آواز کربلا زینبؑ بنت علیؑ
سیدہ زائرہ عابدی ۔
-------
سیّدالاصفیا ء خاتم الانبیاء تاجدار دوعالم حضرت رسول خدا محمّد مصطفٰے صلّی ا للہ علیہ واٰلہ وسلّم کی پیاری بیٹی جناب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیآغوش مبارک میں گلستان نبوّت کی ایک تروتازہ کلی نے آنکھ کھولی تو آ پ سے دو برس بڑے بھائ اپنے والد گرامی حضرت امیرالمومنین کی انگلی تھام کر اپنی مادر گرامی کے حجرے میں آئے ،اور ننھی بہن کے ننّھے ملکوتی چہرے کو مسکرا کر دیکھا اور پھر اپنے پدر گرامی مولائے متّقیان کو دیکھ کر مسکرائے اور سلطان اولیاء مولائے کائنات نے اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے چھپاتے ہوئے فرمایا کہ ,حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تشریف لے آئیں توبچّی کا نام بھی آپ ہی تجویز کریں گے جس طرح اپنے نواسوں کے نام حسن وحسین تجویز کئے تھےنبئ اکرم ہادئ معظّم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بی بی زینب کی ولاد ت کے وقت شہر مدینہ سے باہر حالت سفر تھے۔
چنانچہ تین دن کے بعدسفرسے واپس تشریف لائے تو حسب عادت سب سے پہلے بی بی سیّدہ کےسلام اللہ علیہا حجرے پر تشریف لائے جہاں جناب فاطمہ زہرا کی آغو ش مبارک میں ننّھی نواسی جلوہ افروز تھی آپ نے وفورمحبّت و مسرّ ت سے بچّی کو آغوش نبوّت میں لیا اور جناب حسن وحسین علیہم السّلام کی مانند بچّی کےدہن مبارک کو اپنےپاکیزہ ومعطّر دہن مبارک سے آب وحی سےسرفراز کیا جناب رسالت مآ ب سرور کائنات حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم بچّی کو آغوش نبوّت میں لئے ہوئے نگاہ اشتیاق سےننّھی نواسئ معصومہ کا چہرہ دیکھتے رہے جہاں بی بی خد یجتہ الکبریٰ کی عظمت و تقویٰ اور جناب سیّدہ سلام اللہ علیہاٰ کے چہرے کے نورانی عکس جھلملا رہے تھےوہیں آپ صلعم کے وصی اور اللہ کے ولی مولا علی مرتضیٰ کا دبد بہ اور حشمت ہویدا تھی ننّھی نواسی کا ملکوتی چہرہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہواٰ لہ وسلّم کا چہرہء مبارک خوشی سے کھلا ہوا تھااور اسی وقت بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے محترم بابا جان سے مخاطب ہوئیں بابا جان ہم س انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لے آئیں تو بچّی کا نام تجویز کریں تاجدار دوعالم صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ بیٹی میں اس معاملے میں اللہ کے حکم کا پابند ہوں جبرئیل امیں کے آنے پر ہی بچّی کا نام تجویز ہوسکے گا ،،اور پھر اسی وقت آپ کے رخ انور پر آثار وحی نمودار ہوئے اور آ پ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بی بی فاطمہ زہرا کے سر پر ہاتھ رکھّا اور مولائے کائنات کو اپنے قریب بلاکر فرمایا گلستان رسالت کی اس کلی کا نام جبرئیل امیں بارگاہ ربّ العالمین سے‘‘ زینب ‘‘ لے کر آئےہیں یہی نام وہاں لو ح محفوظ پر بھی کندہ ہےبیت الشّرف میں اس نام کو سب نے پسند فرمایا ،پھر رسالتماآب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعاء کی اے تمام جہانوں کے سب سے بہترین مالک میں تیری حمد وثناء بیان کرتے ہوئے تجھ سے دعاء مانگتا ہوں کہ تو نے جس طرح ہمارے بچّوں کو دین مبین کی حفاظت کا زریعہ قرادیا ہے اسی طرح اس بچّی کو بھی عزّت اور سعادتو ں سے بہرہ مند فرما ،میں تیرے کرم کا شکر گزار ہوں۔
