مسلمان

رافیعہ گیلانی
سعادت حسین پاکستان کے شہر کوئٹہ میں رھتے تھے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی ، ان کا تعلق انتہائی شریف اور مزھبی گھرانے سے تھا وہ بہت ایمانداری سے ر ز ق حلال کما کر اپنے بچوں کو پال پوس رھے تھے وہ کسٹم کے محکمہ میں ملازم تھے عام طور پر پاکستان یا کسی بھی ایسے ملک میں جہاں رشوت اپنا حق سمجھ کر لی جاتی ھے میں اس طرح کی نوکری ھو تو وارے نیارے ھو جاتے ھیں لوگ اتنا دولت جمع کر لیتے ھیں کہ ان کی کئی نسلیں عیش سے کھا سکتی ھیں لیکن سعادت حسین ان لوگوں میں سے تھے جو خدا کو ہر گھڑی حاضر ناظر جانتے ھوئے ایک لمحہ بھی غفلت نھیں برتتے ھیں اور اپنا ہر عمل اجر ثواب ، گناہ سب کا خود کو خدا کے سامنے جواب دہ ھونا ایمان سمجھتے ھیں

پھر اللہ بھی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ھے اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے اجر عظیم کی نوید سنائی گئی ھے - سعادت حسین کے بڑے بیٹے عباس نے ایم بی اے کیا تو اس کو بنک میں اچھی جاب مل گئی چھوٹے بیٹے نے ایف ایس سی کی تو ضد کرنے لگا اس کو باہر کے ملک جانا ھے وھیں جا کر پڑھے گا بھی اور نوکری بھی کرے گا بیٹے کی ضد اور خواہش پر سعادت حسین نے وراثت میں ملی کچھ جائداد بیچ دی اور بیٹے علی کو امریکہ بھیجوا دیا جہاں اس نے جلد ھی کام بھی ڈھونڈ لیا اور مزید تعلیم بھی حاصل کرنے لگا جس سکول میں وہ پڑھ رھا تھا وھیں اس کی جان پہچان کیتھرین سے ھوئی وہ بہت حساس اور کم گو لڑکی تھی جو عام امریکی لڑکیوں سے مختلف تھی ادھر علی بھی ایسا ھی تھا بہت نفیس اور علٰی مزاج کا بہت سمجھدار اور اپنے کام سے کام رکھنے والا یو بہت جلد یہ دونوں ایک دوسرے کے قریبی دوست بن گئے

اپنی اس دوستی کا زکر علی نے اپنے گھر والوں سے بھی کیا ، کیوں کہ علی انٹر نیٹ کے زریعے روزانہ گھر پاکستان میں بات کیا کرتا تھا بلکہ اب تو کیتھرین بھی اس کے گھر والوں سے بات کرتی تھی اور وہ لوگ بھی بہت اپنایئت جتاتے تھے کیوں کہ علی کے والدین بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے ، وہ ہر ایک سے بہت محبت اور خلوص رکھتے تھے - پیار محبت ان کا شیوہ تھا ، کیتھرین علی سے اتنا متاثر ھوئی کے اس نے اس کو شادی کے لئے پرپوز کر دیا جسے علی نے اپنے گھر والوں کی مرضی سے قبول کر لیا - یوں شادی کے بعد دونوں ایک ساتھ رھنے لگے کیتھرین بہت خوش تھی لیکن اس کی والدہ اس کی شادی سے ناخوش تھیں وہ نھیں چاھتی تھی کیتھرین مسلم مذہب قبول کرے اور ایک مسلمان سے شادی کرے اس کی نظر میں مسلمان دہشت گر د ھوتے ھیں احساس درد یا ھمدردی مسلمانوں میں نھیں ھوتی دوسرا یہ عورتوں پر ظلم کرتے ھیں ، اس نے بیٹی کو بہت سمجھایا لیکن کیتھریں نھیں مانی تھی اس نے کہا وہ اسلام کا مطالعہ بہت اچھی طرح سے کر چکی ھے اور دل و دماغ سے سوچ سمجھ کر مسلمان ھوئی ھے وہ اسلام کو ایک سچا مذہب مانتی ھے اور مسلمانوں کو امن پسند ، برد بار اور مدبر سمجھتی ھے

ویسے حقیقت میں تھا بھی ایسے کیوں کہ وہ جس کو جان کر سمجھ کر اسلام لانے پر مجبور ھوئی تھی علی تھا بھی ایسا بہت ملنسار ھمدرد بر د بار پر سکون رھنے والا انسان تھا ، یوں دونوں کی زندگی بہت پر سکوں گزرنے لگی کیتھرین جس نے مسلم ھونے کے بعد اپنا نام فاظمہ رکھا تھا دو پار علی کے ساتھ پاکستان بھی ھو کر آئی تھی وہاں جاکر وہ اور بھی خوش ھوئی تھی اس کو سب نے بہت پیار دیا تھا علی کے والدین جنھیں کیتھرین فاظمہ امی ، اور بابا ھی کہہ کر بلاتی تھی اس کو ایسے چاھنے لگے تھے جیسے وہ ان کی اپنی ھی سگی بیٹی ھے ۔ علی کا بڑا بھائی اور بھن نے بہت پیار دیا اسے باکل احساس نا ھونے دیا کہ وہ اجنبی ھے اور ملک کی رھنے والی ، ایک بار تو جب وہ پاکستان گئی تھی تو علی کے بھائی کی شادی تھی وہاں بھی جس طرح دلہن کے جوڑے بنائے گئے اس کے بھی اسی طرح سے جوڑے بنوا کر دئے علی کی والدہ نے ، ان تمام حالات میں کون ھے جو خود کو خوش قسمت نا سمجھے - بس ایسے ھی خوش قسمت خود کو فاطؐمہ بھی سمجھتی تھی ، اور اس کا اظہار وہ اکثر کیا بھی کرتی تھی اس کا کہنا تھا کہ یہ سب خوشیاں اور پر خلوص رشتے ؐ، یہ محبتیں اسے مذہب اسلام کی برکتوں سے ملی ھیں جو اللہ رسول و آلہ رسول ص کی طرف سے اس کے لئے انعام ھیں - لیکن قسمت کو کچھ اور ھی منظور تھا وہ نھیں جانتی تھی کی اس کی خوشیوں کو انسانی وہشی پن درندگی ڈس لے گی ، ایک دن اس کی خوشیؤں کو گرہن لگ جائے گا

