موت ،احلی من العسل

 

شب عاشور، امام حسين (ع) نے اپنے قریبی اصحاب و انصار کو اپنے قریب بلایا اور خدا کی حمد و ثناء اور پیغمبر اسلام پر درود و سلام کے بعد فرمایا: "حق یہ ہے کہ آپ(ع) جیسے وفادار اصحاب و انصار اور آپ(ع) جیسا فرمانبردار خاندان کسی کو بھی نہیں ملا۔ اس لشکر کا سروکار مجھ سے ہے اور ان کا جھگڑا مجھ سے ہے اور میرا معاملہ ان کے ساتھ جنگ اور کارزار پر منتج ہوگا۔ پس میں اپنی بیعت آپ کی گردن سے اٹھاتا ہوں اور اجازت دیتا ہوں کہ مجھے ترک کردیں۔ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر چلے جائیں..."
امام (ع) کا خطاب مکمل ہوا تو ابتداء میں حضرت اباالفضل العباس سلام اللہ علیہ، اور ان کے بعد دیگر بنی ہاشم اور ان کے بعد اصحاب و انصار اٹھے اور کہا: "ہم آپ کے بعد کس لئے زندہ رہیں اے فرزند رسول خدا(ص)؟ خدا کی قسم اگر ہم بار بار مارے جائیں اور زندہ ہوجائیں پھر بھی آپ کی نصرت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے"۔

امام (ع) نے جب یہ الفاظ سنے تو فرمایا: "میں کل قتل کیا جاؤں گا اور آپ لوگ بھی میرے ہمراہ مارے جائیں گے"۔
یہیں سے انسانی کرامت ظاہر ہوئی اور اصحاب و انصار اور خاندان کے افراد نے حتمی شہادت کی خبر سن کر رد عمل کے طور پر کہا: "خدا کا شکر و سپاس جس نے ہمیں آپ کی نصرت کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کے رکاب میں شہادت عطا کرکے ہمیں عظمت و عزت بخشی»۔
امام (ع) نے اصحاب و خاندان پر اتمام حجت اور ان کی مستحکم بیعت سے مطمئن ہونے کے بعد ان کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا: "اپنے سر اٹھائیں اور روضہ رضوان میں اپنے مقام کا مشاہدہ کریں"۔ اس طرح ان سب نے چشم بصیرت کے ذریعے اپنے اخروی مقام و منزلت کا مشاہدہ کیا۔
«قاسم بن الحسن» امام حسن مجتبي (ع) کے بڑے بیٹے تھے جو نو رسیدہ نوجوان تھے، بھی اس مجلس میں حاضر تھے اور شوق و شیدائی کے ان مناظر کا مشاہدہ کررہے تھے، نے اپنے عمِّ بزرگوار سیدالشہداء علیہ السلام سے دریافت کیا: "کیا میں بھی آپ کے انصار و اصحاب کے ہمراہ شہادت پاؤں گا"۔
امام (ع) کا دل اپنے بھائی کی یادگار کے لئے تڑپ اٹھا اور پوچھنے لگے: "پیارے بیٹے! تم موت کو کس طرح محسوس کرتے ہو؟" قاسم نے شجاعت کے ساتھ جواب دیا: "اَحلی مِنَ العَسَلِ ـ چچاجان: شہد سے زیادہ میٹھی ہے»۔
امام (ع) نے رقّت و شفقت کے ساتھ فرمایا: "چچا تم پر قربان ہو! ہاں تم بھی ـ بلائے عظیم سہنے کے بعد ـ شہید کئے جاؤگے"، یہ اشقیاء میرے شش ماہہ فرزند علی اصغر(ع) کو بھی قتل کردیں گے۔ ہاشمی نوجوان کی غيرت اور مردانگی جوش میں آئی اور عرض کیا: "کیا دشمن ہمارے خیموں تک بھی آئیں گے اور شیرخوار اصغر کو بھی شہید کردیں گے؟!"
امام(ع) نے جواب دیا: "چچا تم پر قربان ہو! شامی دشمنوں میں سے ایک فاسق شخص علی اصغر(ع) کو میری آغوش میں ہی شہید کرے گا اس حال میں کہ وہ رو رہا ہوگا اور اس کا خون میرے ہاتھوں پر جاری ہوجائے گا"۔
اس کے بعد وہ دونوں روئے اور آل رسول کے رونے کی آواز خیام سے آسمانوں تک جا پہنچی۔
سوال یہ ہے کہ یہ "بلائے عظیم" جس کی بشارت امام نے اپنے بھتیجے کو دی ہے کیا ہے؟
نظر یہی آتا ہے کہ امام علیہ السلام کی مراد قاسم کی شہادت کی کیفیت ہی ہوسکتی ہے اور جب ہم کیفیت شہادت کو دیکھتے ہیں تو بلائے عظیم کے معنی بھی واضح ہوجاتے ہیں...
بعض مؤلفین نے روایت کی ہے کہ جب علی اکبر (ع) میدان کارزار میں جاکر جام شہادت نوش کرگئے تو قاسم بن حسن(ع) خیمہ گاہ سے باہر آئے۔
جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی کی یادگار کو دیکھا جو جنگ کے لئے باہر آئے ہیں تو انہیں اپنے سینے سے لگایا؛ دونوں روئے - شاید علی اکبر(ع) کی شہادت کا غم ستا رہا تھا - یہاں تک روئے کہ ان کی حالت غیر ہوئی۔ آنسو تھم گئے تو قاسم نے اپنے عمّ بزرگوار سے اذن جہاد مانگا۔
امام (ع) نے اجازت نہیں دی تو قاسم امام کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور التماس کرنے لگے حتی کہ امام علیہ السلام نے اجازت دی۔ اجازت ملتے ہی قاسم میدان جنگ میں اترے۔
تاریخی دستاویزات نے دشمن کے ایک سپاہی کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک نوجوان لڑکا خیموں سے باہر آیا جس کا چہرہ چاند کے ٹکڑے جیسا چمک رہا تھا اس نے ہم پر حملہ کیا جبکہ اس کے چہرے سے اشک روان تھے اور رجز پڑھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے:

