شيعہ اورامام زين العابدين عليہ السلام
مصنف:رسول جعفريان
مترجم:سجاد مہدوي
امام حسينٴ کے حقيقي شيعہ جو مدينہ يا مکہ ميں تھے يا کوفہ سے نکل کر آپٴ کے لشکر ميں شامل ہونے ميں کامياب ہوگئے تھے، کربلا ميں شہيد ہوچکے تھے۔ اگرچہ بہت سے اب بھي کوفہ ميں تھے، ليکن ابنِ زياد کي سختيوں کي وجہ سے اظہار کي جرآت نہيں کر سکتے تھے۔ نفسياتي اعتبار سے کربلا شيعوں کے لئے ايک بڑي شکست تھي اور بظاہر يہ نظر آنے لگا تھا کہ اب شيعہ سر نہيں اٹھا سکيں گے۔ اہلبيتٴ کے کچھ لوگ اور ان کے سربراہ امام حسينٴ شہيد ہوچکے تھے اور نسلِ فاطمہٴ سے امام حسينٴ کے صرف ايک بيٹے زندہ بچے تھے جو ان حالات ميں زيادہ مشہور نہيں تھے؛ بالخصوص کہ امام حسينٴ کے بڑے بيٹے علي اکبرٴ بھي شہادت کے درجہ پر فائز ہو چکے تھے۔ مدينہ ميں امام زين العابدينٴ کي اقامت اور عراق سے دور ہونے کي وجہ سے کوفہ ميں شيعہ تحريکوں کي رہنمائي امامٴ کے لئے ممکن نہيں تھي۔
ان حالات ميں جب کہ تشيع کي بنياد کے ختم ہو جانے کا تصور ہو رہا تھا، امام زين العابدينٴ کو صفر سے کام کا آغاز کرنا تھا اور لوگوں کو اہلبيتٴ کي طرف راغب کرنا تھا۔ امامٴ نے اس کام ميں کافي کاميابي حاصل کي۔
يہ کاميابي تاريخ ميں تائيد شدہ ہے؛ کيونکہ امام سجادٴ شيعوں کو نئي زندگي دينے اور امام باقرٴ اور امام صادقٴ کي آئندہ سرگرميوں کے لئے زمين ہموار کرنے ميں کامياب رہے۔ تاريخ گواہ ہے کہ امام سجادٴ نے اپنے ٣٤ سالہ دورِ امامت کي سرگرميوں ميں شيعوں کو اپني زندگي کے سخت ترين دور سے نکالا۔ يہ وہ دور تھا کہ جس ميں زبيريوں اور امويوں کے ہاتھوں شيعوں کي سرکوبي کے علاوہ کوئي روشن کرن نظر نہيں آتي تھي۔ عراق پر حجاج کي بيس سالہ حکومت اور عبد الملک بن مروان کے پوري اسلامي حکومت پر تسلط کے دوران ان کا صرف ايک ہي واضح ہدف تھا اور وہ يہ کہ شيعوں کي سرکوبي اور دوسرے علاقوں ميں بني اميہ کے مخالفوں، خوارج ہوں يا عبد الرحمٰن بن محمد بن اشعث جيسے شورشي، ان کے سروں کو کچل ديا جائے۔ حجاج وہ شخص تھا کہ جس کے لئے کافر کا لفظ سننا شيعہ کا لفظ سننے سے زيادہ آسان تھا۔
ان برسوں ميں عراق ميں دو شيعہ تحريکيں اٹھيں اور يہ دونوں (ايک کي وقتي کاميابي کے باوجود) شکست سے دوچار ہوئيں۔ اس کے بعد بھي شيعہ پوري شدت کے ساتھ امويوں کي جانب سے قتل، تشدد اور قيدخانہ کي دھمکيوں کا شکار رہے۔ ان دو ميں سے ايک تحريک، تحريکِ توابين تھي جس کي رہنمائي سليمان بن صرد خزاعي اور کوفہ کے چند مشہور شيعہ سرداروں کے ہاتھ ميں تھي۔ يہ دعويٰ کيا گيا ہے کہ توابين نے عليٴ بن حسينٴ کي امامت کو قبول کرليا تھا۔ ہميں ابتدائي حوالہ جاتي کتابوں ميں اس مدعا پر کوئي دليل نہيں ملي۔ اہم بات يہ ہے کہ مجموعي طور پر توابين کا نظريہ يہ تھا کہ کاميابي کي صورت ميں معاشرے کي امامت کو اہلبيتٴ کے سپرد کرديں اور طبيعي طور پر نسلِ فاطمہٴ سے عليٴ بن حسينٴ کے علاوہ اور کوئي بھي اس کام لئے موجود نہ تھا۔ ليکن کيا ان کے ذہن ميں بالکل يہي بات تھي يا نہيں؟
