نقد و بررسی کتاب ''واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر''
سید حسین عار ف نقوی
یہ کتاب مولانا محمد منظور نعمانی(م ١٩٩٧ئ)جن کی کتاب 'ایرانی انقلاب ،امام خمینی اور شیعیت' اشاعت مکتبہ مدنیہ لاہور معروف ہے، اس کتاب کو ما بعد 'ایرانی انقلاب'کے نام سے محبان صحابہ پاکستان اور اسی نام سے حاجی محمد عبد اللہ خادم المسلمین سکھر نے ١٩٨٤ء میں شائع کیایہ کتاب زیادہ تر شیعیان پاکستان میں مفت تقسیم کی گئی ،کے صاحبزادے مولانا عقیق الرحمن سنبھلی(سنبھل ضلع مراد آبا د یوپی ہند )نے مندرجہ ذیل بالا عنوان سے اپنے والد کی فرمائش پر کتاب لکھی جسے پاکستان میں ''واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر ایک نئے مطالعے کی روشنی میں'' کے عنوا ن سے مکتبہ حسینیہ صادق آباد ضلع رحیم یا ر خان پنجاب (پاکستان)نے ١٩٩٠ء میں شائع کیا جو ٢٥٦ صفحات پر مشتمل ہے ۔
جس میں مصنف نے واضح طور پر لکھا کہ یہ کتاب راقم مصنف کے والد حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کی خواہش کا نیتجہ ہے۔
مکتبہ نے اپنا خیال ان الفاظ میں شائع کیا ''واقعہ کربلا اور اس کے پس منظر کا بیان ایک طویل عرصے سے دو متضاد نقطہ ہائی نظر انتہا پسندانہ کشمکش کا شکار ہے یہ کتاب دونوں انتہا پسندوں کے درمیا ن ایک نقطہ اعتدال کو سامنے لائی ہے ۔
یہ کتاب حضرت مولانا محمدمنظور نعمانی کے ارشاد کے مطابق لکھی گئی ہے ما بعد اس کتاب کو مزید اضافے کے ساتھ میسون پبلی کیشز ملتان نے شائع کیا جو ٥٣٥صفحات پر مشتمل ہے ۔
اس کتاب پر ایک جاندار تبصرہ مولانا عبد اللہ عباس ندوی نے لکھا جو مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی کے پندرہ روزہ رسالے ''تعمیر حیات '' لکھنو کی ١٠ مارچ ١٩٩٢ء کی اشاعت میں شائع ہُوا ،جس میں شھدائے کربلا اور اہل بیت کا دفاع کیا گیا ۔کچھ عرصے پہلے اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بنام
''Hussain Hartyrdm in Historical Perpective''
کے نام سے لنڈن سے شائع ہوا،اس کتاب کے انگریزی ترجمے پر ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی نے کیا جو پہلے تبصرے کے برعکس ہے ۔یہ تبصرہ پاکستان کے دو رسالوں میں شائع ہو ا:
١۔ماھنامہ الشریعة گوجر انوالہ جون ١٢١٠ء ص ٥٤تا ٥٦یہ رسالہ ''وحدت اُمت کا داعی اورغلبہ اسلام کا علم بردار ہے''
جس کے رئیس التحریر ابو عمار زاہد الراشدی اور مدیر محمد عمار خان ناصر ہیں
٢۔ سہ ماہی فکرونظر ،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الا قوامی یونیورسٹی ،اسلام آباد اپریل ۔جون ٢٠١٠ء ص١٦٥۔١٦٨
دونوں رسالوں میںتبصرے کی عبارات میں کو ئی فرق نہیں اس تبصرے میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابو سفیان کو ''طلقاء '' جیسے مذموم القاب سے یادکرنا یہ تشیع کے اثرات میں سے ہے ص ١٦٦ البتہ اس بات کی اطلاع نہیں دی گئی کہ یہ لفظ ''طلقاء ''سب سے پہلے کس نے استعمال کیا کیا وہ ہستی بھی قابل مذمت ہے؟
یہ رسالہ اسلامی یونیورسٹی کاترجمان ہے جو گورنمنٹ کا ادارہ ہے۔جس سے ظاہر ہو تا کہ خوانخواستہ گورنمنٹ کی پالیسی اتحاد نہیں بلکہ اختلافات دینی کو عام کرنا ہے۔ذرا تبصرہ نگار کے ان الفاظ کو سامنے رکھئے :
''یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ خود حضرت حسین نے اس وقت اپنا ارادہ تبدیل کر کے واپسی کا قصد کر لیا جب اُنہیں کوفہ میں مسلم بن عقیل کے مشن فیل ہو جانے اور ان کی شہادت کی خبر ملی تاہم مسلم بن عقیل کے بھا ئیوں اور بیٹوں نے باپ کے خون ناحق کا بدلہ لیے بغیر واپس لو ٹنے سے انکار کر دیا''۔( ص١٦٨)
یہ مصنف یاتبصرہ نگارکی اپنی تحقیق نہیں ہے بلکہ اس سے پیشتر محمود احمد عباسی (م١٩٧٤ئ)اپنی کتاب ''خلافت معاویہ ویزید ''اشاعت دوم کے ص ١٦٣ تحریر کر چکے ہیں :
واپسی کا قصد برادران مسلم کی ضد اور کوفیوں کا اصرار مورخین کا بیان ہے کہ مسلم کی قتل ہوجانے کی خبر جب حضرت حسین کو اثنائے سفر میں ملی آپ نے واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا لیکن مسلم کے بھائی جو آپ ساتھ تھے مانع ہو ئے ۔
کتاب پر مولاناعبد اللہ عباس ندوی کا منصفانہ تنقیدی مقالہ علمی اعتدال کی بہترین مثال ہے جسے ہم یہاں ''تعمیر حیات ''لکھنو کے شکریہ کے ساتھ افادہ عام کے لئے شائع کررہے ہیں :
واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر : از مولانا عبد اللہ عباس ندوی
زیر تبصرہ کتاب کے مصنف مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے آج سے ٢٧ سال پہلے ایک طویل مضمون اس عنوان پر لکھا تھا جس میںمزید اضافوں کے ساتھ اس کو کتابی شکل دی ہے ''تعمیر حیات ''میں یہ کتاب برائے تبصرہ آئی ہے اس لیے اس کا مختصر جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
اس٢٦٤صفحات پر مشتمل کتاب کا مفترضہ تحقیقی نتیجہ بحث (Hypothesis)یہ ہے کہ :
''یزید ایک مسلمان خدا ترس پاک سیرت ،خلیفہ برحق تھا ۔جس کی ولی عہدی عین کتاب و سنت کے مطابق اور اسلامی مقاصد کے لیے عمل میں آئی تھی اور اس کے مقابلہ میں حضرت حسین ایک نا عاقبت اندیش ،شہنشاہیت کے طالب بلا وجہ اپنی جان گنوانے والے شخص تھے ''
نتیجہ ء بحث:
اگرچہ محمود عباسی کا اور اس کتاب کا ایک ہی ہے لیکن عباسی کے لہجہ و بیان میںجو بے حیائی اور بے باکی ہے اس سے یہ کتاب پاک ہے ،اول الذکر کا طرز بیان مجادلانہ تھا اس کا عالمانہ ہے لیکن (Thesis)دونوں کا ایک ہی ہے۔ تحقیق کی ٹیکنک یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں (ابن کثیر ،ابن اثیر ،طبری )میں جو واقعات مصنف کے مفروضة عقیدہ کو تقویت پہنچاتے ہیں ان کو بغیر کسی جرح کے ایک تسلیم شدہ حقیقت کی طرح قبول کیا ہے ،اور جہاں ان کے رحجان کے خلاف بات ملی اس کو یا تو استغفر اللہ ،نعوذ باللہ کہہ کر قصہ مختصر کر دیا یا اس کے روایوں پر جرح کی اور شخص متعلق کے دوسرے اعمال حسنہ کو گواہ بنا کر اس کے خلاف شہادت کو خلاف ِعقل قرار دیا ،اور اگر ا س سے بھی کام نہ چلا تو اس کو رافضیت و شیعت کے خانہ میں ڈال دیا۔
تحقیق کا یہ راستہ بہت ہموار اور آسان اور ''نئے مطالعہ کی روشنی ''کا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ،فاضل مصنف نے کربلا کی ایک روایت کو اپنی تحقیق کا شاہکار سمجھ کر اپنی کتاب میں متعدد جگہ دہرایا ہے اور ایک تسلیم شدہ حقیقت کی طرح پیش کیا ہے اس لیے سب سے پہلے ہم اسی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،چونکہ مصنف نے بھی آغاز کلام اسی سے کیا ہے اور شاید یہی نئے مطالعہ کی وہ روشنی ہے جوان کو نظر آگئی ہے ۔
