سازشوں کے دور میں عزاداری

تحریر: ابن آدم راجپوت

مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار عزاداری سیدالشہدا کو اپنے لئے شہ رگ حیات قرار دیتے ہیں، مگر یہ شہ رگ اب حکومتی پابندیوں میں اتنی جکڑی جانے لگی ہے کہ جیسے اس کے بنیادی فلسفے کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ عزاداری کا مطلب ہے کہ نواسہ رسول (ص) کی اسلام کے لئے قربانی اور یزید پلید کے غیر اسلامی اقدامات کے خلاف قیام کے مقاصد کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور معاشرے میں حقیقی اسلام پیش کرکے محمد عربی (ص) کا پیغام عام کیا جائے۔ مگر عملی طور پر عزاداری کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ بالکل مقاصد عزاداری کے خلاف ہے۔
 
شیعہ سنی اختلافات صدیوں پرانے ہیں اور رہیں گے۔ اس پر علمی مناظرے ماضی میں بھی اور اب بھی ہوتے رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے دونوں مکاتب فکر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، مگر کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں کفر کے فتوے صادر کئے اور نہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، جو اس صدی میں امریکی اور سعودی گماشتوں کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے منظم دہشت گردی پھیلائی گئی، دل آزار اور اشتعال انگیز نعرے بازی اور وال چاکنگ کی گئی۔ 

دشمن عزاداری کی اہمیت سے آگاہ ہے، اسی لئے اس پر پابندیاں لگا کر اسے روکنا یا امام بارگاہوں تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے لوگوں میں عدم تحفظ پھیلایا جاتا اور اسے مسائل پیدا کرنے والی رسومات بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔ وہ سنی جو ماتم تو نہیں کرتا مگر نیاز امام (ع) پکا کر، پانی کی سبیل لگا کر اور مجلس عزا سن کر اہل بیت (ع) سے اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا، اسے دہشت گردی کا خوف دلا کر شیعہ سے دور ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان میں اب ہمیں دیہاتی نہیں تو کم از کم شہری علاقوں میں نظر آتا ہے کہ تین چار مقامات پر جامہ تلاشی تو ٹھیک مگر پولیس کی غیر ضروری پوچھ گچھ کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ کا مسلک کیا ہے؟ کہاں سے آئے ہیں؟ ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ عام آدمی سوچتا ہے کہ عزاداری کتنا خوفناک کام ہے کہ اتنے سوالات کئے جاتے ہیں یا اسے اتنا خطرہ ہے۔ اس طرح عام سنی کو عزاداری سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 
 
جس محلے میں مجلس ہونا ہوتی ہے، پولیس اپنی ناکامی چھپانے کے لئے ارد گرد آبادی کو تنگ کرتی ہے۔ سبزی اور فروٹ بیچنے والی ریڑھیاں ہٹوا دی جاتی ہیں۔ دکانیں بند کروا دی جاتی ہیں۔ کرفیو کا سا ماحول پیدا کیا جاتا ہے کہ جس سے اپنی روزی روٹی کمانے والا سنی تاجر اور مزدور عجیب کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے کہ محرم کیا آیا کہ اس کے کاروبار پر منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ مزدور کہتا ہے کہ میں شام کو بچوں کو کیا کھلاوں گا۔ یہ وہ سازش ہے جو خودکش حملہ آوروں اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والوں نے کی ہے کہ خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے تاکہ جو شیعہ ہوگا مارا جائے گا۔ مجلس میں جائیں گے تو فائرنگ ہوسکتی ہے۔ جلوس کو سنی عوام بھی دیکھنے آتے تھے اور اب بھی آتے ہیں لیکن پابندیوں کو جھیل کر۔ کچھ تو جلوس کے راستوں میں گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہوکر لوگ عزاداری دیکھتے تھے۔ اب جلوس کے روٹ پر واقع گھروں کو خالی کروا کر پولیس کا پہرہ لگا دیا جاتا ہے۔ 

سنی عوام کو عزاداری سے دور کرنے کی پہلی ریاستی سازش اس وقت شروع کی گئی جب یہ افوا پھیلائی گئی کہ سپاہ یزید لعین والے سنی عوام کے روپ میں زہر آلود شربت کی سبیلیں لگا کر عزاداروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اہلکاروں کو سبیلوں پر بٹھا دیا۔ جس سے سنی عوام کے دل میں جو حسرت عزاداروں کی خدمت اور امام حسین علیہ السلام کی پیاس کی یاد میں اپنی محبت کا اظہار تھا وہ ختم تو نہیں ہوا لیکن کم ضرور ہوا ہے۔ اگلی سازش یہ بھی عزاداری کے خلاف ہوئی کہ جب جلوس علم یا شبیہہ ذوالجناح نکلتا ہے تو اس کے روٹ میں آنے والے داخلی اور خارجی راستوں کو بھی خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا جاتا ہے، تاکہ کوئی جلوس کے اندر داخل نہ ہوسکے۔ اس وجہ سے اس محلے اور گلی کے لوگ عجیب کش مکش کا شکار ہوتے ہیں۔
 