اس دعائے شکرانہ میں جناب حضرت فاطمہ زہرا اور جناب حضرت علی مرتضٰی بھی شامل ہو ئےاور پھر گلستان رسالت کی یہ ترتازہ کلی ہوائے مہرو محبّت میں پروان چڑھنے لگی _وہ جس گھر میں آئ تھی یہ دنیا کا کوئ عام گھرانہ نہیں تھا یہ گھر بیت الشّرف کہلاتا تھا ،اس محترم گھر کے مکین اہل بیت کے لقب سے سرفراز کئےگئے تھے ،اس پاکیزہ و محترم گھرکے منّو ر و ہوائے بہشت سےمعطّر آنگن میں پیغا مبر بزرگ فرشتے حضرت جبرئیل امیں وحی پروردگارعالم عرش بریں سے لےکراترتے تھے اس میں اقامت پذیر نورانی ہستیوں پر ملائکہ اور خود اللہ درود و سلام بھیجتے تھے اور پھر بوستان محمّد کی یہ ترو تازہ کلی جس کا نام زینب( یعنی اپنے والد کی مدد گار) پرورد گار عالم نے منتخب کر کے لوح محفوظ پر کندہ کر دیا تھا ،فضائے مہرومحبّت میں پروان چڑھنے لگی چادر کساء کے زیر سایہ اس گھر کے مکینوں سے زینب سلام اللہ علیہا نے نبوّت و امامت کے علوم کے خزینے اپنے دامن علم میں سمیٹے توآپ سلام اللہ علیہا کی زبان پر بھی اپنے باباجان علی مرتضیٰ
علیہ اسّلام اور والدہ گرامی جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کی مانند اللہ کی حمد و ثناء ومناجا ت کے پھول کھلنے لگے ،بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے بابا جان کو اور مادرگرامی کو اور اپنے نانا جان حضرت محّمد صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو،فقرا و مساکین کو حاجتمندوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا تھا ،یہ وہ متبرّک ہستیاں تھیں جو اپنی بھوک کو سائل کی بھوک کے پس پشت رکھ دیتے تھے،کسی بھی سوال کرنے والے کے سوال کو سوالی کااعزاز بنا دیتے تھے مشورہ مانگنے والے کو صائب مشورہ دیتے تھے۔
ہادیوں کے اس گھرانے کو کوئ دنیاوی معلّم تعلیم دینے نہیں آتا تھا ،یہاں تو بارگاہ ربّ العا لمین سے حضرت جبرئیل امیں علوم کےخزانے بزریعہ وحئ الٰہی لا کر بنفس نفیس دیتے تھے چنا نچہ انہی سماوی و لدنّی علوم سےبی بی زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو مولائے کائنات اور بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا نے سنوارااور سجایا ،آپ جیسے ،جیسے بڑی ہونے لگیں آپ کی زات میں بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی زات کے جوہر اس طرح نکھرنے لگے کہ آپ کو د یکھنے والی مدینے کی عورتو ں نے آپ کا لقب ہی ثانئ زہراسلام اللہ علیہا رکھ دیا۔
------------------------------------------------------
قسط دوئم
لیکن پھر زمانہ کی ستمگر ہواؤں نے جب اس متبرّک آنگن کا رخ کیا تو بعد از وصال حضرت محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰ لہ وسلّم صرف چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت ہو گئ ،چھوٹی سی عمر میں مشفق مادر گرامی کا سایہ دنیا سے اس طرح سے اٹھ جانا یہ کو ئ معمولی واقعہ نہیں تھا بی بی زینب سلام اللہ علیہا بنفس نفیس اپنے محترم والد گرامی کے ساتھ اور اپنے گھرانے کے ساتھ زمانے کی ستم گری دیکھ رہی تھیں اور آپ سلام اللہ علیہا کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ آپ کو دین محمّدی کی بقائے دوام میں کون سا کردار ادا کرنا ہئے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب ان کو حقیقت میں ثانئ زہرا ء کی جان نشینی کا حق بھی ادا کرنا تھا،چنانچہ بی بی زینب سلم اللہ علیہا نے ایک جانب اپنے چھوٹے بہن بھا ئیوں کی دلداری کا فرض انتہائ زمّہ داری کے ساتھ نباہنے کا فیصلہ کیا تو دوسری جانب مدینے کی خواتین کی وہ علمی اور روحانی پاکیزہ روحانی محفلیں جو بی بی سیّدہ اپنی حیات مبارک میں سجاتی تھیں ان تدریسی مجلسوں کی نشست و برخاست پر بھی اثر نہیں پڑنے دیا اور مدینے کی خواتین کے ہمرا ہ حسب معمول بی بی زینب نے درس و تدریس کا سلسلہ قائم رکھّا،آپ مدینے کی خواتین میں بہت جلد ایک ایسی معلّمہ ثابت ہوئیں کہ جن کو علم حاصل کرنے کے لئے آنے والی خواتین نے محدّثہ عالمہ ،،فاضلہ،عاقلہ،عقیلہ کے القابات عطا کئے اور شہر مدینہ میں یہی القابات آپکی علمی اور شخصی حیثیت کی پہچان بن گئے ،یعنی آپ دین محمّد کی حفاظت اور اس کے پھیلاؤ میں ایک خاموش مجاہدہ کی حیثیت سے شامل ہو گئیں۔