تاريخ اس بارے ميں کچھ نہيں بتاتي۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ امام سجادٴ اور توابين کے درميان کوئي خاص سياسي تعلق موجود نہيں تھا اور جس چيز نے اس تحريک کو شيعہ رنگ ديا، وہ کوفہ کے مشہور شيعوں کي اس تحريک ميں ايک جذباتي شرکت تھي۔ يعني حسينٴ بن عليٴ کي حمايت نہ کرنے پر توبہ کرنا اور شہادت کو توبہ کے قبول ہونے کا واحد راستہ سمجھتے ہوئے شہيد ہوجانا۔ اس تحريک ميں محمد بن حنفيہ کا بھي نام کہيں نظر نہيں آتا۔
ان کي اہم سياسي غلطي حالات کا درست اندازہ نہ لگانا، کوفہ سے باہر نکل جانا اور اپنے آپ کو حالات کے سپرد کردينا تھا۔ مختار نے بھي اسي وجہ سے کہ اس تحريک کي ليڈر شپ کو سياسي اور عسکري مسائل کو سمجھنے کا سليقہ نہيں ہے، ان کے ساتھ تعاون نہيں کيا بلکہ وہ اس بات کا بھي سبب بنے کہ شيعوں کي ايک معقول تعداد تحريکِ توابين کي حمايت سے پرہيز کرے۔
يہي ابہام دوسري شيعہ تحريک يعني مختار کي تحريک کے ساتھ امام سجادٴ کے تعلق ميں بھي پايا جاتا ہے۔ يہ رابطہ ناصرف سياسي اعتبار سے بلکہ اعتقادي حوالے سے بھي مشکلات کا شکار ہے۔ کہتے ہيں کہ مختار نے کوفہ ميں شيعوں کو اپني جانب مائل کرنے کے بعد امام سجادٴ سے مدد طلب کي تھي ليکن آپٴ نے اسے مثبت جواب نہيں ديا۔
امامٴ کي جانب سے يہ موقف اختيار کرنا اس سياست کے مطابق منطقي نظر آتا ہے جس کو آپٴ نے آخر تک جاري رکھا۔ امامٴ نے واقعہ کربلا کے بعد يہ جان ليا تھا کہ اس مردہ معاشرے کو زندہ کرنا اس کي ليڈر شپ کو اپنے ہاتھ ميں لے کر ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے گروہوں کے طاقتور ہوتے ہوئے کسي سياسي تحريک ميں الجھنے ميں ايسے خطرات پوشيدہ تھے جن کا رسک نہيں ليا جاسکتا تھا۔ بنا بريں اپنے دورِ امامت ميں امام سجادٴ کے عمل کي ماہيت، بخوبي اس بات کي نشاندہي کرتي ہے کہ آپٴ کي تحريک صرف ايک سياسي تحريک نہيں تھي اور اکثر موارد ميں اس سياست سے دور تھي جو معين سياسي سرگرميوں کے معني ميں استعمال ہوتي ہے۔
اس معاملہ کا اعتقادي پہلو اس وقت شروع ہوا جب مختار نے محمد بن حنفيہ سے اپني تائيد اور حمايت کا مطالبہ کيا۔ محمد بن حنفيہ نے ايسا کيا؛ ليکن باضابطہ طور پر نہيں۔ اس کے بعد يہ مشہور ہوگيا کہ عراقي شيعوں کے درميان محمد بن حنفيہ کي امامت قبول کرلي گئي ہے۔ اگرچہ يہ بات درست طور پر معلوم نہيں ہے ليکن بعد ميں فرقہ کيسانيہ مشہور ہوا تو اس کي داستان کا آغاز مختار ہي کے زمانے سے کيا گيا۔