ہاتھ میں ہاتھ دینے کا مفہوم :
مصنف لکھتے ہیں : حضرت امام حسین نے یہ آمادگی ظاہر کی تھی کہ :
''واِمّا أن أ ضع یدی فی یدیزید بن معاویہ فیری فیما بینی ربینہ رایہ ''
اس عبارت کا واضح مفہوم یہ ہے کہ یا تو مجھے چھوڑ دو میں خود یزید بن معاویہ سے جاکر صلح جو انداز میں بات کر لوں ، پھر وہ میرے حق میں اپنی رائے دے ۔
'وضح الید فی الید ' ''دست در دست دادن ''فارسی کا محاورہ ممکن ہے جس کے معنی بیعت کرنے اور سپرد کرنے کے ہوں تو بعید نہیں ہے عربی میں کہیں کسی لغت یا کسی استعمال میں یہ محاورہ نہیں ہے یہ بات پورے اعتمار کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جہاں مبایعت کا ذکر ہے وہاں بایع ،بایعنا ،لیبایع ہی آیا ہے اور ہا تھ پر ہا تھ رکھنے کا تذکرہ بھی کہیںکہیں اس کے بعد آتا ہے وہ بھی ہر جگہ کنا یہ بھی نہیں ہے اگر کنا یہ ہے تو دوستی کرنے، مساویا نہ انداز میں گفتگو کرنے کا مفہوم رکھتا ہے ،مصنف اور مصنف کے جتنے ہم نوا اور ہم خیال ہیں وہ ایک مثال بھی تلاش کر کے کلام عرب سے پیش کر یں کہ ''وضع الید فی الید ''کسی نحوی ترکیب سے بغیر ذکر مبایعت اس مفہوم میںبولا گیا ہو ہاں فارسی میں یہ محاور ہ ہو سکتا ہے جس کا مفہوم بیعت ہو تو تعجب نہیں چنانچہ حضرت معین الدین اجمیری قدس سرہ کی طرف منسوب شعرا سی بیعت کے مفہوم میں ہے ۔
سرداد و نداد ست و ردست یزید حقاکہ بنائے لا الہ است حسین
اس میں بھی سردار کا قرینہ مفہوم کا تعین کر رہا ہے ۔مصنف نے جس شدد مد سے مکرر اس جملہ کو دہرایا ہے کہ ان کے لیے اس تسامح کا اعتراف دشوار ہو گا ،لیکن ان کے غور کرنے کے لیے ایک گوشہ اور ہے اگر بفرض محال ان کے سمجھے ہو ئے مفہوم کو مان لیاجائے کہ یہ کنایہ بیعت سے ہے تو پھر ''فیری فیما بینی وبینہ رایہ''کا کیا موقع رہ جا تا ہے ،اور کیا اس سے آپ کے فرض کردہ مفہوم کی تردید نہیں ہو تی؟ یعنی جب بیعت کر ہی لی تو پھر وہ دیکھے میرے اور اس کے درمیان اس کی کیا رائے ہوتی ہے ،کا سوال کہا ں باقی رہ جا تا ہے ؟
روایات کا تضاد اور اسکا سبب :
مصنف کے قائم کردہ مقدمات میں سب سے پہلے یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ کہتے ہیں :
''چنانچہ اس واقعہ (واقعہ کربلا )اور اس کے پس منظر کے واقعا ت کے سلسلہ میں جہاں بظاہر صحیح اور قابل قبول روایات موجود ہیں وہیں نہایت منکر اور ناقابل قبول روایات کا بھی ڈھیر لگ گیا ہے ''
صحیح او ر قابل قبول جو بظاہر ہیں وہ کیا در حقیقت بھی صحیح ہیں او ر آپ کوجو منکر اورناقابل قبول روایات نظر آتی ہیں وہ کیا واقعی منکر ہیں ،اس کا فیصلہ تو لکھنے والے کا پہلے سے قائم کیا ہوا نظریہ یا رجحان ہی کر سکتا ہے ،آپ جس کو جھوٹ اور من گڑھت کہہ رہے ہیں،اس کے جھوٹ اور من گڑھت ہونے کی کیا دلیل ہے یہی ناکہ وہ آپ کے مفروضہ کے خلاف ہے کیا اسی کا نام ''نئے مطالعہ کی روشنی ''ہے اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جا ئے تو بدنام سلمان رشدی بھی یہی کہتا ہے کہ خیالات واوہام نے تقدس کا جال بنا ہے ''
