غیرت تاریخ،مختار ثقفی
امیر مختار تاریخِ اسلامی کے متنازعہ کرداروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے بنو امیہ کے خلاف تلوار اٹھائی اور کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا بدلہ لینے کی ٹھانی اور بےشمار قاتلانِ شہدائے کربلا کو واصلِ جہنم کیا۔جس میں شمر بھی شامل تھا جس نے امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک جسم سے علیحدہ کر کے نیزے پر دمشق بھجوایا تھا اور حرملہ بھی جس نے امام حسین علیہ السلام کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا تھا۔ ان کا کردار اس لیے متنازعہ ہے کہ تاریخ دانوں میں یہ اختلاف موجود ہے کہ انہوں نے قاتلانِ شہدائے کربلا کا بدلہ محبتِ رسول و اہلِ بیت کی وجہ سے لیا تھا یا حکومت کی طلب میں۔[1]
ابتدائی حالات
امیر مختار یکم ھجری میں طائف میں پیدا ہوئے مگر پرورش مدینہ میں ہوئی۔ نام مختار اور کنیت ابواسحاق تھی۔ ان کا تعلق بنی ہوازن کے قبیلہ ثقیف سے تھا۔ اسی لیے انھیں امیر مختار ثقفی بھی کہا جاتا ہے۔[2] ان کے والد کا نام ابو عبیدہ ثقفی تھا جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق کی ایک مہم میں سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا جہاں وہ شہید ہو گئے۔
واقعات[ترمیم]
کربلا کے سانحہ کے وقت امیر مختار عبید اللہ ابنِ زیاد کی قید میں تھے۔ ابنِ زیاد خواہش کے باوجود ممکنہ سیاسی و دیگر وجوہ کی بنا پر انہیں شہید نہ کر سکا۔ امیر مختار حضرت عبداللہ بن عمر کی بہن کے شوہر تھے اور ان کی اپنی بہن کی شادی حضرت عبداللہ بن عمر کے ساتھ ہوئی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر کی سفارش پر امیر مختار کو رہا کر دیا گیا۔ قید سے رہا ہونے اور واقعاتِ کربلا سے آگاہی کے بعد امیر مختار نے قسم کھائی کہ قاتلانِ شہدائے کربلا کا بدلہ لیں گے۔جیسا کہ روایات میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس بارے میں پیشینگوئی کی تھی۔[3] پہلے امیر مختار نے عبداللہ بن زبیر کے خروج میں ان کا ساتھ دیا مگر جب عبداللہ بن زبیر نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کر لی تو ان سے اختلافات پیدا ہو گئے اور وہ مدینہ سے کوفہ چلے گئے۔وہاں اپنی تحریک کو منظم کیا اور 685ء میں خروج کیا۔[4] اس وقت ان کے ساتھ ابراہیم بن مالک اشتر بھی مل گئے جو ایک مشہور جنگجو تھے اور ان کے پاس اپنی کچھ فوج بھی تھی۔ انہوں نے بصرہ اور کوفہ میں جنگ کی اور بے شمار قاتلانِ شہدائے کربلا سے بدلہ لیا۔جن میں عمر بن سعد، حرملہ، شمر، ابنِ زیاد، سنان بن انس وغیرہ شامل تھے۔ ابنِ زیاد کا سر کاٹ کر امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بھجوایا گیا جسے دیکھ کر انہوں نے اہلِ بیت کو سوگ ختم کرنے کا کہا۔
وفات
امیر مختار کی عبداللہ بن زبیر سے شدید اختلافات کے باعث جنگ ہوئی جس میں امیر مختار کو 687ء میں قتل کر دیا گیا۔یہ 15 رمضان 67ھ کا واقعہ ہے۔[5] اس کے بعد امیر مختار کے خاندان کو جس میں اس کی بیوی بھی شامل تھیں سب کو قتل کردیا گیا[6]۔
الزامات
ان کی شخصیت کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حکومت کے لالچ میں امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا مگر دوسری طرف ایسی بے شمار روایات ملتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محبان اہلِ بیت سے تھے۔ مثلاً جب امیر مختار نے عمر سعد اور ابنِ زیاد کے سر امام زین العابدین علیہ السلام کو بھیجے تو انہوں نے امیر مختار کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے بعض نکتہ چینوں کو کہا کہ مختار کو گالی نہ دو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا قصاص لیا۔[7]
حوالہ جات
^ امیر مختار از بشارت حسین کامل مطبوعہ لاہور
^ ناسخ التواریخ
^ جلاءالعینین فی سیرۃ علی ابن الحسین
^ تاریخ طبری
^ تاریخ ابوالفداء
^ تاریخ مسعودی
^ جلاء العیون صفحہ540
بشکریہ: اردو وکی پیڈیا
Add new comment