصوص فورس تیار کی کہ جو جا کر اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دے ،یہ لوگ گئے انہوں نے جا کر اونٹ کی ٹانگیں کاٹیں ،جب وہ اونٹ گرا تو اسی وقت انہوں نے رونا شروع کردیا ،شکست قبول کر لی کہ اب ہم گر گئے ۔حضرت ؑ نے اس بارے میں نہج البلاغہ میں خطبہ بھی دیاہے
’’کنتم جند المرء واتبع البھیمہ‘‘
اس قوم کو جب شکست ہوچکی تو حضرتؑ نے ان کو خطاب کیا اس خطبے میں یہ فرمایا کہ :
’’کنتم جند المرء واتبع البھیمہ‘‘
(جند یعنی سپاہ ،لشکر)تم عورت کے سپاہی اور اونٹ کے پیروکار ہو(بہیمہ کے جانورکے پیروکار )اور بعض روایات میں ہے کہ اس قدر اس اونٹ کے تقدس کے قائل تھے کہ اونٹ کی لید کو تبرک کے طور پر آپس میں تقسیم کرتے تھے یہ تاریخ میں ہے اس کو عجیب تصور نہ کریں ،انسان جب پست ہوجائے ،گرجائے تو اس حد تک پست ہوجاتاہے ۔وہ لوگ اونٹ کی لِید کو تبرک کے طورپر تقسیم کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس سے عود و عنبر کی خوشبو آتی ہے ۔انسان جب پست ہوجائے توکہاں جا پہنچتاہے !امامِ مسلمین ایک طرف اور جمل ایک طرف ،جمل بہ مقابلہ امام ؑ ،اونٹ بمقابلہ امامؑ ،اور ملت اونٹ کا مان لیتی ہے ،اونٹ کے تقدس کی قائل ہوجاتی ہے اور علی ؑ کے خلاف جنگ کرتی ہے ۔علی ؑ دامادِ رسول ،علی ۔ وصیِ رسول علی ۔ کا مقام انہیں لوگوں کے سامنے جو علی ۔ کے ساتھ جنگ کررہے ہیں واضح ہے ،انہیںیہ پتہ ہے کہ علی ۔ کا مقام اسلا م میں کیاہے ،علی ۔ کا مقام اللہ کی بارگاہ میں کیاہے ،علی ۔ کامقام رسول کی بارگاہ میں کیاہے ؟پھر اس علی ۔ کے خلاف جنگ کیوں کی؟اس لیے کہ اِدھراونٹ تھا ، علی ۔ سے اونٹ زیادہ محترم تھا ۔اگر اس اونٹ پر قرآن لا ددیاجائے تو وہ اونٹ مقدس ہوجائے گا، اونٹ حاملِ قرآن ہوجائے گا ،یہ حاملِ قرآن حیوانی حاملِ قرآن ہے یہ حملِ قرآن بہیمے کا حملِ قرآن ہے ،اس کو قرآن نے کہاہے کہ یہ حماری حملِ قرآن ہے۔حملِ قرآن یعنی قرآن لے لو ،آپ کے پاس موجود ہولیکن
’’لَمْ یَحْمِلُوْھَا‘‘
پھربھی آپ کو حاملِ قرآن نہ سمجھا جائے ،حماری حملِ قرآن یہ ہے کہ انسان کے پاس،ملت کے پاس گھروں میں قرآن موجو د ہواور حتیٰ کہ وہ ہمارے مطالعے میں بھی ہو لیکن قرآن خود کہہ رہاہو
’’لَمْ یَحْمِلُوْھَا‘‘
تم حاملِ قرآن نہیں ہو
حاملِ دین وحاملِ قرآن:
قرآن ہوتے ہوئے کوئی حاملِ قرآن نہ ہو تو اس کی مثال یہ ہے کہ وہ حماری حاملِ قرآن ہے ۔

