صدائے استغاثہ - افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا
ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا
کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا
کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا
صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز
سنائی دی تھی
جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی
یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی
بازگشت ہے
اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا
سامان کیا جاتا ہے
اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا
جاتا ہے
تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے
اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا
سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا
اور اب برسوں بیت گئے ہیں
جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے
سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو
ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟
موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

Add new comment