آپ سلام اللہ علیہا کی یہ تدریسی محفلیں بعد نماز ظہر سے نماز مغربین تک جاری رہتی تھیں جن میں آپ فصیح و بلیغ زبان میں قرانی احکامات اور ان کی تشریح تفسیر اور ارشادات نبوی کی روشنی میں انسانی زندگی کے مقاصد مطالب بیان کرتیں تھیں تب وقت کا پہیہ رک جایا کرتا تھا اور سننے والو ں کے دل موم ہو جاتے تھے اورآنکھیں بے ساختہ آنسوؤں سے لبریز ہو جایا کرتی تھیں۔
اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آپ کے لئے آ پہنچا جو اللہ تعالٰی نے ہر بیٹی کے لئے مقرّر کیا ہئے ،پیام تو کئ آئے ہوئے تھے ،،لیکن مولائے کائنات پر ویسا ہی سکوت طاری تھا جیسا کہ بی بی سیّدہ سلام اللہ علیہا کی نسبت طے کرتے ہوئے نبئ اکرم حضرت محمّد صلّی اللہ علیہ واآ لہ وسلّم پر طاری ہواتھا اور جب سکوت مولا علی علیہ ا لسّلا م ٹوٹا تو خوشخبری سننے والوں نے یہ مژدہء جانفزاء سنا کہ بی بی زینب بنو ہاشم کے ایک عالی جاہ فرد عبد اللہ بن جعفرطیّار سے منسوب ہو رہی ہیں۔
جناب حضرت جعفر طیّار جنگ موتہ میں داد شجاعت دیتے ہوئے جب شہید ہوگئے تب جناب عبداللہ براہ راست مولائے کائنات حضرت علی علیہ ا لسّلام کی نگہداری میں آگئے اس طر ح ہادئ دو جہاں کی بھی شفقت و محبّت سے و نگہبانی بھی ان کو میسّر آئ اور دو عظیم ہستیوں کے مکتب فیضان میں آ جانے سے لوگ آپ کو کاشانہء نبوّت میں خانوادہء اہلبیت نبوّت کا ہی ایک فرد سمجھتے تھے اور اس طرح آپ بڑے ہوتے ہوئے خاندان رسالت مآ ب صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کا ہی ایک فرد سمجھے جانے لگے تھے،جناب عبداللہ کو نبئ اکرم صلّی اللہ علیہواٰلہ وسلّم کی خاص دعائیں نصیب میں آئیں تھیں جس کے سبب آپ بہت دولت و ثروت کے مالک اور پر آسائش زندگی کے حامل تھے جناب عبداللہ کا شمار عرب کے دولت مند ترین افراد میں ہوتا تھا لیکن آپ تو اس سخی گھرانے کے ایک سخی داتا فرد تھے جن کے دروازے ہمہ وقت حاجت مندوں کی حاجت روائ کے لئے کھلے رہتے تھے ،اپنی سخاوت کے باعث وہ بحر الجود یعنی دریائے سخاوت کے لقب سے معروف و مشہور ہو گئے تھے ان کے لئے کہا جاتا تھا کہ اگر عبد اللہ کے پاس اپنی جان کے سوائے حاجت مند کو دینے کے لئے کچھ نا ہو تو وہ اپنی جان بخش دین گے اور وہ فرماتے تھے کہ خداوند متعال نے مجھے اپنی بخشش کا امّیدوار بنایا ہئے تو میں کیوں کسی حاجت مند کی امّید کو نا امّیدی میں بدل کر اس کا رشتہ امّید توڑدوں ،اور جس طرح جناب عبد اللہ کی باطنی شخصیت خوبصورت تھی اسی طرح وہ انتہائ حسین و جمیل اور وجیہ شکیل بھی تھے ،ایسی حسن صورت و سیرت و الے نیک خو فرد سے جناب زینب کی نسبت طے ہوئ تو بنو ہا شم میں اس جوڑی کا نام قِر انُ السّعدَ ین یعنی چاند اور سورج کی جوڑی ) کہ کر پکارا گیا ،شادی کی مبارک ساعتیں آئیں اور خطبہء نکاح مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب نے پڑھ کر دولہا اور دلہن کو رشتہ ء ازدواج میں منسلک کیا اورجناب زینب سلام اللہ علیہا اپنےمتبرّک میکے کے آنگن سے رخصت ہو کررشک فردوس کاشانہء عبداللہ میں جلوہ افروز ہوئیں شادی کے بعد پروردگار عالم نے اس گھر کے آنگن کو بھی گلستان نبوّت کے پھولوں اور کلیوں سے مہکایا۔
---------------------------------------
قسط سوئم
پھر بہت جلد وہ وقت بھی آہی گیا جس کی تلاش میں کفّاربنام مسلمان جنگ بدر کا انتقام لینے کے لئے بڑے صبر سے انتظار میں بیٹھےتھے,,ان فاسقون اور فاجروں نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا تا کہ لشکر اسلام میں گھس کر ان کی پشت سے وار کر سکین ,,