کیوںیہ کہاگیا کہ قرآن کو حمل کرو ،دین کے حامل بنو ؟اسی لفظِ حمل سے سارا دین سمجھ میں آجاتاہے ۔اگر میںیہیں پر مجلس ختم کردوں تو وہ جوان ،وہ مومنین جو اس لفظِ حمل پر غور شروع کردیں کہ دین کوحمل کرنے کاکیوں کہاگیاہے ؟حمل اس چیز کے اٹھانے کوکہتے ہیں جس کا بوجھ ہو ،وہ دین کو سمجھ سکتے ہیں ۔قرآن یعنی منشورِ دین کے بارے میں خدا وند تعالیٰ کا فرماناہے کہ اس کو حمل کی ضرورت ہے یعنی حاملِ قرآن بنو ،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے اندر کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کو اٹھانے کی ضرور ت ہے ،جن میں بوجھ ہے وہ کون سی چیزہے؟خود یہیں سے غور کریں باقی اگر قرآن نہ بھی پڑھیں تو بھی معلوم ہوجائے گا اس مومن کی طرح کہ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ فقیہ ہوگیا ۔
’’فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہ ، وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہ ‘‘
یہ نکتہ سمجھ کروہ فقیہ ہوگیاکیونکہ اس کو معلوم تھا کہ میں فقط نگاہ بھی کرتاہوں تویہ عمل میرے اندرمحفوظ ہوجاتاہے ،میں گفتگوکرتاہوں وہ عمل بھی میرے اندر محفوظ ہوجاتاہے ،میں سنتاہوں وہ بھی میر ے اندر محفوظ ہوجاتاہے ،میں سوچتاہوں وہ بھی میرے اندر محفوظ ہوجاتاہے ،حتیٰ ذرہ برابر خطا میرے اندر محفوظ ہے ،ذرہ برابر جرم میرے اندر محفوظ ہے اور قیامت کے دن یوں نہیں ہوگا کہ مجھے الگ کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا ،میرا نامہِ اعمال فرشتوں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوگا اور اِدھر مجھے کھڑا کیاجائے گا اور اُدھر میری فائل ہوگی اور اِدھر سے میں آرزو کروں گا اُدھر سے فرشتے ثبوت پیش کریں گے نہ عزیزِمن !یہ منظرِ قیامت نہیں ہے ،پس منظرِ قیامت کیاہے ؟منظرِ قیامت یہ ہے کہ جو کچھ تونے کیا ہے وہ تیرے پاس تیری آنکھوں کے سامنے ہو گا ،کہاں پر ہوگا ؟
’’اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا‘‘
(سورہ اسراء،آیت ۱۴)
اپنے اوپر غور کرو ،ذرا دیکھو جونہی ہم نگاہ کریں گے ذرہ برابر چیز ،کسی کی اگر غیبت کی تھی تو وہ نظر آئے گی ،وہ خود غیبت نظر آئے گی ،جو خیانت کی وہ خیانت نظر آئے گی ،جو جھوٹ بولا وہ جھوٹ نظر آئے گا ،جو تہمت لگائی وہ تہمت نظرآئے گی ،جو سوءِ نگاہ کی وہ سوءِ نگاہ نظرآئے گی ،ہر چیز اس کے اندر موجود ہوگی اس وقت انسان تعجب کرے گا ۔
’’مَالِھَذَاالْکِتَاب‘‘
اے پروردگارا!یہ کیسی کتاب ہے ،اس نے نہ کوئی چھوٹی چیز چھوڑی ہے اور نہ کوئی بڑی چیز چھوڑی ہے ،اس کو حقیقتِ انسان سمجھ میں نہیں آجاتی ،اس کو اعمال سمجھ میں نہیں آجائے ،اس کو قیامت سمجھ میں نہیں آجاتی ،ہر چیز اس کو سمجھ میں آجاتی ہے ،غور فرمائیں ،دین کو حمل کی ضرور ت ہے ۔آپ حاملِ دین بننے کے لیے مدرسوں میں جا کر پڑھتے ہیں یعنی حاملِ دین بننے کے لیے دین سیکھتے ہیں تاکہ حاملِ دین بنیں ،مجلس میں آتے ہیں تاکہ حاملِ دین بنیں ،انبیاء ؑ آئے تاکہ لوگوں کو حاملِ دین بنائیں ،آئمہ منسوب ہوئے تاکہ لوگوں کو حاملِ دین بنائیں۔