جب کوفہ کے بعض شيعوں کے درميان غاليوں کے کچھ بنيادي عقائد رسوخ کر گئے تو بعد ميں مختار پر بھي الزام عائد کيا گيا اور يہ مشہور ہوا کہ مختار نے غاليوں کي پيدائش ميں خاطر خواہ حصہ ليا ہے۔ متعدد دلائل کي بنياد پر کہ جن کو يہاں بيان کرنے کي گنجائش نہيں ہے، ان تمام مسائل ميں اور حتيٰ کہ اس بات ميں کہ کيسانيہ نامي فرقہ محمد بن حنفيہ کي امامت يا مہدويت کا اعتقاد رکھتا ہو، اس ميں شکوک و شبہات موجود ہيں۔ ليکن اس بارے ميں کافي شواہد موجود ہيں کہ امام سجادٴ نے غاليوں کے مقابلہ ميں محاذ آرائي کي ہے۔ اس کامطلب يہ تھا کہ عراقي شيعوں ميں انحراف موجود تھا جو امامٴ کو مجبور کرتا تھا کہ ان کے ساتھ براہِ راست تعلق استوار کرنے اور ان کي مکمل حمايت سے پرہيز کريں۔
امام سجادٴ نے عراقيوں کے ايک گروہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:
''اَحِبُّونَا حُبَّ الْاِسْلَامِ وَ لَاتَرْفَعُونَا فَوْقَ حَدِّنَا'' (١)
يعني ہم سے اسلام کي حد ميں محبت کرو اور ہميں اپني حد سے زيادہ نہ بڑھاو۔
ايک اور روايت ميں آيا ہے کہ امامٴ نے فرمايا:
''اَحِبُّونَا حُبَّ الْاِسْلَامِ وَ لَا تُحِبُّونَا حُبَّ الْاَصْنَامِ'' (٢)
يعني ہم سے اسلامي محبت کرو بتوں والي محبت نہيں۔
ابوخالد کابلي بھي کہتا ہے: ميں نے امام سجادٴ سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:
يہود و نصاريٰ عزير اور عيسيٰ کو اس قدر پسند کرتے تھے کہ ان کے بارے ميں اس طرح کي باتيں کہيں، جيسا کہ :
''ان قوما من شيعتنا سيحبونا حتي يقولوا فينا ما قالت اليہود في عزير و ما قالت النصاريٰ في عيسيٰ بن مريم، فلا ہم منا ولا نحن منہم'' (٣)
ہمارے کچھ شيعہ اس حد تک ہماري دوستي ميں افراط کريں گے کہ عزير و عيسيٰ کے بارے ميں يہود و نصاريٰ جيسي باتيں ہمارے بارے ميں بھي کريں گے۔ نہ وہ ہم سے ہيں اور نہ ہم ان سے ہيں۔
شيعہ حوالوں کے مطابق محمد بن حنفيہ منحرف نہيں تھے اور انہوں نے امام سجادٴ کي امامت کو قبول کيا ہوا تھا۔ بنابريں کيا واقعاً محمد بن حنفيہ نے اپنے آپ کو کوفہ کے شيعوں کے لئے بطورِ امام پيش کيا ہوگا؟ اس بات کو ثابت کرنا مشکل ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے يہ فرض کيا جاسکتا ہے کہ محمد بن حنفيہ نے امام سجادٴ کے کہنے پر اور امام سجادٴ کو دور رکھنے کے لئے يہ کام انجام ديا ہوگا، اگرچہ اس فرض کي تائيد کے لئے بھي کوئي خاص تاريخي شواہد موجود نہيں ہیں۔
يہاں قابلِ ذکر بات يہ ہے کہ متعدد دلائل کي بنياد پر يہ بات قابلِ قبول نہيں ہے کہ امام سجادٴ نے مختار کے بارے ميں فرمايا ہوگا کہ: يُکَذِّب علي اللّٰہ و عليٰ رسولہ'' (٤) اس نے اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھا ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ جب مختار نے عبيد اللہ کا سر کاٹ کا امامٴ کي خدمت ميں بھجوايا تو آپٴ نے فرمايا:
''جزي اللہ المختار خيرا'' (٥)
اللہ تعاليٰ مختار کو جزائے خير دے۔
يہ بھي کہا گيا ہے کہ اس وقت بني ہاشم کا ہر فرد مختار کي ثنائ کرتا تھا اور اس کے بارے ميں اچھي باتيں کيا کرتا تھا۔ (٦)
امام محمد باقرٴ سے بھي روايت ہے کہ
''لاتسبوا المختار فانہ قتل قتلتنا و طلب ثارنا و زوج ارامنا و قسم فينا المال علي العسرۃ'' (٧)
اور جب مختار کے بيٹے نے پوچھا تو مختار کے بارے ميں مثبت موقف کا اظہار کيا۔ (٨)
بہرطور، جيسا کہ پہلے بھي کہا جا چکا ہے، مختار کي تحريک بھي سياسي سطح پر زيادہ عرصہ جاري نہ رہ سکي اور ٦٧ ہجري ميں زبيريوں نے اسے سرکوب کرديا۔ اس کے باوجود اس تحريک نے کوفہ پر تحريکي اعتبار سے، شيعہ جذبات کو زندہ رکھنے نيز مواليوں کو سياسي عمل ميں شرکت پر تيار کرنے کے حوالے سے اپنا ايک خاص اثر ڈال ديا تھا ۔
مذکورہ بالا گفتگو کي بنياد پر ايسا محسوس ہوتا ہے کہ محمد ابن حنفيہ کي خواہش کے باوجود بعض لوگوں کے درميان امام کے انتخاب ميں شک و شبہہ موجود تھا۔ کچھ لوگ ايسے ضرور تھے جو امام کے انتخاب ميں تردد کا شکار تھے۔ امام سجادٴ کے ايک صحابي قاسم بن عوف، خود يہ اعتراف کرتے ہيں کہ ابتدائ ميں وہ عليٴ بن الحسينٴ اور محمد بن حنفيہ کے درميان متردد تھے (رجال کشي) اور بعد ميں وہ امام سجادٴ سے ملحق ہوئے تھے۔ کشي کے بيان کے مطابق دوسرے اصحاب ميں ابو حمزہ ثمالي اور فرات بن احنف شامل ہيں (رجال کشي)۔ سعيد بن مسيب کے بارے ميں اختلاف پايا جاتا ہے۔ بعض نے انہيں امام سجادٴ کے اصحاب ميں شمار کيا ہے؛ ليکن بظاہر وہ اہلسنت کے فتاويٰ کے مطابق حکم ديا کرتے تھے۔ رجال کشي ميں سعيد کے اس عمل کو حجاج کے ہاتھوں سے نجات حاصل کرنے کي کوشش قرار ديا گيا ہے۔ بہر صورت وہ بے شک امامٴ کا احترام اور امامٴ سے علمي اور اخلاقي استفادہ کيا کرتا تھا، ليکن اس نے امامٴ کے جنازہ ميں شرکت نہيں کي اور اس پر اعتراض بھي کيا گيا۔
ان چند افراد کے علاوہ، کچھ ايسے لوگ بھي ہيں جو شيعہ کتابوں کے مطابق شيعوں ميں بااستقامت ترين افراد شمار ہوتے ہيں۔ ايک روايت ميں آيا ہے کہ امامٴ کے دور کي ابتدائ ميں صرف چند افراد آپٴ کے ساتھ تھے: سعيد بن جبير، سعيد بن مسيب، محمد بن جبير بن مطعم، يحييٰ بن ام الطويل، ابو خالد کابلي۔ (٨) شيخ الطائفہ نے امام سجادٴ کے اصحاب کي تعداد ١٧٣ افراد بتا ئي ہے۔ (٩)