پھر چشم فلک نے یہ دلخراش نظارہ بھی دیکھا کہ شہر کوفہ جس عظیم المرتبت ہستی نے یہ کہ کر بسایا تھا کہ نئے شہر میں بسنے والے لوگ تازہ دم اور تازہ دماغ ہوتے ہیں ،اسی کے لہو سے داغ،داغ ہوگیا ،اور ظاہری اور دنیاوی خلافت کا منصب حضرت امام حسن علیہ ا لسّلام کو ملا لیکن اس منصب کے ا وپر آپ کے فائز ہوتے ہی دشمنان دین و اسلام آپ کے خلاف صف آراء ہو کر کھل کر سامنے آگئے ,, اپنے حق میں چلنے والی اس باد مخالف کو دیکھ کر امام حسن علیہ اسّلام نے ایک مدبّرانہ فیصلہ کیا اور منصب خلافت سے دستبردار ہو کر مدینے واپس آگئے ،جناب زینب بھی اپنے بڑے بھائ کے فیصلے کو سراہنے کے ساتھ انہی کے ہمراہ مدینے واپس آگئیں اور ان فاجروں اور فاسقوں کے مکروہ منصوبے خانوادہء آل محمّد کو ختم کئے بغیر پورے نہیں ہو سکتے تھے اس لئے دوسرا وار امام حسن علیہ السّلام کو زہر سے شہید کر کے کیا ،،،اب امامت کے ایک اور ستوں امام حسین علیہ السّلام تھے جو کہ ان کے مذموم ارادوں میں مزاحم ہو سکتے تھے ،اب خلافت بنو امیّہ کے اس گروہ کے ہاتھ میں تھی جس نے اسلام کے پردے میں رہ کر اسلام کی شکل مسخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
اس گروہ کے اسلام میں سر منبر بیٹھ کر شراب پینا حلال تھا ،اس گروہ کے اسلام میں اپنے سگے باپ کی بہن سے نکاح حلال تھا ،اور اس گروہ کی حمائت کرنے والے حافظ قران تھے ،پانچ وقت کی نمازیں بھی پڑھتے تھے رمضان کے روزے بھی رکھتے تھے اور اولاد رسول کو اللہ اکبر کہ کر زبح کرنا اپنا جائز موروثی حق بھی سمجھتے تھے ،اس تاریک اور گھمبیر دور میں جب اما م عالی مقام سے بیعت طلب کی گئ تو آپ نے اپنی چہیتی بہن زینب سلام اللہ علیہا سے کہا بہن مجھے نا نا کا عمامہ اور عبا لادو تو بی بی زینب نے گھبرا کربھائ کا بازو تھام لیا اور بے چین ہوکر کہا بھائ مجھے ان لوگو ں کا اعتبار نہیں ہئے ،ہاشمی جوان آ پ کے ہمراہ جائیں گے میں آپ کو تنہا تو ہرگز نہیں جانے دوں گی ,پھر بی بی زینب نے اپنے ہاتھوں سے امام عالی مقام کو عمامہ اورعبا زیب تن کروائ اورعصا دست مبارک میں دیا ، امام عالی مقام گورنر مدینہ کے دربار میں جوانان بنی ہاشم ,علی اکبر و جناب عبّاس ،مسلم ابن عقیل ،جناب قاسم ،عون محمّد کے جلو میں دار الامّارہ پہنچے دار لامّارہ سے امام عالی مقام کی واپسی تک جناب زینب سلام اللہ علیہا کاشانہ اما م عالی مقام کے دروازے کےقریب ہی منتظر رہیں اور جیسے اما م عالی مقام واپس تشریف لائے آپ اما م علیہالسّلام کے نزدیک آ گئیں اور آپ علیہالسّلام سے سوال کیا بھائ ولید کیا کہتا ہئے توامام عالی مقام نے بی بی زینب کو بتایا کہ میں جب دارلامّارہ پہنچا تو وہاں ولید بن عتبہ نے فرما ن یزید پڑھ کر اما م عالی مقام کو آگاہ کیا کہ یا تو امام عالی مقام یزید کی بیعت کر لیں ورنہ امام کا سر کاٹ کر یزید کے روبرو پیش کیا جائے ,اما م عالی مقام نے ولید بن عتبہ کو جواب دیا کہ جب مجمع عام میں اپنے خلیفہ کی وفات کا اعلان کر کے یذید کی خلافت کا اعلان کرو گے تب مجھ سے یہ سوال کرنا ،ابھی تمھارا یہ تقاضہ بے وقت ہئے ،پھر امام علیہ السّلام نے بی بی زینب سے فرمایا کہ دربار سے میری واپسی کے وقت میں نے مروان بن الحکم کی آواز سنی کہ ائے ولید کیا کرتا ہئے ،،،حسین دارلامّارہ سے ہرگزجانے نا پائیں جب تک یذید کی بیعت نا کر لیں یہی وقت ہے حسین کو گرفتار کرلے یا قتل کردے ،،اس وقت میں نے دربار میں للکار کر کہا ،کسی کی کیا مجال ہئے جو مجھے قتل کر سکے ،پھر اما م نے فرمایا کہ ہم خاندان رسالت کے لوگ ہیں ،ہم رحمت الٰہی کےخزینے ہیں ،ہمارا گھر ملائکہ کا مسکن ہئے،،اور یذ ید ایک فاسق و فاجر شخص ہئے جس کی بدکاری زمانے پر آشکار ہئے ،میں اس بدکار شخص کی بیعت ہرگز نہیں کروں گا ،امام عالی مقام کی باتوں کے جواب میں جناب زینب نے فرمایا بھائ راہ حق میں درپیش مشکلات کا مقابلہ کرنا ہمارا ورثہ ہے ،،،خدا کے نازل کردہ بہترین دین کی حفاظت اور نانا رسول اللہ کی محنتوں کی حفاظت کے لئے آپ اپنی بہن زینب کو اپنے شانہ باشانہ پائیں گے ،اور بالآخر وہ وقت بھی جلد آہی گیا جب کہ یذید کی طرف سے بیعت کا اصرار بڑھنے لگا ،یہاں بھی آخری حجّت کے طور امام عالی مقام نے یذید کے اصرار کے جواب میں تہدیدی خط بھی لکھا ,اور اسے تنبیہ کی کہ وہ بیعت کے ارادے سے باز آجائے ،امام عالی مقام کے جواب میں یذید نے مدینے کی مقدّس سرزمین کو خون اہلبیت سے رنگنے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ امام عالی مقام تک پہنچا تو آپ نے اپنے خانوادے کے گوش گزار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم شہر مدینہ چھوڑ دیں گےاور پھر آپ علیہ السّلام نے بیعت کرنے کے بجائے اپنے نانا جان کا شہر اور اپنی مادر گرامی اور ماںجائے کا مدفن اور چاہنے والے نانا کا جائے مدفن شہر مدینہ چھوڑ دیا۔
اس قافلہ میں شامل ننھے مسافرعلی اصغر نے نے بی بی امّ لیلٰی کی آ غوش میں محض سولہ دن پہلے آنکھ کھولی تھی اس قافلے میں چالیس گھرون سے بنو ہاشم نے اعانت اما م علیہ السّلام اور نصرت امام عالی مقام کی خاطر اپنے بھرے گھر بار چھوڑ دئے اور راہ حق کے مسافر بن کر امام عالی مقام کے ہمراہ کوچ کر گئے جناب زینب تو اسی وقت سمجھ گئیں تھیں کہ اب وہ وقت آپہنچا ہئے جس کا وعدہ پروردگار عالم نے روز الست لے لیا ہئے ,یہ رجب المرجّب کی اٹھّائس تاریخ اور سن ساٹھ ہجری تھی اور منزل بہ منزل سفر کی صعوبتیں اٹھاتا ہوا یہ قافلہ زی الحج کی ابتدائ تاریخوں میں مکّے میں اقامت گزیں ہوا وادئ مکّہ میں حاجیون کے قافلے جوق در جوق آ ،آکر اتر رہے تھے اور ایسے میں امام عالی مقام نے جناب عبّاس اور حضرت علی اکبر کو پاس بلاکر فرمایا ،کوچ کے لئےسامان سفر تیّار کر لو ،بی بی زینب نے امام عالی مقام کا ارادہ دیکھ کر بے چینی سے پوچھا بھائ حج تو آ ہی گیا ہئے تو پھر یہ فیصلہ کیسا ،امام نے فرمایا کہ بہن مجھے یہان بیت اللہ میں قتل کرنے لئے حاجیوں کے بھیس میں گروہ بھیج دئے گئے ہیں۔
میں احرام توڑ کر آٹھ زی الحج کو مکّے سے روانہ ہون گا ،پھر آپ نے بی بی زینب سلام اللہ علیہا سے فرمایا ہمارے نانا نے بھی تو دین کی بقاء کی خاطر ہجرت کی تھی ،جناب زینب سلام اللہ علیہا نے بھائ کے آگے سر تسلیم خم کیا ،،
اور پھر وہ ہستی جس نے پچّیس پا پیادہ حج کئے تھے ،حج کے بھرے موسم میں حج کا ارادہ ترک کے اپنے مرکب کی باگیں تھام کر مکّے سے کوچ کر گئ ،،سفر جاری تھا اور قافلہ بطن الرّمہ،،حاجر،،زرود،،زبالہ بطن عقیق اورپھر سراۃ کے مقام سے بھی گزر کر منزل شراف پر پہنچا ،،قادسیہ کی منزل ابھی تین میل دور تھی کہ اچانک دشمن کی ایک بڑی فوج امام عالی مقام کو گھیرنے کے لئے پیش قدمی کرتی ہو ئ ملی ،لیکن امام عالی مقام بالآخر دشمن سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو قافلہ نہر فرات پر پہنچا یہاں امام عالی مقام نے جناب حضرت عبّا س اور حضرت علی اکبر سے فرمایا کہ ہمیں یہیں پر خیمہ زن ہو نا ہئے ،جناب زینب نے فرما یا بھائ یہاں تو بہت عجیب سی وحشت ہئے آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ ہاں بہن یوں سمجھ لو کہ یہی میری قتل گاہ ہئے کیونکہ میرے مرکب نے اس جگہ سے مذید آگے جانے سے انکار کردیا ہئے غرض یہ کہ خیام اہلبیت نہر فرات کے کنارے لگا دئے گئے چہار جانب سے دشمنان دین گروہون کی افواج نے خیام اہلبیت کو گھیر لیا اور بالآخر روز عاشور شروع ہونے والا یہ حق و باطل کا معرکہ شام عاشور تک تمام ہو چکا تھا ،ششماہے مجاہد ننّھے علی اصغر بھی تین کی بھوک اور پیاس میں داخل جناں ہو چکے تھے تو دوسری جانب کمر خمیدہ اور سن رسیدہ صحابئ رسول بھی نصرت امام علیہ السّلام میں اپنی جان کا نذرانہ لبّیک کہ کر دے چکے تھے ۔