حمل کیاہے؟
لفظِ حمل سے حقیقتِ دین واضح ہوجاتی ہے۔حمل یعنی دین کے اندر کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کو اٹھانے کی ضرور ت ہے،جس کو سنبھالنے کی ضرورت ہے ،جس کو دوش چاہیے ،چونکہ حمل کے لیے دوش کی ضرورت ہے ۔ہر اٹھانے کوحمل نہیں کہتے ،بعض چیزیں ایسی ہیں جو ہاتھ میں اٹھا لیتے ہیں مثلاً یہ کتاب پکڑ کر مَیں ہاتھ میں اٹھا لوں یہ حمل نہیں ہے ۔عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے ،حمل اس چیز کو کہتے ہیں جس میں انسان ایک چیز کو اٹھاتاہے اور اس کو اپنے کندھے پہ رکھتاہے ،دوش پہ لیتاہے ۔وزن اٹھانے کے لیے سب سے موزوں جگہ دوش ہے ،کندھا ہے ۔اس لیے محاوروں میں لفظ دوش استعمال ہوتاہے ،میرے دوش پر اتنی ذمہ داریاں ہیں ،گھریلو ذمہ داریوں کو آپ کیا کہتے ہو کہ میرے دوش پر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں یعنی یہ بوجھ ہے ذمہ داریوں کا جو میرے کندھوں پر ہے ۔یعنی دین کے اندر کچھ ایسی چیزیں ہیں جوانسان کا کندھا مانگتی ہیں ،جو دوش مانگتی ہیں ،جب تک انہیں دوش پر نہ لے لیں انہیں حمل نہیں کیا ۔اگر انہیں سینوں میں لے آئیں حامل نہیں بنے ،اگر ذہنوں میں لے آئیں حامل نہیں بنے ،اگر زبانوں پہ لے آئیں حامل نہیں بنے جب تک وہ دوش پہ نہیں آجاتیں ۔پس دین کے اندر کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کو دوش چاہیے ،جن کو کندھا چاہیے ۔حاملینِ دین اگر حامل نہ رہیں ،انہیں یہ پتہ ہی نہ ہو کہ ہم نے دین سیکھ کر حاملِ دین بنناہے ان ذمہ داریوں کو دوش پہ لیناہے ،اگر دوش پہ نہ لیں اور آئیں صرف دین کو پڑھ لیں ،سینوں میں لے لیں ،ذہنوں میں لے لیں ،کتابوں میں لے لیں ،مدرسوں میں لے لیں ،کتابوں کے اندر پڑھ لیں ،کاپیوں میں لکھ لیں اور ہم یہ کہیں کہ ہم دین کے عالم بن گئے ہیں ،یہ دین زمین پر گر جاتاہے ،دین دوش پہ ہوتو دین اوپر اٹھتاہے ورنہ دین زمین پہ گر جاتاہے ،دین پائمال ہوجاتاہے ،دین کوحاملین ملیں تودین بچ جاتاہے ،اگر حامل نہ ملے فقط حامی ملے تو دین بچتا نہیں ہے محفوظ نہیں رہتا ۔عصرِ سید الشہداء ؑ میں دین دار لوگ بہت تھے ،حامیِ دین بہت تھے لیکن حاملِ دین نہیں تھے ،حاملِ قرآن نہیں تھے ،قاریانِ قرآن بہت تھے ،حافظانِ قرآن بہت تھے لیکن وہ حاملِ قرآن نہیں تھے ۔سید الشہداء ؑ اور اصحابِ سید الشہداء ؑ حاملِ دین بنے ،امام ؑ پر سب سے پہلی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ حاملِ دینِ خدا ہو ۔حاملِ دینِ خدا ،جس کے دوش پر دین کی ساری ذمہ داریاں ہوں اور امت اس پیروکار گروہ کوکہیں گے جس کے اوپر امامؑ کی اتباع میں ذمہ داریاں دوش پر موجو دہوں ۔اگر ذمہ داریاں اس کے دوش پر نہ ہوں یہ حاملِ دین نہیں ہے اورعزیزانِ من! آئمہِ ہدیٰ کو جو حسرت تھی وہ حاملینِ دین کی تھی۔