ایک دن پاکستان سے فون کال آئی کہ علی کے والد اور بھائی دونوں ایک بم بلاسٹ کا شکار ھو کر شھید ھو گئے ھیں ، وہ ایک مجلس جو زکر حسین ع س کی مجلس تھی میں شرکت کے لئے گئے تھے وہآں پر ظالم درندوں نے خود کش حملہ کیا جس میں 110 کے قریب لوگ شھید ھو گئے علی کے بھائی اور والد بھی ایک ساتھ وہآن گئے تھے تو وہ بھی موقع پر ھی دم توڑ گئے علی پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی اس نے ایک دو دن میں تکٹ کا بندوبست کیا اور پکستان آگیا جہاں اس کی والدہ اور بیوہ بھابی بہت غمزدہ حال تھیں اب گھر میں صرف علی ھی مرد بچ گیا تھا وپ خود بھی بہت پریشان تو تھا لیکن مرد تھا اسے حوصلہ کرنا تھا بھابی اور ماں کو سہارہ دینا تھا بہت حوصلہ اور ھمت سے کام لے کر اس نے اپنے والد اور بھائی کی قل خوانی اور تمام رسومات ادا کیں

اس دوران اس نے سوچا اب پاکستان میں ماں کو اکیلا چھوڑ کر نھیں جائے گا کیوںکہ بھابی بھی اپنے والدین کے گھر رھنے پر اصرار کر رھی تھی ، یہی بات اس نے اپنی والدہ سے کھی کہ وہ آپ کے کاغزات بنا رہا ھے اور آپ کو ساتھ لے جائے گا ، اس کی والدہ نے کہا مجھے امام عالی مقاام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کی زیارت کے لئے لے جاؤ پھر تمام رشتہ داروں نے بھی علی کو یہی مشورہ دیا کہ ٹھیک کہتی ھیں والدہ کو زیارت کے لئے لے جاؤ دل کو سکون ملے گا تم بھی تو زھنی طور پر پریشان ھو مولا کی زیارت کو جاؤ تو وہ مدد کریں گے حوصلہ ملے گا ، انھیں دنوں ایک قافلہ کربلا کو جانے کی تیاری میں تھا علی بھی والدہ بچوں کو لے کر قافلہ کے ساتھ روانہ ھوا ، لیکن کیا کیا جائے اس جنونیت کا اس وہشی پن کا درندگی کا جسے اپنا کر انسان انسانیت کے معیار سے گر جاتا ھے اور خون خار بھیڑیا بن کر اپنے جیسے انسان کا خون بہانے لگتا ھے اپنے منصب کو بھلا بیٹھتا کہ اللہ نے اسے دنیا میں کس مقصد کے لئے بھیجا ھے اور پھر ادھر سے جانے کے بعد آگے بھی ایک ذندگی ھے جس میں اس سے اللہ نے پوچھ گچھ کرنی ھے اور ایسی زندگی جہاں اسے اس کے اچھے برے کام کی جزا و سزا ملنی ھے جو کبھی نا ختم ھونے والی ھو گی

کاش کہ انسان سوچتا اللہ نے اسے عقل دی شعور دیا ھے ، لیکن ظالم غفلط کا شکار رھتا ھے اور اپنے نفس کا غلام ھوتا ھے ادھر بھی ایسے ھی اپنے نفس کے غلاموں نے ظلم کمایا اور زواری پر جانے والی بس میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کیا گیا ، جیسے علی کی موقع پر شہادت ھو گئی اور بھی 30 لوگ شھید ھوئے جن میں بچے بھی تھے علی کا بیٹا بھی شھید ھو گیا اور اسقدر جھلس گیا زنددہ جل گیا ،علی کی بیوی فاطمہ ا، بیتی اور والدہ بچ گئیں لیکن فاطمہ اس طرح سے بچی تھی کہ اس کی ایک تانگ کٹ گئی اور وہ اپاھج ھو گئ ، ادھر امریکہ میں اس کی والدہ کو پتا چلا اس نے حکومتی سطع پر کوشش کر کے اپنی بیٹی کو واپس امریکہ بلا لیا ، فاطمہ کیتھرین اپاھج بنی ایک گورمنٹ کے ادارے میں پڑی سارا دن سوچتی ھے کیا ملا اس نے صحیح کیا تھا مسلمان ھو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا صحیح تھا کسی مسلمان ملک میں جا کر رہنا صحیح تھا ، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اس کے ساتھ خوبصور ت اور حسین یادیں بھی ھیں جو ایک سچے مسلمان گھرانے کی ھیں ، یہ زیادہ تکلیف دہ بات ھوتی ھے جب اس کی والدہ جب بھی اس ملتی ھیں تو یہی بات دھراتی ھیں دیکھ لیا کیسے ھوتے ھیں مسلمان اور کیسے ھوتا ھے ان کے ساتھ ان کے ملک میں رھنا میں نا منع کرتی تھی تمھیں کاش کہ تم مان گئی ھوتی۔۔۔

بشکریہ عالمی اخبار

Add new comment