کربلا کی دینی تہذیب

ثاقب اکبر

تہذیب جسے انگریزی زبان میں Civilization اور عربی و فارسی میں ''تمدن‘‘ کہتے ہیں، انسان کے افکار، عقائد، انسان شناسی اور معرفتِ کائنات سے پھوٹتی ہے اور پھر اخلاق، کردار، رسوم و روایات اور نظامِ حیات میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ مادی و دینی تہذیب میں فرق ''تہذیب‘‘ کی اسی تعریف سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں غلبہ اس فکر و نظر کا ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے اور یہ کسی منصوبے اور سوچے سمجھے ہدف کے بغیر یعنی خود سے اور اتفاقیہ طور پر معرضِ وجود میں آگئی ہے اور پھر نتیجے کے طور پر موت کے ساتھ ہی انسانی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وہ پھر کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے تو اس فکر و نظر کے نتیجے میں جو تہذیب معرض وجود میں آئے گی اسے ہم ''مادی تہذیب‘‘ کہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک ایسا انسان ہے جو اپنے لیے بھی ایک روح کا قائل ہے اور کائنات کے لیے بھی ایک عظیم روح کا قائل ہے، وہ کائنات کی تخلیق اور اس کے چلنے میں ایک کارساز ذات اور ایک با ارادہ و باہدف، صاحب علم و شعور و قدرت کی کارفرمائی کا عقیدہ رکھتا ہے تو اس فکر و نظر کے نتیجے میں ایک مختلف تہذیب معرض وجود میں آئے گی، جسے ہم ''دینی تہذیب‘‘ کہتے ہیں۔

انبیاء ؑ انسانی معاشرے کو ایک دینی تہذیب سے ہمکنار کرنے کے لیے تشریف لائے۔ انبیاء ؑ کی بعثت کا تصور کائنات کے باطن کو قبول کرنے اور ایک کارساز ذات پر ایمان سے جڑا ہوا ہے۔ البتہ گاہے انسان بظاہر تو ایک دین کو تسلیم کرنے کا اظہار کرتا ہے لیکن انبیاء ؑ کی تعلیمات کے آئینے میں اسے ایک دیندار شخص نہیں مانا جاتا۔ مادی مفادات اور مادی خواہشات گاہے انسان کو یوں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہیں کہ وہ دینی حقائق کی غلط اور من پسند تاویلیں کرنے لگتا ہے، ایسے انسان کو خود غرض، مفاد پرست اور گمراہ کہا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انبیاء ؑ کی تحریک کے مقابلے میں تھک ہار جانے والے اور کمزور عناصر بظاہر دین کو قبول کر لیتے ہیں لیکن اپنے شوم مقاصد کے حصول کے لیے دین کے ظواہر کو اختیار یا قبول کرکے اندر ہی اندر اس کی جڑیں کمزور کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو قرآن حکیم کی زبان میں ''منافق‘‘ کہتے ہیں۔

امام حسینؑ اور کربلا کی حقیقت کو جاننے کے لیے اس پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی تھے اور قرآن آسمان سے نازل ہونے والا آخری صحیفۂ ہدایت۔ آنحضرتؐ تمام انبیاء ؑ کے وارث تھے۔ تمام انبیاء کی محنت و زحمت کی حفاظت آنحضرتؐ ہی کی تعلیمات کی حفاظت سے وابستہ تھی، لیکن المیہ یہ ہواکہ آنحضرتؐ کی جدوجہد کے مقابلے میں کمزور پڑ جانے والے عناصر نے بظاہر دین کو قبول کر لیا، لیکن بھیس بدل کر وہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی معاشرے کو نقب لگانے کے درپے ہوگئے۔ کمزور ایمان والے بہت سے افراد ان کی سازشوں کا پہلا شکار تھے۔ اسلامی سلطنت کی وسعت اور دولت و اقتدار کی چکا چوند نے بھی اپنے جلوے دکھائے۔ حرص و ہوس کے بت اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اسلامی اقدار پامال ہونے لگیں۔ یہاں تک کہ یزید جیسا شخص اسلامی معاشرے کا مدار المہام ہوگیا۔ ''خلافت‘‘ کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آگئی۔ اقتدار کی خاطر بے گناہ کی جان لینا اُس کے لیے ایک معمولی بات تھی۔ وہ سرعام شراب نوشی کرتا، بیت المال کو اپنے شوم مقاصد کے لیے بے دردی سے استعمال کرتا، محارم سے شادی بیاہ اس کی نظر میں جائز تھا۔ اُس نے ظالم ستمگر، وحشی اور بدکار حکام لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیئے تھے۔ وہ کھلے بندوں آسمانی وحی اور سلسلۂ نبوت کا انکار کرنے لگا اور سب سے بڑھ کر فاجعہ یہ کہ اپنے آپ کو ''امیرالمومنین‘‘ بھی کہلواتا تھا۔