حسرتِ امیرالمومنینؑ وسیدالشہداءؑ :
کمیل نہج البلاغہ میں روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ۔ نے ایک شب کمیل کا ہاتھ پکڑا،یہی کمیلؓ جنہوں نے دعانقل کی ہے دعائے خضر اور دعائے کمیل کے نام سے معروف ہے اور مومنین پڑھتے ہیں ۔نقل کرتے ہیں کہ ایک شب امیرالمومنین ؑ نے میرا ہاتھ تھاما ،روایت میں دقیق نقل کیا گیاہے کہ میری انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں امیرالمومنین ؑ نے ،میرے پنجے میں انگلیاں ڈالیں اور میرا ہاتھ مضبوطی سے دبایا اورمجھے اپنے ساتھ لے کر نخلستان میں چلے گئے اور وہاں جا کر علی ۔ نے راز کی باتیں بیان فرمائیں ۔فرمایاکہ
’’یا کمیل ،ان ھذہ القلوب اوعیۃٌفخیرھا او عاہ‘‘
اے کمیل ! یہ دل ظرف ہیں سب سے بڑا دل وہ ہے جس کی ظرفیت سب سے زیادہ ہو ،جس میں سب سے زیادہ ہدایت سماسکتی ہو اور پھر فرمایا کمیل کہتے ہیں کہ امیرالمومنین ؑ نے اپنے سینے پہ ہاتھ مارا اور فرمایا
’’یا کمیل ان ھا ھنالعلماً جمعا‘‘
اے کمیل !اس سینے کے اندر ہدایت کا ،علم کا ایک سمندر موجود ہے
’’علماً جمعاً‘‘
ایک ذخیرہ علم کا موجود ہے ،نہ ختم ہونے والا ،لیکن اے کمیل میری مشکل کیاہے ؟
’’لو وجدت لہ حملا‘‘
اے کمیل،کاش کہ مجھے حاملِ علم مل جاتے
’’لو وجدت لہ حملا‘‘
علی یہ کس وقت کہہ رہے ہیں ؟خلافت کے دو ر میں ،خلافتِ علی ۔ میں علی ۔ کی فوج ہزارو ں کی تعدادمیں تھی اور اس وقت پورا عالمِ اسلام علی کو خلیفہ مان رہاتھا ۔خلافت کے دور میں ساٹھ ،ستر ہزار فوج کوفہ کے اندر موجود تھی ،اب دوسرے شہروں کی فوج الگ ہے ،اس فوج کے اندر کھڑے ہوکر امیرالمومنین ؑ فرما رہے ہیں ،میرے پاس سب کچھ ہے ،ارد گرد مجھے سب کچھ نظر آرہاہے ،بہت رش ہے لیکن اس میں مجھے کوئی حامل نظر نہیں آرہا ،میرے حامی ہیں لیکن حامل نہیں ہیں ،میں حامل کی حسرت میں ہوں ۔سید الشہداء ؑ کیوں فخر کرتے ہیں کہ جیسے صحابہ خدانے مجھے دیے ،ایسے میرے بابا کو نہیں ملے ،ایسے میرے نانا کونہیں ملے ،کیوں ؟فرق کیا تھا اُن میں اور اِن میں ؟فرق یہ تھاکہ وہ فقط حامی تھے مگریہ حامی ہونے کے ساتھ ساتھ حامل بھی تھے ۔یہ اپنے دوش پر کچھ لے کر آئے تھے ۔انہوں نے اپنے دوش پر ایک ذمہ داری اٹھائی تھی لہٰذا شبِ عاشور جب سیدا لشہداء ؑ نے چراغ بجھا کے کہا کہ چلے جاؤ ،نہیں گئے ،کیوں نہیں گئے ؟