درحقیقت مصنف کوجو الجھن پیش آئی ہے اس کے دو اسباب ہیں ،ایک یہ کہ انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ تاریخ کا کوئی حادثہ یا واقعہ ماضی سے جدا کر کے ایک اکائی کی شکل میںنہیں دیکھا جا سکتا ،کربلا کاواقعہ بنو امیہ اور بنو ہاشم کی دیرینہ عداوتوں کا ایک منطقی نیتجہ (Cosequence)تھا وہ عداوتیں جو ظہور اسلام کے بعد بہت طاقت ور شکل میں ابھر کر سامنے آئیں اور رسول اللہ ۖ کے ٢٣ سالہ عرصہ نبوت میں ٢١ سال تک بلکہ ساڑھے ٢١ سال تک شد ومد سے قائم رہیں۔ غزوہ بدر میںمسلمان فوج کی کامرانی نے جس طبقہ کو سب سے زیادہ برا فروخة کیا اس کے سربراہ ابو سفیان تھے اسی طرح غزوہ احدمیں ان کا اور ان کی اہلیہ جگر خوار حمزہ ہند کا کردار یہ سب وہ باتیں ہیںجن میں مورخین کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ فتح مکہ کے بعد یہ گروہ اسلام لا یا (یا بقول سید قطب شہید کے استسلام کیا )مگراس استسلام کے بعد اچانک ایک پل میں ایسی تبدیلی ہو گئی کہ وہ بدر کا غم بھول گئے، اپنی انانیت کوبھول گئے، عقلا محال بات ہے،اور صحاح کی مستند روایات سے ثابت ہے کہ ہند نے بیعت کے الفاظ دہراتے ہو ئے بھی اپنے اندرونی کرب وغم واور غیظ و غضب کااظہار کیا تھا ۔حضرت ابوسفیان نے احتجاج کیا تھا کہ اب وہ دن آگیا ہے کہ یہ پس ماندہ ہم اشراف پرفوقیت دئیے جا تے ہیں رسول اللہ ۖکی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کے خلاف حضرت علی کو اکسانے کی کوشش بھی ان سے ثابت ہے ۔
اسلام کے پورے طور پر فاتح ہو جانے کے بعد جب مقاومت کی تمام راہیں مسدد ہو گئی تھیں اس عرصہ مختصرمیں اس گروہ کی طرف سے کسی واضح دشمنی کاثبوت تاریخ میںنہیں ملتا ہے مگر جس طرح انگریزوں کے دل میں صلیبی جنگوں میں شکست کاغم وغصہ آج تک موجود ہے اسی طرح اس گروہ میںبدر کے انتقام کاجذبہ سینہ کے اندر بھڑکتی ہوئی آگ کی طرح جوش مارتا رہا ،حضرت عثمان غنی کی خلافت نے البتہ اسلام کی طرف سے ان کے عناد کو ختم کیا مگر رسول اللہ ۖ کی ذات سے ان کا دل صاف نہیں ہوا۔احمد امین نے فجرالاسلام اور اس کے مقدمہ میں طہ حسین نے اس کی نشان دہی کی ہے ممکن ہے، یہ تجزیہ غلط ہو مگر یہ غلط نہیں ہے کہ حرہ اور کربلا ء کے واقعات کو ان خلفیات سے جدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ، لہذا ریسرچ کانقشہ عمل (Synopsis)یہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے ایک عمومی جائز ہ اس وقت کی عقلیت کا لیاجا تا ہے اور نفسیاتی تجزیہ کیا جاتا کہ یہ کشمکش کہاں سے شروع ہو ئی اور کس طرح درجہ بدرجہ بڑھی اور کیونکر کم ہو ئی اور پھر کس طرح اور کن عوامل کے ماتحت ابھری ،اس حادثہ کا سرا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سے نہیں غزوہ بدر کے واقعات سے مربوط کیا جائے تو تاریخی احداث کی کڑیاں ایک دوسرے سے زیادہ پیوست نظر آئیں گی ۔