بہرحال، امام زين العابدينٴ شيعوں کي بقائ بلکہ ان کے پھيلاو ميں کامياب رہے۔ آپٴ کي فقہي روش يہ تھي کہ احاديثِ نبوي ۰ کو حضرت عليٴ سے نقل کرتے تھے اور شيعہ صرف انہي احاديث کو درست قرار ديتے تھے۔ اس طرح سے تشيع نے اس زمانے ميں موجودہ انحرافات کي مخالفت ميں اپنا اولين فقہي قدم اٹھايا؛ اگرچہ اس کا زيادہ تر کام بعد کے زمانے ميں ہوا۔ امام سجادٴ اذان ديتے وقت ''حي عليٰ خير العمل'' کہا کرتے تھے۔ جب اعتراض کيا گيا تو آپٴ نے فرمايا: ''ہو الاذان الاول'' ابتدائي اذان اسي طرح سے تھي۔ (١٠) اس کے علاوہ عراقي انحرافات سے دوري کے نتيجے ميں اصلي شيعہ اعتقادي بنياديں محفوظ رہيں۔ امامٴ کي کوششوں سے شيعوں کو بقائ حاصل ہوئي ليکن بنيادي طور پر مدينہ کي سرزمين شيعوں کي ترقي کے لئے مناسب جگہ نہيں تھي کيونکہ ابتدائے اسلام سے ہي مدينہ ميں انحرافات جاگزيں ہوگئے تھے اور شيعوں کے خلاف مدينہ والوں کے جذبات موجزن تھے۔ خود امام سجادٴ فرمايا کرتے تھے کہ مکہ اور مدينہ ميں ان کے سچے محبوں کي تعداد بيس افراد تک نہيں پہنچتي۔ (١١) جبکہ عراق ميں آپ سے محبت کرنے والوں کي تعداد کہيں زيادہ تھي۔
حوالہ جات
١۔ سير اعلام النبلائ ج٤ ص٣٩٠۔٢٨٩؛ طبقات الکبريٰ ج٥ ص٢١٤ (متن اس طرح سے ہے کہ حضرت نے فرمايا: تم اپنے اس افراطي برتاو سے اس بات کا سبب بنے ہو کہ لوگ ہم سے نفرت اور دشمني رکھيں) حليۃ الاوليائ ج٣ ص١٣٦۔ ہميں اس طرح سے دوست رکھو جس طرح سے اسلام کہتا ہے اور ہم جس حد ميں ہيں اس سے ہم کو اونچا نہ کرو) يعني ہمارے بارے ميں غلو نہ کرو۔
٢۔ مختصر تاريخ دمشق ج١٧ ص٢٤٢
٣۔ رجال الکشي ص١٠٢؛ اور ديکھئے: طبقات الکبريٰ ج٥ ص٢١٤؛ نسب قريش مصعب زبيري ص٥٨
٤۔ جيسا کہ يہ بات طبقات الکبريٰ ج٥ ص٢١٣ ميں منقول ہے۔
٥۔ رجال الکشي ص١٢٧، خدا مختار کو جزائے خير دے۔
٦۔ طبقات الکبريٰ ج٥ ص٢٨٥۔ بني ہاشم ميں سے ہر کوئي اٹھ کھڑا ہوا اور مختار پر درود بھيجي اور اس کے بارے ميں اچھي باتيں کہيں۔
٧۔ رجا ل الکشي ص ١٢٨۔ مختار کو برا بھلا نہ کہو۔ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کيا، ہماري عورتوں کي شادي کرائي اور سختي کے وقت ميں ہمارے درميان مال تقسيم کيا۔
٨۔ رجال کشي ص١٢٦
٩۔ رجال کشي ص١١٥۔ ايک روايت ميں تين آدمي کا ذکر ہے اور لکھا ہے کہ: ارتد الناس بعد قتل الحسين الا ثلاثۃ: يحييٰ بن ام الطويل، ابو خالد الکابلي، جبير بن مطعم۔ ثم ان الناس لحقوا و کثروا۔۔۔ (امام حسينٴ کے قتل بعد تين افراد کے علاوہ سب مرتد ہوگئے تھے: يحييٰ بن ام الطويل، ابو خالد کابلي اور جبير بن مطعم۔ اس کے بعد لوگ ان سے مل گئے اور زيادہ ہوگئے) ديکھئے: اختيار معرفۃ الرجال ص١٢٣۔
٩۔ رجال الطوسي ص ٨١۔ ١٠٢
١٠۔ المصنف ابن ابي شيبہ ج ١ ص٢١٥ (طبعِ ہندوستان)
١١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد ج٤ ص١٠٤؛ اور ديکھئے: بحار ج٤٦ ص١٤٣؛ الغارات ص٥٧٣
Add new comment