ہنگام عصر تمام ہوا تو ایک جانب صحرائے کربلا میں لاشہء ہائے شہدا ء بے گوروکفن تھے تو دوسری جانب یزید ی ملعون فوج کی انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئ تھی چنانچہ شمرلعیں نے اپنے بدخو ساتھیوں کے ہمراہ غشی کے عالم میں بے ہوش جناب سیّد سجّاد بیمار کربلاکے خیمے پر دھاوا بولا کسی سپاہی نے بیمار کربلا کا بستر کھینچا کسی نے نیزے کی انی چبھوئ اورشمر لعین اپنی تلوار سونت کر اپنے سپاہیوں سے چلّا کر کہنے لگا خبردار حسین کی نسل سے ایک مرد کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا ہئے اور اسی لمحے جناب زینب سلام اللہ علیہا جو بیمار بھتیجے سے لمحے بھر کو بھی غافل نہیں تھیں اپنی بے ردائ کی پرواہ نا کرتے ہوئے اسی لمحے شمر کی تلوار اور سیّد سجّاد کے درمیا ں آ گئیں اور پھر آپ سلام اللہ علیہا نے شمر کو للکار کر کہا او سنگ دل ! تف ہئے تیری اوقات پر کہ تو ایک مریض کو قتل کرنے چلا ہئے ,,,,,جناب زینب کی تنبیہ وہ بیمار کربلا کے خیمے سے جھلّایا ہوا باہر نکلا اور اپنی ناکامی پر اپنے ساتھیوں سے چلّا کر کہنے لگا ،،خیمو ں میں جلدی آگ لگاؤ تاکہ حسین کا بیمار اور باقی سب بھی جل راکھ ہو جائیں اور بی بی زینب تو ابھی بیمار کربلاکی دلداری میں مصروف تھین کہ خیام اہلبیت سے ننھے بچّوں اور مخدرات کی فلک شگاف چیخیں بلند ہونے لگیں بی بی زینب بیمارکربلا کو چھوڑ کر جیسے ہی باہر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ خیام اہلبیت میں آگ لگائ جا چکی تھی اور ننھے بچّے اور بیبیاں اپنی جانیں بچانے کو ادھر سے ادھر تک بھاگ رہئے اور ان بھاگتے ہوئے ننھے بچّوں پر اور بیبیوں پر فوج اشقیاء تازیانے برسا رہی تھی ایسے وقت میں بی بی زینب سیّد سجّاد کو خیمے میں چھوڑ کر چھوٹے بچّوں کوایک جگہ جمع کرنے کے لئےجیسے ہی سیّد سجّاد کے خیمے سے باہرآ کر بچّون کی جانب متوجّہ ہوئیں ویسے ہی شمر لعیں اور اس کے ساتھیوں نے بیمار کربلا کے خیمے کو آگ لگا دی اور پھر بی بی زینب سب کو چھوڑ کر وارث امامت کی جان بچانے کے لئے بھڑکتے اورآگ اگلتے شعلوں کی پروا نا کرتے ہوئے بیمار کربلا کےخیمے میں داخل ہو کر جناب سیّد سجّاد کو اپنی پشت پر اٹھا کرجلتے ہوئے خیمے سے باہر لےآ ئیں اور اپنے وارث امامت بھتیجے کو صحرائے کربلا کی گرم ریت پر لٹا دیا ,,,اور آج کی قیامت خیز رات میں بھی نماز شب کا وقت بتانے والے ستاروں نے اپنی پرنم آنکھوں سے صحرا کی گرم ریت پربے وارثوں کے قافلے کی حفاظت پر معمو رایک بی بی کو سر بسجود یہ منظردیکھا،جس کے لب ہائے حزین پر مناجات پروردگار تھی ،،پروردگارا تو ہماری ان قربانیوں کو قبول فرما ،،اور ہمیں کبھی بھی اپنی حمائت سے محروم نا رکھنا ،،ہمیں ہماری منزل مقصود تک ضرور پہنچا دے ،وہ منزل جس کے لئے ہم آل محمّد کو تو نے خلق فرمایا،،زینب حزیں کی دعائے نیم شب تمام ہوئ تو صبح کے اجالے پھیل رہئے تھے اور زینب نے اپنی جگہ ایستادہ ہو کر منظر دیکھا ایک جانب مقتل کربلا تھا جس میں آل محمّد کے سر بریدہ بے گوروکفن لاشے گرم ریت پر بکھرے ہوئے تھے دوسری جانب نگاہ اٹھی تو جلے ہوئےخیام اہلبیت اپنی جلی ہوئ راکھ اڑاتے ہوئے گریہ کناں تھے تیسری جانب دیکھا تو بے ردا بیبیا ں تھیں جن کی گودیاں اجڑ چکی تھیں اور سر سے وارث کا سایہ بھی اٹھ چکا تھا اور ننھے ننھے بچّے جنکے وارث کربلا کے بن میں شہید کئے جاچکے تھے اور پھر جو نگاہ ایک اور سمت گئ تو زینب نے اپنے بہتّر پیارون کے بہتّر کٹے ہوئےسر چمکتے ہوئے نیزوں پر آویزاں دیکھے تو آپ سلام اللہ علیہا نے گھبرا کر آسمان کی جانب دیکھا اور آپ کے لب ہائے مقدّس پر دعاء آئی ,,اے مالک ہماری قربانیوں کو قبول فرما۔
----------------------------------------