واقعات جو تاریخ کی کتابوں میںمتضاد ومتناقض ہیں ،اس کا سبب کوئی معمہ نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے خلافت راشدہ کے بعد ''ملکیت عضوض ''کادور شروع ہو تو قدر تا ً دو گروہ ہو گئے ،ایک وہ جس کو حکومت وقت سے وابستگی تھی خواہ جان بچانے کی خاطر یا طمع کی وجہ سے یا مسلمانوں میںآپس کی خانہ جنگی سے نجات حاصل کرنے کی خاطر وہ سمجھتا تھا کہ مناسب یہی ہے کہ جس کا غلبہ ہے اسکی تائید کی جائے ،دوسرا طبقہ وہ تھا جواصل دین کی پامالی پررنجیدہ تھا اسلامی روح جو آنحضرت ۖکی تعلیمات سے پیدا ہوئی تھی اس کا گلا گھونٹا جارہا تھا نبیذکے پردے میںشراب عام تھی (اس وقت کے شعرا ابو نواس اور بشار بن برد کے کلام سے اس وقت کا معاشرہ دیکھا جا سکتا ہے ) جو اری وقینات(لونڈیوںوغیرہ) کی اتنی کثرت تھی کہ ابو الفرج الا صفہانی نے ا خانی میں ٨١ ہزار ۔۔۔۔اور لا تعداد فواحش و منکرات کے قصے قلمبند کر دئیے ہیں جن کی پرورش دربار شاہی سے ہو تی تھی ،عدلیہ کا یہ حال تھا کہ حاکم وقت کے دیوان عام میں ایک چمڑے کا ٹکڑا (نطع)بچھا رہتا تھا اور بغیر کسی دلیل وبحث اور بغیر کسی الزام کے جس کو چاہا اس پر کھڑا کر دیا اور جلاد نے اس کی گردن اتاردی ،شاہا نہ ٹھاٹ باٹ کسی طرح بھی کسریٰ کے درباروں سے کم نہ تھا ، لہذا وہ لو گ جو حضرت عمر فارو ق کا زمانہ ان کے زہد وبا رع اور احتیاط و تقویٰ کی باتیں جانتے تھے اور دوسرے خلفا ء راشدین کے ورع واحتیاط کو دیکھے ہو ئے یا سنے ہو ئے تھے وہ اس فسق و فجور کی گرم بازاری سے نالاں تھے،ان لوگوں میںاسلام سے وابستگی کا جذبہ بھی تھا اور رسول اللہ ۖ سے بے پناہ عقیدت و محبت بھی تھی ۔
وہ آنحضرت ۖ سے نسبت رکھنے والی ہر شے کو عزیز رکھتے تھے آپ ۖ کے خانوادے کی ،انصار مدینہ کی کس مپرسی دیکھ رہے تھے کہ ان کا حال ایسا ہو گیا ہے ،جیسے وہ مفتوح قوم کے افرا د ہوں جن سے فاتح قوم انتقام لینے پر تلی ہوئی ہے۔
یہ لو گ ان پر ترس بھی کھاتے تھے اور ان کی بلند سیرت اور اعلی کردار کے چشم دیدگواہ تھے ،مگر خروج کی عزیمیت اپنے اندرنہیں پاتے تھے اور ان کا حال کم وبیش وہ تھا جو حضرت موسی ـکے اس ہمدرد کا سال تھا جو اپنا ایمان پو شیدہ رکھے ہو ئے تھا اور وقت آنے پر کلمہ حق ادا کرنے سے اس نے دریغ نہیں کیا۔
''فقال رجل مومن من آل فرعون یکتم ایمانہ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللّٰہ ''
''اور فرعون کے لوگوں میںسے ایک مومن شخص جو ایمان کو پو شیدہ رکھتا تھا کہنے لگا کہ تم اس شخص قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے میرا پروردگاراللہ ہے''
ایسے حضرات کی روایات بھی تاریخ میں ملتی ہیں ،وہ دور کیلنڈر اور جنتری سے تاریخ ضبط کرنے کا نہیں تھا ، واقعات پیدا ئش ،حوداث کاحوالہ کبھی موسوں سے دیا جا تا اور کبھی کسی بڑے حادثہ کی نسبت سے بتا یا جاتا ،واقعات قلم بند کرنے کا کو ئی رواج نہیں تھا ،تیسری صدی ہجری میں جب گزشتہ ڈیڑھ سو برس کی رواتیں ایک دوسرے سے سن سنا کر تدوینی دور میں پہنچیں تو ان کے اندر جتنا بھی تضاد نہ ہو کم ہے ،اور ان قصوں کے راوی دونوں طرح کے لوگ ، حکومت کے ہو ا خواہ بھی اور اس کے بدخواہ بھی ،اس طرح تاریخ کی کتابیں ایک طرح کا اسٹور بن گئیں جن میں دونوں طرح کی رواتیں موجود ہیں، روایات کی تنقیح کا دارو مدار ان اقتباسات سے فائدہ اٹھانے والے کے ذوق و رجحان پر رہ گیا ،صحیح اور منکر روایات کا تعین بعد میں آنے والا کاتب اپنے عقیدہ کے مطابق ہی کر سکتا ہے ۔