اس یزید کی خواہش تھی کہ ''حسینؑ ‘‘ اس کی ضرور بیعت کریں۔ وہ''حسینؑ ‘‘ جو پیغمبر خاتمؐ کے نواسے تھے، جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ ''حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں‘‘ جن کے بھائی اور ان کے بارے میں اللہ کے رسولؐ فرما گئے تھے کہ ''حسنؑ اور حسینؑ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘ یزید نے مدینے میں اپنے گورنر کو لکھا کہ حسین ؑ سے بیعت طلب کرو اور اگر وہ انکار کر دیں تو ان کا سر میرے پاس روانہ کرو۔ امام حسینؑ کا جواب بڑا دلیرانہ تھا کہ
''مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام حسینؑ مدینے سے مکے اور پھر مکے سے کربلا پہنچے۔ انھوں نے اپنے اس قیام کے مقاصد واضح طور پر بیان فرمائے۔ آپ نے فرمایا ''میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے جارہا ہوں۔‘‘
آپ نے فرمایا
''میرے قیام کا مقصد امربالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔‘‘
یزید کے ایک نمائندے نے جب آپ سے کہا کہ آپ یزید کی بیعت کرلیں اسی میں آپ کا بھلا ہے اور آپ کو خلافت کے علاوہ دنیا کی ہر نعمت میسر آجائے گی تو آپ نے فرمایا
''پھر اسلام پر سلام ہے۔‘‘
گویا آپ یقین رکھتے تھے کہ آپ کی طرف سے یزید کی بیعت اور تائید سے اسلام نابود ہوجائے گا۔ لہٰذا آپؑ نے اسلام کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

کربلا میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے والے دونوں گروہوں کے افعال و کردار اور بیانات و تقاریر کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یزید کا ٹڈی دَل لشکر منافقانہ مادی تہذیب کے تمام تر مظاہر لیے ہوئے تھا جبکہ امام حسینؑ اور آپ کا چھوٹا سا کاروان انبیاء کی تعلیمات اور دینی تہذیب کا ترجمان و نگہبان بن کر ابھرا۔ امام حسینؑ نے جان کے پیاسوں اور ان کے جانوروں کو پانی سے سیراب کیا اور یزید کے لشکر نے امام حسینؑ اور آپ کے لشکر پر ہی نہیں ننھے منے بچوں پر بھی پانی بند کر دیا۔ امام حسینؑ اور آپ کے ساتھی موت کے یقین لیکن اپنے برحق ہونے پر ایمان کے ساتھ میدان کربلا میں موجود تھے جبکہ یزیدی لشکر کا سپہ سالار ''رے‘‘ کی حکومت کے لالچ میں اپنی عاقبت خراب کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ امام حسینؑ کا سرکاٹنے والے حکمرانوں سے انعام وصول کرنے کی خواہش کو چھپا نہیں پا رہے تھے۔

امام حسینؑ نے آخری رات اللہ کی عبادت کے لیے لی تھی اور دوسری طرف یزید و ابن زیاد کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی کے حصول کا مقابلہ تھا۔ یزیدیوں نے اہل بیت کی لاشوں کو پامال کرکے، ان کے بچوں کا خون بہا کر، ان کی خواتین سے چادریں چھین کر اور ان کے خیموں کو آگ لگا کر اپنی درندگی اور وحشت کے تمام تر ثبوت فراہم کر دیئے۔ انہی وحشیوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یزید کی تائید و بیعت کا مطلب کیا تھا۔ امام حسینؑ جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ ''حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کا سفینہ ہیں‘‘ وہ ایسے وحشیوں اور حریصوں کے پیشوا یزید کی بیعت نہیں کرسکتے تھے۔ انھوں نے یزید کو انکار کرکے اپنے نانا بزرگوار کی اپنے بارے میں پیش گوئیوں کو سچا ثابت کر دیا۔ آنحضرتؐ کی رسالت کی صداقت کی گواہی اپنے خون سے دی۔ اسی لیے آپ کو ''دین‘‘ اور ''دین پناہ‘‘ کہا جاتا ہے اور حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں:
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہٰ گردیدہ است

امام حسینؑ اور آپ کے اہل بیت و انصار کی اس عظیم الشان قربانی کے بعد کربلا حق و باطل کے مابین حدّفاصل بن گئی۔ جب بھی حقیقت دین کو مضمحل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کربلا سے پھر فوارے کی طرح حقیقت دین پھوٹتی ہے۔ کربلا باطل کی ظلمتوں کے مقابلے میں ہمیشہ کے لیے حق و حقیقت کا چراغ بن گئی ہے۔ اسلامی اقدار حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے کردار کی صورت میں زندہ و پائندہ ہیں۔ جب بھی ظواہر کے مقابلے میں حقیقت دین کی دریافت کا مرحلہ درپیش ہوگا حسینؑ اور اُن کی کربلا راہنمائی کرے گی اور کربلا دینی تہذیب کے سرچشمے کی حیثیت سے باقی رہے گی۔

Add new comment