اس لیے کہ ہمارے دوش پر ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،ہمارے دوش پر کچھ ہے اورجو ہمارے دوش پر ہے ہم نے ابھی اس کو ادا نہیں کیا ،حامی سارے چھوڑے گئے ،حامی کوفہ بیٹھے رہے ،حامی مدینہ میں بیٹھے رہے ،ابھی پہلی مجلس میں مَیں نے سید الشہداء ؑ کا وہ خط پڑھا جو مدینہ سے روانگی کے وقت امام ؑ نے بنو ہاشم کو لکھا ،فقط ہاشمیوں کو ،یعنی اپنے رشتے داروں کو ،ان سادات کو خط لکھا جو سید الشہداء ؑ کے ساتھ نہیں آئے ،جس میں امام حسین ۔ کے اپنے کئی بھائی تھے جو نہیں آئے ،چچیرے ،چچازاد بھائی جو نہیں آئے تھے ،بہت سارے ہاشمی جو نہیں آئے ۔امام ؑ نے ان کو ایک سطر کا خط لکھا ،
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ،من حسین ابن علی الیٰ بنو ہاشم‘‘
یہ خط ہے حسین ابن علی ۔ کا ،بنو ہاشم کے نام ،کون سا ؟
’’من لھک بہ استشھد‘‘
جو بھی میرے ساتھ آئے گا وہ شہید ہوجائے گا او رجس نے مجھے ترک کر دیا وہ زندگی میں کبھی سکون نہیں دیکھے گا ،والسلام۔
فرمایا ! رہو تم گھروں کے اندر ،یہ ہاشمی ،یہ مدینہ کے اندر رہے ،یہ کون تھے ؟یہ سید الشہداء ؑ کے بہت زیادہ خیر خواہ تھے چونکہ باری باری آکر سب امام ؑ کو منع کررہے تھے بھائی بھی اور دوسرے بھی ،کہ مولاؑ آپ نہ جائیں ،خطرہ ہے ،یزید ہے ،بنو امیہ ہے ،خونخوار ہیں ،درندے ہیں ،امامؑ نے فرمایا لگ رہاہے کہ تم میرے حامی ہو لیکن مجھے تلاش کس کی ہے ؟حاملوں کی ہے ،تم حاملِ رسالتِ خدانہیں ہو،وہ لوگ امام حسین ۔ کے ساتھ کیوں نہیں آئے ؟اس لیے کہ اپنے دوش پر کچھ لیے ہوئے نہیں تھے اور حمایت کو ہی دینداری کہہ رہے تھے ،وہ یہ سمجھتے تھے کہ فقط حسین ۔ کا حامی ہونا کافی ہے ،حسین ۔ کانام لینا کافی ہے ،وہ حامل نہیں تھے اور جو حامل تھے ان کو سید الشہداء ؑ خود فرمارہے ہیں کہ تم چلے جاؤمجھے چھوڑ کر ،یہ میرا میدان ہے ،یہ میرا مبارزہ ہے ،تمہار ا نہیں ہے لیکن یہ جانے کے لیے تیار نہیں ہیں چونکہ دوش پہ کچھ لیے ہوئے تھے ۔
ولایت کو حامل کی ضرورت:
پہلے دن سے ہی دین کی یہی مشکل رہی ،اس وجہ سے خدا وند تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں مخاطب قرار دیاہے اور کئی آیات ہیں کہ جس میں فرمایا لوگو حاملِ دین بنو و حاملِ قرآن بنو ۔حامیِ رسول ہونا کافی نہیں ہے ،حامیِ اہلبیت ؑ ہونا کافی نہیں ہے ،حامیِ قرآن ہونا کافی نہیں ہے ۔حامیوں کا ایک عمل ہے اور وہ یہ ہے کہ حامی اس سخت میدان میں نہیں اترتا جبکہ حامل سخت میدانوں میں اترنے کی ذمہ داری دوش پہ لیتاہے ۔رسول اللہ نے جب ولایت بیان کی ،اب روایات مختلف ہیں ،ایک لاکھ تک ذکر کیا ہے بعض نے کہا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار،رسول اللہ نے جس مجمعے میں ولایت کا اعلان کیا ،ایک لاکھ بیس ہزار کامجمع روایت میں نقل کیا گیاہے اس سے اوپر نیچے بھی تعداد ذکر کی گئی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ یہ تعداد ذکر کی گئی ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار کا مجمع تھا ،ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوں کے مجمع میں رسو ل اللہ نے ولایت کا اعلان کیا ۔