ا ن قصوں کو آپس میں ایک دوسرے سے مربوط کر کے دیکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ حکومت وقت کا ساتھ دینے والوں کو اپنی بات مشہور کرنے کا زیادہ موقع تھا ،ان پر پابند ی نہیں ہو تی بلکہ ان کی ہمت افزائی ہوتی ہے ،وہ رائی کا پہاڑ بنا سکتے ہیں اور پہاڑ کو رائی بتا سکتے ہیں ،اور جو لوگ ڈرے سہمے 'یکتم ایمانہ 'کی حیثیت والے ہیں وہ اپنی نسل کو صحیح حالات سے با خبر کر نے کے لیے اپنی معلومات ان تک منتقل کر اتے ہیں اور ان کے اندر بھی کبھی تناقض پا یا جاتا ہے کہ وہ سب مشورہ کر کے ایک رپورٹ تو تیار نہیں کر تے تھے مختلف مقامات کے لوگ تھے جن کے درمیان مسافات طویل تھیں ۔
حکومت ِ وقت کے خلاف زبان کھولنا آسان کیا ،اپنی موت کو دعوت دینا ہوتا ہے وہ دور جس میں کربلا کا واقعہ پیش آیا ایک شخصی حکومت کا تھا ،حاکم وقت کے دولبوں کے درمیان سارا قانون (بین الشفتین )تھا آج بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جو شخص حکومت وقت کی مسلمہ سیاست کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اس کو کسی بہانہ گرفتار کر لیا جا تا ہے ،سزا دی جاتی ہے اور اس ڈر سے لو گ برملا حکومت کے خلاف زبان نہیں کھولتے حالانکہ چشم زدن میں اس کی گردن نہیں اڑا دی جا تی اس کو دیواروں میں زندہ نہیں چن دیاجاتا لیکن جب خوف و ہراس کا اس دور میں یہ حال ہے تو جب یہ سب کچھ ہو تا تھا ۔اس وقت کتنے ایسے دل گردہ والے ہوں گے جواپنے مشاہدات وتجربات کا ریکارڈ رکھ سکتے تھے لہذا قدرتاً سر کاری اعلامیے کووزنی ثابت کرنے اور افراد کی روایات کومجروح کرنے کے اسباب موجود ہیں۔
اموی حکومت اور اس کے بعد عباسی عہد کے ابتدائی دو سو سال ایسے گزرے ہیںجب کہ تمام خلفائے بنی عباس ناصبی عقیدہ رکھتے تھے ۔اس کا ایک نمونہ حضرت امام نسائی کے ساتھ مسجد اُموی میں جو برتائو کیا گیا اور جس کا تذکرہ تمام سیر وسوانح کی کتابوں میں موجود ہے کہ ان سے بر سر منبر حضرت معاویہ کے مناقب دریافت کیے گئے ،انہوں نے ایک حدیث سنائی جس میں ان شامیوں کو حضرت معاویہ کی توہین معلوم ہو ئی انہوں نے منبر سے گھسیٹ کر اُتار ا اور ان کے خصیوں پر لا تیں مارتے ہو ئے باہر لا ئے اور اسی میں ان کی شہادت واقع ہو ئی ،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں کلمہ حق کہنا کس کے بس میں تھا واضح رہے کہ امام نسائی وہ ہیں جن کی سنن ،صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے اور وہ شیعہ یا رافضی نہیں تھے بلکہ اہل سنت کے آئمہ میں تھے ۔
تشیع کا الزام :
طبری کے بارہ میںابن کثیر نے لکھا کہ 'کان یتشیع لعلی 'اور اس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ وہ لکھنو کے تبرائی شیعوں کی طرح عقیدہ بدا کے قائل ،تحریف قرآن اور 'افک ام المومنین 'کو صحیح ماننے والا شخص تھا اور اس طرح جن لو گوں کے بارہ میں یہ لفظ مورخین اور سیرت نگاروں نے استعمال کیا ہے ان سب کو ساقطا الا عتبار قرار دے کر ان کی روایات کو یکسر نظر انداز کر دیا جا تا ہے حالانکہ یہ محض سیاسی اصطلاح تھی جو لو گ بنو امیہ کے مخالف تھے اور خانوادہ رسول ۖ ۖسے عقیدت رکھتے تھے ،ان کے لیے یہ لفظ رجال کی کتابوں میں بکثرت ملتا ہے ،علامہ ابو زہرہ نے آئمہ مذاہب اربعہ حضرت امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور امام مالک کی علیحدہ علحیدہ سیرت و سوانح عصر حاضرہ کے تحقیقی انداز میں لکھی ہیں ،اس میں سوائے امام مالک کے تینوں بزرگوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے اندر شیعیت خاص طور پر امام ابو حنیفہ کی شیعیت تو اس درجہ دکھائی ہے کہ جب حضرت زید بن علی نے ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا تو امام اعظم سے دریافت کیا گیا کہ آیا یہ جہاد ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا :
''خروجہ یضاھی خروج رسول اللہ ۖ یوم بدر ،وامدّ جندہ بالمال ولکنہ کان ضیعف الثقة فی انصارہ ولذا قال فی الاعتذار عن حمل السیف معہ '' ٭
زید بن علی رضی اللہ عنہ کا خروج رسول اللہ ۖ کے بدر کے خروج کے مثل ہے انہوں نے (امام ابو حنیفہ )نے فوج
٭ ابو حنیفہ حیاتہ وعصرہ لابی زہرة ص ١٦٤دالفکر العربی قاہر ہ
کی مال سے مدد کی لیکن ان کو انصار زید پر بھروسہ کم تھا ،اس لیے ان کے ساتھ تلوار اٹھانے سے معذرت کر لی تھی ۔
حضرت زید بن علی رضی اللہ عنہ کا خروج دراصل حضرت حسین کے خروج علی یزید کا اتباع تھا ،اس لیے دلا لة النص
سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک حضر ت سیدنا امام حسین کے خروج کی کیا حیثیت ہو گی ۔
امام شافعی کے بارہ میں 'فیہ نزعیہ شیعیتیہ 'کا اظہار ان کے استاد حضرت امام مالک کی مجلس میں کیاگیا مگر وہ اپنے موقف سے نہیں ٹلے اور پوری جرات ایمانی کے ساتھ یہ شعر کہا :
فان کان رفضا حُبِّ آل محمد فلیشھد الثقلان انی رافضی
اگر آل محمد ۖ کی محبت رفض ہے تو جن وانس گواہ رہیںکہ میںرافضی ہوں
لوگوں کوامام احمد بن حنبل کے عقائد میںبھی شیعیت ٹپکتی ہو ئی دکھاتی دیتی ہے کیونکہ وہ حضرت سید نا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خلافت راشدہ کے بارہ میں اگر کسی نے تردو کا اظہار کیا تو ان کو غصہ آجا یا کر تا تھا اور بقول ابو زہرہ وہ فرماتے تھے :
''من لم یثبت الامامة لعلی فھو اضل من حمار ''
جو حضرت علی کی خلافت کاقائل نہیں ہے وہ حمارسے زیادہ گمراہ ہے۔
اور ان کایہ بھی قول تواتر سے منقول ہے کہ:
'' الخلافة لم تزین علیابل علی زیَّنھا ''
خلافت نے علی کوشرف نہیں بخشا بلکہ علی نے خلافت کو عزت دی ۔اور فرماتے تھے :
''علی بن ابی طالب من اھل بیت لا یقاس بھم احدہ علی ابن ابی طالب اہل بیت ''
(رسول اللہ ) ہی ہیں ان پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ نیزفرمایا :
مالا حد من الصحابة من الفضائل بالا سانید الصحاح مثل ما لعلی
یعنی صحیح حدیثوں میں علی کے جتنے فضائل ہیں وہ کسی کے بھی نہیں ہیں
اسی طرح بخاری کے رواة اورر تقتلہ الفۂ الباغیۂ کے راویوں کے اندر بھی شیعیت کا سراغ لگایا گیا ہے حالانکہ ان میںسے کوئی ایسا نہیں تھا جس کو خلافت راشدہ کی اس ترتیب پر اعتراض ہو جو پیش آئی ،حضرت صدیق اکبر ،فاروق اعظم ،عثمان غنی اور علی مرتضی ٰ ہرایک کواپنی جگہ پرخلیفہ راشد اور اپنے اپنے وقت میں ہر ایک کو دوسروں کے مقابلہ میں اشرف وافضل سمجھتے تھے لیکن اسکے باوجود محض اہل بیت نبویۖ سے عقیدت ومحبت کی بناء پر ان کو شیعیت سے قریب بتایا گیا، لہذا ابن کثیر نے