ان تنکرونی فانا فرع الحسن
سبط نبی المصطفی والمؤتمن
هذا حسین کاسیرالمرتهن
بین اناس لا سقوا صوب المزن
اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو کہ میں ہوں حسن مجتبی(ع) کی ٹہنی اور فرزند ہوں
سبط نبی مصطفی(ص) (پیغمبر کا نواسہ ہوں) جن کا لقب "امین" ہے
یہ حسین(ع) ہیں تمہارے درمیان ایک گروی لئے ہوئے اسیر کی مانند
تمہارے درمیان جن کو اللہ تعالی کبھی بھی جزائے خیر نہیں دے گا

پس وہ کمسنی اور چھوٹے جسم کے باوجود مردانہ وار لڑا اور یزیدی لشکرکے کئی پہلوانوں کو جہنم رسید کیا حتی کہ یزیدی لشکر نے ان کو گھیرے میں لیا اور اور ان میں سے ایک نے اس پر شمشیر کا وار کیا۔
قاسم بن حسن چہرے کے بل زمین پر آرہے اور مدد کے لئے آواز دی: "يا عماہ!"، (میرے پیارے چچا جان میری مدد کو آئیں) پس امام (ع) نے سر اٹھا کر شکاری باز کی مانند میدان کی طرف نظر ڈالی اور غصیلے شیر کی مانند یزیدیوں پر حملہ آور ہوئے اور قاسم کے قاتل پر تلوار کا وار کیا، اور اس کا ہاتھ کہنے سے قطع کردیا۔ وہ چیخنے چلانے لگا تو یزیدی لشکر کے سپاہی اس کو امام (ع) کے ہاتھوں سے چھڑانے کے لئے آگئے۔ ان دشوار حالات میں امام علیہ السلام اور یزیدی لشکر کے درمیان گھمسان کی لڑائی شروع ہوئی جبکہ قاسم زمین پر پڑے تھے... اور شاید یہ وہی بلائے عظیم تھی جس کی پیشین گوئی امام (ع) نے فرمائی تھی۔
جب دھول بیٹھ گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ امام علیہ السلام قاسم(ع) کے جسم بے جان کے پاس بیٹھے ہیں اور اپنا سینہ ان کے سینے سے لگا کر انہیں زمین سے اٹھا رہے ہیں جبکہ قاسم کے پیر ـ شاید بدن مبارک کے ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ـ کھنچے جارہے ہیں؛ اور امام فرمارہے ہیں:
«یہ قوم قیامت کے روز خدا کی رحمت سے دور ہو اور تیرا جد امجد نبی اکرم (ص) ان کے دشمن ہوں» اور پھر امام علیہ السلام نے زیر لب فرمایا:
«خدا کی قسم تیرے چچا کے لئے بہت دشوار ہے کہ تو اسے مدد کے بلائے اور وہ تیری مدد کے لئے نہ آسکے اور تجھے دشمن کے نرغے سے نجات نہ دلا سکے...».

الا لعنة اللہ علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون

 بشکریہ:۔http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=2987

Add new comment