سعودی اور یہودی گٹھ جوڑ،تازہ رپورٹ

 

ٹی وی شیعہ(ویب ڈیسک)والا نامی سعودی ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ صہیونی کنشٹ (یہودی ریاست کی پارلیمان) میں شاس نامی جماعت کے رکن یاکوب مرجی نے 7 نومبر کو استنبول میں "اندرون شام انقلابی اتحاد" کہلوانے والے دہشت گرد تنظیم کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ 
یاکوب نے کہا: ہمیں امید ہے کہ شام کے عوام جمہوریت کے قیام کے لئے اپنے نمائندے منتخب کریں؛ ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اسرائیل ان کیطرف دوستی اور پرامن بقائے باہمی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ 
تکفیری گروپ کے سرغنے محمد عدنان نے کہا: اسرائیل دشمن نہیں ہے بالکہ بشار اسد، ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ میں ہمارا قابل اعتماد شریک ہے! 
یاکوب نے کہا کہ اسرائیل اور شام مخالف تنظیموں کے درمیان تعاون جاری ہے اور وہ عنقریب بعض دوسرے گروہوں کے سربراہوں سے بھی ملاقات کرے گا۔ 
بندر بن سلطان کی یہودی ریاست کی خفیہ ایجنسی ـ موساد ـ کے سربراہ سے ملاقات
ایک اردنی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی حکومت کے انٹیلجنس چیف بندر بن سلطان نے موسا کے سربراہ سے خفیہ ملاقات کی ہے۔
وطن نیوز نے عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا ہے: شام کے مسئلے میں فعال سعودی اہلکار اور سعودی انٹلیجنس کے سربراہ بندر بن سلطان نے اردن کی عقبہ بندرگاہ کے ایک ہوٹل میں صہیونی موساد کے سربراہ تامیر باردو سے خفیہ ملاقات کی ہے اور یہ مسئلہ سعودی ولیعہد سلمان بن عبدالعزيز کے غیظ و غضب کا سبب بن گیا ہے۔ 
عجب یہ کہ بندر کی باردو سے ملاقات سعودی ولیعہد کے غصے کا سبب نہیں ہے بلکہ وطن نیوز کے مطابق اس غصے کا سبب یہ ہے کہ بندر نے اردنی اہلکاروں کی موجودگی میں کیوں یہودی ریاست کے انٹیلجنس چیف سے ملاقات کی ہے! 
واضح رہے کہ بندر بن سلطان عید ضحی کے بعد سے اب تک اردن میں قیام پذیر ہیں اور حکومت شام کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ 
ادھر گارڈین نے لکھ454225_m.jpgا ہے کہ سعودی حکومت شام کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کو پوری طرح مسلح کرنا چاہتا ہے 
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق سعودی حکومت شام کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کو پوری طرح مسلح کرنے اور شامی و غیر ملکی مسلح افراد کو تربیت دینے اور ہتھیار فراہم کرنے کے لئے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ وہ بشار اسد حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ 
گارڈین نے شامی، عرب اور مغربی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی حکومت شام میں جیش الاسلامی تشکیل دینے کے لئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے جو نام کی حدتک کی 43 تنظیموں کو یکجا کرکے پہلے ہی تشکیل پاچکی ہے لیکن اس میں جبہۃالنصرہ اور داعش شامل نہیں ہیں۔ 
طے پایا ہے کہ جیش الاسلام ـ زہران علوش ـ نامی دہشت گرد کی قیادت میں کام کررہی ہے اور یہ تنظیم متواتر ناکامیوں کے بعد القلمون کی پہاڑیوں میں چھپ گئی ہے۔ 
اطلاعات کے مطابق جیش الاسلام پاکستان میں ہے اور پاکستانی افواج انہیں دہشت گردی کی تربیت دے رہی ہيں اور ان کی تعداد 5 سے 50 ہزار تک بتائی گئی ہے۔ 
ادھر سفارتکاروں اور تجزیہ نگاروں نے ان مستقبل میں ان دہشت گردوں کے خطرات کے سلسلے میں متنبہ کیا ہے کیونکہ وہ شام سے لوٹنے کے بعد اپنے ملکوں میں حکومتوں اور عوام کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں اور اس خدشے کی عملی مثالیں بھی کم نہيں ہیں۔  
گارڈین کے مطابق شہزادہ بندر بن سلطان امریکہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جیش الاسلام کو طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائلوں سے لیس کرنے کی مخالفت چھوڑ دے۔ 
دریں اثناء بندر نے اردن کو بڑے بڑے وعدہ دے کر اپنی سرزمین شام کے خلاف استعمال کرنے کی حامی بھرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ 
بعض سفارتکاروں نے کہا ہے کہ سعودی عرب جیش الاسلام کو سلیم ادریس کی کمان میں دہشت گردی کرنے والی اعلی عسکری کونسل کی اطاعت کی ترغیب دلائے گا۔ 
گارڈین نے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے عرصہ قبل شامی مخالفین کو مسلح کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کا خیال ہے کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے سلسلے میں امریکہ اور روس کی مفاہمت نے شام پر امریکی حملہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس اخبار نے لکھا ہے کہ لواء الاسلام نامی دہشت گرد ٹولے کے سابق سربراہ اور جیش الاسلام کے موجودہ سربراہ زہران علوش نے حال ہی میں بندر بن سلطان اور متعلقہ یونٹوں کو مالی حمایت فراہم کرنے والے بعض سعودی تاجروں سے ملاقات کی ہے۔
دریں اثناء شام میں کوآرڈینیشن کمیٹی کا خفیہ اجلاس ترکی میں، قطری وزیر خارجہ خالد العطیہ اور شام کے لئے امریکی ایلچی رابرٹ فورڈ کی موجودگی ميں، منعقد ہوا ہے۔ 
گارڈین نے آخر میں لکھا ہے کہ جیش الاسلام نے حال ہی میں انفارمیشن اور اطلاع رسانی کے شعبے کے ماہرین کی بھرتی کے لئے انٹرنیٹ پر اشتہارات چلائے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تنظیم کے مالی ذرائع میں اضافہ ہوا ہے۔ 
بعض مغربی حکام نے گارڈین سے کہا ہے کہ ایک نئی باغی تنظیم کی تشکیل کا اصل مطلب ایک نئے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل ہے جو درحقیقت ایک محدود اور قلیل المدت سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ 

بشکریہ :۔۔۔۔ابنا۔۔۔۔

Add new comment