شام اور امام سجادؑ

واقعہ کربلا 10 محرم سن 61 ھ کو پیش آیا 28 رجب سن 60 ھ کو امام سجاد (ع) اپنے والد امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ مدینہ سے مکہ تشریف لائے اور 8 ذی الحجہ سن 60 ھ کو جب امام حسین علیہ السلام حج کو عمرہ سے بدل کر عازمِ سوئے کربلا ہوئے تو امام سجاد علیہ السلام بھی آپ کے ھمراہ تھے۔
کربلا آنے کے بعدازنِ خدا سے آپ انتہائی بیمار ہو گئے یہاں تک کہ 10 محرم کو غشی کی حالت طاری تھی اس

لیے اس قابل نہ تھے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت پر فائز ہوتے۔
امام زین العابدین علیہ السلام نے61 ھ میں عاشور کے دن امامت کی عظیم ذمہ داریاں اپنے کاندھوں پر سنبھال لیں ۔ 10 محرم کی شام کویزیدی فوج نے اہلیبیت علیہ السلام کےتمام خیموں کو آگ لگا دی تمام بییبیاں ایک خیمہ سے دوسرے خیمہ میں منتقل ہوتی رہیں بالآخرامام وقت کے حکم پر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر بیبیاں خیموں سے باہر آگئیں اس کے بعد تو ظلم کی انتہا ہوگئی اور تمام بیبیوں کی چادریں چھین لی گئیں۔ 11 محرم کو آپ کے اہلِ حرم کو بے کجاوہ اؤنٹوں پرسوار کیا گیا اور امام (ع) کے گلے میں لوہے کاطوق اور ہاتھوں میں ھتکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین علیہ السلام کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گئے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول سن 61 ھ کو دمشق پہنچا اور عورتوں اور بچوں کو رسیوں میں بندھا ہوا دربارِ یزید میں پیش کیا گیا
ایک سال کی قید و صعوبت کی مشکلات سہ کر آپ 8 ربیع الاول سن 62 ھ کو مدینے واپس تشریف لائے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت اور نبی (ص) کی آل کی بازارِ شام اور کوفہ میں کی گئی بے حرمتی پر گریہ کرتے رہے۔ آپ کی زیادہ تر زندگی عبادت اور گریہ میں گزری وہ تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے ، وہ اعمال جو آپ(ع) نے انجام دیئے وہ دعائیں جو لب مبارک تک آئیں وہ مناجاتیں اور راز و نیاز کی باتیں آج صحیفہ کاملہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جب امام علیہ السلام سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کہاں پر زیادہ مصیبت کا سامنا کرنا پڑا آپ آہ بھرتے اورفرماتے الشام ، الشام ، الشام۔ آپ (ع) کو اس بات کا سب سے زیادہ قلق تھا نبی زادیوں کو سر برہنہ فاسق و فاجر یزید معلون کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔
آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ:
”اے لوگوجومجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پرپیاسا ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔۔۔۔۔۔“
دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:
”۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔“
یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تویزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے،چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں،اگرچہ کہ اذان کا وقت تھا نہ نماز کا مگر یزید کے حکم پر اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین علیہ السلام نے فرمایا کہ ‘پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا’۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔
اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔آپ ربیع الاول 62 ھ کو مدینہ واپس پہنچے۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پہنچے تو قبر مطہر پرگال رگڑ کر چند اشعار پڑھ کر فریاد پیش کی جن کا ترجمہ یوں ہے:
” میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اے نانا۔ اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر آپ کا محبوب ‘حسین’ شہید کر دیاگیا اور آپ کی نسل تباہ و برباد کر دی گئی۔ اے نانا میں رنج و غم کا مارا آپ سے فریاد کرتا ہوں کہ مجھے قید کیا گیا اور میرا کوئی حامی اور مدافعت کرنے والا نہ تھا۔ اے نانا ہم سب کو اس طرح قید کیا گیا جیسے لاوارث کنیزوں کو قید کیا جاتا ہے۔ اے نانا ہم پر اتنے مصائب ڈھائے گئے جن کو انگلیوں
پر گنا نہیں جا سکتا“۔

Add new comment