قتل گاہ کربلا میں پیہم سلگتے ہوئے خیموں سے کچھ فاصلے پرگرم ریت کے اوپر شب غم بسر کرنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی ایک اور صبح غم طلوع ہوئ اور آتشیں آگ برساتے ہوئےسورج کے طلوع ہونے کے ساتھ فوج اشقیاء کے سپاہیوں نے ہاتھوں میں تازیانے اور رسیّاں لئے ہوئے لٹے ہوئے قافلے کے قریب آ کر حکم دیا کہ قیدی اپنے اپنے ہاتھ پس گردن بندھوالیں اور اسی لمحے بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو اب حضرت عبّاس کی جگہ جان نشین,,اور سالار قافلہ تھیں للکار کر فوج اشقیاء سے مخاطب ہوئیں ہم آل رسول( صلّی اللہ علیہ وسلّم )ہیں کوئ غیر ہمیں ہاتھ لگانے کی جراءت نہیں کرے اور پھر بی بی زینب سلام اللہ علیہانے رسّیان اپنے ہاتھ میں لے کر ایک بی بی کے ہاتھ فوج اشقیاء کے حکم سے پس گردن بندھوائے ( زیارت ناحیہ میں اما م زمانہ علیہالسّلام فرمارہے ہیں ،، سلام ہو میری دادی زینب پر جن کے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے )اور بے کجاوا اونٹوں پر ایک دوسرے کو سوار کروایا ،،اور اب اونٹوں کے قافلے کی مہا ر بحیثیت سارباں,,امام سیّد سجّاد کے ہاتھ میں دے کر حکم دیا گیا کہ( آپ ) کہ قیدی اپنے قافلے کی مہا ر پکڑ کر ساربانی کرے گا ،،میرا بیمار امام جب مہار تھام کر دو قدم چلا تو فوج اشقیاء کی جانب سے حکم ملا کہ قافلہ کربلا کی قتل گاہ سے گزارا جائے نیزوں پر بلند سر ہائے شہداء کو قافلے کے آگے آگے رہنے کا حکم دیا گیا ،اور اس طرح سے آل محمّد کے گھرانے کےمعصوم بچّے اور باپردہ بیبیا ں بے ردائ کے عالم میں اونٹوں پر سوار پہلے مقتل کربلا لائے گئے تاکہ اپنے پیارون کے بے گورو کفن سر بریدہ لاشے دیکھیں ،پس سیّد سجّاد کی نظر جو اپنے بابا کے سر بریدہ بے گورو کفن لاشے پر پڑی آ پ کے چہرے کا رنگ متغیّر ہوگیا
اور بی بی زینب سلام اللہ علیہا جو وارث امامت اپنے بھتیجے سے پل بھر کو بھی غافل نہیں تھیں ان کی نظر جو اما م وقت پر گئ آپ سلام اللہ علیہا خیال کیا کہ کہیں امام سجّاد کو صدمے سے کچھ ہو ناجائے اور اسی لمحے بی بی زینب سلا م اللہ علیہا نے اپنے آپ کو کھڑے ہوئے اونٹ کی پشت سے نیچے زمین پر گرا دیا ،،امام زین العابدین سکتے کے عالم میں اپنے بابا حسین کے سر بریدہ خون میں ڈوبے ہوئے اور لاتعداد پیوستہ تیروں سے آراستہ لاشے کو دیکھ رہئے تھے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے زمین پر گرتے ہی پھو پھی کی جانب جلدی سے آگئے اور اپنے نحیف ہاتھوں سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا کو سہارا دیتے ہوئے سوال کیا پھو پھی ا مّاں کیا ہوا ?بی بی زینب نے جناب امام سجّاد کو جواب دیا ،بیٹا سجّاد تم امام وقت ہو ،خدائے عزّو جل تمھین اپنی امان میں رکھّے تمھارا عہد اما مت بہت ہی کڑی منزلون سے شروع ہوا ہئے ،،اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنے بابا حسین کے حسینی مشن کی تکمیل کے لئے تیّار ہو جاؤ ,,,,,,,
تمھیں یاد ہوگا کہ بھائ حسین نے کہا تھا کربلا کے دو حصّے ہون گے ایک حصّے کی تکمیل کے لئے ان کی شہادت کی ضرورت ہو گی اور دوسرے حصّے کی تکمیل ہمیں کرنی ہوگی بھائ حسین شہادت کی اولٰی و اعلٰی منزل پر پہنچ کر اپنا فریضہ ادا کر کے جاچکے ہیں اب کربلا کی تکمیل کا دوسرا حصّہ شروع ہوا ہئے جس کے مکمّل کرنے کےلئے ہماری باری ہئے ,,اپنی چاہنے والی پھوپھی کی زبان سے یہ باتین سن کر جناب سیّد سجّاد نے اپنی لہو روتی آنکھیں صاف کیں اور اپنے بابا کو سلام آخر کیا ،اسّلام علیک یا ابا عبداللہ ،پھر انتہائ پیارے چچا کو مخاطب کیا پیارے چچا الوداعی سلام لیجئے،،پھر بھائیوں سے مخاطب ہوئے اے میرے کڑیل جوا ن بھائ علی اکبر ننھا علی اصغر بھی تمھارے ساتھ ہئے,, پیارے چچامسلم کے بیٹون ,,،میری چاہنے والی پھوپھی کے بیٹون ,,،میرا سلام لو ،،،ائے ہمارے بابا کے انصاران باوفا خدا حافظ,,,,,مقتل میں اپنے تمام شہید پیاروں کو الوداعی سلام کرکے جناب سیّد سجّاد نےپھر ایک بار قافلہ سالاری