خون شبیر ہے مقروض

بے ردا شہر کی گلیوں سے گذر زینب کا
پشتِ عابد پہ ہے تحریر سفر زینب کا
گرپڑا خاک پہ عباس کا سر مقتل میں
نوک نیزہ سے نہ دیکھا گیا سر زینب کا
خون شبیر کی ہر بوند کا مقروض بشر
خون شبیر ہے مقروض مگر زینب کا
رات لگتی ہے مجھے بنتِ پیمبر کی ردا
چاند لگتا ہے مجھے دیدۂ تر زینب کا
یہ الگ بات کہ محفوظ رہا دین رسول
یہ الگ بات کہ لوٹا گیا گھر زینب کا
لاش اکبر پہ حسین ابن علی کہتے تھے
کس نے چھلنی کیا برچھی سے جگر زینب کا
جس جگہ شامِ غریباں کی ہو مجلس برپا
ذکر ہوتا ہے وہاں تا بہ سحر زینب کا

Add new comment