پورے ایک لاکھ بیس ہزار نے مل کر بخٍ بخٍ کہا ،اپنی حمایت کا اظہار کیا ۔اور سب سے بڑا حامی اس مجمع کے اندر ایک شاعر نامدار احسان بن ثابت تھا ،نام آپ نے سنا ہواہے ،سب سے پہلے جس نے غدیر پہ قصیدہ لکھا ،ولایت پر قصیدہ لکھا ،اس قصیدے کے اندر اس نے ولایت کا اتنا خوبصورت تذکرہ کیا کہ رسول اللہ نے بھی اس کو دا ددی ،اس نے اتنی بڑھ چڑھ کر ولایت کی حمایت کی کہ رسول اللہ نے بھی اس کو داد دی لیکن یہ حامیِ ولایت ،یہ قصیدہ گوئے ولایت ،یہ شاعرغدیر ،جبدو مہینے د س دن بعد رسول اللہ کی آنکھ بندہوئی ،علی ۔ کو ولی ماننے پر تیار نہیں ہوا ،نہیں مانا ،لیکن اس نے حمایت نہیں چھوڑی مگر اس سے بھی بڑھ کر ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جب علی ۔پچیس سال بعد چوتھے خلیفہ کے طورپر چنے گئے ،باقیوں نے چوتھا خلیفہ مان لیا مگر اس شخص نے چوتھا خلیفہ بھی نہیں مانا ۔ غدیر کی حمایت میں ،علی ۔ کی حمایت میں ،ولایت کی حمایت میں سب سے پہلا قصیدہ لکھنے والا و حمایت میں دادلینے والا علی ۔ کو خلیفہ بھی نہیں مانا ،علی ۔کو چھوڑ کر شام چلاگیا ،امیرشام کے ساتھ جا ملا ۔کیوں ایسے ہوا ؟اس لیے کہ نظامِ ولایت کو حامل چاہئیں تھے جبکہ غدیر میں سارے حامی نکلے او رمیں ہمیشہ یہ عرض کرتاہوں کہ ولایت کی مشکل یہ ہے کہ پہلے جلسے سے ،ولایت کی پہلی مجلس جو غدیر میں ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک فقط ولایت کو بخٍ بخٍ،واہ واہ اور حمایت ہی ملی ہے لیکن ولایت کا اعلان اس لیے ہوا تاکہ لوگ حاملینِ نظامِ ولایت ہوجائیں ،حمل کریں ،نظامِ ولایت کو دوش پر لیں،واقعہِ کربلا حامیوں کی موجودگی میں رونماہوا،بے شمار حامیوں کی موجودگی میں ہوا ۔آپ کیا سمجھتے ہیں جب واقعہِ کربلا ہوا ا س زمانے میں کتنے شیعہ تھے ؟مدینہ شیعوں سے بھرا ہواتھا ،کوفہ شیعوں سے بھرا ہواتھا ،بصرہ میں شیعہ تھے ہر جگہ شیعانِ امیرالمومنین ؑ موجو د تھے ۔لیکن یہ سب شیعہ ،حامی شیعہ تھے حامل شیعہ نہیں تھے ۔اگر حامل شیعہ ہوتے ،حاملِ نظامِ دین ہوتے ،حاملِ ولایت و امامت ہوتے،تو ایسی حالت نہ ہوتی ۔