رہی سہی کسر پنجاب کی متعصب حکومت نے پوری کر دی ہے۔ اب کہتے ہیں کہ صرف رجسٹرڈ مجالس اور ماتمی جلوسوں کو اجازت ہوگی۔ ایک میڈیا گفتگو میں سپاہ یزید کے پالتو وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ خان کہہ چکے ہیں کہ اہل تشیع رجسٹرڈ مجالس میں جاکر غم حسین (ع) منائیں اور حکومت سے تعاون کریں۔ تاکہ انہیں سکیورٹی دی جاسکے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں میں مجالس کرواتے ہیں اور رجسٹرڈ نہیں ہیں وہ غم حسین (ع) میں شریک نہ ہوں۔ پھر آبادی بڑھنے اور نئی کالونیاں بن رہی ہیں تو ان علاقوں کے لوگ  مجالس کروانے کے اپنے بنیادی شہری حق سے دستبردار ہو جائیں۔ اس بار تو عجیب کام یہ ہوا ہے کہ بانیان مجالس کو یہ بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ مجلس عزا پڑھنے والے عالم دین اور ذاکر کی تقریر کی سی ڈی تھانے میں پیش کریں۔ تقاریر کی ریکارڈنگ خفیہ ایجنیسوں والے پہلے بھی کرتے تھے اور اب بھی کرتے رہیں، لیکن کسی بانی مجلس کو پابند بنایا جائے کہ مجلس کی ریکارڈنگ پیش کی جائے تو کیا حکومت بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے جلسوں میں ہونے والی تقاریر اور خطبات جمعہ کی سی ڈی وہاں کی انتظامیہ سے لی جاتی ہے یا حکومت خود یہ کام کرتی ہے۔

پھر حکومت نے صوبائی اور ضلعی سطح پر امن کمیٹیوں کے نام پر ہر مسلک سے اپنے ٹاوٹ ہی بھرتی کئے ہوئے ہیں۔ ہم لاہور میں دیکھ رہے ہیں کہ وہی روایتی حکومتی ٹاوٹ آگے آگے ہوتے ہیں اور اہل تشیع کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بیوروکریسی امن کمیٹیوں کے ٹاوٹ ممبران کے ذریعے تجویز دلاتے ہیں یا خود اس کا حکم سنا دیتے ہیں اور دوسروں سے تائید لے کر اس پر عملدرآمد کرواتے ہیں۔ اس طرح عزاداری کو جکڑنے میں ان نام نہاد شیعہ لیڈروں کا بھی کردار ہے۔ جو پولیس سے اپنے ذاتی کام نکلوانے کے لئے ان کی غیر فطری اور غیر آئینی فرمائشوں کو پالیسی بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ 

ان دنوں پنجاب پولیس عزاداروں کا تحفظ کرنے اور دہشت گردوں کا پیچھا کرنے کی بجائے عزاداری کو روکنے پر لگی ہوئی ہے۔ کونسی مجلس ان کے ریکارڈ میں ہے اور کونسی مجلس رجسٹرڈ نہیں ہے۔ علماء اور ذاکرین کو تنگ کیا جانے کا عمل جاری ہے۔ لاہور میں کراچی سے تعلق رکھنے والے علماء اور ذاکرین پر پابندی عائد کردی گئی، جو بعدازاں احتجاج پر واپس تو لے لی گئی مگر شرارت سے حکومت باز نہیں آئی اور خواہ مخواہ الجھایا گیا۔ اس دفعہ پابندی لگا کر واپس لے لی ہے تو کیا ضمانت ہے کہ آئندہ محرم الحرام پر یہ حرکت نہیں کی جائے گی۔ اس لئے اس کا سدباب ضروری ہے اور شیعہ قیادت کو اس پر سخت ردعمل دینا چاہیئے کہ آئندہ ایسی باتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ 

لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں محمدی مسجد و امام بارگاہ حالی روڈ میں معروف علمی اور انقلانی عالم دین علامہ جواد نقوی کے گارڈ کو پولیس نے امام بارگاہ کے اندر سے حراست میں لیا ہے۔ اس کا لائسنسی اسلحہ قبضے میں لے کر اسے تھانے لے جانا چاہا تو عوام نے احتجاج کرکے اسے چھڑوالیا، مگر امام بارگاہ کی انتظامیہ نے پولیس سے احتجاج کرنے کی بجائے علامہ جواد نقوی سے مجلس پڑھوانے سے معذرت کرلی۔ جس سے لوگوں میں مایوسی اور بددلی پھیلی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ یہی پابندیاں ہیں، جن کا تعلق کچھ شیعہ کے اپنے اندر سے ہے اور کچھ کا حکومت اور دشمنان اہل بیت سے ہے۔ اس پر حقیقی کل جماعتی شیعہ کانفرنس بلوا کر واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کیا جائے کہ عزاداری پر کسی قسم کی قدغن کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

Add new comment