اگر طبری کے بارہ میں تشیع کا الزا م لگایا یا رواة الاحداث کے بارہ میں کسی کو شیعہ کہہ دیا گیا تو اس کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ وہ امامیہ یا زید یہ قسم کے شیعہ تھے اور ان کی روایتیں ناقابل اعتبار ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ مصنف نے کربلا کا واقعہ بیان کرنے اور اس کے پس منظر کو واضح کرنے میں جن روایات کومنکر اور گمراہ کن کہا ہے ان کے منکر اور گمراہ کن ہونے کا سبب یہ کافی نہیںہے ،یا صرف اس لیے کہ وہ مصنف کے لیے
''العیا ذباللہ اور استغفراللہ'' کے ضمن کی چیز ہے ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ کی صفائی اور ان کا دفاع صحا بہ سے خوش عقیدگی کا تقاضا ہے مصنف نے ان کو گورنری کے طمع سے بر ی قرار دیا ہے یہ اچھی بات ہے مگر اس حسن ظن کے اور لوگ بھی تو مستحق تھے ،خاندان نبوت کے چشم و چراغ اور پروردہ آغوش علی و فاطمہ رضی اللہ عنھما کی طرف سے اسی طرح کا دفاع کیوںنہیں کیا جاتا جبکہ دوسروں کا دفاع کرنے کی بنیاد معروضی نہیں محض خوش گمانی پرقائم ہے لیکن حضرت حسین کے سلسلہ میں صرف اموی عہد کی ان ظالمانہ اورمجرمانہ سرکاری رپورٹوں کو بنیاد بنا کر تحقیق کی عمارت کھڑی کی گئی اور سرکاری سطح کی تیار کردہ عوام پسند فقروں سے مرتب کی ہوئی تقریروں کو جو حضرت معاویہ اور یزید کی طرف منسوب ہیں ان کو عقیدت کے چوکھٹوں میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے ۔
مصنف نے یزید کے اشعار اوراس دور کے نظم و نثر کے مجموعوں کو ناقابل التفات سمجھا ہے جواس عہد کی ایسی تصویریں ہیںجو جانب داری کے رنگ وبوسے دور ہیں ۔اسی طرح عصر حاضر کے محققین جن کا طرز بحث موضوعی ہے اور فکر ی طور پر وہ کسی گروہ کے پابند نہیںہیں جیسے عباس محمود العقاد ،عبد القادر مازنی ،سید قطب ،احمد امین وغیرہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے
مصنف کاانداز تحقیق وہی ہے جس کو آجکل کی اصطلاح میں (Presumtive Study)کہا جاتا ہے پھر بھی یقین ہے کہ کتاب مصنف کے ہم خیال طبقہ میںدلچسپی سے پڑھی جائے گی۔ البتہ چلتے چلاتے علامہ سید زینی دھلان کا وہ فقرہ نقل کردینا چاہتا ہوں جو انھوں نے ابوبکر ابن العربی کی العواصم من القواصم کیرد '' شرالقاصمہ'' میںتحریر فرمایا ہے وہ کتاب میرے سامنے اس وقت نہیں ہے مگر اس کا مفہوم یاد ہے ۔
حضرت حسنین رضی اللہ عنھما کی مخالفت ناشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عداوت سے ،وہ لوگ جو رسول اللہ ۖ سے اپنا دل صاف نہیں رکھتے اور نہ ہی آپ ۖ سے اپنی بیزاری وکراہت کو ظاہر کرنے کی جرات رکھتے ہیں وہ اس راستہ سے اپنے دل کا بخار نکالتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مصطفیٰ ۖ سے فرمایا ہے ۔
''قد نعلم انہ لیحزنک الذی یقولون فانہم لایکذبونک ولکن الظالمین بایآت اللہ یجحدون''۔
''ہم کو معلوم ہے کہ ان کی باتیں تم کو رنج پہنچاتی ہیں مگر تمھاری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم ،خد اکی آیتوں سے انکار کرتے ہیں ''
اسی طرح یہ لوگ حضرت سید نا حسین سے نہیں رسول اللہ ۖ سے عناد کا اظہار کرتے ہیں ۔
بشکریہ مجلہ نور معرفت
Add new comment