ایک شخص امام حسنِ مجتبیٰ ۔ کے پاس آیا ،آکر کہنے لگا مولاؑ میں آپ کا شیعہ ہوں امام ؑ نے فی الفور فرمایا ’’استغفراللہ ‘‘معافی مانگ اللہ سے ، ابھی اس جملے پرتوبہ کر، جو تیرے منہ سے نکلا ہے،جب تک توبہ نہیں کرے گا یہ تیرا گناہ بڑھتا رہے گا،تیرے گناہ میں،معصیت میں اضافہ ہوتارہے گا ،کس بات کی توبہ؟جو تونے کہا ہے کہ میں شیعہ ہوں ،تعجب کرکے کہنے لگا کیا میں آ پ کا شیعہ نہیں ہوں ؟امام ؑ نے فرمایااگرتومیرا شیعہ ہوتا اور تجھ جیسے میرے شیعہ ہوتے تو میں صلح کیوں کرتا ؟آج طاغوت اس مسند پر کیوں بیٹھاہوتا ؟امام باقر ۔ فرماتے ہیں جب بھی عید کا دن آتاہے تو ہم اہل بیت کا غم تازہ ہوجاتاہے ۔کون سا غم ؟نہ یہ کہ ہمیں شہداء یاد آجاتے ہیں،کربلا یاد آجاتی ہے ۔کون سا غم ہمارا تازہ ہوجاتاہے ؟فرمایا جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جس مسند پہ ہمیں بیٹھنا چاہیے تھا جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر کی تھی اس پہ طاغو ت بیٹھاہواہے تو ہمارا غم تازہ ہوجاتاہے ۔ اب یہ کون سے اما م ؑ فرمارہے ہیں؟جن کے حامی بہت زیادہ تھے ۔عزیزِ من ! حاملِ دین بننے کی ضرورت ہے ،ورنہ آئمہِ مسلمین و راہبرانِ اسلام کوحامیوں کی موجودگی میں بہت دشوار دن دیکھنے پڑتے ہیں جب ولایت کے حامل نہ ہوں اس وقت زہراءِ اطہر کو بہت سخت دن دیکھنے پڑتے ہیں ،اگر لوگ حاملِ ولایت ہوتے تو زہراءِ اطہر کا پہلو زخمی نہ ہوتا ،اگر لوگ حاملِ دین ہوتے تو زہرا کا گھر نہ جلتا،اگر لوگ حاملِ دین ہوتے تومحسن شہید نہ ہوتے ،اگر لوگ حاملِ دین ہوتے تو علی ۔ کے ساتھ وہ گستاخی نہ ہوتی ،اگر لوگ حاملِ دین ہوتے تو خدا شاہد ہے آج ہمیں قبرِ زہرا کا علم ہوتا ،زہرا نے اپنی قبر چھپا دی ،علی ۔میری قبر کانشان مٹا دینا، میں نہیں چاہتی یہ حامی میری قبر پر آئیں کیونکہ یہاں پر کوئی حامل نہیں ہے ۔کیوں خاندانِ اہل بیت ؑ و آلِ رسول کو اس قدر ستایا گیا ،رسول اللہ کی آنکھ بند ہوتے ہی وہ دن دیکھنے پڑے ؟ان مصائب میں ہمیں فقط بنو امیہ ہی نظر آتے ہیں لیکن امام ؑ فرماتے ہیں نہ ا س میں کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں وہ کون لوگ ہیں ؟جنہیں حاملِ دین ہونا چاہیے تھا،مگرافسوس کہ اپنے دو ش پر کسی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا ،صرف ہمارے حامی رہے ۔رسول اللہ کی رحلت کے بعد جناب سیدہ مدینے کی گلیوں میں گئیں ہر دروازے پر جاکر دستک دی کسی نے دروازہ نہیں کھولا ،ایک دو نے کھولا پوچھا کیوں آئی ہیں بی بی بی بی نے فرمایا کچھ مانگنے نہیں آئی ہوں میں نہیں کہتی کہ ہمارے لیے شمشیر اٹھاؤ ،تلوار اٹھاؤ ،فقط یہ کہنے آئی ہوں کہ خمِ غدیر میں جو کچھ سنا ہے اس کی آکرگواہی دے دو ،کہنیلگے ہمیں یاد نہیں رہا ،یہ دین کے حامی ،یہ کہہ رہے ہیں ہمیں یاد نہیں رہا، ان کو فقط دومہینے دس دن بعد یہ سب کچھ بھول گیا ۔

بشکریہ:۔http://www.tehreekebedari.com/articles.jhtml?id=18

Add new comment