کے لئے اونٹوں کی مہار تھام لی, اور اسی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتی بیبیوں کا قافلہ جانب کوفہ اس طرح سے ہنکا یا گیا کہ کربلا سے کوفے تک ستّاون میل کا فاصلہ جو عام کیفیت میں اونٹ ڈھائ سے تین دن میں طے کرتے تھے انہوں نے تیز تیز ہنکائے جانے کے باعث صرف ایک دن میں طے کیا ,,,,,,,اس طویل اور اندوہ گیں سفر کے دوران اونٹوں پر سوار ننھے بچّو ن کو اس بیدردی سے ہنکائے جانے کے سبب کربلا سے کوفے تک لاتعداد بچّے اونٹون سے گر ،گر کر شہید ہوتے رہے ،اگر کسی گر جانے والے بچّے پر بی بی زینب کی نظر پڑ جاتی تھی تو بی بی زینب اپنے آپ کو خود اونٹ سے گرادیتی تھیں اس طرح فوج اشقیاء کے کہنے سے دوڑتے ہوئے اونٹ زبردستی روکے جاتے تھے ،ورنہ بچہ اونٹ کے پیروں تلے آکر کچل کر شہید ہو جاتا تھا
,,,,
بالآخر شہر کوفہ جب چند کوس کے فاصلے پر رہ گیا اس وقت عمر بن سعد نے فوج اشقیاء کو وہیں ٹہرنے کا حکم دیا ،اس حکم کے ملتے ہی فوج اشقیاء کے آرام کرنے کے لئے خیمے لگائے گئے،اور لٹی ہوئ آل نبی کو ریت پر بیٹھ جانے کا حکم ملا ،یہاں یذیدی فوج کے لئے ٹھںڈے پانی کا بندو بست کیا گیا ،وہ ٹھنڈے پانئ سے اپنے سیاۃ چہرے دھو دھو کر اپنے اپنے کارنامے فخریہ بیان کر رہئے تھے۔
ایک شقی نے کہا،مین نے حسین نے کے کڑیل جوا ن کے سینے میں برچھی کا پھل مارا اور برچھی کی انی سینے میں ہی رہنے دی پھل توڑ کر انی سے الگ کر لیا اور حسین کی کمر توڑ دی ،،دوسرے نے کہا بھلا عبّاس کو بھی کوئ عام ہستی شکست دے سکتی تھی میں نے اس شجاعوں کے شجاع کا ایک ایک بازو قلم کر کے یذید کے دل خوش کرنے کا سامان بہم پہنچایا تیسرے نے کہا ،میں نے حسین کے بوڑھے کمر جھکے ساتھی کو ہلاک کیا ،یہ تمام آوازیں ریت پر بیٹھی ناموس رسول صلعم تک آرہی تھیں لکن لٹے ہوئے قافلے پر موت کا سکوت طاری تھا ،زندہ بچ جانے والے بچّے اتنے سہمے ہوئے تھے کہ اپنی ماؤں سے ناکھانا مانگتے تھے نا ہی پانی طلب کرتے تھے ۔
الغرض ایک اور رات ریت بسر کر کے پھر صبح ہوئ تو قیدیوں کو اونٹوں پر سوار ہونے کا حکم ملا اور پھر قافلہ کوفہ کے دروازے تک جب پہنچا تو بیبیوں نے اور بیمار امام نے ایک مانوس آواز سنی ،اسّلام علیک یا رسول ا للہ ،،بیبیوں کی شرم سے جھکی ہوئ نگاہیں اس مانوس آواز پر بے اختیار اٹھیں تو سامنے سفیر کربلا جناب حضرت مسلم بن عقیل کا تن بریدہ سر باب کوفہ کی بلندی پر آویزاں نظر آیا
,,,,اب بی بی زینب نے دیکھا کہ شہر کوفہ میں جشن کا سمان ہئے لوگ جوق درجوق باغیوں کا تماشہ دیکھنے ہجوم کی شکل میں امڈے چلے آرہئے ہیں اور یہ ہجوم خوشی کے شادیانے بجاتا ،،باغیون کے خلاف نعرے لگاتا قافلے کے گرد جمع ہورہا ہے تو بی بی زینب نے بالون میں چھپے نوران اور پر جلال لہجے میں ہجوم کو للکار کر کہا ،،خاموش ہو جاؤ ،،،زینب کی للکار کے جواب میں مجمع پر سکوت طاری ہوگیا اور زینب نے خطاب شروع کیا ،،جو علی علیہ السّلام کو سن چکے تھے انہوں نے سنا وہی ہیبت و جلال ،،تمام تعریفیں اللہ کی بزرگی و جلالت کے لئے ہیں اور سلام ہو میرے جدّ اعلٰی محمّد مصطفٰے صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم پر اور اپنے آبائے طاہرین پر اور ان کی پاکیزہ تر آل پر جن
کو اللہ نے ہر عیب سے مبرّا رکھّا اور منزّہ قرار دیا ،،آپ پھر گویا ہوئین ،بد بخت اور شقی لوگوں آگاہ ہو جاؤ کہ قیامت کے دن کے واسطے تم نے اپنے لئے آگ کے الاؤ دہکا کر تیّار رکھّے ہیں ،اس دن وہ کامران ہوں گے جنہوں نے اس کے سچّے دین کے لئے قربانیاں دیں اور حق کا پرچم بلندکیا زینب کا خطاب تھا اور مجمع پر سکوت طاری تھا کہ قیدیون کی تشہیر کا حکم نامہ آگیا ،کوچہ بکوچہ قیدیو ن کا قافلہ گزارا جانے لگا اور پھر دربار ابن زیاد میں پیشی کا حکم آ یا۔
بشکریہ:۔عالمی اخبار:۔
Add new comment